وٹہ سٹہ کی شادی نے دو ہنستے بستے گھر اجاڑ دیئے

نصیر کے انکار پر سعدیہ نے چھوٹے بھائی سے مل کر بھابھی اور بھتیجا، بھتیجی کو زندہ جلا ڈالا


سعدیہ کے شوہر نے اولاد نہ ہونے پر اسے طلاق دی تو وہ اپنے بھائی سے بھی یہی مطالبہ کرنے لگی۔ فوٹو: فائل

جہالت کسی خاص وقت، علاقے، مذہب، مسلک، زبان یا قوم کی میراث نہیں، کیوں کہ ہمارے معاشرے میں آج بھی ایسے افراد موجود ہیں جو اپنی جہالت پر مبنی فرسودہ رواج اور اناء کی تسکین اور ترویج کے لئے ایسے ایسے بھیانک کام کرگزرتے ہیں کہ انسانیت کا سرشرم سے جھک جاتا ہے۔

ایسا ہی ایک المناک واقعہ گزشتہ دنوں بھکر کی تحصیل کلورکوٹ کی نواحی آبادی وانڈھی کاتانوالہ میں پیش آیا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق مقامی شہری نصیراحمد کے گھر میں کھانا پکاتے ہوئے گیس سلنڈر کے پھٹنے سے اس کی حاملہ بیوی شرماں بی بی اپنے دو بچوں (چھ سالہ کومل بی بی اوردوسالہ احباب علی) اور نند سعدیہ بی بی کے ہمراہ جھلس کرموقع پر ہی جاں بحق ہوگئی۔

واقعہ کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی تو پورا علاقہ سوگ میں ڈوب گیا، ہر آنکھ اشکبار تو دل دکھی تھا۔ نصیر احمد کو حوصلہ دینے کے لئے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے لیکن بہت کم لوگوں نے اس دوران یہ بات محسوس کی کہ اپنوں سے جدائی کے غم کے ساتھ نصیر احمدکی آنکھوں کی شعلہ بار سرخی کچھ اور ہی بتا رہی ہے۔ تدفین کے مراحل طے ہوتے ہی نصیر احمد نے اپنے بڑے بھائی غلام شبیرکے سامنے اپنے شبہات کااظہار کیا تو وہ بھی سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اس کا چھوٹا بھائی شکیل وقوعہ کے بعد سے غائب تھا۔

گھر میں کھسر پھسر اور تحقیق وتفتیش کا سلسلہ شروع ہوا تو دکھی خاندان پرایک بار پھر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، صورت حال واضح ہونا شروع ہوئی تو واقعات کے تانے بانے جڑتے چلے گئے اور بالآخر وقوعہ کے صرف دودن بعد ہی خاندان کے سربراہ غلام شبیر نے تھانہ کلورکوٹ پہنچ کر جوکہانی سنائی اس نے پانچ انسانی جانوں کے المناک قتل کے سب راز افشاںکر دیئے۔

اس کہانی کا آغاز کم وبیش آٹھ سال قبل اس وقت ہوا جب کاتانوالہ کے محمداکبرکے بیٹے نصیر احمد کا رشتہ مموں والا (تحصیل پپلاں) کے اللہ بخش کی بیٹی شرماں بی بی سے طے پایا اور وٹہ سٹہ کے علاقائی رواج کے مطابق نصیراحمدکی بہن سعدیہ بی بی کا رشتہ اللہ بخش کے بیٹے منیراحمد سے کردیاگیا۔ دونوں گھر ہنسی خوشی رہنے لگے اور معمولات زندگی روایتی انداز میں گزرتے چلے گئے۔ اس دوران نصیر احمد کے گھر میں پہلے ایک بیٹی اور بعد ازاں بیٹے کی صورت میںاولاد کی نعمت عطا ہوئی مگر دوسری طرف منیر احمد کے گھر میں اولاد نہ ہوسکی۔

علاج معالجہ اور تعویذگنڈا کرالینے کے باوجود بھی امید پیدا نہ ہونے پر حسب روایت قصوروار عورت ہی ٹھہری اور منیر احمد کے اپنے بیوی سعدیہ بی بی سے تعلقات بگڑنا شروع ہوگئے اور بالآخرایک سال قبل منیر احمد نے سعدیہ کو طلاق دیکر گھر بھجوا دیا۔ سعدیہ نے طلاق ملنے کے بعد پورے زور شور سے اپنی بھابھی شرماں بی بی کو گھر سے نکالنے اور طلاق دلوانے کی مہم شروع کردی۔ اس مہم میں اس کا چھوٹابھائی شکیل بھی اس کا ہمنوابن گیا اور یہ سلسلہ دن بدن زور پکڑتا گیا،مگر نصیر احمد نے ایسا کوئی بھی مطالبہ ماننے سے انکار کردیا،اس کا مؤقف بڑا ہی واضح تھا کہ میرے اپنی بیوی سے تعلقات ٹھیک ہیں اور میرے معصوم بچے ہیں، میں یہ ظلم نہیں کرسکتا،مگر خاندان کے اندر اس طلاق کے واقعہ سے پڑنے والی دراڑ اور خلیج بڑھتی چلی گئی۔

نصیر احمد سے اس کے بھائی اور بہن کا تنازع شدت اختیار کرتے اس نہج پر جا پہنچا کہ ایک ہی چولہے پر بیٹھ کر کھانے والے بھائیوں کے گھر علیحدہ ہوگئے، بول چال کا سلسلہ بھی متروک ہو گیا مگر اندر اندر ہی لاواپکتا چلاگیا، انتقام کی آگ میں سلگتی سعدیہ بی بی نے جہالت کے پروردہ شکیل کی معیت میں ایک خوفناک منصوبہ ترتیب دیا اور اس پر عمل درآمد کیلئے تیاری شروع کردی۔ منصوبہ کے مطابق شکیل نے قریبی دکان سے تین لیٹر پٹرول لیا اور بہن کے حوالے کیا ،اب دونوں مناسب وقت کا انتظار کرنے لگے۔

28 نومبر کی شام شرماں بی بی کھانا بنانے کے لئے کچن میں تھی کہ سعدیہ نے کچن میں داخل ہوتے ہی پٹرول کی بوتل کھول کرپٹرول بھابھی پر انڈیل دیا۔ صورت حال کا اندازہ کرتے ہی شرماں بی بی اپنی نند کے ساتھ الجھ پڑی، شور شرابہ سنتے ہی نصیر احمد کے دونوں بچے بھی دوسرے کمرے سے کچن میں آگئے ،اس دوران سعدیہ کو ماچس نکالنے اور دیاسلائی جلانے کا موقع مل گیا،جس نے یہ دیکھے سمجھے بغیر کہ وہ خود بھی آگ کی لپیٹ میں آسکتی ہے،دیا سلائی کو آگ دکھا دی ،جس نے آناًفاناًپورے کمرے کو لپیٹ میں لے لیا، آگ کے شعلوں نے شرماں بی بی اور اس کے معصوم بچوں کو ہی لپیٹ میں نہیں لیا بلکہ دوسروں کو موت کے منہ میں دھکیلنے والی سعدیہ بی بی بھی ان شعلوں سے خود کو نہ بچا سکی اور چند لمحوں میں ایک ہنستابستا گھرانا راکھ کا ڈھیر بن گیا۔

نصیر احمد کو واقعہ کی اطلاع ملی تو وہ بھاگم بھاگ گھر پہنچا مگر اس وقت تک اس کا سب کچھ لُٹ چکا تھا،فوری طور پر وہ سانحہ کی نوعیت اور غم کی شدت کے باعث اصل حقیقت کو نہ سمجھ سکا،مگر سلنڈر پھٹنے کی کہانی اس کے دماغ میں جگہ نہ پاسکی ،بعدازاں سلنڈر صحیح سالم مل جانے پر اس کے ذہن میں کئی اندیشے اور خیالات آنے لگے، اپنی بہن کی نعش اس کے شکوک وشبہات کو مزید تقویت دے رہی تھی ،تو چھوٹے بھائی شکیل کی عدم موجودگی واقعہ کی حقیقت کا راستہ وا کرتی نظر آرہی تھی، خاندان کے سربراہ اور اپنے بڑے بھائی غلام شبیر سے اپنے شبہات کا اظہار کیا تو اس نے بھی اس کے خیالات سے اتفاق کیااور یوں دونوں بھائی میّتوں کی تجہیزوتکفین کے ساتھ اس گنجلک کہانی کی گتھیاں سلجھانے میں لگ گئے ،اور بالآخر وقوعہ کے صرف دودن بعد ہی انہوں نے نہ صرف شکیل کو ڈھونڈ نکالا بلکہ اس سارے واقعہ کی تمام تر سازش سے مکمل آگاہی حاصل کرلی ،جس کے بعد باہمی مشورہ سے مقامی پولیس کو ساری صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے غلام شبیر نے اپنے چھوٹے بھائی شکیل کاسارا کچا چٹھا کھول دیا، جس پر مقامی پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے مقتولہ شرماں بی بی کے والد اللہ بخش کی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے ملزم شکیل کو گرفتارکر لیا، جس نے پولیس کے سامنے اقرار جرم کرلیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔