لانڈری سروس سے کپڑے دھلوانے کا رجحان بڑھ گیا

شہری پانی کی کمی اور بجلی مہنگی ہونے کے باعث دھوبیوں سے کپڑے دھلوا رہے ہیں۔

ڈرائی کلینرز اور دھوبی پانی کی قلت پر اکثر ٹینکرز خریدتے ہیں، لانڈری سروس مالک۔ فوٹو: ایکسپریس

کراچی میں پانی کی کمی اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے جہاں شہریوں کی پریشانی میں اضافہ ہوا وہیں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کے لیے یہ دونوں مشکلات روزگار کا ذریعہ بن رہی ہیں کپڑوں کی دھلائی (لانڈری سروس) کا روایتی پیشہ وقت کے ساتھ دم توڑ رہا تھا گھروں میں جدید واشنگ مشینوں کی آمد کے ساتھ ہی دھوبیوں کی آمدن کم ہورہی تھی تاہم کراچی کی آبادی کے لحاظ سے پانی کی طلب پوری نہ کیے جانے سے اب شہری دھوبیوں سے کپڑے دھلوانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔


شہر میں بڑھتے آبادی کے دباؤ سے بھی لانڈری سروس کا کام بڑھ رہا ہے کراچی میں لیاری ندی کے ساتھ ساتھ قدیم دھوبی گھاٹ تھے جہاں روایتی طریقے سے کپڑے دھوئے جاتے تھے تاہم لیاری ایکسپریس وے کی تعمیر اور ایس تھری منصوبے کی وجہ سے لیاری ندی کے ساتھ دھوبی گھاٹ بھی اجڑ رہا ہے اب دھوبی گھاٹ کی جگہ بڑی مشینوں پر مشتمل لانڈریوں نے لے لی ہے زیادہ تر بڑی لانڈریاں جیکب لائن، لائنز ایریا اور گارڈن میں لگائی گئی ہیں شہر بھر سے دھوبی گھروں اور لانڈری کی دکانوں سے کپڑے جمع کرکے ان لانڈری فیکٹریوں میں لاتے ہیں جبکہ ہوٹلوں، اسپتالوں، اور ہاسٹلوں کے علاوہ صدر سے گزرنے والے عام شہری بھی ان لانڈری فیکٹریوں سے کپڑے دھلواتے ہیں۔

جیکب لائن میں پارکنگ پلازہ کے عقب میں لانڈری سروس کے مالک محمد رشید نے بتایا کہ شہر میں پانی کی کمی کی وجہ سے ان کے کاروبار میں اضافہ ہوا ہے زیادہ تر ڈیفنس، کلفٹن، گلستان جوہر اور گلشن اقبال کے علاقوں سے دھلائی کے لیے کپڑے لائے جاتے ہیں ملک کے مختلف حصوں سے آکر صدر کے علاقے میں کاروبار کرنے والے تاجر اور ٹھیلے والے بھی کپڑوں کی دھلائی کے لیے ان لانڈریوں کی خدمات سے استفادہ کرتے ہیں شہریوں کی بڑی تعداد بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے بھی ان لانڈریوں سے کپڑے دھلوا رہی ہے تاہم دھلائی کے لیے استعمال ہونے والے ڈٹرجنٹس اور کیمکل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے دھلائی کی لاگت بھی بڑھ رہی ہے۔

محمد رشید کے مطابق ڈرائی کلینرز اور دھوبیوں کو بھی پانی کی کمی کا سامنا ہے جو اکثر اوقات پانی کے ٹینکرز خرید کرپوری کی جاتی ہے ٹینکر مہنگے ہونے کی وجہ سے اب کنویں کھود لیے گئے ہیں جن سے پانی حاصل کیا جاتا ہے عموماً فی کپڑا 10روپے دھلائی وصول کی جاتی ہے جبکہ لانڈری کی دکانوں کے زیادہ تعداد میںکپڑوں کی دھلائی سیکڑہ کے حساب سے کی جاتی ہے۔

لانڈری مالکان کا کہنا ہے کہ شہر میں لانڈری کی بڑی دکانیں گاہکوں سے منہ مانگے دام وصول کرنے کے باوجود دھوبیوں کو دھلائی کی انتہائی کم اجرت ادا کرتے ہیں کپڑوں کی دھلائی کا کام انتہائی مشقت طلب ہے گرمی سردی رات دن یہ کام بلارکاوٹ جاری رہتا ہے اور تعطیل کے دنوں میں بھی کام کیا جاتا ہے۔

دھوبیوں کا کہنا ہے کہ لاگت کم کرنے کے لیے کیمیکل یا ڈٹرجنٹس کا استعمال کم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ کپڑوں کی دھلائی کا کام ایمانداری سے کیا جاتا ہے اگر لاگت کم کرنے یا اخراجات بچانے کی کوشش کی تو کپڑے صاف نہیں دھلیں گے کپڑوں کی دھلائی کے لیے صابن اور ڈٹرجنٹ کے ساتھ سوڈے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے تاہم گزشتہ چند سال کے دوران سوڈے کی بوری کی قیمت 500 روپے سے بڑھ کر 2300 روپے تک پہنچ چکی ہے اسی طرح بلیچ، صابن، ہائیڈروجن اور دیگر کیمیکل کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے۔

پوش علاقوں میں آن لائن کمپنیاں دھلائی کی سہولت فراہم کرنے لگیں

کپڑوں کی دھلائی (ڈرائی کلیننگ) کا کام بھی وقت کے ساتھ جدت اختیار کررہا ہے کراچی کے پوش علاقوں کے لیے آن لائن کمپنیاں دھلائی (ڈرائی کلیننگ) کی سہولت فراہم کررہی ہیں ایسی ہی ایک کمپنی لانڈری ایکسپریس ڈاٹ پی کے کے ذریعے کپڑوں کی دھلائی کی تیز رفتار سہولت فراہم کررہی ہے اس سروس سے استفادہ کرنے کے لیے کمپنی کی ویب سائٹ یا موبائل نمبر کے ذریعے آرڈر بک کرایا جاتا ہے کمپنی کی گاڑی گھروں سے آکر کپڑے وصول کرتی ہے جو 24 گھنٹوں میں دھلائی کے بعد گھروں پر بھیج دیے جاتے ہیں۔


آن لائن کمپنیوں کے اضافی اخراجات کی وجہ سے دھلائی کے نرخ بھی لانڈری کی عام دکانوں سے 100 فیصد زیادہ ہیں کراچی میں کلینری کے نام سے متعارف کرائی جانے والی پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل لانڈری بھی جدت کی مثال ہے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے اس منفرد آئیڈیے کو بے حد پذیرائی مل رہی ہے اور یہ سروس معیار کے لحاظ سے بھی صارفین میں تیزی سے مقبول ہورہی ہے اس سروس کے ذریعے گھروں سے دھلائی کے کپڑے جمع کر کے 24 گھنٹوں کی سروس کے ذریعے واپس گھروں پر بھیجے جاتے ہیں اس کے علاوہ گھروں میں مختلف اقسام کی اشیا اور فیبرک کی دھلائی کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔

ایک کپڑادھلائی کے دوران 25 مختلف مراحل سے گزرتا ہے

کپڑوں کی دھلائی کے دوران ہر کپڑا 25 مختلف مراحل سے گزرتا ہے کپڑے جمع کرنے کے بعد ان کی گٹھڑیاں کھول کر درجہ بندی کی جاتی ہے گاہک کے نام اور شناخت کے لیے کپڑوں پر نشانات لگائے جاتے ہیں کپڑوں کو رنگ اور سائز کے حساب سے بھی الگ الگ کیا جاتا ہے جس کے بعد انھیں لانڈری مشین میں ایک گھنٹے تک ڈرم میں گھمایا جاتا ہے، سفید کپڑوں میں بلیچ لگا کر سفیدی کو نکھارا جاتا ہے لانڈری کی بڑی مشینوں کی گنجائش 70سے 150 کپڑوں تک ہوتی ہے تاہم گنجائش سے 20سے 30 کپڑے کم ہی ڈالے جاتے ہیں تاکہ کپڑوں کو اچھی طرح گھومنے اور رگڑ کھانے کی جگہ مل سکے کپڑوں کی شناخت کے لیے دھوبی اپنا کوڈ استعمال کرتے ہیں گاہک کے نام کے پہلے اور آخری حروف کو کپڑوں پر درج کردیا جاتا ہے اس کے علاوہ نکتوں اور لکیروں کی مدد سے بھی گاہک کی شناخت درج کی جاتی ہے۔

دھلے ہوئے کپڑوں کو گھروں میں خواتین استری کرتی ہیں

دھلے ہوئے کپڑوں کو گھروں میں استری (پریس) کرکے شکنیں دور کی جاتی ہیں لانڈری مشینیں چلانے والوں کے علاوہ دیگر گھروں میں بھی پریس کی جاتی ہے جس میں خاندان کے تمام افراد حصہ لیتے ہیں گھروں میں پریس کے لیے زیادہ تر گیس سے چلنے والی استریاں استعمال کی جاتی ہیں کچھ عرصہ پیشتر کوئلے کی استریاں بھی استعمال کی جاتی تھیں تاہم کوئلے کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے ان کا استعمال متروک ہو چکا ہے پریس کا کام زیادہ تر خواتین کرتی ہیں اس طرح خواتین کو گھر بیٹھے روزگار مل جاتا ہے۔

دھوبیوں کی نئی نسل تعلیم حاصل کر کے بھی بے روزگار ہے

دھلائی کے کپڑوں کو جمع کرنے اور ڈیلیوری کے لیے زیادہ تر گدھا گاڑیاں استعمال کی جاتی ہیں دھوبیوں کی نئی نسل تعلیم حاصل کرکے ملازمت کرنے کو ترجیح دے رہی ہے یہی وجہ ہے کہ دھلائی کی فیکٹریوں میں زیادہ تر عمر رسیدہ اور ادھیڑ عمر افراد کام کرتے نظر آتے ہیں دھوبیوں کے مطابق ان کے بچے گریجویٹ اور انٹر پاس ہیں لیکن انھیں بھی بیروزگاری کا سامنا ہے جو بچے پڑھ لکھ جاتے ہیں وہ یہ کام کرنے اور گدھا گاڑی چلانے کو معیوب سمجھتے ہیں اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو تعلیم دلوانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا نقصان ہے کیونکہ تعلیم یافتہ بچے نہ تو یہ کام کرتے ہیں اور نہ ہی انھیں مناسب ملازمتیں مل رہی ہیں۔

لانڈری فیکٹریوں کے بل زیادہ آنے پر گیس کے کنکشن ختم کرا دیے

لانڈری مشینوں کے ذریعے کپڑے دھونے والوں کو سوئی گیس کمپنی سے بہت شکایات ہیں دھوبیوں کے مطابق سوئی گیس کے بل بہت زیادہ آنے کی وجہ سے اکثر لانڈری فیکٹریوں میں گیس کے کنکشن ختم کرا دیے گئے ہیں۔ سوئی گیس کا عملہ تعاون نہیں کرتا واجبات کی ادائیگی کے لیے اقساط نہیں کی جاتیں اگر اقساط کی جائیں تو سابقہ واجبات بھی ادا ہو سکتے ہیں لیکن فی کنکشن کم از کم 5 ہزار روپے مہینے کا بل ناقابل برداشت ہے گیس استعمال نہ کرنے پر مجبور ہیں جس سے مشکلات اور لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
Load Next Story