منصف خان ایک سپاہی کی دلدوز داستان
اچانک ایک دھماکے دار آواز آئی جس پر چونک کر سپاہی منصف خان کی بیوی نے آنکھیں کھولیں تو جیسے دل پھٹ گیا اور سانس رک گئی
ایک سپاہی کی داستان جو دشمن سے بچ گیا مگر اپنوں کےہاتھوں مارا گیا۔
تصویر: انٹرنیٹ
1971 کی پاک بھارت جنگ کی بات ہے کہ کشمیر میں ہمارے آبائی علاقے میں جہاں بہت سے لوگ پاک فوج سے وابستہ ہونے کی وجہ سے جنگ میں شریک تھے وہیں منصف خان بھی اپنی بیوی اور 4 بچوں کو اللہ اور اس کے بعد اپنے بھائیوں کے سپرد کرکے جنگ پر روانہ ہوگیا۔
یہ جنگ کسی کی زندگی تو کسی کی موت تھی۔ دونوں طرف کے فوجی اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ آئے تھے، شاید کبھی دوبارہ ملنے کی امید دل میں لیے۔ ایک مدھم سی امید تھی جو ان کے دلوں میں دھڑکن بن کر چلتی تھی۔ یہ لڑائی کئی دنوں چلنے کے بعد پاکستان کی جانب سے ہتھیار ڈالے جانے کے اعلان پر پاک فوج کے جوانوں کو بھارت کی جانب سے جنگی قیدی بناکر مختلف کیمپوں میں رکھا گیا۔
ان قیدیوں میں منصف خان بھی تھا۔ اسے یہ ہار قبول نہ ہوئی۔ دوران قید دشمن فوج کے ظلم جب برداشت سے باہر ہوئے تو کسی طرح اپنے 6 دیگر ساتھیوں کے ہمراہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
مجھ پہ جو گزری وہ میں ہی جانتا ہوں
دنیا تو لطف لے گی میرے واقعات کا
مہینوں جنگلوں، ویرانوں، چٹانوں اور صحراؤں میں یہ لوگ بھوک پیاس سے نڈھال اپنی جان بچائے بھٹکتے رہے۔ کبھی گھاس، کبھی گندا پانی بھی نظر آتا تو شکر پڑھتے۔ ٹھٹھرتی سردی، عذاب ہوتی گرمی، ان کے پیروں کے رِستے چھالے، ان کے جسموں پر جھولتی چند دھجیاں، بیماریوں اور زخموں سے چور جسم سے بہتا خون بھی ان کے جذبوں کو روک نہ سکا۔
اپنے وطن، اپنی ماں، اپنے چاہنے والوں تک پہنچنے کی جستجو جو اب سال سے بھی زیادہ طویل ہوچکی تھی، دل ناتواں اور لاغر جسم طویل مدتوں کی مسافتوں سے لڑتے لڑتے اب تھک چکا تھا؛ اور تین سپاہی زندگی سے ہار بیٹھے۔
اب منصف خان اپنے دو ساتھیوں کی ہمت بڑھاتا منزل کی تلاش میں سرگرداں رہا۔ راتوں کی تاریکی، دن کے اجالوں، مشکل ہوتی مسافتوں میں بھی اس کے بچوں کی یادیں، اس کی بیوی کا اداس چہرہ، مایوس نظریں، سوکھے ہونٹ اور کانپتے ہاتھ جو الوداع بھی کہہ نہ سکے تھے۔ ان سب کا خیال آتے ہی وہ تڑپ اٹھتا تو کبھی خود کو اس خیال سے بہلانے کی کوشش کرتا کہ اب تک تو اسے شہید سمجھ کر بھول چکے ہوں گے۔ شاید اس کی بیوی نے مجبور ہوکر کہیں اور شادی کرلی ہو۔ اسی کشمکش میں تقریباً 18 ماہ بعد منصف خان ساتھیوں سمیت اپنی منزل پر پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔
شام کے پہر چھپتا چھپاتا وہ اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا تھا۔ ضبط کے بندھن ٹوٹنے کو تھے کہ آیا کوئی اس کا منتظر بھی تھا؟
ایک لمحے میں سمٹ آیا ہے صدیوں کا سفر
زندگی تیز بہت تیز چلی ہو جیسے
اس کی قسمت کا فیصلہ صرف ایک قدم کی دوری پر تھا۔ اس نے لرزتے ہاتھوں سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ کوئی جواب نہ پاکر اس کی ہمت جواب دے گئی، وہ دروازہ پکڑ کر دہلیز پر بیٹھ گیا۔ طویل مدت کے طویل سفر اور عذاب ہوتی ہر گھڑی اب منزل پر آکر ٹوٹ سی گئی تھی۔
''کون؟''
گھر کے اندر سے اپنی بیوی کی آواز سن کر منصف خان کے وجود میں اک سرد لہر سی دوڑ گئی اور دل زور سے دھڑکا۔ اس کی آواز و الفاظ کہیں کھو کر رہ گئے۔ ''مم م میں!'' مدھم سی آواز میں منصف خان نے جواب دیا۔ کچھ ہی لمحوں میں دروازہ کھلا۔ اس کی نظریں دروازے پر لگی، اپنی زندگی اور موت کے فیصلے کی منتظر تھیں۔
گہرے اندھیرے میں سے ایک سایہ لالٹین تھامے نمودار ہوا اور پوچھا کہ کون ہو تم؟
منصف خان جیسے گونگا ہوگیا تھا۔ اِک ٹُک اسے دیکھتا ہی گیا۔ ہوبہو ویسی ہی تھی مگر شاید غم و فکر نے اسے اندر سے کھالیا تھا، ''مم م م میں... منصف خان!''
وہ چونک گئی۔ روشنی قریب کرکے دیکھا مگر اس کی یہ حالت تھی کہ خود بھی خود کو پہچان نہ پاتا۔ مگر اس کی بیوی اپنے ہمسفر کی آواز کیسے نہ پہچانتی۔ عرصے کی قربانیوں، آزمائشوں اور تکلیفوں کو سہتے، بے یقینی کے عذاب کے بعد آج ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے تھے اور دونوں رو پڑے۔
ان کے ہنسنے رونے کی آوازیں سن کر منصف خان کے دو بڑے بچے بھی آگئے۔ انہیں یوں محسوس ہوا جیسے کھوئی ہوئی جنت مل گئی ہو۔ اپنے والد کو زندہ پاکر انہیں ایک انمول سکون و تحفظ کا احساس ہوا۔ وہ گزشتہ برسوں کے دوران رشتوں کی اصلیت بھگت چکے تھے۔ زندگی نے بہت کچھ پڑھا دیا تھا۔ ننھے ہاتھوں سے جب چچاؤں کی زمینوں پر بھوکے پیٹ مشقت کرتے تو باپ بہت یاد آتا۔ جب کبھی تھک کر چور ہوتے تو والد کی گود رُلا دیتی۔ وہ مٹھایاں، وہ کھانے نظروں کے سامنے گھوم جاتے تھے جب بچا ہوا کھانا سامنے رکھا جاتا۔ اپنے محبت کرنے والے باپ کو زندہ دیکھ کر بچے دیوانہ وار باپ سے لپٹ گئے۔
آج کی شام عید کی سی تھی۔ منصف خان گھر میں داخل ہوا تو خوشگوار حیرت ہوئی کہ اس کے کمرے میں سب کچھ ویسا ہی تھا جیسے وہ ابھی کہیں اٹھ کر گیا ہو۔ یہ سب دیکھ کر خوشی اس کی آنکھوں میں ٹمٹما رہی تھی۔ میز پر پڑے شیشے میں خود کو دیکھ کر چونک گیا۔ اندر کو دھنسی آنکھیں، کمر تک لمبے الجھے، گرد سے اٹے بال۔ ناف تک پہنچتی داڑھی مونچھ، کپڑوں کے نام پر جسم پر لہراتی کچھ دھجیاں جو خون اور مٹی سے اٹی تھیں۔ اس کے پیروں کے ناخن تک کھوچکے تھے۔ پیروں کے چھالوں سے رِستا خون مٹی کے فرش پر نقش چھوڑ رہا تھا۔ ہاتھوں پر آبلے، زخموں سے چور جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ معلوم ہوتا تھا۔
منصف خان کو بستر پر بٹھا کر اس کے بچے مرہم پٹی کا بندوبست کرنے لگے اور بیوی اس کےلیے کھانا پانی لے آئی۔ خوشی سے جھومتے کہا کہ آپ کھانا کھالیں، میں تب تک آپ کے تینوں بھائیوں اور اماں کو یہ بڑی خوشی کی خبر دے کر آتی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ باہر جانے کےلیے پلٹی ہی تھی کہ منصف خان نے اسے ہاتھ پکڑ کر روک لیا کہ سب مجھے اس حالت میں دیکھ کر ڈر جائیں گے اور بعد میں مذاق بنائیں گے۔ پہلے حلیہ درست کرلوں پھر بتا دینا۔
ذرا فاصلے پر بنی کھڑکی کے پیچھے کھڑا منصف خان کا بڑا بھائی دلاور خان یہ سب دیکھ رہا تھا جو منصف خان کے گھر سے آتی آوازوں کے تعاقب میں شک کرتا ہوا جاسوسی کرنے پہنچا تھا۔ اپنی بھابی کو ایک اجنبی کے ساتھ یوں بے تکلف ہوتا دیکھ کر وہ اندھا ہوگیا۔ دلاور خان غصے میں پاگل ہوگیا اور دوڑ کر اپنے گھر سے بندوق اٹھا کر لے آیا، پھر دوبارہ کھڑکی کے پیچھے چھپ کر دیکھنے لگا۔ منصف خان نے چائے کا کپ بیوی کو تھمایا تو اس کے زخمی ہاتھوں کو دیکھ کر وہ رو پڑی کہ کیا کچھ سہنا پڑا آپ کو ہمارے لیے اور بےاختیار اس کے زخمی ہاتھوں کو آنکھوں سے لگالیا۔ منصف خان مسکرایا اور کہا کہ اب مجھے منزل مل گئی ہے، زخم بھی بھر جائیں گے۔
اچانک ایک دھماکے دار آواز آئی جس پر چونک کر منصف خان کی بیوی نے آنکھیں کھولیں تو جیسے دل پھٹ گیا اور سانس رک گئی۔ اس کے ہاتھ سے منصف خان کا ہاتھ چھوٹ گیا جس کے سر پہ لگی گولی سے بہتا خون صدیوں کی مسافتوں کی دھول سے اٹے زخموں کو رنگنے لگا تھا۔ منصف خان بستر پر گر پڑا... کبھی نہ اٹھنے کےلیے۔ اس کی بیوی نے نظر دوڑائی تو وہ گولی کھڑکی سے آئی تھی جہاں دلاور خان فاتحانہ مسکراہٹ لیے کھڑا تھا۔ فرعونیت بھرے انداز سے کمرے میں آتے کہنے لگا کہ تجھے بھی اسی دن ماردینا چاہیے تھا جس دن منصف خان گیا تھا کہ یوں راتوں کو ہماری عزتوں پر کالک تو نہ ملتی۔
منصف خان کی بیوی زور سے چلائی: منصف خان!
اسی لمحے چاروں بچے منصف خان کی طرف دوڑے۔ دلاور خان ایک دم ساکت ہوگیا۔ پھٹی آنکھوں سے جب اس اجنبی کے چہرے کو غور سے دیکھا جس پر خون بہہ رہا تھا۔ وہی خون جو اس کی رگوں میں دوڑ رہا تھا۔ دلاور خان اپنے منوں وزنی ہوتے قدموں سے منصف خان کی جانب بڑھا۔
منصف خان! جو عرصے کے سخت سفر کے بعد زندہ اپنوں تک پہنچا تھا، اور انہی اپنوں نے اسے موت کی سزا سنادی تھی۔
منصف خان کی بیوی یہ سب دیکھ کر اپنے حواس کھو بیٹھی اور کوما میں چلی گئی۔ دلاور خان پھر یوں دھاڑیں مار کر رویا کہ پورا گاؤں گونج اٹھا۔
اس نے منصف خان کے ہر زخم کو چوما، اس کے پیروں کے زخموں کو چاٹا، معافیاں مانگی، واسطے دیئے، اس کے پیروں سے لپٹا مگر منصف خان اب طویل سفر پر جا چکا تھا... کبھی واپس نہ آنے کےلیے۔
دلاور خان خود کو معاف نہ کرسکا اور پاگل ہوگیا۔ مگر خود کو بھول کر بھی منصف خان کو نہ بھول سکا اور اس گاؤں میں پھر دلاور خان کی ہی آوازیں گونجتی تھیں... منصف خان!... منصف خان!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔