اگلا انتخاب کونسی جماعت جیتے گی
کسی بھی سیاسی جماعت کا تن تنہا حکومت بنانا مشکل ہوگا اور اتحادی حکومت تشکیل پاسکتی ہے
اگلے الیکشن کے حوالے سے قیاس آرائیاں اور پیش گوئیاں کی جارہی ہیں۔ ایک طرف پاکستان عوامی تحریک کے طاہر القادری تمام اپوزیشن جماعتوں کو یکجا کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور دھرنے کی باتیں ہورہی ہیں تو دوسری طرف نواز شریف اور شہباز شریف سعودی عرب کی یاترا کرچکے ہیں جس کے ساتھ ساتھ ایک اور این آر او کے الزامات بھی سامنے آرہے ہیں۔
پاناما کیس فیصلے اور دھرنے کے بعد ایک مرحلے پر مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن کمزور اور عمران خان کی مضبوط نظر آئی۔ ملک میں عام تاثر یہ ہے کہ پاناما لیکس میں نواز شریف کی نااہلی، کرپشن الزامات، دھرنے اور ختم نبوت معاملے کی وجہ سے مسلم لیگ کی سیاسی ساکھ شدید متاثر ہوئی۔ تاہم اگر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو آئندہ الیکشن میں بھی (ن) لیگ کی کامیابی کے امکانات موجود ہیں، جبکہ کسی بھی سیاسی جماعت کا تن تنہا حکومت بنانا مشکل ہوگا اور ممکنہ طور پر اتحادی حکومت ہی تشکیل پاسکتی ہے۔
این اے 120 کا ضمنی الیکشن بطور نمونہ
اگر لاہور کے حلقہ این اے 120 کے ضمنی انتخاب کے نتائج کو نمونے (sample) کے طور پر لیا جائے تو اس کے اعداد و شمار کی روشنی میں 2018 کے الیکشن میں بھی مسلم لیگ کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
نواز شریف کی نااہلی کے نتیجے میں لاہور سے ان کی خالی ہونے والی نشست (این اے 120) پر ضمنی انتخاب ہوا جس میں بالترتیب مسلم لیگ کی امیدوار کلثوم نواز کو تقریباً 61 ہزار، پی ٹی آئی کو 47 ہزار، تحریک لبیک سے تعلق رکھنے والے امیدوار کو 7 ہزار، ملی مسلم لیگ کو 5 ہزار ووٹ اور پیپلز پارٹی کو صرف 14 سو ووٹ ملے۔
2013 کے مقابلے میں اس ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ کے 11 فیصد ووٹ کم ہوگئے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے ووٹ میں 3.1 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس کا مطلب ہے کہ پاناما لیکس کیس میں وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی اور کرپشن کے الزامات سے مسلم لیگ کا 11 فیصد ووٹ بینک متاثر ہوا جب کہ پی ٹی آئی کا 3 فیصد بڑھا اور پی پی پی کے ووٹ بینک میں 0.6 فیصد کمی ہوئی۔ تحریک لبیک کو حلقے میں 6 اور ملی مسلم لیگ کو 5 فیصد ووٹ ملے یعنی مذہبی جماعتوں کو مجموعی طور پر 11 فیصد ووٹ ملے۔ اسی لیے اگلے الیکشن میں مذہبی ووٹ بھی انتہائی اہم کردار ادا کرے گا۔
مسلم لیگ کا کتنا ووٹ کم ہوسکتا ہے اور کتنی نشستیں مل سکتی ہیں
اگر فرض کرلیں کہ ختم نبوتﷺ اور دھرنے کے خلاف آپریشن سے مسلم لیگ کے مزید 11 فیصد ووٹ کم ہوجائیں تو اگلے الیکشن میں مجموعی طور پر اس کا 22 سے 25 فیصد ووٹ بینک کم ہوسکتا ہے۔ ووٹ بینک میں 22 فیصد کمی کے حساب سے مسلم لیگ کو 2018 میں 147 نشستیں ملیں گی، جبکہ 30 فیصد کے حساب سے 132 سیٹیں ملیں گی۔ ان دونوں صورتوں میں (ن) لیگ سیاسی اتحاد بنا کر حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔
مسلم لیگ کے منفی و مثبت پوائنٹس
سپریم کورٹ سے نااہلی کے نتیجے میں نواز شریف کی پارٹی صدارت بھی ختم ہوگئی تھی۔ مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کو دوبارہ پارٹی صدر بنانے کےلیے الیکشن اصلاحات بل 2017 متعارف کرایا جس میں ختم نبوتﷺ سے متعلق ترمیم کی گئی۔ اس ترمیم اور پھر اسلام آباد میں دھرنے کے خلاف آپریشن سے مسلم لیگ کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا اور اس کا ایک بڑا ووٹ بینک اس سے متنفر ہوگیا۔
لہذا انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ کے منفی پوائنٹس کرپشن، ختم نبوتﷺ اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کو ان کے مخالفین استعمال کریں گے؛ جبکہ مسلم لیگ امن و امان کی صورتحال میں بہتری، لوڈشیڈنگ میں کمی، قرضوں کی صورت میں سرمائے کی آمد کو اپنے مثبت پوائںٹس کے طور پر اجاگر کرے گی۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بھی اپنی سیاسی مظلومیت کے ثبوت میں پیش کیا جاسکتا ہے۔
دھرنے کے خلاف آپریشن سے جہاں (ن) لیگ کو نقصان ہوا تو بہت سا فائدہ بھی ہوا۔ بہت سے لوگوں نے آپریشن کی حمایت کی۔ بالخصوص دھرنے سے پریشان شہریوں نے حکومتی اقدام کی تائید کی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے فوج کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے پر تنقید کے بعد یہ پورا معاملہ مشکوک ہوگیا اور آرمی چیف کو سینیٹ بریفنگ میں وضاحت دینی پڑی کہ فوج دھرنے کے پیچھے نہیں تھی۔
قومی اسمبلی میں نشستوں کی صورتحال
قومی اسمبلی میں نشستوں کی کل تعداد 342 ہے جن میں سے 272 پر براہ راست انتخاب ہوتا ہے جب کہ 70 مخصوص سیٹیں ہیں۔ کسی بھی جماعت کو حکومت بنانے کے لیے 172 یعنی 51 فیصد کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔
قومی اسمبلی میں پنجاب کی نشستوں کی تعداد 148، سندھ 61، خیبرپختون خوا 35، بلوچستان 14، فاٹا 12 اور اسلام آباد کی نشستوں کی تعداد 2 ہے۔ 2013 کے انتخابات میں 5 بڑی جماعتوں مسلم لیگ کو مجموعی طور پر 189، پیپلز پارٹی کو 42، تحریک انصاف 35، ایم کیو ایم 24 اور جے یو آئی (ف) کو 15 نشستیں ملیں۔ مسلم لیگ نے براہ راست 126 سیٹیں جیتیں جبکہ خواتین، اقلیتوں کی مخصوص نشستیں ملنے اور 19 آزاد امیدواروں کی شمولیت کے نتیجے میں قومی اسمبلی میں اس کی نشستوں کی مجموعی تعداد 189 تک جا پہنچی تھی۔
بادشاہ گر پارٹیاں
اس بات کے پورے امکانات ہیں کہ مسلم لیگ کسی دوسری جماعت سے اتحاد کرکے حکومت بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ موجودہ حکومت میں اس کی اتحادی جماعت جے یو آئی (ف) ہے جس کے پاس 15 سیٹیں ہیں۔ تاہم اب ایم ایم اے بحال ہوگئی ہے جس کا حصہ جے یو آئی (ف) بھی ہے۔ ممکن ہے کہ 2018 میں ایم ایم اے 20 نشستیں لینے میں کامیاب ہوجائے۔
ایم کیو ایم بھی بادشاہ گر کی حیثیت رکھتی ہے۔ 2013 میں ایم کیو ایم کی 24 نشستیں تھیں۔ اگر 2018 میں بھی ایم کیو ایم کو اتنی سیٹیں مل گئیں تو قومی سیاست میں اسے دوبارہ وہی اہمیت حاصل ہوجائے گی جو پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت میں حاصل تھی جب وہ حکمراں اتحاد کا حصہ تھی۔ ایم کیو ایم حکمراں اتحاد میں شامل ہوکر اپنے لیے رعایتیں بھی حاصل کرسکتی ہے اور کارکنوں کے خلاف مقدمات ختم کرواسکتی ہے۔
ایم کیو ایم کے موڈ کا اندازہ گزشتہ روز طاہر القادری کی آل پارٹیز کانفرنس کے دوران ہوا جس میں فاروق ستار کی قیادت میں ایم کیو ایم کا وفد نہ صرف وقت ختم ہونے سے پہلے ہی اے پی سی سے روانہ ہوگیا بلکہ بعدازاں ایم کیو ایم نے اے پی سی کے مشترکہ اعلامیہ پر بھی اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کے بغیرسانحے کی ذمہ داری کسی پرنہ ڈالی جائے۔ عوامی تحریک کی اے پی سی نے نواز شریف اور شہباز شریف کو ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے حکومت پنجاب کو مستعفی ہونے کی ڈیڈلائن دی ہے۔
اب کراچی کی سیاست کی حرکیات بھی 2013 کے مقابلے میں یکسر بدل چکی ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ تین حصوں ایم کیو ایم لندن، ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی میں تقسیم ہوچکی ہے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس کے کارکنان بھی منتشر ہیں جب کہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ پی ایس پی کے سر پر ہے۔
کراچی میں الیکشن میں دھاندلی کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہاں کوئی بھی انہونی ہوسکتی ہے۔ ایم کیو ایم کی تقسیم سے پیدا ہونے والا خلا پی ٹی آئی بھی بھرنے کی کوشش کرے گی اور پشتو بولنے والی آبادیوں اور ڈیفنس و دیگر پوش علاقوں سے وہ چند سیٹیں لینے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ اس ٹوٹ پھوٹ سے عین ممکن ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اہم پوزیشن حاصل نہ کرسکے لیکن اگر وہ 20 نشستیں بھی لینے میں کامیاب ہوگئی تو تب بھی اگلے سال مرکز میں اہم کردار کی حامل ہوگی۔
پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کی پوزیشن
گزشتہ الیکشن میں پی پی پی کو 47 اور پی ٹی آئی کو 35 نشستیں ملیں۔ این اے 120 کے ضمنی الیکشن اور موجودہ سیاسی حالات کی روشنی میں اگر پی پی پی اور پی ٹی آئی کی بات کی جائے تو پی ٹی آئی کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوگا جبکہ پی پی پی کی نشستوں میں بھی کچھ اضافے کا امکان ہے ۔ پنجاب پر بلاول بھٹو زرداری کی مستقل توجہ کو دیکھتے ہوئے ممکنہ طور پر جنوبی پنجاب میں اسے کچھ کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔
فرض کیجیے کہ پی ٹی آئی کے ووٹ بینک میں 50 فیصد اضافہ ہوتا ہے تب بھی اس کی صرف 16 سیٹیں بڑھیں گی اور تعداد 53 ہوجائے گی۔ اگر پی ٹی آئی کے ووٹ بینک میں زیادہ سے زیادہ 100 فیصد اضافہ بھی تصور کیا جائے جس کا کم ہی امکان ہے تب بھی اسے 70 نشستیں ملیں گی۔ لہذا اس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے تن تنہا حکومت بنانے کا ایک فیصد بھی امکان نہیں۔ لامحالہ اسے پی پی پی کی مدد درکار ہوگی۔
واضح رہے کہ یہ محض ایک اندازہ اور تخمینہ ہے جس میں غلطی کا امکان ہے۔ تاہم یہ تجزیہ اگلے الیکشن میں تین بڑی جماعتوں کی پوزیشن کی جھلک دکھانے میں معاون ضرور ثابت ہوسکتا ہے۔
عمران خان کی آصف زرداری سے دوستی
یہاں یہ مسئلہ آڑے آتا ہے کہ عمران خان کی نظر میں آصف زرداری بدترین کرپٹ شخص ہیں اور ان کے بارے میں وہ نازیبا زبان بھی استعمال کرچکے ہیں۔ عمران خان نے آصف زرداری کو سب سے بڑا ڈاکو اور بڑی بیماری قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ زرداری کے ہوتے ہوئے پی پی پی سے اتحاد ممکن نہیں۔
ایسے میں وہ کس منہ سے زرداری کے ساتھ بیٹھیں گے؟ لیکن وائے رے سیاست۔ اقتدار کے حصول کی خاطر پاکستانی سیاست دان کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ کل کا دشمن آج کا دوست اور آج کا دوست کل کا دشمن ثابت ہوسکتا ہے۔ 27 تاریخ کو انہوں نے اس کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کا راستہ روکنے کےلیے وہ زرداری کے ساتھ بیٹھنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
اپوزیشن اتحاد
اس وقت پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری اسی کام میں لگے ہوئے ہیں اور پی پی پی، پی ٹی آئی سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کرکے مسلم لیگ (ن) کے خلاف گرینڈ الائنس بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ تنہا مسلم لیگ (ن) کو پچھاڑنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ بات اس لیے بھی قرینِ قیاس ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں آج بھی بہت مضبوط ہے۔
اگر اپوزیشن اکٹھی نہ ہوئی تو لامحالہ مسلم لیگ (ن) ہی دوبارہ برسراقتدار آئے گی جس کے نتیجے میں اس کے پاس یہ جواز بھی آجائے گا کہ عوام نے نواز شریف کی نااہلی کا سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کردیا۔
لہذا عمران خان ہر قیمت پر نواز شریف کا راستہ روکنے کی کوشش کریں گے چاہے اس کےلیے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ آصف زرداری کے لب و لہجے کو دیکھتے ہوئے یہی لگ رہا ہے کہ پی ٹی آئی اور پی پی پی کے معاملات طے پاچکے ہیں۔
دونوں جماعتیں اتحاد کی صورت میں 100 سے زائد نشستیں لینے میں کامیاب ہوجائیں گی اور شاید جوڑ توڑ کرکے حکومت بنانے کی پوزیشن میں بھی آجائیں۔ تاہم پی پی پی سے اتحاد کا عمران خان کو شدید سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے کہ کل تک جس شخص کو وہ گالیاں دیتے اور کرپٹ ترین شخص کہتے تھے آج محض اقتدار کی خاطر اسی کی بغل میں جاکر بیٹھ گئے۔
نواز شریف تو نااہل ہوچکے ہیں اور اگلے الیکشن میں شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔ ترقیاتی کاموں کے حوالے سے پنجاب سمیت ملک بھر میں شہباز شریف کا ریکارڈ بہت اچھا ہے لہذا عمران خان کی پوری کوشش ہے کہ نواز شریف کی طرح انہیں بھی کسی عدالتی طریقے سے آؤٹ کیا جاسکے۔ اسی لیے حدیبیہ کیس میں نظر ثانی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اپوزیشن نئی احتجاجی تحریک چلاکر قبل از وقت الیکشن کرانے کی بھی کوشش کرسکتی ہے۔ لیکن جب نگراں حکومت آنے میں صرف چند ماہ رہ گئے ہیں تو ایسے میں احتجاجی سیاست کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پاناما کیس فیصلے اور دھرنے کے بعد ایک مرحلے پر مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن کمزور اور عمران خان کی مضبوط نظر آئی۔ ملک میں عام تاثر یہ ہے کہ پاناما لیکس میں نواز شریف کی نااہلی، کرپشن الزامات، دھرنے اور ختم نبوت معاملے کی وجہ سے مسلم لیگ کی سیاسی ساکھ شدید متاثر ہوئی۔ تاہم اگر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو آئندہ الیکشن میں بھی (ن) لیگ کی کامیابی کے امکانات موجود ہیں، جبکہ کسی بھی سیاسی جماعت کا تن تنہا حکومت بنانا مشکل ہوگا اور ممکنہ طور پر اتحادی حکومت ہی تشکیل پاسکتی ہے۔
این اے 120 کا ضمنی الیکشن بطور نمونہ
اگر لاہور کے حلقہ این اے 120 کے ضمنی انتخاب کے نتائج کو نمونے (sample) کے طور پر لیا جائے تو اس کے اعداد و شمار کی روشنی میں 2018 کے الیکشن میں بھی مسلم لیگ کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
نواز شریف کی نااہلی کے نتیجے میں لاہور سے ان کی خالی ہونے والی نشست (این اے 120) پر ضمنی انتخاب ہوا جس میں بالترتیب مسلم لیگ کی امیدوار کلثوم نواز کو تقریباً 61 ہزار، پی ٹی آئی کو 47 ہزار، تحریک لبیک سے تعلق رکھنے والے امیدوار کو 7 ہزار، ملی مسلم لیگ کو 5 ہزار ووٹ اور پیپلز پارٹی کو صرف 14 سو ووٹ ملے۔
2013 کے مقابلے میں اس ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ کے 11 فیصد ووٹ کم ہوگئے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے ووٹ میں 3.1 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس کا مطلب ہے کہ پاناما لیکس کیس میں وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی اور کرپشن کے الزامات سے مسلم لیگ کا 11 فیصد ووٹ بینک متاثر ہوا جب کہ پی ٹی آئی کا 3 فیصد بڑھا اور پی پی پی کے ووٹ بینک میں 0.6 فیصد کمی ہوئی۔ تحریک لبیک کو حلقے میں 6 اور ملی مسلم لیگ کو 5 فیصد ووٹ ملے یعنی مذہبی جماعتوں کو مجموعی طور پر 11 فیصد ووٹ ملے۔ اسی لیے اگلے الیکشن میں مذہبی ووٹ بھی انتہائی اہم کردار ادا کرے گا۔
مسلم لیگ کا کتنا ووٹ کم ہوسکتا ہے اور کتنی نشستیں مل سکتی ہیں
اگر فرض کرلیں کہ ختم نبوتﷺ اور دھرنے کے خلاف آپریشن سے مسلم لیگ کے مزید 11 فیصد ووٹ کم ہوجائیں تو اگلے الیکشن میں مجموعی طور پر اس کا 22 سے 25 فیصد ووٹ بینک کم ہوسکتا ہے۔ ووٹ بینک میں 22 فیصد کمی کے حساب سے مسلم لیگ کو 2018 میں 147 نشستیں ملیں گی، جبکہ 30 فیصد کے حساب سے 132 سیٹیں ملیں گی۔ ان دونوں صورتوں میں (ن) لیگ سیاسی اتحاد بنا کر حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔
مسلم لیگ کے منفی و مثبت پوائنٹس
سپریم کورٹ سے نااہلی کے نتیجے میں نواز شریف کی پارٹی صدارت بھی ختم ہوگئی تھی۔ مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کو دوبارہ پارٹی صدر بنانے کےلیے الیکشن اصلاحات بل 2017 متعارف کرایا جس میں ختم نبوتﷺ سے متعلق ترمیم کی گئی۔ اس ترمیم اور پھر اسلام آباد میں دھرنے کے خلاف آپریشن سے مسلم لیگ کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا اور اس کا ایک بڑا ووٹ بینک اس سے متنفر ہوگیا۔
لہذا انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ کے منفی پوائنٹس کرپشن، ختم نبوتﷺ اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کو ان کے مخالفین استعمال کریں گے؛ جبکہ مسلم لیگ امن و امان کی صورتحال میں بہتری، لوڈشیڈنگ میں کمی، قرضوں کی صورت میں سرمائے کی آمد کو اپنے مثبت پوائںٹس کے طور پر اجاگر کرے گی۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بھی اپنی سیاسی مظلومیت کے ثبوت میں پیش کیا جاسکتا ہے۔
دھرنے کے خلاف آپریشن سے جہاں (ن) لیگ کو نقصان ہوا تو بہت سا فائدہ بھی ہوا۔ بہت سے لوگوں نے آپریشن کی حمایت کی۔ بالخصوص دھرنے سے پریشان شہریوں نے حکومتی اقدام کی تائید کی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے فوج کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے پر تنقید کے بعد یہ پورا معاملہ مشکوک ہوگیا اور آرمی چیف کو سینیٹ بریفنگ میں وضاحت دینی پڑی کہ فوج دھرنے کے پیچھے نہیں تھی۔
قومی اسمبلی میں نشستوں کی صورتحال
قومی اسمبلی میں نشستوں کی کل تعداد 342 ہے جن میں سے 272 پر براہ راست انتخاب ہوتا ہے جب کہ 70 مخصوص سیٹیں ہیں۔ کسی بھی جماعت کو حکومت بنانے کے لیے 172 یعنی 51 فیصد کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔
قومی اسمبلی میں پنجاب کی نشستوں کی تعداد 148، سندھ 61، خیبرپختون خوا 35، بلوچستان 14، فاٹا 12 اور اسلام آباد کی نشستوں کی تعداد 2 ہے۔ 2013 کے انتخابات میں 5 بڑی جماعتوں مسلم لیگ کو مجموعی طور پر 189، پیپلز پارٹی کو 42، تحریک انصاف 35، ایم کیو ایم 24 اور جے یو آئی (ف) کو 15 نشستیں ملیں۔ مسلم لیگ نے براہ راست 126 سیٹیں جیتیں جبکہ خواتین، اقلیتوں کی مخصوص نشستیں ملنے اور 19 آزاد امیدواروں کی شمولیت کے نتیجے میں قومی اسمبلی میں اس کی نشستوں کی مجموعی تعداد 189 تک جا پہنچی تھی۔
بادشاہ گر پارٹیاں
اس بات کے پورے امکانات ہیں کہ مسلم لیگ کسی دوسری جماعت سے اتحاد کرکے حکومت بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ موجودہ حکومت میں اس کی اتحادی جماعت جے یو آئی (ف) ہے جس کے پاس 15 سیٹیں ہیں۔ تاہم اب ایم ایم اے بحال ہوگئی ہے جس کا حصہ جے یو آئی (ف) بھی ہے۔ ممکن ہے کہ 2018 میں ایم ایم اے 20 نشستیں لینے میں کامیاب ہوجائے۔
ایم کیو ایم بھی بادشاہ گر کی حیثیت رکھتی ہے۔ 2013 میں ایم کیو ایم کی 24 نشستیں تھیں۔ اگر 2018 میں بھی ایم کیو ایم کو اتنی سیٹیں مل گئیں تو قومی سیاست میں اسے دوبارہ وہی اہمیت حاصل ہوجائے گی جو پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت میں حاصل تھی جب وہ حکمراں اتحاد کا حصہ تھی۔ ایم کیو ایم حکمراں اتحاد میں شامل ہوکر اپنے لیے رعایتیں بھی حاصل کرسکتی ہے اور کارکنوں کے خلاف مقدمات ختم کرواسکتی ہے۔
ایم کیو ایم کے موڈ کا اندازہ گزشتہ روز طاہر القادری کی آل پارٹیز کانفرنس کے دوران ہوا جس میں فاروق ستار کی قیادت میں ایم کیو ایم کا وفد نہ صرف وقت ختم ہونے سے پہلے ہی اے پی سی سے روانہ ہوگیا بلکہ بعدازاں ایم کیو ایم نے اے پی سی کے مشترکہ اعلامیہ پر بھی اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کے بغیرسانحے کی ذمہ داری کسی پرنہ ڈالی جائے۔ عوامی تحریک کی اے پی سی نے نواز شریف اور شہباز شریف کو ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے حکومت پنجاب کو مستعفی ہونے کی ڈیڈلائن دی ہے۔
اب کراچی کی سیاست کی حرکیات بھی 2013 کے مقابلے میں یکسر بدل چکی ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ تین حصوں ایم کیو ایم لندن، ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی میں تقسیم ہوچکی ہے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس کے کارکنان بھی منتشر ہیں جب کہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ پی ایس پی کے سر پر ہے۔
کراچی میں الیکشن میں دھاندلی کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہاں کوئی بھی انہونی ہوسکتی ہے۔ ایم کیو ایم کی تقسیم سے پیدا ہونے والا خلا پی ٹی آئی بھی بھرنے کی کوشش کرے گی اور پشتو بولنے والی آبادیوں اور ڈیفنس و دیگر پوش علاقوں سے وہ چند سیٹیں لینے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ اس ٹوٹ پھوٹ سے عین ممکن ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اہم پوزیشن حاصل نہ کرسکے لیکن اگر وہ 20 نشستیں بھی لینے میں کامیاب ہوگئی تو تب بھی اگلے سال مرکز میں اہم کردار کی حامل ہوگی۔
پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کی پوزیشن
گزشتہ الیکشن میں پی پی پی کو 47 اور پی ٹی آئی کو 35 نشستیں ملیں۔ این اے 120 کے ضمنی الیکشن اور موجودہ سیاسی حالات کی روشنی میں اگر پی پی پی اور پی ٹی آئی کی بات کی جائے تو پی ٹی آئی کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوگا جبکہ پی پی پی کی نشستوں میں بھی کچھ اضافے کا امکان ہے ۔ پنجاب پر بلاول بھٹو زرداری کی مستقل توجہ کو دیکھتے ہوئے ممکنہ طور پر جنوبی پنجاب میں اسے کچھ کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔
فرض کیجیے کہ پی ٹی آئی کے ووٹ بینک میں 50 فیصد اضافہ ہوتا ہے تب بھی اس کی صرف 16 سیٹیں بڑھیں گی اور تعداد 53 ہوجائے گی۔ اگر پی ٹی آئی کے ووٹ بینک میں زیادہ سے زیادہ 100 فیصد اضافہ بھی تصور کیا جائے جس کا کم ہی امکان ہے تب بھی اسے 70 نشستیں ملیں گی۔ لہذا اس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے تن تنہا حکومت بنانے کا ایک فیصد بھی امکان نہیں۔ لامحالہ اسے پی پی پی کی مدد درکار ہوگی۔
واضح رہے کہ یہ محض ایک اندازہ اور تخمینہ ہے جس میں غلطی کا امکان ہے۔ تاہم یہ تجزیہ اگلے الیکشن میں تین بڑی جماعتوں کی پوزیشن کی جھلک دکھانے میں معاون ضرور ثابت ہوسکتا ہے۔
عمران خان کی آصف زرداری سے دوستی
یہاں یہ مسئلہ آڑے آتا ہے کہ عمران خان کی نظر میں آصف زرداری بدترین کرپٹ شخص ہیں اور ان کے بارے میں وہ نازیبا زبان بھی استعمال کرچکے ہیں۔ عمران خان نے آصف زرداری کو سب سے بڑا ڈاکو اور بڑی بیماری قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ زرداری کے ہوتے ہوئے پی پی پی سے اتحاد ممکن نہیں۔
ایسے میں وہ کس منہ سے زرداری کے ساتھ بیٹھیں گے؟ لیکن وائے رے سیاست۔ اقتدار کے حصول کی خاطر پاکستانی سیاست دان کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ کل کا دشمن آج کا دوست اور آج کا دوست کل کا دشمن ثابت ہوسکتا ہے۔ 27 تاریخ کو انہوں نے اس کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کا راستہ روکنے کےلیے وہ زرداری کے ساتھ بیٹھنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
اپوزیشن اتحاد
اس وقت پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری اسی کام میں لگے ہوئے ہیں اور پی پی پی، پی ٹی آئی سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کرکے مسلم لیگ (ن) کے خلاف گرینڈ الائنس بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ تنہا مسلم لیگ (ن) کو پچھاڑنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ بات اس لیے بھی قرینِ قیاس ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں آج بھی بہت مضبوط ہے۔
اگر اپوزیشن اکٹھی نہ ہوئی تو لامحالہ مسلم لیگ (ن) ہی دوبارہ برسراقتدار آئے گی جس کے نتیجے میں اس کے پاس یہ جواز بھی آجائے گا کہ عوام نے نواز شریف کی نااہلی کا سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کردیا۔
لہذا عمران خان ہر قیمت پر نواز شریف کا راستہ روکنے کی کوشش کریں گے چاہے اس کےلیے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ آصف زرداری کے لب و لہجے کو دیکھتے ہوئے یہی لگ رہا ہے کہ پی ٹی آئی اور پی پی پی کے معاملات طے پاچکے ہیں۔
دونوں جماعتیں اتحاد کی صورت میں 100 سے زائد نشستیں لینے میں کامیاب ہوجائیں گی اور شاید جوڑ توڑ کرکے حکومت بنانے کی پوزیشن میں بھی آجائیں۔ تاہم پی پی پی سے اتحاد کا عمران خان کو شدید سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے کہ کل تک جس شخص کو وہ گالیاں دیتے اور کرپٹ ترین شخص کہتے تھے آج محض اقتدار کی خاطر اسی کی بغل میں جاکر بیٹھ گئے۔
نواز شریف تو نااہل ہوچکے ہیں اور اگلے الیکشن میں شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔ ترقیاتی کاموں کے حوالے سے پنجاب سمیت ملک بھر میں شہباز شریف کا ریکارڈ بہت اچھا ہے لہذا عمران خان کی پوری کوشش ہے کہ نواز شریف کی طرح انہیں بھی کسی عدالتی طریقے سے آؤٹ کیا جاسکے۔ اسی لیے حدیبیہ کیس میں نظر ثانی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اپوزیشن نئی احتجاجی تحریک چلاکر قبل از وقت الیکشن کرانے کی بھی کوشش کرسکتی ہے۔ لیکن جب نگراں حکومت آنے میں صرف چند ماہ رہ گئے ہیں تو ایسے میں احتجاجی سیاست کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔