کراچی کی آواز

کراچی کی یہ آواز پورے ڈیڑھ گھنٹے تک گونجتی رہی جس نے کراچی کے عوام کے دل تو ضرور جیت لیے.

usmandamohi@yahoo.com

جہاں پورے ملک میں عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں وہاں کراچی بھی پیچھے نہیں رہا ہے یہاں بھی سیاسی ہلچل عروج پر ہے اور انتخابی سرگرمیوں کا جلسوں اور ریلیوں کے ذریعے آغازکردیا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں پاک سرزمین پارٹی نے بھی 24 دسمبر کو لیاقت آباد فلائی اوور پر ایک بڑا جلسہ منعقد کیا ہے جسے میڈیا رپورٹس میں کراچی کی تاریخ کا ایک بڑا جلسہ قرار دیا جا رہا ہے گوکہ اس سیاسی پارٹی کو وجود میں آئے صرف پونے دو سال ہی گزرے ہیں مگر اس نے اتنی کم مدت میں عوام میں ہردلعزیزی کا ایک خاص مقام حاصل کرلیا ہے۔

اس پارٹی کی اونچی اڑان کی وجہ اس کا سب سے محبت اور سب کی خدمت کرنے کا فلسفہ بتایا جاتا ہے۔ اس کا یہ فلسفہ ملک کے تمام طبقات میں تیزی سے مقبولیت حاصل کرتا جا رہا ہے۔ 24 دسمبر کے جلسے کی اہل لیاقت آباد نے میزبانی کرکے نہ صرف میزبانی کا حق ادا کردیا بلکہ ثابت کردیا کہ وہ امن پسند اور وطن پرست ہیں ۔

مصطفیٰ کمال نے اس جلسے میں اپنے خطاب کو عام روش سے ہٹ کر دوسروں پر الزام تراشی سے پرہیز کرتے ہوئے صوبے اور کراچی کے حقیقی حالات اور اپنی پارٹی کے آیندہ کے لائحہ عمل کے اظہار تک محدود رکھا۔ یہ روایت اب جاری رہنا چاہیے اور دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی اس پر عمل کرنا چاہیے تاکہ آپس کی رقابتوں سے دہشت گرد اور امن کے دشمن ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکیں اور کراچی کے حالات کا رخ پھر سے خرابی کی جانب نہ موڑا جاسکے۔

کراچی اب اگرچہ امن کی جانب تیزی سے سفر کر رہا ہے اور دہشت گردی کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں مگر شہر کے بنیادی مسائل میں بہتری آنے کے بجائے کئی گنا زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ کراچی کو اب اس کی گندگی کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ اسٹریٹ کرائمزکا کوئی تدارک نہیں کیا گیا ، لوگ فضلہ ملا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ بنیادی مسائل کے حل کی ذمے داری تو بلدیہ کے سر ہے مگر کراچی کے میئر کا کہنا ہے کہ وہ بے اختیار ہیں۔ حکومت سندھ نے کئی بلدیاتی کاموں کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔

یہ سراسر زیادتی ہے اور یہ زیادتی صرف میئر کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اہل کراچی کے ساتھ بھی ہے۔ جب حکومت اپنی آئینی ذمے داریوں کو ٹھیک طور پر ادا نہیں کر پا رہی ہے تو وہ بلدیاتی کاموں میں کیوں پیر پھنسا رہی ہے۔ میئر کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ نے بعض بلدیاتی شعبوں کو اپنا کر انھیں اپنی ناجائز آمدنی کا ذریعہ بنالیا ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ بعض حکومتی ارکان پر کرپشن کے الزامات لگائے جا رہے ہیں مگر خود میئر کو بھی ایسے ہی الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

حکومت سندھ کی کارکردگی پر مسلسل انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں پیپلز پارٹی کو اس سلسلے میں ضرور نوٹس لینا ہوگا کیونکہ اب عام انتخابات سر پر آچکے ہیں۔ عوام سے ووٹ حاصل کرنا آسان نہیں ہے وہ صرف کام اور کارکردگی کی بنیاد پر ہی ووٹ دیتے ہیں۔ کراچی کے مسائل اب اتنے گمبھیر ہوچکے ہیں کہ اب انھیں سدھارنے کا کام وہی کرسکتا ہے جو ماضی میں بھی عوام کی امنگوں پر پورا اترا ہو۔ مصطفیٰ کمال نے اپنے خطاب میں کراچی کے مسائل کا بڑی تفصیل سے ذکرکیا اس طرح انھوں نے کراچی کی آواز بننے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے۔


کراچی کی یہ آواز پورے ڈیڑھ گھنٹے تک گونجتی رہی جس نے کراچی کے عوام کے دل تو ضرور جیت لیے مگر لگتا ہے حکومتی ایوانوں میں ہلچل کا سماں برپا ہوگیا ہے۔ کراچی کے بلدیاتی نظام کو چلانے والوں اور حکومت سندھ کو اس خطاب کو خاص اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ انھیں اب اپنی ذمے داریوں کا ادراک کرتے ہوئے عوامی خواہشات کے مطابق عوامی مسائل کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کرنا چاہیے۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو کراچی سے اپنی محبت کو ثابت کرنا ہوگا اس لیے بھی کہ وہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ انھیں اس شہر سے گہرا لگاؤ ہی نہیں گہری محبت ہے کیونکہ انھوں نے اپنا بچپن اسی شہر میں گزارا ہے۔ یہ شہر ان سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اسے ویسا ہی بے مثل بنانے کی کوشش کریں جیساکہ انھوں نے اسے اپنے بچپن میں دیکھا تھا لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ کیوں شہر کی گندگی اور شہریوں کی محرومیوں سے متاثر نہیں ہیں۔

شہر کی گندگی کا حال اب صرف پاکستان تک محدود نہیں رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر اس کی گندگی اور عوام کی بنیادی سہولیات سے محرومی کے چرچے ہو رہے ہیں۔اب تو سعید غنی سے لے کر بلاول بھٹو تک یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ کراچی پیپلز پارٹی کا اپنا شہر ہے اور اس دفعہ عام انتخابات میں وہ سب سے زیادہ نشستیں جیتیں گے۔ انھیں جیت مبارک ہو مگر وہ کراچی کے عوام کے دل جیتے بغیر کیسے کامیابی حاصل کرنے کا سوچ سکتے ہیں۔

بلاشبہ یہ کریڈٹ مصطفیٰ کمال کو جاتا ہے کہ ان کی میئرشپ کے زمانے میں کراچی میں جو صفائی ستھرائی رہی اور ترقیاتی کام انجام پائے وہ ایک انوکھا ریکارڈ تھا۔ ان کی کارکردگی کو صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر سراہا گیا تھا۔ عالمی شہرت یافتہ میگزین ٹائمز نے اپنے ایک شمارے میں ان کی کارکردگی کو زبردست خراج تحسین پیش کیا تھا۔ اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر بھی ان کے کام سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے تھے۔ جب وہ کراچی آئے تو انھوں نے مصطفیٰ کمال سے ملاقات کرکے ان کی محنت اور فرض شناسی کی بہت تعریف کی تھی ۔

مصطفیٰ کمال نے اپنے خطاب میں بڑی بے باکی سے کراچی کے عوام کا مقدمہ وفاقی حکومت اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے سامنے رکھ دیا ہے۔ انھوں نے آرمی چیف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کراچی آپریشن اگر واقعی کامیاب بنانا چاہتے ہیں تو پھر کراچی کے تمام ترقیاتی کاموں کو اپنی نگرانی میں کرانے کے لیے آگے بڑھیں۔ انھوں نے آرمی چیف کو یاد دلایا ہے کہ انھوں نے کے پی کے اور بلوچستان میں جہاں جہاں دہشت گردی کے خلاف آپریشنز کیے ہیں وہاں انھوں نے ترقیاتی کاموں کو بھی ساتھ ساتھ کروایا ہے جس کے ان علاقوں میں اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔

اسی لیے وہاں کے عوام فوج کی دل سے تعریفیں کرتے ہیں اگر کراچی میں بھی فوج ترقیاتی کاموں کو اپنے ہاتھ میں لے لے تو یہاں کے عوام بھی اپنے مسائل سے نجات پاسکتے ہیں۔ مصطفیٰ کمال کو یہ بات اس لیے کہنا پڑی کیونکہ کراچی کے ذمے داران کی آپس کی چپقلش کی وجہ سے یہ بات ممکن نظر نہیں آتی کہ شہر کی حالت زار کو سدھارنے کے لیے کوئی موثر سبیل نکل سکے گی تاہم مصطفیٰ کمال کا فوج کو پکارنا پیپلز پارٹی اور میئر کراچی کو ضرور پسند نہیں آیا ہوگا کیونکہ شہروں کے بلدیاتی نظاموں کو چلانا فوج کا کام نہیں ہے لیکن مصطفیٰ کمال کو آرمی چیف سے یہ گزارش عوام کی مایوسی کو دیکھتے ہوئے آخری کوشش کے طور پر کرنا پڑی اور وہ اس میں حق بجانب ہی کہے جائیں گے۔

انھوں نے آرمی چیف سے کراچی کے نوجوانوں کو بلوچستان کی طرح معافی دینے کی بھی اپیل کی ہے کیونکہ یہ بہکائے میں آکر غلطیاں کرچکے ہیں اب انھیں صرف ایک دفعہ معاف کردیا جائے۔ انھوں نے وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے کراچی کی آبادی کو کم بتانے کو عوام کے حق پر ظلم کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اس سے تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور پانی کے مسائل کے علاوہ بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس سے یہ شہر جو پہلے ہی مسائلستان بنا ہوا ہے مسائل تلے دب کر رہ جائے گا۔ مصطفیٰ کمال کی کراچی کے مسائل کے حوالے سے ساری معروضات قابل توجہ ہیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ان پر فوری توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ورنہ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔
Load Next Story