جرمن عدالت میں افغان متاثرین کا33ملین یوروہرجانے کا دعویٰ

2009میں جرمن کمانڈکے حکم پرایک حملے میں137شہری ہلاک ہوئے تھے.


AFP March 19, 2013
وزیردفاع مستعفی ہوگئے تھے،چانسلرانجیلا کوانکوائری کمیٹی کاسامناکرناپڑاتھا. فوٹو: فائل

جرمنی کی ایک عدالت بدھ سے ہرجانے کی ایک خطیر رقم کے مقدمے کی سماعت کرے گی۔

مقدمہ افغانستان میں ایک خونی ہوائی حملے میں ہلاک شدگان کے لواحقین نے دائر کیا ہے، حملے کا حکم نیٹو کی جرمن کمانڈ نے ستمبر2009 میں دیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق شمالی افغانستان کے شہرقندوز میں 2فیول ٹینکرز پر بمباری کی گئی جنھیں شرپسند چراکر لے جارہے تھے۔

درجنوں افراد کے ہلاک وزخمی ہونے کاسبب بننے والے اس واقعے کے خلاف جرمنی میں شدید غم وغصہ پایا جاتا تھا اور ایک سیاسی اسکینڈل کھڑا ہوگیا تھا۔ جرمن پارلیمنٹ نے اس واقعے کو جنگ عظیم دوم کے بعد سنجیدہ ترین واقعہ قرار دیاتھا جس میں جرمنی ملوث تھا۔ اس مقدمے میں 79خاندانوں نے 3.3ملین یورو کا دعویٰ کیا ہے۔



عدالت ابتدائی طور پر 2بیٹے گنوانے والے باپ اور بیوہ ہونے والی، 6بچوں کی ماں کے بالترتیب 40ہزار اور 50ہزاریورو کے دعووں کی سماعت کریگی۔ بدھ کی سماعت میں دعوے داروں اور گواہوں کو نہیں بلایا گیاہے۔ متاثرین کے وکیل، افغان نژاد جرمن کریم پوپل کا کہنا ہے کہ اس حملے میں13شہری مارے گئے تھے مگر جرمنی کا موقف ہے صرف 90افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔ کریم کے مطابق اس سفاکانہ جرم نے لاتعداد یتیموں اور بیواؤں سے ان کا کفیل چھین لیا اور انگنت ماؤں سے ان کے بچے ہمیشہ کے لیے جدا کردیے۔

جرمن کمانڈر کے اس حملے کا حکم دینے کے بعد اس وقت کے وزیردفاع کو استعفیٰ دینا پڑا تھا اور چانسلر انجیلامرکل پارلیمانی انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہوئی تھیں۔ واضح رہے کہ جرمنی امریکا اور برطانیہ کے بعد، نیٹو کی ایساف فورسز میں سب سے زیادہ تعداد میں فوجی موجودگی کا حامل ہے۔ جرمنی اس حملے کے متاثرہ خاندانوں کو پہلے ہی 4لاکھ 30ہزارڈالر ادا کرچکا ہے جسے وہ زرتلافی نہیں بلکہ انسانی بنیادوں پر مدد قراردیتاہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔