نند بھاوج کی نوک جھونک

بھابی سے مجھے کوئی شکایت نہیں ہے، البتہ چڑ ہے کہ وہ دقیانوسی خیالات کی حامل ہیں۔

ہونہہ، اونہہ، نہیں۔ اس کے سوا نجمہ کے منہ سے کچھ نکلتا ہی نہیں، جو خیر سے میری نند ہے۔ اب تک اس کے دو بچے ہوجانا چاہیے تھے، (میرا مطلب ہے شادی کے بعد) مگر یہ ہے کہ اب تک کنواری بیٹھی میرے سینے پر مونگ اور نہ جانے کیا کچھ دَل رہی ہے۔ میں جب بھی کوئی بات کہتی ہوں، اس کے منہ سے سوائے ''نہیں'' کے کچھ نکلتا ہی نہیں۔ جیسے دنیا کی ساری برائیاں مجھ میں اور ساری اچھائیاں اس کی ذات میں گھلی ہوئی ہیں۔ ذرا سی کوئی بات ہوتی ہے اور معاملہ آگے بڑھنے لگتا ہے تو امی (یعنی میری خوش دامن) بغیر کچھ سوچے سمجھے اس کا فیور کرنے لگتی ہیں۔ اس وقت میرا دل چاہتا ہے کہ انھیں خشک دامن کا خطاب دوں۔

نجمہ کا خیال ہے کہ وہ الٹرا ماڈرن اور روشن خیال ہے۔ چوٹی گوندھے اور دوپٹا سر پہ رکھے بغیر گھر سے باہر نکلنا روشن خیالی ہے تو میں اس سے باز آئی۔ میرے والدین نے اس کی تربیت ہی نہیں دی۔ وہ خیر سے انٹر ہے تو میں بھی کم نہیں، دس جماعت پاس ہوں۔ امی کہتی تھیں (میری امی) کہ لاکھ پڑھ لکھ لو، آخر میں باورچی خانہ پڑھنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر بن جاؤ یا کمپیوٹر آپریٹر، کھانا پکانا اور بچے تو پالنا پڑیں گے ہی۔ وہ منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی کے چند جملے گٹر بٹر کر لیتی ہے تو میں بھی اردو اخبار میں بچوں کا صفحہ پڑھ ہی لیتی ہوں۔ ''بخار جہاں'' ہمارے گھر پابندی سے آتا تھا اور میں ''ہزاروں عورتیں، ایک ہی کہانی'' شوق سے پڑھتی تھی۔

اپنے کپڑے دھونے کے ساتھ اس کے بھی دھو دوں، تو ''میری اچھی بھابی'' کے سوا اس کے منہ سے کچھ نکلتا ہی نہیں۔ ورنہ پھر روئے زمین پر مجھ سے برا کوئی ہے ہی نہیں۔ اپنے بھیا کے کان میں مکھی کی طرح بھیں بھیں کرتی رہتی ہے۔ وہ بھی اس کا پورا خیال رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں بن باپ کی بچی ہے۔ میں بھی پریشان رہتی ہوں کہ نیا باپ تو اب آنہیں سکتا۔ باپ بن کر میں ہی اس کا خیال رکھوں۔

اس پر ہمہ وقت جلدی سوار رہتی ہے۔ صبح کالج جارہی ہوتی ہیں شہزادی صاحبہ، تو جلدی ہوتی ہے۔ پراٹھا منہ میں جا رہا ہے تو چائے ڈائننگ ٹیبل پر گر رہی ہے۔ جیسے تیسے کرکے ناشتا ہوتا ہے، پھر کالج کو روانگی۔ جب دوپہر کو گھر میں داخل ہوتی ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ''بھابی جلدی سے کھانا دے دو، بڑی بھوک لگی ہے۔''

رات کے کھانے کے وقت البتہ شہزادی صاحبہ کو فرصت ہی فرصت ہوتی ہے، اس لیے کہ کوئی کام ہی نہیں ہوتا اور مزاحیہ ڈراما دیکھا جارہا ہوتا ہے۔ منتظر وہ اس کی ہوتی ہیں کہ جب ڈراما دیکھ چکیں تو میں ٹیبل پر کھانا لگاؤں، مگر میں اپنے میاں کو کھانا دینے کے بعد جاکر اپنی خواب گاہ میں بند ہوجاتی ہوں، ورنہ شہزادی صاحبہ کے مطالبات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ ''بھابی ذرا ایک کپ چائے بنا دینا۔'' چائے بنا کر اطمینان کا سانس لیتی ہوں تو نیا حکم نامہ ہوا کے دوش پر لہراتا ہوا سماعت سے ٹکراتا ہے ''بھابی کالج کے ڈریس پر ذرا استری کردینا۔'' اس لفظ ذرا سے مجھے چڑ ہے، جب کہ ذراسے مخاطبین کی مراد ہوتی ہے کہ چھوٹا سا کام ہے، گھبرانے کی کوئی بات نہیں منٹوں میں ہوجائے گا۔


اس کی بے ہودہ اور نامعقولانہ باتیں اور رویہ میرے لیے ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے، اس لیے میں نے اسے لائن سے لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ میں نے ایک روز اس سے کہا کہ کیا تم نے کمپیوٹر پر بلیو وہیل چیلنج کھیلا ہے؟ اس نے نفی میں جواب دیا تو میں نے اسے بتایا کہ اس کھیل کی کافی شہرت ہے اور اس سے دماغ تیز ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اس نے بلیو وہیل چیلنج کھیلنا شروع کردیا ہے۔ آپ سے کیا پردہ؟ اس کا انجام تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ اپنی کلائی کی رگ کاٹ لینا یا کسی اونچی سی جگہ سے چھلانگ لگا کر اپنی زندگی ختم کردینا۔

٭٭٭

جب سے گھر میں آئی ہیں، سب ان کے گرویدہ ہوگئے ہیں۔ آخر مجھ میں کیا برائی ہے؟ کھانا پکانا میں نے سیکھا نہیں۔ اس لیے کہ مجھے ہوٹلنگ پسند ہے۔ میں نے امی سے کہہ دیا ہے کہ شادی سے پہلے جو انٹرویو ہوتا ہے اس میں صاحبزادے سے پوچھ لیجیے گا کہ وہ ان کی دختر نیک اختر کو بڑے ہوٹلوں میں (ذرا چھوٹے بھی چل جائیں گے) کھانا کھلا سکتا ہے یا نہیں؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہو تو کہہ دیجیے گا کہ ''یہ شادی ہرگز نہیں ہوسکتی'' یہ نہ دیکھیے گا کہ وہ کتنا معقول یا نامعقول؟ اس کی معقولیت کا پیمانہ ہوٹلنگ ہونا چاہیے۔

میں سرتاپا ''اچھی'' ہوں، اچھا کھانا کھاتی ہوں، نئے فیشن کے اچھے کپڑے پہنتی ہوں، اچھے انگریزی ناول پڑھتی ہوں اور اچھی انگریزی فلمیں دیکھتی ہوں۔ (تو پھر گھر والے مجھے برا کیوں سمجھتے ہیں؟) بس ''ذرا'' رات گئے فلمیں دیکھتی ہوں، اس لیے میری صبح ''ذرا'' دیر سے ہوتی ہے۔ کپڑے تو جلدی سے پہن لیتی ہوں البتہ بال سنوارنے میں ''ذرا'' دیر ہو ہی جاتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ناشتا ''ذرا'' جلدی کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کھا کیا رہی ہوں؟

بھابی سے مجھے کوئی شکایت نہیں ہے، البتہ چڑ ہے کہ وہ دقیانوسی خیالات کی حامل ہیں۔ نیا زمانہ اور نئے خیالات سے انھیں بغض ہے۔ وہ طرز نو سے دور بھاگتی اور طرز کہن کو اپناتی ہیں۔ یعنی مولانا حالی کی تعلیمات سے دور بھاگتی ہیں۔ اگر غسل کرنے کے بعد بالوں میں چوٹی نہ گوندھی جائے اور انھیں سوکھنے دیا جائے تو کیا حرج ہے؟ ان کا خیال ہے کہ جن عاشق ہوجاتے ہیں (جہاں عورتیں سن باتھ کرتی ہیں وہاں جن عشق کیوں نہیں لڑاتے؟) لڑکوں کو دیکھ کر میرا جی بھی چاہتا ہے کہ سگریٹ پیوں، اگر اتفاق سے غسل خانے میں پی لوں تو ایک قیامت مچ جاتی ہے اور سب کو بو آنے لگتی ہے۔ سب میری طرف انگلیاں اٹھانا شروع کر دیتے ہیں، حالانکہ میں اچھی طرح سے جانتی ہوں کہ بھائی جان تمباکو نوش ہیں۔ میں نے فلموں میں دیکھا ہے کہ مغرب میں عورتیں ڈرنک کرتی ہیں۔

جی چاہتا ہے کہ یہاں سے بھاگ کر کہیں دور چلی جاؤں اور زاہد کے ساتھ ساری زندگی گزار دوں۔ ہمارے گھر کے ایک طرف سمندر آکر لگتا ہو اور دوسری جانب سوائے اچھے ہوٹلوں کے کچھ نہ ہو۔ میںکام چور نہیں ہوں، البتہ ہانڈی میں چمچہ چلانا اچھا نہیں لگتا۔ بھابی کون سی کام کاجو ہیں، اگر موقع ملے تو سارا ہفتہ ''بخار دنیا'' کا مطالعہ کرنے میں گزار دیں۔ اتنی ''پڑھاکو'' ہیں کہ ہفتے کے بجائے تین دن میں ہی رسالہ ختم کرکے رکھ دیتی ہیں۔ اس کے بعد سچی اور پاکیزہ کہانیوں کا نمبر آجاتا ہے (جو جھوٹ سے لبریز ہوتی ہیں) اس کے بعد بھی وقت بچ جائے تو رومانی ناولوں کی باری آجاتی ہے۔ رفیعہ بٹ، بی آر خاتون اور کملا کنول جیسی مصنفات پر ٹوٹ پڑتی ہیں، جو آفت جاں سے کم نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ انھیں پڑھ پڑھ ہی ان کا کام تمام ہوجائے گا۔
Load Next Story