عروسی ملبوسات ماضی کے مقابلے میں جدت اختیار کر چکے
اب دلہنیں سرخ کے علاوہ دیگر رنگوں کے ملبوسات بھی پسند کرتی ہیں۔
شادی ہر لڑکی کی زندگی کا سب سے خاص اور یادگار ترین موقع ہوتا ہے۔ اس کا حق ہے کہ ان لمحات میں وہ سب سے منفرد نظر آئے۔
ان لمحات کو یادگار بنانے میں اور دلہن کو انفرادیت بخشنے میں کلیدی کردار عروسی لباس کا ہوتا ہے۔ اسی لیے عروسی لباس کی تیاری اور انتخاب پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ اسی لیے دلہن، اس کی سہیلیاں اور رشتے دار خواتین دن رات بازاروں کے چکر لگاتی ہیں اور عروسی لباس کو سب سے منفرد بنانے کے لیے فکر مند دکھائی دیتی ہیں۔
ایک زمانے میں عروسی ملبوسات سلوائے جاتے تھے، مگر اب تیارشدہ ملبوسات کی مانگ ہے۔ سلائی کڑھائی کے جھنجھٹ میں پڑنے سے بچنے کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق تیارشدہ عروسی ملبوسات خرید لیے جاتے ہیں۔ مگر ملبوسات کے انتخاب میں کئی کئی روز لگ جاتے ہیں۔ شہر بھر کے بازار اور مارکیٹیں کھنگالی جاتی ہیں، تب کہیں جاکر دلہن کو لباس پسند آتا ہے۔
گرمی سردی کے عام ملبوسات کی طرح عروسی ملبوسات بنانے والے ڈیزائنرز بھی میدان میں اترآئے ہیں۔ ان کی جانب سے برائیڈل ویک کا انعقاد بھی ہوتا رہتا ہے جن میں نت نئے عروسی ملبوسات کی نمائش کی جاتی ہے۔ ڈیزائنرز ہی کی وجہ سے اب عروسی ملبوسات کی وضع قطع اور بناوٹ میں جدت آگئی ہے۔
آج کا برائیڈل ویئر ماضی کے مقابلے میں خاصی جدت اختیار کر چکا ہے ۔ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں ۔ آج جوفیشن ہے یقینا دس برس بعد اس کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ ہر بیس سال کے بعد فیشن خود کو دہراتا ہے ۔ جہاں تک ماضی کے عروسی ملبوسات تو ستّر کی دہائی میں روایتی ملبوسات پہنے جاتے تھے اور ایک ہی رنگ یعنی سرخ ہوتا تھا اور اس پر نقشی گوٹے اور ستارے کا کام ہوتا تھا۔
اسّی کی دہائی میں ماڈرن ازم پاکستان میں متعارف ہونے لگا تھا تو اس وقت فیشن میں تھوڑی تبدیلی آئی اور عروسی جوڑے پر مختلف رنگوں کی پٹیاں سجائی جانے لگیں۔ نقشہ ، دبکہ ،ریشم اور شیشے کا کام شروع ہواجو بے حد مقبول ہو ا۔ اگلی دہائی میں خواتین فیشن کے معاملے میں زیادہ باشعور ہو گئی تھیں ۔اس وقت دبکہ ، ستارہ ،وسلی (باریک تار کا کام )کلر کنٹراس اور مختلف قسم کے زیورات کے موتیوں کی مدد سے جوڑے تیار کرنا شروع کیے گئے ۔ اسی زمانے میں نگینہ جسے ـ اسٹون کہتے ہیں وہ بھی عروسی ملبوسات میں استعمال ہونے لگا۔
اکیسویں صدی کے آغاز سے اب تک دلہن کے لباس میں بہت جدت آگئی ہے ۔آج موتی، دھاگہ ، دبکہ ، کت دانہ ،ستارا اور اسٹونز اور دیگر چیزوں کی مدد سے دلہن کا عروسی جوڑا تیار کیا جاتا ہے ۔ آج کل دو طرح کے عروسی ملبوسات بہت مقبول ہیں ،ایک روایتی اور دوسرا گاؤنز اور میکسی وغیرہ ۔ روایتی عروسی لباس عموماً بارات والے دن جب کہ میکسی اور گاؤن ولیمے پہ زیب تن کیا جاتا ہے ۔آج سے تیس سال قبل دلہن کے لباس میں نقشی ، دبکہ اور بڑے موتیوں جب کہ دوپٹے کے چاروں اطراف بھرا ہوا کام کیا جاتا تھا۔
یہی کام آج کل پھر سے عروسی جوڑے کی زینت بنا ہوا ہے۔جہاں تک برائیڈل ویئر میں رنگوں کی بات ہے تو پہلے وقتوںمیں عروسی جوڑا صرف سرخ رنگ کا ہی تیا ر ہوتا تھا ،اب تو بارات کے دن سرخ ، فیروزی، سبزی مائل، گلابی،نیلا اور دوسرے رنگوں کے ملبوسات بنائے جاتے ہیں ۔ لمبی اور چھوٹی دونوں طرح کی قمیصوں کا فیشن چل رہا ہے ۔قمیصوں کے علاوہ بڑے گھیرکے فراک ،کونوں والی قمیصیں اور اسکرٹس بھی لہنگوں کے ساتھ پسند کی جاتی ہیں ۔ دو سے زائد شوخ رنگوں کے ساتھ ڈیزائیننگ کی جا رہی ہے۔
اس کے علاوہ قمیصوں پر جالی کے ٹکڑے بطور ڈیزائن بھی استعمال کیے جارہے ہیں جو کہ بہت دل کش معلوم ہوتے ہیں۔ قمیصوں کے پینل بھی قدرے کم اور ساٹن سلک کی پٹیاں قمیصوں کے گھیر ، گلے، بازو اور دوپٹے کے کناروں پر لگائی جاتی ہیں ۔مختلف رنگوں میں دستیاب یہ پٹیاں جوڑے پر لگانے کے بعد کسی قسم کے کام کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن یہ پٹیاں صرف وہ لوگ لگاتے ہیں جن کا بجٹ کم ہوتا ہے ۔آج کل ماضی کا فیشن پھر لوٹ آیا ہے جالی کے دوپٹے ، غرارے ، چھوٹی اور لمبی قمیصیں حتٰی کہ مون لائٹ بھی فیشن میں خاصا مقبول ہے ۔
مغربی عروسی جوڑا یعنی میکسی سے ملتی جلتی قمیصوں کا استعمال لہنگوں شراروں کے ساتھ بلا شبہ ایک نیا تجربہ ہے۔ لہنگے اور غراروں کے ساتھ لمبے گاؤن اور اس پر خوب صورت کام بھی خواتین میں بے حد پسند کیا جارہا ہے ۔
رنگ کوئی بھی ہو عروسی جوڑے میں سب ہی رنگ اچھے لگتے ہیں لیکن لڑکیاں اس موقع پر سرخ رنگ کو آج بھی دیگر رنگوں پر ترجیح دیتی ہیں۔ سرخ رنگ میں دوسرے رنگ ملا کر جوڑے کی خوب صورتی کو مزید بڑھا یا جا سکتا ہے۔ لیکن لباس کی زمین لال رنگ ہی کی ہونی چاہیے کیوںکہ لال رنگ خوشی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور جب ایک لڑکی اپنی نئی زندگی شروع کرتی ہے تو اسے ایسے ہی رنگوں کا انتخاب کرنا چاہیے جو خوشی کا احساس بخشتے ہوں۔
ان لمحات کو یادگار بنانے میں اور دلہن کو انفرادیت بخشنے میں کلیدی کردار عروسی لباس کا ہوتا ہے۔ اسی لیے عروسی لباس کی تیاری اور انتخاب پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ اسی لیے دلہن، اس کی سہیلیاں اور رشتے دار خواتین دن رات بازاروں کے چکر لگاتی ہیں اور عروسی لباس کو سب سے منفرد بنانے کے لیے فکر مند دکھائی دیتی ہیں۔
ایک زمانے میں عروسی ملبوسات سلوائے جاتے تھے، مگر اب تیارشدہ ملبوسات کی مانگ ہے۔ سلائی کڑھائی کے جھنجھٹ میں پڑنے سے بچنے کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق تیارشدہ عروسی ملبوسات خرید لیے جاتے ہیں۔ مگر ملبوسات کے انتخاب میں کئی کئی روز لگ جاتے ہیں۔ شہر بھر کے بازار اور مارکیٹیں کھنگالی جاتی ہیں، تب کہیں جاکر دلہن کو لباس پسند آتا ہے۔
گرمی سردی کے عام ملبوسات کی طرح عروسی ملبوسات بنانے والے ڈیزائنرز بھی میدان میں اترآئے ہیں۔ ان کی جانب سے برائیڈل ویک کا انعقاد بھی ہوتا رہتا ہے جن میں نت نئے عروسی ملبوسات کی نمائش کی جاتی ہے۔ ڈیزائنرز ہی کی وجہ سے اب عروسی ملبوسات کی وضع قطع اور بناوٹ میں جدت آگئی ہے۔
آج کا برائیڈل ویئر ماضی کے مقابلے میں خاصی جدت اختیار کر چکا ہے ۔ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں ۔ آج جوفیشن ہے یقینا دس برس بعد اس کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ ہر بیس سال کے بعد فیشن خود کو دہراتا ہے ۔ جہاں تک ماضی کے عروسی ملبوسات تو ستّر کی دہائی میں روایتی ملبوسات پہنے جاتے تھے اور ایک ہی رنگ یعنی سرخ ہوتا تھا اور اس پر نقشی گوٹے اور ستارے کا کام ہوتا تھا۔
اسّی کی دہائی میں ماڈرن ازم پاکستان میں متعارف ہونے لگا تھا تو اس وقت فیشن میں تھوڑی تبدیلی آئی اور عروسی جوڑے پر مختلف رنگوں کی پٹیاں سجائی جانے لگیں۔ نقشہ ، دبکہ ،ریشم اور شیشے کا کام شروع ہواجو بے حد مقبول ہو ا۔ اگلی دہائی میں خواتین فیشن کے معاملے میں زیادہ باشعور ہو گئی تھیں ۔اس وقت دبکہ ، ستارہ ،وسلی (باریک تار کا کام )کلر کنٹراس اور مختلف قسم کے زیورات کے موتیوں کی مدد سے جوڑے تیار کرنا شروع کیے گئے ۔ اسی زمانے میں نگینہ جسے ـ اسٹون کہتے ہیں وہ بھی عروسی ملبوسات میں استعمال ہونے لگا۔
اکیسویں صدی کے آغاز سے اب تک دلہن کے لباس میں بہت جدت آگئی ہے ۔آج موتی، دھاگہ ، دبکہ ، کت دانہ ،ستارا اور اسٹونز اور دیگر چیزوں کی مدد سے دلہن کا عروسی جوڑا تیار کیا جاتا ہے ۔ آج کل دو طرح کے عروسی ملبوسات بہت مقبول ہیں ،ایک روایتی اور دوسرا گاؤنز اور میکسی وغیرہ ۔ روایتی عروسی لباس عموماً بارات والے دن جب کہ میکسی اور گاؤن ولیمے پہ زیب تن کیا جاتا ہے ۔آج سے تیس سال قبل دلہن کے لباس میں نقشی ، دبکہ اور بڑے موتیوں جب کہ دوپٹے کے چاروں اطراف بھرا ہوا کام کیا جاتا تھا۔
یہی کام آج کل پھر سے عروسی جوڑے کی زینت بنا ہوا ہے۔جہاں تک برائیڈل ویئر میں رنگوں کی بات ہے تو پہلے وقتوںمیں عروسی جوڑا صرف سرخ رنگ کا ہی تیا ر ہوتا تھا ،اب تو بارات کے دن سرخ ، فیروزی، سبزی مائل، گلابی،نیلا اور دوسرے رنگوں کے ملبوسات بنائے جاتے ہیں ۔ لمبی اور چھوٹی دونوں طرح کی قمیصوں کا فیشن چل رہا ہے ۔قمیصوں کے علاوہ بڑے گھیرکے فراک ،کونوں والی قمیصیں اور اسکرٹس بھی لہنگوں کے ساتھ پسند کی جاتی ہیں ۔ دو سے زائد شوخ رنگوں کے ساتھ ڈیزائیننگ کی جا رہی ہے۔
اس کے علاوہ قمیصوں پر جالی کے ٹکڑے بطور ڈیزائن بھی استعمال کیے جارہے ہیں جو کہ بہت دل کش معلوم ہوتے ہیں۔ قمیصوں کے پینل بھی قدرے کم اور ساٹن سلک کی پٹیاں قمیصوں کے گھیر ، گلے، بازو اور دوپٹے کے کناروں پر لگائی جاتی ہیں ۔مختلف رنگوں میں دستیاب یہ پٹیاں جوڑے پر لگانے کے بعد کسی قسم کے کام کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن یہ پٹیاں صرف وہ لوگ لگاتے ہیں جن کا بجٹ کم ہوتا ہے ۔آج کل ماضی کا فیشن پھر لوٹ آیا ہے جالی کے دوپٹے ، غرارے ، چھوٹی اور لمبی قمیصیں حتٰی کہ مون لائٹ بھی فیشن میں خاصا مقبول ہے ۔
مغربی عروسی جوڑا یعنی میکسی سے ملتی جلتی قمیصوں کا استعمال لہنگوں شراروں کے ساتھ بلا شبہ ایک نیا تجربہ ہے۔ لہنگے اور غراروں کے ساتھ لمبے گاؤن اور اس پر خوب صورت کام بھی خواتین میں بے حد پسند کیا جارہا ہے ۔
رنگ کوئی بھی ہو عروسی جوڑے میں سب ہی رنگ اچھے لگتے ہیں لیکن لڑکیاں اس موقع پر سرخ رنگ کو آج بھی دیگر رنگوں پر ترجیح دیتی ہیں۔ سرخ رنگ میں دوسرے رنگ ملا کر جوڑے کی خوب صورتی کو مزید بڑھا یا جا سکتا ہے۔ لیکن لباس کی زمین لال رنگ ہی کی ہونی چاہیے کیوںکہ لال رنگ خوشی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور جب ایک لڑکی اپنی نئی زندگی شروع کرتی ہے تو اسے ایسے ہی رنگوں کا انتخاب کرنا چاہیے جو خوشی کا احساس بخشتے ہوں۔