2018 سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کا سال۔ سیاسی قیادت کی بے حسی
آج جب ہم نئے سال میں داخل ہو رہے ہیں ہماری سیاسی قیادت پاکستان کو درپیش چیلنجز سے بے نیاز نظر آرہی ہے۔
لاہور:
2018 پاکستان کے لیے بہت سے چیلنجز لے کر آرہا ہے۔ ملک کو سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے، سیکیو رٹی چیلنجز کی بھی ہیں۔ معاشی چیلنجز بھی خطرناک ہیں۔ معاشرتی چینلجز بھی بہت زیادہ ہیں۔یوں یہ سال چینلنجز سے نمٹنے کا سال ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے ہماری سیاسی قیادت ان چینلنجز میں سے کسی ایک سے بھی نمٹنے کے لیے تیار نہیں۔ پتہ نہیں کیوں جب میں اپنی سیاسی قیادت کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے یہ ضرب المثل پاکستان پر فٹ نظر آتی ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ آج جب میرے ملک کو اپنی خود مختاری اور سیکیورٹی کے حوالے سے سنگین چیلنجز درپیش ہیں تو ہماری سیاسی قیادت بھی بس نیرو کی طرح بانسری ہی بجا رہی ہے۔
آج جب ہم نئے سال میں داخل ہو رہے ہیں ہماری سیاسی قیادت پاکستان کو درپیش چیلنجز سے بے نیاز نظر آرہی ہے۔کسی کو کوئی پرواہ نہیں کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کس نہج پر جا رہے ہیں۔ ٹرمپ کی زبان اور لہجہ روز بروز بدل رہا ہے۔ ہماری سیاسی قیادت کا رویہ یہ ہے کہ جیسے یہ اس کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ہماری سیاسی جماعتیں آپس کے جھگڑو ں میں ایسی الجھی ہوئی ہیں کہ انھیں ملک کو درپیش چیلنجز کی کوئی فکر نہیں ہے۔ یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ جب امریکا کی جانب سے پاکستان کے خلاف سخت بیانات د یے جاتے ہیں تو سیاسی قیادت ایسے چپ سادھ لیتی ہے جیسے یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔
امریکی بیانات کے جواب بھی ڈی جی آئی ایس پی آر کو دینے پڑتے ہیں۔یہ کام تو پاکستان کی سیاسی قیادت کا ہے۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سیاسی قیادت میں امریکا کو جواب دینے کی ہمت ہی نہیں۔ شاید یہ الیکشن کا سال ہے اور کوئی بھی اس موقع پر امریکا کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ ہماری سیاسی قیادت کو اب بھی یہ گمان ہے کہ اسلام آباد کے اقتدار کا راستہ واشگٹن سے ہی ہو کر گزرتا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنی حالیہ پریس بریفنگ میں امریکا کے ساتھ بگڑتے تعلقات اور ملک کو درپیش خدشات پر تفصیل سے بات کی ۔ لیکن اس پر کسی نے توجہ نہیں دی اور ایک سوال کے جواب میں جب ضمنی طور پر ایک سیاستدان کے ایک بیان پر رد عمل دیا گیا تو اس پر طوفان مچا دیا گیا ہے۔ اس ردعمل کو ہی ہیڈلائن بنا دیا گیا۔ سب ہی ا س پر بات کرنے لگ گئے جیسے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ رد عمل ہی تھا۔ امریکا سے تعلقات کو سب بھول گئے۔ رد الفساد کی کامیابیوں کو بھی سب بھول گئے۔ ملک کے سیکیورٹی چیلنجز کو سب بھول گئے۔ اس قدر بے نیازی اور اس قدر بے حسی کے ساتھ ہم کیسے چل سکتے ہیں۔
پتہ نہیں مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ ہماری فوج کو جس قدر مزاحمت کا سامنا بیرونی قوتوں سے ہے اس سے زیادہ مزاحمت کا سامنا ملک کے اندر سیاسی قیادت سے بھی ہے۔ اقتدار کی ہوس میں اندھی یہ سیاسی قیادت اپنے اقتدار کو ملکی سلامتی سے اہم سمجھتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ فوج کے حلیف کیوں نہیں۔ ملک کے سیکیورٹی معاملات پرفوج کے ہم قدم کیوں نہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ ہماری سیاسی قیادت ہر وقت اپنے اقتدار کے لیے بیرونی قوتوں کو یہ یقین دلواتی رہتی ہے کہ اگر انھیں موقع دے دیا جائے تو وہ پاکستان میں ان کے مفادات کا تحفظ کریں گے۔ بیرونی قوتوں کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار کے حصول کی جدو جہد کرنیو الے ملک کے سیکیورٹی چینلجز پر خاموش نہ رہیں تو کیا کریں۔ چپ رہنا ان کی مجبوری ہے۔ نیرو کی طرح بانسری بجانا بھی ان کی مجبوری ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ نہ تو ریاض پہنچنے والے پاکستان کے لیے کچھ مانگنے گئے ہیں اور نہ ہی ماڈل ٹاؤن میں سر جوڑ کر بیٹھنے والوں کو ملک کے سیکیورٹی چیلنجز سے کوئی سروکار نہیں۔ آپ دیکھیں گھنٹوں جاری رہنے و الی آل پارٹیز کانفرنس میں بھی امریکا کے بدلتے رویہ پر کوئی بات نہیں کی گئی تھی۔ پاکستان کو نوٹس دینے کی مذمت ہی کر دی جاتی۔ نہیں یہ تو ہماری سیاسی قیادت کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ سب کی جائیدادیں باہر ہیں۔ خیر سے میزبان ہی بیرونی شہریت کے حامل تھے۔ یہ طوطے کیسے امریکا کے خلاف بول سکتے ہیں۔ امریکا ان کے ویزہ نہ بند کر دے گا۔
کیا فوج اکیلی ہی ان سب چیلنجز کا مقابلہ کرے گی۔ ملک کے اندر اورملک کے باہر سے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا بھی اکیلے ہی جواب دے گی۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات کو ہی دیکھ لیں۔امریکا تو دور کی بات ہے ہماری سیاسی قیادت افغانستان کے ساتھ درپیش مسائل پر بھی بات کرنے کو تیار نہیں۔ بھارت کی جانب سے افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے پر بھی بات کرنے کو تیار نہیں۔ مغرب میں بلوچستان کے خلاف جاری پاکستان مخالف گیم کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ فوج کے سپہ سالار نے ملک کو درپیش چیلنجز پر پارلیمنٹ میں جا کرسینیٹ کو بریفنگ دی ہے۔ سخت سے سخت سوالات کے جواب بھی دیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ فوج کے سپہ سالار کی جانب سے پاکستان کے سیاستدانوں کو پاکستان کو درپیش چیلنجز سے آگاہ کرنے اور حالات کی سنگینی سے آگاہ کرنے کی ایک شعوری کوشش تھی۔ وہ شاید پاکستان کے سیاست دانوں اور اراکین پارلیمنٹ کو خواب غفلت سے جگانے کی ایک کوشش تھی۔ لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ آرمی چیف کی تمام کوشش بھینس کے آگے بین بجانے والی ضرب المثل جیسی ہی ثابت ہوئی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آرمی چیف کی سینیٹ کو بریفنگ ا ور ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ کے بعد پاکستان کی سیاسی قیادت کو پاکستان کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے تھا۔ پاکستان کے لیے سوچنا چاہیے تھا۔ پوری دنیا کو یہ پیغام دینا چاہیے تھا، ہم ایک ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ میں تواس بات پر بھی حیران ہوں کہ ایک طرف امریکا پاکستان کو مسلسل دھمکیاں دے رہا ہے دوسری طرف امریکا نے پاکستان میں امریکا کے حوالے سے رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے بھی ایک مہم شروع کر رکھی ہے۔ وہ پاکستان کی عوام کو یہ بھی باور کرا رہا ہے کہ وہ پاکستان کی عوام کا دوست ہے اور دوسری طرف پاکستان پر حملہ کرنے اور سبق سکھانے کی بھی بات کر رہا ہے۔ دشمن کی اس دوہری حکمت عملی کا جواب دینے کے لیے پاکستان کی سیاسی قیادت کو آگے آنا ہو گا۔ ان کی خاموشی مجرمانہ ہے۔
2018میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ پاکستان کے سیکیورٹی چیلنجز ہیں۔ یہ سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کا سال ہے ۔ اور یہ تب تک ممکن نہیں جب تک ہماری سیاسی قیادت ہماری عسکری قیادت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چلے گی۔ آواز سے آواز نہیں ملائے گی۔ سیاسی قیادت کی یہ بے حسی ملک کے لیے خطرنا ک ہے۔ ہم سب کام فوج پر چھوڑ دیتے ہیں۔ جب فوج سب کام کرتی ہے توکہتے ہیں سارے کام تو فوج ہی کرتی ہے ہم کیا کریں۔ فوج کرے تو بھی بری نہ کرے تو بھی بری۔ 2018میں ایسے مزید نہیں چل سکے گا۔