بچھڑے ہوؤں کی یاد
میری نئی جگہ تعیناتی کے بعد بھی مفتی صاحب سے تعلق وملاقات کا سلسلہ قائم رہا۔میں انھیں بھلانا چاہوں بھی تویہ ممکن نہیں۔
جب آپ مدت گزرنے کے بعد کسی ایسے شہر جائیں جہاں آپ نے کچھ سال سرکاری ملازمت کا پرائم پیریڈ گزارا ہو تو بیتے دنوں کی یادیں دل ودماغ پر یلغار کرتی ہیں۔ اتفاقاً ساہیوال جانا ہوا تو کچھ روز قبل ایسی ہی کیفیت طاری ہوئی۔ تب پاکپتن اوکاڑہ اور چیچہ وطنی نے تین اطراف سے ساہیوال کا حصہ ہوتے ہوئے اسے گھیرا ہوتا تھا۔ میرا تبادلہ وہاں ہوا لیکن اس سے اگلے روز ہی ٹرانسفر آرڈر Held in Abeyance ہو گئے۔
معلوم ہوا کہ جن صاحب کی جگہ میری تعیناتی ہوئی تھی، بڑے بارسوخ تھے اور وہاں کے ایک اہم زمیندار نے چیف سیکریٹری کو اپروچ کر کے ٹرانسفر آرڈر پر عمل درآمد رکوا دیا تھا۔ لیکن اس سے اگلے روز میرے محسن سینئر بیورو کریٹ ڈاکٹر امتیاز احمد نے میرے آرڈر بحال کرا دیے اور میں نے ساہیوال حاضری دے دی لیکن چند روز بعد پھر مرکزی وزیر رحمت الٰہی صاحب کے دورے پر آنے پر شہریوں کا ایک وفد ان کے پاس میرے خلاف پیش ہوا تو منسٹر صاحب نے ضلعی بار ایسوسی ایشن کے صدر مشتاق فرشتہ کو بلا بھیجا جنہوں نے مجھ سے کوئی ملاقات نہ ہونے کے باوجود میرے حق میں رائے دی۔ مجھے یہ تمام باتیں پتہ چلتی رہیں۔
اس کے چند روز بعد ایک باریش صاحب میرے آفس میں داخل ہوئے اور سلام کر کے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا کہ ''یہ دوستی اور صلح کا ہاتھ ہے اور یہ کہ اب تک آپ کے خلاف جو کچھ ہوا اس کے پیچھے میں ہی تھا لیکن ناکام رہا ہوں۔'' یہ صاحب شہر کے ایک بارسوخ اور معتبر شخص مفتی ضیاء الحسن تھے۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ جس محبت اور خلوص سے تھامے رکھا اسی کی یاد نے یہ چند سطریں لکھوائی ہیں۔
لوگ میری اور مفتی صاحب کی دوستی پر تمام عرصہ حیران رہے۔ شہر میں کوئی تقریب ہوتی، مفتی ضیاء الحسن مہمان خصوصی ہوتے تو ان کے ہمرکاب میں ہوتا۔ کوئی سرکاری فنکشن منعقد ہوتا تو وہ میرے مہمان ہوتے۔ ساہیوال تعیناتی کے تمام عرصہ میں ہمارا ایک فیملی گروپ بنا رہا جس میں ڈاکٹر ارشد جاوید صاحب اور میرے سابق ڈپٹی کمشنر چوہدری اختر سعید کے بھائی محمود سعید شامل تھے اور اکثر کھانا اکٹھے کھاتے۔ ساہیوال کے معزز شخص چوہدری ممتاز بھی ہمارے ساتھی تھے۔
ممتاز صاحب MPA کا الیکشن جیتے تو وزیرتعلیم بنا دیے گئے۔ وہ نہ سفارش کرتے تھے نہ کسی کی ناجائز سفارش سن کر اس پر عمل کرتے تھے۔ یہاں تک کہ Marks میں کمی کی وجہ سے اپنے ایک بچے کو بھی اس کی پسند کے کالج میں داخلہ دلوانے سے صاف انکار کر دیا۔ وہ ایک بااصول شخصیت ہونے کی وجہ سے سفارش کے بجائے میرٹ پر وزارت کرنے کے سبب آئندہ الیکشن بری طرح ہار گئے۔ ابھی چند روز قبل یوم قائداعظم تھا۔ پاکستان کے قیام کے بعد جناح صاحب گورنر جنرل بنے، ان کی دیانت اور امانت کی چند مثالیں پڑھئے۔
کابینہ کا اجلاس ہونے سے پہلے پوچھا گیا کہ وزراء کے لیے چائے کا انتظام کیا جائے یا کافی کا۔ قائداعظم نے ذرا ناراضی سے کہا منسٹرز چائے پی کر میٹنگ میں آیا کریں یا واپس گھر جا کر پئیں، قوم کا پیسہ ضائع کرنے کے لیے نہیں۔ گورنر جنرل ہاؤس کے معمولی اخراجات میں جو اشیاء جناح صاحب کے ذاتی استعمال میں آتیں ان کی ادائیگی وہ خود کرتے تھے۔ ایک ملاقاتی کا وزیٹنگ کارڈ آیا تو جناح صاحب نے پھاڑ کرپھینک دیا اور ملاقات نہ کی وجہ یہ تھی کہ آنے والا ان کا بھائی تھا اور کارڈ پر لکھا تھا۔ برادر گورنر جنرل پاکستان۔ زیارت میں شدید سردی کی وجہ سے کرنل الٰہی بخش ان کے لیے نئے موزے لے گئے۔
جناح صاحب نے قیمت پوچھی تو جواب ملا دو روپے جناح صاحب نے موزے واپس کر دیے اور کہا اس فضول خرچی کی ضرورت نہیں۔ ان کی نرس نے کہا کہ میری ساری فیملی پنجاب میں ہے، میں کوئٹہ میں ہوں میرا تبادلہ پنجاب کروا دیں۔ جناح صاحب نے جواب دیا سوری یہ کام تو محکمہ صحت کا ہے، گورنر جنرل کے اختیار میں نہیں۔
ایک بار جب جناح صاحب کی گاڑی گزارنے کے لیے فوجی افسر نے ریلوے پھاٹک کھلوا دیا تو سخت ناراضی سے کہا اگر میں ہی قانون کی پابندی نہیں کروں گا تو دوسرے کیوں کریں گے۔ یہ واقعات ستر سال پرانے ہیں اور اب حالت یہ ہے کہ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کے قافلے کی آمد سے کئی گھنٹے پہلے روٹ لگ جاتے، ٹریفک سگنل بند کر دیے جاتے ہیں اور عوام کی ٹریفک Divert کر دی جاتی ہے۔
بھلے وقتوں میں سرکاری افسروں کی کسی ضلع میں تعیناتی کا عرصہ تین سال کے لگ بھگ ہوا کرتا تھا تاکہ خود ان کو زیادہ خواری نہ ہو اور بچوں کو بار بار اسکول کالج تبدیل کرنے سے پریشانی کا سامنا نہ ہو جب کہ ان کے تبادلے پر اہم شخصیات انھیں الوداعی کھانے پر بلانے اور کئی دیگر افراد کو اکٹھا کرنے کا اہتمام کیا کرتی تھیں۔
ساہیوال سے ٹرانسفر ہوئی تو کئی احباب نے Farewell Dinner دیے، ان میں سے دو اصحاب کے کھانے قابل ذکر ہیں۔ ساہیوال میں تبادلے پر میرے شدید مخالف اور پھر مخلص اور قریبی دوست مفتی ضیاء الحسن نے کہا کہ عام روایت سے ہٹ کر ایک روز ناشتہ، دوپہر کا کھانا ور پھر ڈنر ان کی طرف سے ہو گا۔ میں نے صرف ایک کھانے کی تجویز دی تو انھوں نے غصے اور محبت سے اصرار کر کے مجھے مجبور کر دیا۔
میری نئی جگہ تعیناتی کے بعد بھی مفتی صاحب سے تعلق وملاقات کا سلسلہ قائم رہا۔ میں انھیں بھلانا چاہوں بھی تو یہ ممکن نہیں۔ اسی شہر کی ایک ہردلعزیز اور اہم شخصیت ڈاکٹر عطاء الرحمن تھے۔ ان کے دیے ہوئے الوداعی ڈنر کو بھی بھلانا مشکل ہے کیونکہ اسی روز ان کے ایک گہرے دوست بریگیڈیئر حامد نواز جو موصوف کی برادری سے بھی تعلق رکھتے تھے، ڈنر سے پہلے ہی ان کے ہاں تشریف لائے ہوئے تھے لہٰذا وہ بھی ڈنر پر موجود تھے۔ کھانے کے بعد چائے کا دور چلا تو کھل کر گپ شپ ہونے لگی۔
ایک صاحب نے بریگیڈیئر حامد نواز صاحب سے کہا آپ ایران میں پاکستان کے سفیر تعینات رہے ہیں، اس وقت ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیراعظم اور آریہ مہر ایران کے شہنشاہ تھے۔ آپ کی دونوں سے ملاقات ہوئی ہو گی۔ اس دور کی کوئی یادگار بات بتائیں۔ وہ کہنے لگے ''باتیں تو بہت ہیں ہاں ایک بات مولانا کوثر نیازی کے حوالے سے یاد آئی ہے لیکن کچھ اور سوچتا ہوں۔'' کوثر نیازی وزیر مذہبی امور ایک عالم اور زبردست مقرر تھے۔ ہم نے کہا ان ہی کی بات بتایئے۔
کہنے لگے ''بھٹو صاحب نے مولانا کو تہران یونیورسٹی سے انھیں اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری دینے کے لیے شاہ ایران سے بات کی، وہ رضامند ہو گئے تو مولانا کوثر نیازی تہران آئے، میں نے ہوٹل کا بندوست کر دیا لیکن ڈاکٹریٹ کی ڈگری دینے سے ایک روز قبل شاہ ایران نے اپنا ارادہ بدل دیا جس کی ا طلاع ملی تو مولانا مجھ سے شدید ناراض ہوئے اور بھٹو صاحب سے شکایت کر دی۔ اس پر مجھے بھٹو صاحب کو فون پر اپنی پوزیشن کلیئر کرنے میں کافی دشواری ہوئی لیکن جب انھیں میری بات کی سمجھ آ گئی تو انھوں نے کہا کہ مولانا کوثر نیازی کو واپس آنے کے لیے کہہ دو۔''
ساہیوال میں تعیناتی کے دوران وہاں پاکستان کرکٹ ٹیم کے انڈیا اور نیوزی لینڈ سے ون ڈے میچز کا انتظام کرنے کا بھی موقع ملا۔ وہیں میں نے ایک شاندار مشاعرہ منعقد کرایا جس میں احمد ندیم قاسمی اور قتیل شفائی نہ صرف شریک ہوئے بلکہ میرے ہاں قیام بھی کیا۔ میں کیسے ناشکری کر کے کہہ دوں:
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
تو میں کہوں گا:
یادِ ماضی حسین ہے یارب
مجھ سے چھینیو نہ حافظہ میرا