محنت کشوں کا استحصال کب رکے گا
کم ازکم لیبر لاز کے مطابق اگر سندھ کے لیبر منسٹر اس پر عمل کروائیں تو مزدوروں کو جینے کا حق مل سکتا ہے۔
ویسے تو دنیا بھر میں کون سا ایسا ملک ، خطہ، علا قہ یا صوبہ ہے جہاں محنت کشوں کا استحصال نہیں ہورہا ہے ۔ ان کی محنت سے پیداوارکو حاصل کرکے ارب پتی سر ما یہ دار کھرب پتی بن جا تے ہیں ۔ دنیا میں اس وقت مزدوروں اورسرمایہ داروں کے ما بین خلیج سب سے زیادہ جنو بی افریقہ کے بعد چین میںہے مگر مزدوروں کا استحصال سب سے زیادہ نائیجیریا، بنگلہ دیش ، بھارت اور پا کستان میں ہے۔
یہاں کھلم کھلا حکومت کی جانب سے اعلان شدہ مزدوروں کو دی جانیوالی سہولتوں پر نوے فیصد عمل ہی نہیں ہوتا ۔کراچی میں قائم بعض گار منٹ فیکٹریوں میں چار سے آٹھ ہزار مزدور کام کر تے ہیں یعنی کل پچھتر ہزار مزدورکام کرتے ہیں۔ یہاں کے مزدوروں کو بارہ گھنٹے اوور ٹائمزکیساتھ رات تین بجے تک بشمول اتوارکو بھی کام کرنے پر مجبور ہیں۔
مالکان اربوں ڈالرکی کما ئی کرتے ہیںجب کہ ایک ہنر مند مزدورکو صرف پندرہ ہزار رو پے تنخواہ دی جاتی ہے جب کہ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ غیر ہنر مند مزدوروں کوکم ازکم پندرہ ہزار روپے تنخواہ دی جائے گی ۔اس لحاظ سے ہنرمند مزدوروں کی تنخواہ بیس سے پچیس ہزار روپے ہونا لا زمی ہے ۔ یہ کمپنیاں مزدوروں کوکم تنخواہ دیکر خود زیادہ کما کر مزدوروں کی محنت کو لوٹتی ہیں ۔اس طرح سے مزدوروں کا شدید استحصال ہوتا ہے ۔ ان فیکٹیوں میں کام کرنیوالے مزدوروں کی اکثریت کے پاس سوشل سکیورٹی کا کارڈ نہیں ہوتا ، ای او بی آئی سے رجسٹرڈ نہیں ہیں،اپائنٹمنٹ لیٹر نہیں دیا جاتا ، ہر ماہ سوگھنٹے سے زیادہ اوورٹائم کرنا پڑ تی ہے۔
باون گھنٹے ڈبل اور اس سے زیادہ اوور ٹائم کرنے پر سنگل رقم ادا کی جاتی ہے ،اتوارکو چھٹی تو درکنار بلکہ بارہ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے ، اگر کوئی اتوار کوکام نہ کرنا چاہے تو اسے غیرقانونی اقدام کہہ کر من مانی اور جھو ٹے الزام لگا کر ملازمت سے ہی نکال باہرکردیا جاتا ہے اور حیرت یہ کہ انھیں واجبات بھی ادا نہیں کرتے ، اگر مزدور ان غیر قانونی اقدام کے خلاف عدالت میں جانا چاہے تو ان کے پاس ملا زمت کا کوئی ثبوت ہی نہیں ہوتا کہ کس طرح شکایت درج کرائیں ۔ اس لیے کہ جب اپائنٹمنٹ لیٹر ہی نہیں دیا جاتا ہے تو ثبوت کہاں مزدور پیش کریگا ؟ پھر عدالتی حکام مزدوروں کی شکا یت سننے کے بجائے ما لکان سے ہی مل جاتے ہیں اور رشوت خوری کے ذریعے مزدوروں کے خلاف ہی فیصلہ دیتے ہیں۔
حال ہی میں 18 مزدوروں کو ملازمت سے نکال دیا گیا تھا پھر 9ٖؒ مزدوروں کو بحال توکردیا لیکن انھیں ابھی تک کو ئی واجبات ادا نہیں کی گئی۔ مالکان نے گٹھ جوڑ کر کے دو دو جعلی یونینیں بنوا رکھی ہیں اور ان کا رجسٹریشن بھی کروایا ہوا ہے ۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ان جعلی یونینوں کے بارے میں کسی مزدورکو پتہ ہی نہیں۔ سندھ کے لیبر منسٹر نا صر شاہ کو چاہیے کہ وہ اس طرف خصوصی توجہ دیں ، اس لیے بھی کہ پی پی پی کی حکو مت اپنے آپ کو مزدوروں کی خیر خواہ کہتی ہے ۔ان خطرناک حالات کی جانب توجہ دینا وزیر محنت کا اولین فرض بنتا ہے۔
ادارہ کے مالکان سے باز پرس ہونی چاہیے۔ ایک بار لڑکیوں نے اپنے ساتھ ہونے والی بدتمیزی پر انتظامیہ کو درخواست دی۔ انتظا میہ نے ایک انکوائری کمیٹی بنائی جس میں مزدوروں کا کوئی نمایندہ ہی نہیں تھا اور فیصلہ کچھ نہیں ہوا اور نہ ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔ نومبرکے آخری ہفتے میں چند مزدوروں نے یونین بنانے کی کوشش کی تو انھیں ملازمت سے نکال باہرکردیا گیا ۔ چار پانچ سال کی توکوئی بات ہی نہیں تیرہ تیرہ سال سے کام کرنے والوں کو بھی مستقل ہونے کی سند یعنی اپائنٹمنٹ لیٹر نہیں دیا جاتا۔
مزدوروں سے ساڑھے آٹھ بجے صبح سے رات آٹھ بجے تک یعنی بارہ گھنٹے کام لیا جا تا ہے ۔ مہینے میں پندرہ دن رات کی ڈیوٹی کروائی جاتی ہے اورطوالت صبح تین بجے تک ہوجاتی ہے، اگرکوئی کہے کہ ہمارے گھر میں کوئی بیماری ہے یا بچوں کے مسائل ہیں یا رات کو ڈیوٹی کرنے کی ہمت نہیں ہورہی ہے تو اسے ملا زمت سے ہی نکال دیا جا تا ہے ۔ یہاں اکثر فیکٹریوں میں سبھی کی تنخواہوں میں سے کچھ رقم کی کٹوتی کی جا تی ہے ، اگرکوئی پوچھے کہ ایسا کیوں کیا جارہا ہے توکوئی جواب نہیں دیا جا تا۔ واضح رہے کہ چار ماہ قبل تین مزدور وں کو یونین بنانے کی کوشش کرنے پر ملا زمت سے نکال دیا گیا ہے۔ یہ ہنر مند مزدور ہیں ، سپر وائزر ہیں اور مشین آپریٹر ہیں۔
ابھی یونین کی رکنیت کا فارم ہی بھرا تھا کہ انھیں فارغ کردیا گیا ، جب کہ یونین بنانا لیبر قوانین کے تحت ان کا عین قانونی حق ہے ۔ ملا زمین کو بر طرف کرنے میں جی ایم ، مینجر اور انچارج اختیارکل ہوتا ہے اور وہ جب ایچ آر والوں کو ریفرکرتا ہے تو وہ فورا اس پر عمل کر تے ہیں۔ایک مزدور جو سینے اور پیٹ پر اوزار لگنے سے شدید زخمی ہوگیا تھا اور آنتیں متاثرہوئی تھیں مگر انتظامیہ نے کوئی علاج نہیں کروایا ۔ اسے مزدور خود اسپتال لے گئے اور وہاں اس کا آ پریشن ہوا۔ ایک اور مزدور کا بازو ٹوٹ گیا۔
جب یہ مزدورعلاج ومعالجے کے بعد ٹھیک ہوکر فیکٹری واپس آئے تو انھیں ملازمت پر بحال کر نے سے انکارکردیا گیا۔ ان فیکٹریوں میں سالانہ چھٹی، اتفاقیہ چھٹی ، میڈیکل چھٹی ، اتوارکی چھٹی اور تہواروں کی چھٹیاں ناپید ہیں ۔ مزدوروں کی ان سنگین صورتحال کے مدنظر وزیرمحنت ، وزیراعلی سندھ اورگورنرکو فوری نوٹس لینے کی ضرورت ہے اور آئی ایل او اور پاکستانی لیبر لاز کے مطا بق مزدوروں کو تمام سہولتیں مہیا کرنا بے حد ضروری ہے۔
اس سرمایہ دارا نہ نظام میں رہتے ہوئے کم ازکم لیبر لاز کے مطابق اگر سندھ کے لیبر منسٹر اس پر عمل کروائیں تو مزدوروں کو جینے کا حق مل سکتا ہے ورنہ یہ ایک زندہ لاش ہی تصورکیے جائیں گے ۔ مزدوروں کے مسا ئل کے حل کے بغیر تمام ترقی نام نہاد ہیں اس لیے کہ مزدور ہی ملک کے تمام پیداوار کا داعی ہے ۔
یہاں کھلم کھلا حکومت کی جانب سے اعلان شدہ مزدوروں کو دی جانیوالی سہولتوں پر نوے فیصد عمل ہی نہیں ہوتا ۔کراچی میں قائم بعض گار منٹ فیکٹریوں میں چار سے آٹھ ہزار مزدور کام کر تے ہیں یعنی کل پچھتر ہزار مزدورکام کرتے ہیں۔ یہاں کے مزدوروں کو بارہ گھنٹے اوور ٹائمزکیساتھ رات تین بجے تک بشمول اتوارکو بھی کام کرنے پر مجبور ہیں۔
مالکان اربوں ڈالرکی کما ئی کرتے ہیںجب کہ ایک ہنر مند مزدورکو صرف پندرہ ہزار رو پے تنخواہ دی جاتی ہے جب کہ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ غیر ہنر مند مزدوروں کوکم ازکم پندرہ ہزار روپے تنخواہ دی جائے گی ۔اس لحاظ سے ہنرمند مزدوروں کی تنخواہ بیس سے پچیس ہزار روپے ہونا لا زمی ہے ۔ یہ کمپنیاں مزدوروں کوکم تنخواہ دیکر خود زیادہ کما کر مزدوروں کی محنت کو لوٹتی ہیں ۔اس طرح سے مزدوروں کا شدید استحصال ہوتا ہے ۔ ان فیکٹیوں میں کام کرنیوالے مزدوروں کی اکثریت کے پاس سوشل سکیورٹی کا کارڈ نہیں ہوتا ، ای او بی آئی سے رجسٹرڈ نہیں ہیں،اپائنٹمنٹ لیٹر نہیں دیا جاتا ، ہر ماہ سوگھنٹے سے زیادہ اوورٹائم کرنا پڑ تی ہے۔
باون گھنٹے ڈبل اور اس سے زیادہ اوور ٹائم کرنے پر سنگل رقم ادا کی جاتی ہے ،اتوارکو چھٹی تو درکنار بلکہ بارہ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے ، اگر کوئی اتوار کوکام نہ کرنا چاہے تو اسے غیرقانونی اقدام کہہ کر من مانی اور جھو ٹے الزام لگا کر ملازمت سے ہی نکال باہرکردیا جاتا ہے اور حیرت یہ کہ انھیں واجبات بھی ادا نہیں کرتے ، اگر مزدور ان غیر قانونی اقدام کے خلاف عدالت میں جانا چاہے تو ان کے پاس ملا زمت کا کوئی ثبوت ہی نہیں ہوتا کہ کس طرح شکایت درج کرائیں ۔ اس لیے کہ جب اپائنٹمنٹ لیٹر ہی نہیں دیا جاتا ہے تو ثبوت کہاں مزدور پیش کریگا ؟ پھر عدالتی حکام مزدوروں کی شکا یت سننے کے بجائے ما لکان سے ہی مل جاتے ہیں اور رشوت خوری کے ذریعے مزدوروں کے خلاف ہی فیصلہ دیتے ہیں۔
حال ہی میں 18 مزدوروں کو ملازمت سے نکال دیا گیا تھا پھر 9ٖؒ مزدوروں کو بحال توکردیا لیکن انھیں ابھی تک کو ئی واجبات ادا نہیں کی گئی۔ مالکان نے گٹھ جوڑ کر کے دو دو جعلی یونینیں بنوا رکھی ہیں اور ان کا رجسٹریشن بھی کروایا ہوا ہے ۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ان جعلی یونینوں کے بارے میں کسی مزدورکو پتہ ہی نہیں۔ سندھ کے لیبر منسٹر نا صر شاہ کو چاہیے کہ وہ اس طرف خصوصی توجہ دیں ، اس لیے بھی کہ پی پی پی کی حکو مت اپنے آپ کو مزدوروں کی خیر خواہ کہتی ہے ۔ان خطرناک حالات کی جانب توجہ دینا وزیر محنت کا اولین فرض بنتا ہے۔
ادارہ کے مالکان سے باز پرس ہونی چاہیے۔ ایک بار لڑکیوں نے اپنے ساتھ ہونے والی بدتمیزی پر انتظامیہ کو درخواست دی۔ انتظا میہ نے ایک انکوائری کمیٹی بنائی جس میں مزدوروں کا کوئی نمایندہ ہی نہیں تھا اور فیصلہ کچھ نہیں ہوا اور نہ ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔ نومبرکے آخری ہفتے میں چند مزدوروں نے یونین بنانے کی کوشش کی تو انھیں ملازمت سے نکال باہرکردیا گیا ۔ چار پانچ سال کی توکوئی بات ہی نہیں تیرہ تیرہ سال سے کام کرنے والوں کو بھی مستقل ہونے کی سند یعنی اپائنٹمنٹ لیٹر نہیں دیا جاتا۔
مزدوروں سے ساڑھے آٹھ بجے صبح سے رات آٹھ بجے تک یعنی بارہ گھنٹے کام لیا جا تا ہے ۔ مہینے میں پندرہ دن رات کی ڈیوٹی کروائی جاتی ہے اورطوالت صبح تین بجے تک ہوجاتی ہے، اگرکوئی کہے کہ ہمارے گھر میں کوئی بیماری ہے یا بچوں کے مسائل ہیں یا رات کو ڈیوٹی کرنے کی ہمت نہیں ہورہی ہے تو اسے ملا زمت سے ہی نکال دیا جا تا ہے ۔ یہاں اکثر فیکٹریوں میں سبھی کی تنخواہوں میں سے کچھ رقم کی کٹوتی کی جا تی ہے ، اگرکوئی پوچھے کہ ایسا کیوں کیا جارہا ہے توکوئی جواب نہیں دیا جا تا۔ واضح رہے کہ چار ماہ قبل تین مزدور وں کو یونین بنانے کی کوشش کرنے پر ملا زمت سے نکال دیا گیا ہے۔ یہ ہنر مند مزدور ہیں ، سپر وائزر ہیں اور مشین آپریٹر ہیں۔
ابھی یونین کی رکنیت کا فارم ہی بھرا تھا کہ انھیں فارغ کردیا گیا ، جب کہ یونین بنانا لیبر قوانین کے تحت ان کا عین قانونی حق ہے ۔ ملا زمین کو بر طرف کرنے میں جی ایم ، مینجر اور انچارج اختیارکل ہوتا ہے اور وہ جب ایچ آر والوں کو ریفرکرتا ہے تو وہ فورا اس پر عمل کر تے ہیں۔ایک مزدور جو سینے اور پیٹ پر اوزار لگنے سے شدید زخمی ہوگیا تھا اور آنتیں متاثرہوئی تھیں مگر انتظامیہ نے کوئی علاج نہیں کروایا ۔ اسے مزدور خود اسپتال لے گئے اور وہاں اس کا آ پریشن ہوا۔ ایک اور مزدور کا بازو ٹوٹ گیا۔
جب یہ مزدورعلاج ومعالجے کے بعد ٹھیک ہوکر فیکٹری واپس آئے تو انھیں ملازمت پر بحال کر نے سے انکارکردیا گیا۔ ان فیکٹریوں میں سالانہ چھٹی، اتفاقیہ چھٹی ، میڈیکل چھٹی ، اتوارکی چھٹی اور تہواروں کی چھٹیاں ناپید ہیں ۔ مزدوروں کی ان سنگین صورتحال کے مدنظر وزیرمحنت ، وزیراعلی سندھ اورگورنرکو فوری نوٹس لینے کی ضرورت ہے اور آئی ایل او اور پاکستانی لیبر لاز کے مطا بق مزدوروں کو تمام سہولتیں مہیا کرنا بے حد ضروری ہے۔
اس سرمایہ دارا نہ نظام میں رہتے ہوئے کم ازکم لیبر لاز کے مطابق اگر سندھ کے لیبر منسٹر اس پر عمل کروائیں تو مزدوروں کو جینے کا حق مل سکتا ہے ورنہ یہ ایک زندہ لاش ہی تصورکیے جائیں گے ۔ مزدوروں کے مسا ئل کے حل کے بغیر تمام ترقی نام نہاد ہیں اس لیے کہ مزدور ہی ملک کے تمام پیداوار کا داعی ہے ۔