2017 میں عدلیہ سیاسی مقدمات کی وجہ سے تنقید کی زدمیں رہی

نواز شریف کو نااہل قرار دینے پر نشانہ بنایا گیا اور اعلیٰ عدلیہ کونقصان ہوا۔

جج صاحبان پراہم مقدمات میں اندرونی دباؤ نہیں تھا اورکئی فیصلوں میں اختلاف رائے بھی سامنے آیا۔فوٹو: فائل

سپریم کورٹ رخصت ہونے والے سال 2017 میںاہم مقدمات خاص طورپرپاناما گیٹ کی وجہ سے توجہ کا مرکزرہی تاہم سیاست سے متعلق معاملات آنے کی وجہ سے عدالت عظمیٰ کو نقصان بھی ہوا اورتنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا۔

بدقسمتی سے سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں حل کرنے کے بجائے ارکان پارلیمنٹ نے ایک دوسرے کیخلاف عدالت عظمیٰ کارخ کیا جس وجہ سے عدلیہ کوعجیب صورتحال سے دوچارہونا پڑا۔ عدالت کے فیصلے سے متاثرلوگوں نے پراپیگنڈہ مہم شروع کی کہ اعلیٰ عدلیہ اورعسکری اسٹیبلشمنٹ کاگٹھ جوڑ ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ عدلیہ نے پہلی بارشریف خاندان کیخلاف فیصلہ دیا ہے جب کہ ماضی میں وہ عدالتوں سے ریلیف لیتے آئے ہیں۔


چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے حالیہ بیان میں اس تاثرکورد کیا ہے کہ عدلیہ سول حکومت کوہٹانے کا حصہ نہیں ہے لیکن اعلیٰ عدلیہ کویہ ثابت کرنے کیلیے کہ قانون سے بالاکوئی نہیںکاچیلنج درپیش ہے۔اعلیٰ عدلیہ کی کارکردگی کواس کے فیصلوں سے جانچا جا سکتا ہے ،اگر افراد اور اداروں کیخلاف فیصلے بلاتفریق کیے گئے توکہا جاسکتاہے کہ عدلیہ کی کارکردگی بہترین رہی۔

اس بات میں کوئی شک نہیںکہ سابق چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری کے دورکے برعکس، جج صاحبان پراہم مقدمات میں اندرونی دباؤ نہیں تھا اورکئی فیصلوں میں اختلاف رائے بھی سامنے آیا۔

 
Load Next Story