ہوش کے ناخن لیں

پاکستان کی حالیہ سیاسی صورت حال نے ملکی معیشت اور کاروباری سرگرمیوں کو خاصا متاثر کیا ہے۔


Editorial December 31, 2017
امریکا، بھارت اور افغانستان کا رویہ انتہائی جارحانہ ہوتا جا رہا ہے۔ فوٹو: این این آئی

ملک کی سیاسی صورت حال خاصی پیچیدہ ہے اور سیاسی فضا میں مختلف نوعیت کی چہ مگوئیاں، افواہیں اور خیال آرائیاں گردش کر رہی ہیں۔کہیں کہا جا رہا ہے کہ قومی حکومت بن سکتی ہے، کوئی اب بھی ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ کی بات کر رہا ہے۔کوئی نئے این آر او کی سرگوشی کر رہا ہے۔ ادھر برسراقتدار مسلم لیگ (ن) کی قیادت سعودی عرب میں موجود ہے۔

پہلے میاں شہباز شریف گئے اور بعد میں میاں نواز شریف وہاں پہنچے، اس حوالے سے پاکستان میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔ وہاں کیا ہو رہا ہے، اس حوالے سے کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے لیکن پاکستان میں تجزیہ نگار اور اپوزیشن کے سیاستدان مختلف قسم کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان تو کہہ رہے ہیں کہ اگر ملک میں کوئی نیا این آر او ہوا تو اس کے خلاف وہ سڑکوں پر آئیں گے۔

ادھر ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ بھی سیاست دانوں کے رابطے جاری ہیں۔ طاہر القادری کے ساتھ پیپلزپارٹی بھی کھڑی ہے اور تحریک انصاف بھی۔ ملک میں دھرنوں کی باتیں ہو رہی ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مارچ میں سینیٹ انتخاب سے پہلے کوئی غیر جمہوری تبدیلی بھی آ سکتی ہے۔ اگر آئین و قانون کے مطابق پرامید ہو کر حالات کا جائزہ لیا جائے تو صورت حال خاصی حد تک واضح نظر آ رہی ہے۔ موجودہ حکومت کی آئینی مدت اگلے برس مئی میں پوری ہو جائے گی۔

یوں دیکھا جائے تو ممکنہ الیکشن میں چھ سات ماہ کی مدت باقی ہے۔ اس میں دو ماہ کی عبوری حکومت کی مدت کو شامل کر لیا جائے تو موجودہ حکومت محض پانچ ماہ کی مہمان ہے جب کہ تین ماہ بعد سینیٹ کے الیکشن ہونے ہیں اس لیے عام انتخابات کے انعقاد کی راہ میں کوئی بڑی رکاوٹ نظر نہیں آ رہی ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ قیاس آرائیوں اور افواہوں سے گریز کیا جائے۔

پاکستان کی حالیہ سیاسی صورت حال نے ملکی معیشت اور کاروباری سرگرمیوں کو خاصا متاثر کیا ہے۔ حکومت سیاسی مخالفوں سے نبرد آزما رہی جس کی وجہ سے اس کی اقتصادی پالیسیاں وہ نتائج نہ دکھا سکیں جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ معیشت کا مجموعی جائزہ کوئی حوصلہ افزا نظر نہیں آتا۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے، پڑھے لکھے نوجوان ہوں، غیرہنرمند یا ان پڑھ مزدور طبقہ، سب بے روزگاری کا شکار ہیں۔

زرعی شعبے کی حالت سب کے سامنے ہے، کاشتکار بدحالی اور غربت کا شکار ہیں، چھوٹے کسان شہروں میں مزدوری کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اگر وہ اپنی مصنوعات یا اجناس شہروں میں لاتے ہیں تو حکومتی اہلکار ان کا بری طرح استحصال کرتے ہیں، جو چھوٹے کسان دودھ لاتے ہیں، انھیں شہروں میں داخلے کے پوائنٹس پر روک لیا جاتا ہے، سرکاری اہلکار ان سے رشوت لیتے ہیں یا ان کا دودھ مضرصحت قرار دے کر زمین پر پھینک دیتے ہیں۔ جو کسان اپنی سبزیاں شہر کی منڈی میں لاتے ہیں، انھیں بھی سرکاری اہلکار تنگ کرتے ہیں۔ رہی سہی کسر منڈی کا آڑھتی نکال دیتا ہے۔

مویشیوں کے بیوپاریوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا ہے، سرکاری اہلکاروں کے اس ظلم وزیادتی کو روکنے کے لیے صوبائی اور ضلعی انتظامیہ کچھ نہیں کرتی۔ ارکان اسمبلی بھی خاموش رہتے ہیں۔ انھیں اپنی مراعات میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے یا پھر وہ اپنی سیاسی قیادت کے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں۔ سیاست دان اقتدار کی لڑائی میں الجھے ہوئے ہیں، آئے روز کے دھرنوں اور جلسوں نے ملکی معیشت کا کباڑا کر دیا ہے جب کہ عوام غربت کی اتھاہ گہرائیوں میںڈوب رہے ہیں۔ صنعتی مزدوری کا بھی یہی حال ہے۔

عام مزدور کی تنخواہ دس سے پندرہ ہزار روپے ماہوار ہے، اتنی تنخواہ میں اس کے لیے دو وقت کی روٹی کھانا بھی ممکن نہیں رہا۔ بے روزگاری اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے، جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، معاشرہ ہیجان اور خلفشار کا شکار ہو رہاہے، لوگ اپنے پیاروں کو قتل کر رہے ہیں یا اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر رہے ہیں لیکن اعلیٰ سطح پر اس صورتحال کی کسی کو پرواہ نہیں ہے۔ یہ تو اندرونی اور داخلی صورت حال کی ایک جھلک ہے، اگر خارجی محاذ کو دیکھا جائے تو وہاں بھی خطرات منڈلا رہے ہیں۔

امریکا، بھارت اور افغانستان کا رویہ انتہائی جارحانہ ہوتا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان عالمی سطح پر اپنے اتحادی تلاش کرنے میں اتنا کامیاب نہیں ہوا جتنا اسے ہونا چاہیے۔ اندرون ملک انتہا پسندی بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر ملک کی بدنامی ہو رہی ہے اور پاکستان کے بارے میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ یہ ملک انتشار کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اقتدار کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس صورتحال پرغور کرنا چاہیے کیونکہ مفادات کے حصول کے لیے اندھی رسہ کشی ملک کے لیے انتہائی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لیے سب کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں