اسرائیلی جیلوں میں خفیہ قیدی
کلنبرگ ایک اور قیدی ہے جسے بیس سالہ قید اور سزائے موت کی سزا دی گئی جب کہ اس کی حراست کو 10 سال بعد منظر عام پر۔۔۔
اسرائیلی جیل میں قید ایک خفیہ قیدی بن زائیگر جسے ''ایکس قیدی ' 'کہا جا تا ہے ۔ایکس(X) در اصل اس قیدی کا کوڈ ہے ۔اس قیدی کا کیس کھلنے کے بعد اسرائیل کے بارے میں سوالات جنم لے رہے ہیں اور ایک راستہ ہموار ہوا ہے کہ دنیا اسرائیل سے پوچھے کہ آخر اس کی جیلو ں میں اورکتنے ایسے خفیہ قیدی قید ہیں۔
زائیگر ایک آسٹریلوی یہودی تھا جو دو سال قبل اسرائیلی جیل میں قید کے دوران انتقال کرگیا البتہ اسرائیل نے میڈیا پر دباؤ ڈال کر اس خبر کو منظر عام پر آنے سے روک دیا تھا کیونکہ اسرائیل ہمیشہ سے اس قیدی کے بارے میں انکار کرتا رہا اور اس کے وجود کے بارے میں اپنی جیلوں میں موجودگی کا نفی میں اظہار کیا ۔حال ہی میں جب کہ یہ کیس منظر عام پر آیا ہے پوری دنیا اس بات کا اعتراف کر رہی ہے کہ اسرائیل ایک ایسے غاصب اور لا قانونیت پر مبنی ریاست ہے جس کی مثال طول تاریخ میں موجود نہیں ہے۔
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ اسرائیل نے جیلوں میں قید انسانوں کے بارے میں معلومات خفیہ رکھی ہوں،1982 ء میں بھی ایسا ہو چکا ہے کہ لبنان میں موجود تین ایرانی سفارکاروں کو لبنانی فوجیوں کی مدد سے اغوا کے بعد مقبوضہ فلسطین کی جیلوں میں قید کیا گیا تھا۔اسی طرح لبنان کا ایک شہری یحییٰ سکاف جس کی عمر 53سال ہے وہ بھی اسرائیلی جیل میں قید ہے لیکن معلومات خفیہ رکھی گئی ہیں۔سکاف کے بارے میں دیگر قیدیوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق وہ تاحال جیل میں موجود اور زندہ دیکھا گیا ہے لیکن غاصب اسرائیل اس کے بارے میں کسی قسم کی معلومات دینے سے انکار کرتا ہے۔اسی طرح کچھ رپورٹس میں آیا ہے کہ 2007ء میں ترکی سے اغوا ہونیوالے ایرانی جنرل محمد رضا اصغری کو بھی غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی جیل میں قید رکھا گیا ہے۔
البتہ تل ابیب نے زائیگر کی معلومات کو خفیہ رکھنے کی کوشش کی ہے۔اسی طرح سکاف اور اصغری جیسے دوسرے خفیہ رکھے جانے والے قیدیوں کا معاملہ منظر عام پرنہیں لایا جا سکا ہے ۔اب زائیگر کا کیس منظر عام پر آنے کے بعد یہ بات بڑی واضح ہو چکی ہے کہ اسرائیل دنیا بھر میں اغوا کاریوں سمیت جیلوں میں قید رکھے گئے قیدیوں کو خفیہ رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اسرائیل کے لیے یہ بڑی سادہ سی مشق ہے کہ وہ قیدی xکے بارے میں یہ کہہ دے کہ اس نے خود کشی کی ہے کیونکہ اسرائیل اغوا کاریوں اور قتل کرنے میں مہارت رکھتا ہے۔لیکن عالمی میڈیا کا رد عمل کیسے روکا جائے گا؟کیونکہ آسٹریلیا کے یہودی شہری قیدی xکا معاملہ دنیا بھر میں انتہائی حیرت انگیز صورت اختیار کرتا جا رہاہے۔
یہاں پر لبنان سے اغوا کیے گئے تین ایرانی سفارتکاروں اور لبنانی شہری سکاف سمیت ترکی سے اغوا ہونے والے اصغری کے کیسوں پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ایران اس معاملے میں مسلسل یہ کہتا آیاہے کہ ایرانی قیدی اسرائیلی جیلوں میں موجود ہیں اور ایرانی ذرایع ابلاغ نے بھی اس معاملے کی اہمیت پر بھرپور زور دیا ہے۔ دوسری طرف غاصب اسرائیل نے ایران کے دعوؤں کو مسترد کیا ہے۔
اسی طرح یحییٰ سکاف کے کیس کی صورتحال بھی ایرانیوں کے قیدیوں جیسی ہے۔اسرائیل سکاف کی حراست سے انکار نہیں کر سکتا کیونکہ سکاف کو مقبوضہ فلسطین سے گرفتار کیا گیا تھا البتہ اسرائیل نے سکاف کے بارے میں کہا ہے کہ وہ جھڑپ میں شہید ہو چکا ہے اور اس کا جسم کھو چکاہے لیکن یہ حیرت انگیز بات ہے۔
اب اسرائیل اپنی پوری کوشش کر رہاہے کہ کسی طرح آسٹریلوی حکومت کو اعتماد میں لیا جائے اور قیدی xکے معاملے کو نمٹایا جائے ۔کیونکہ یہ معاملہ خود ایک اسرائیل کے صحافی نے اپنی پیشہ وارانہ خدمات انجام دیتے ہوئے آشکار کیا تھا اس لیے اسرائیل اس وقت شدید مشکل میں مبتلا ہے۔جیلوں میں قیدیوں کو قید کرنا اور ان کی معلومات کو خفیہ رکھنے میں فقط اسرائیل ہی نہیں بلکہ اس معاملے میں اسرائیل کو امریکا اور مغرب کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
بن زائیگر کو اسرائیلی جیل میں قید رکھنا اور اس کو دنیا سے خفیہ رکھنا یہ کوئی پہلا ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا ہے۔یہ اسرائیلی روایت رہی ہے ، 1950ء کی دہائی میںبھی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں مرداچی کدار کو اسرائیل نے اسی طرح گرفتار کر کے خفیہ رکھا تھا۔کدار جو کہ اسرائیل کے لیے ملٹری انٹیلی جنس میں کام کرتا تھا اس پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس نے ارجنٹینا میں موساد کے ایک ایجنٹ کو قتل کر دیاتھا۔واضح رہے کہ آسٹریلوی یہودی قیدی xبھی اسرائیلی خفیہ ادارے کا ایک اہم رکن تھا ۔
کدار کو 1957ء میں گرفتار کیا گیا تھا اور اس کے بعد اس کی گرفتاری کو خفیہ رکھا گیا تھا۔اس وقت اسرائیلی روزنامہ یدعوت احرنوت کی ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہو پایا تھا کہ جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ اسرائیل نے ایک ملٹری انٹلی جنس کے افسر کو گرفتار کر لیا ہے تاہم اس کے بعد ملٹری کی جانب سے سخت دباؤ کے بعد یہ خبریں آنا بند ہو گئی تھیں۔کدار کو 17سال جیل کے خفیہ سیکشن میں قید رکھا گیا۔اس کو دیا جانے والا قیدی کوڈ بھی x(ایکس)تھا۔1974 ء میں رہائی پانے کے بعد کدار نے فوراً اسرائیل کو چھوڑ دیا تھا۔اور 1990ء میں واپس اسرائیل آنے کے بعد اس نے مطالبہ کیا تھا کہ اس کا کیس دوبارہ چلایا جائے البتہ اسرائیلی حکام نے اس کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔
کدار کے بعد ایک لیفٹننٹ شباتی جسے سوویت یونین کی ایجنسی KGB نے بھرتی کیا تھا اور اسرائیل بھیجا تھا جو کہ لیبر پارٹی میں ایک رکن اسمبلی کے ساتھ اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتا تھا۔شباتی کو سوویت یونین کو اطلاعات فراہم کرنے کے الزام میں قید کر لیا گیا ۔اس نے پانچ سال ہی قید میں گزارے تھے کہ بگڑتی ہوئی صحت کے باعث اسے رہا کیا گیا۔2009 ء میں شباتی کو ماسکو میں نا معلوم افراد نے قتل کر دیا اور اس کے بعد اس کو اسرائیل میں دفن کر دیا گیا۔
ارحام مارکس جو کہ ایک پولینڈ کا شہری اور یہودی تھا ایک اور خفیہ قیدی رہا ہے۔وہ دوسری جنگ عظیم میں ریڈ آرمی میں تھا اور بعد میں ہجرت کر کے اسرائیل آیا۔اسرائیل آنے کے بعد ارحام مارکس اسرائیلی آرمی میں لیفٹنٹ کرنل کے عہدے پر کام کرتا رہا۔اس کے بعد مارکس بائیولوجیکل انسٹیٹوٹ کا سربراہ مقرر رہا ،یہ ادارہ میڈیا کو اسلحے کی تحقیقات کی رپورٹ جاری کرتاہے۔مارکس کو 1977 ء میں گرفتار کیا گیا اور تفتیش کے دوران مارکس نے اعتراف کیا کہ اس نے بیس سال تک سوویت یونین کو جاسوسی فراہم کی ہیں۔ان معلومات میں اس نے اعتراف کیا کہ اسرائیل کے کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں سوویت یونین کو معلومات فراہم کی گئیں۔
کلنبرگ ایک اور قیدی ہے جسے بیس سالہ قید اور سزائے موت کی سزا دی گئی جب کہ اس کی حراست کو 10 سال بعد منظر عام پر لایا گیا۔ 90ء کی دہائی میں اس کی سزائے موت کو ختم کر کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔2003 ء میں کلنبرگ نے اسرائیل چھوڑ دیا اور فرانس منتقل ہو گیا۔
ایک اور مشہور واقعہ 1986ء میں رونما ہوا جس میں ایک نیوکلیئر سائنسدان موردچائی کو موساد نے اٹلی سے اغوا کیا۔ موردچائی کو جیل میں قید کر کے خفیہ طور پر مقدمہ چلایا گیا اور 18 سال سزا سنائی گئی۔اسی طرح 2001ء میںاسرائیلی آرمی کے ایک بریگیڈیر جنرل یتضحاک یاووک کو خفیہ معلومات کو لیک کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور پھر خفیہ رکھا گیا۔اسی طرح متعدد کیسوں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ اسرائیلی حکام نے کئی مرتبہ اس طرح کی کارروائیوں میں متعدد قیدیوںکو جیلو ں میں قید کیا اور پھر ان کی معلومات دنیا سے خفیہ رکھی ہیں۔
اسی طرح کے واقعات میں سے ایک مشہور ترین واقعہ 80کی دہائی میں ہوا جب اسرائیل نے خفیہ رکھے گئے 6لبنانی قیدیوں کو واپس کیا۔ان 6قیدیوں کو سات سالہ غیر قانونی حراست میں رکھنے کے بعد ریڈ کراس انٹر نیشنل کے عمل دخل کے بعد رہا کیا گیا تھا۔خلاصہ یہ ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل جو دنیا بھر میں جہاں چاہے انسانوں کو اغوا کرتی ہے اور پھر ان کو جیلوں میں قید رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی معلومات سے آگاہی نہیں دیتی۔اسرائیلی ریاست ایک غیر قانونی اور دہشت گرد ریاست ہے جس کا وجود نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کے لیے خطر ہ ہے۔