گرتا ہوا تعلیمی معیار

ہمارے سماج کے ڈھائی کروڑ وہ بچے جو اسکول جانے کی عمر سے گزر رہے ہیں وہ اسکول نہیں جا رہے


ایم اسلم کھوکھر January 02, 2018

مجھے بلاشبہ اس شخص کی دماغی کیفیت پر ضرور شک ہوگا ، جو یہ دعویٰ کرے کہ کوئی بھی قوم بنا تعلیم حاصل کیے سماجی ترقی کے حصول میں کامیاب ہوسکتی ہے، کیونکہ یہ صد فیصد حقیقت ہے کہ کوئی بھی قوم تعلیم حاصل کیے بغیر سماجی ترقی کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔

یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ عصر حاضر میں دنیا بھر میں جو ترقی ہمیں نظر آتی ہے یا جس ترقی سے فی زمانہ دنیا بھر کے انسان مستفید ہو رہے ہیں یہ ترقی تمام تر تعلیم ہی کی مرہون منت ہے۔ بہرکیف اگر ہم ذکر کریں اپنے سماج میں تعلیمی معیار کا تو بہت سارے تلخ حقائق ہمارا منہ چڑھا رہے ہوں گے۔ اول تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی دور حکومت میں حصول تعلیم یا اپنے عوام کو تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے کی پوری طرح سے کوشش ہی نہیں کی۔

دوم تلخ حقیقت یہ ہے کہ ان 70 برسوں میں کسی بھی حکومت نے تعلیمی بجٹ تین فیصد بھی نہیں رکھا چنانچہ جو تعلیمی بجٹ سب سے زیادہ رکھا گیا وہ تعلیمی بجٹ تھا دو اعشاریہ چھ فیصد جب کہ عام طور پر تعلیمی بجٹ جو مختص کیا گیا ہے وہ ہے دو اعشاریہ دو فیصد۔ جب کہ کم سے کم جو تعلیمی بجٹ مختص کیا جاتا ہے وہ ہے ایک اعشاریہ چھ فیصد، جس میں سے اعشاریہ آٹھ فیصد اساتذہ کی اجرت پر صرف ہوجاتا ہے بقیہ اعشاریہ آٹھ فیصد بجٹ کہاں خرچ ہوتا ہے؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔

سوم تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ حکومتی خزانے سے اجرت پانے والے ایسے اساتذہ بھی کثیر تعداد میں ہیں جوکہ ملازم تو حکومت کے ہوتے ہیں مگر پورا دن وہ اساتذہ ڈیوٹی وڈیرے کی اوطاق پر دیتے ہیں۔ چہارم یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سندھ میں اسکولوں کی بھی کثرت سے یہ کیفیت ہے کہ ان اسکولوں میں بااثر وڈیرے کے جانور بندھے ہوتے ہیں۔ پنجم اس تلخ حقیقت سے بھی انحراف ممکن نہیں کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے گزشتہ 30 برسوں میں جو پرتشدد سیاسی حالات رہے وہ حصول تعلیم میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔

ہمارے سماج کے ڈھائی کروڑ وہ بچے جو اسکول جانے کی عمر سے گزر رہے ہیں وہ اسکول نہیں جا رہے اور وہ نونہال ورکشاپس میں یا دیگر امور میں محنت و مشقت کر رہے ہیں۔ ان بچوں کے اسکول نہ جانے کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ ہے سماج میں پھیلی مفلسی دیگر وجوہات میں ایک یہ بھی ہے کہ وڈیرہ شاہی راج کے کرتا دھرتا کا تعلیم سے بے زاری کا اظہار روز روشن کی مانند عیاں ہے یہاں میں ایک ایسے سردارکی مثال دینا چاہوں گا جس نے اپنے قبیلے کے ایک نوجوان کی جان فقط اس لیے لے لی تھی کہ اس نوجوان نے اس قبائلی سردار کی حکم عدولی کرتے ہوئے اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے پر اصرار کیا تھا جب کہ اس قبائلی سردار نے اس نوجوان کو حکم دیا تھا کہ حصول تعلیم کا شوق ترک کرکے میرے پالتو جانوروں کو چارہ ڈالا کرو اور بات اس نوجوان کی موت پر ختم نہ ہوئی تھی بلکہ اپنے بیٹے کی موت پر احتجاج کرنے پر اس نوجوان کے ضعیف والد کی چھڑی کی ضرب سے ایک آنکھ کی بینائی سے بھی محروم کردیا تھا گوکہ ہمہ وقت ہاتھ میں چھڑی رکھنے والا وہ قبائلی سردار اب اس دنیا سے اٹھ چکا ہے میں اس قبائلی سردار کا نام بھی تحریر کرسکتا ہوں لیکن پھر بات ذاتیات تک چلی جائے گی یہ قبائلی سردار و وڈیرے لوگوں کے حصول تعلیم کے لیے اس لیے رکاوٹ ہیں کہ تعلیم یافتہ باشعور عوام ان لوگوں کی وڈیرا شاہی برداشت نہیں کریں گے اور باشعور عوام وڈیرا شاہی راج زمین بوس کرکے حقیقی عوامی جمہوریت قائم کرلیں گے۔

ہفتم تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے سماج کے لوگوں کا تعلیمی معیار خطے میں تمام ممالک سے پست ہے اور امکان یہ ہے گزشتہ چالیس برس سے خانہ جنگی و بیرونی جارحیت کا شکار ملک افغانستان بھی تعلیمی میدان میں ہم سے آگے نکلنے کی پوزیشن میں آچکا ہے۔ ہشتم اس تلخ حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے سماج کا تعلیمی معیار جوکہ 58 فیصد بتایا جاتا تھا وہ معیار تعلیم گر کر 56 فیصد پر آچکا ہے یعنی دو فیصد گر گیا ہے۔

نہم اس تلخ حقیقت سے بھی انحراف ممکن نہیں کہ حکومتی سطح پر جو تعلیمی اہداف 2015 کے لیے متعین کیے گئے تھے ان تعلیمی اہداف کے لیے 2012 میں ہی اعتراف کرلیا گیا تھا کہ 2015 کے لیے جو تعلیمی اہداف رکھے گئے تھے وہ پورے نہیں ہوں گے۔ دہم اس تلخ حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ جب سے تعلیم کا شعبہ نجی تحویل میں دیا گیا حصول تعلیم عام پاکستانیوں کی دسترس سے باہر ہوچکا ہے اب حصول تعلیم اس قدر مہنگا عمل ہوچکا ہے کہ 22 گریڈ کے بیورو کریٹ کی اولاد بھی مہنگے اخراجات کے باعث تعلیم حاصل نہیں کرسکتی۔

ہم نے مندرجہ بالا سطور میں فقط دس تلخ حقائق کا تذکرہ کیا ہے۔ تلخ حقائق تو تعلیم کے نظام کے بارے میں اور بھی ہیں بلکہ تلخ ترین حقائق ہیں مگر ہمارا مضمون مزید طوالت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمارے سماج میں تعلیمی معیار کیسے بلند کیا جائے؟ تو ذیل میں ہم اپنی ناقص رائے کے مطابق چند تجاویز پیش کر رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں ان پر عمل پیرا ہوکر معیار تعلیم میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔

اول اپنے عوام کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ریاست کی ذمے داری ہے چنانچہ ریاست اپنی ذمے داریاں پوری کرتے ہوئے تمام شہریوں کے لیے مفت تعلیم مہیا کرے۔ دوم پورے ملک میں عدم مساوات کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام درسگاہوں میں یکساں تعلیمی نصاب نافذ کیا جائے تاکہ مساوات پر مبنی تعلیمی نصاب پڑھ کر ریاست کے تمام شہری سماج میں پھیلی عدم مساوات کے احساس سے باہر آسکیں اور تمام شہریوں کے لیے سماج میں ترقی کرنے کے یکساں مواقعے ہوں۔

سوم تعلیمی نصاب کو عصر حاضر کے جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کیا جائے اور تعلیمی نصاب کو مرتب کرنے کے لیے ان ماہرین تعلیم کی خدمات حاصل کی جائیں جوکہ حقیقی معنوں میں تعلیم کے میدان میں ماہر ہوں جنھیں وقت کے جدید تقاضوں کا ادراک ہو کہ عصر حاضر میں ہمارا تعلیمی نصاب کیسا ہونا چاہیے۔ چہارم تمام چھوٹی بڑی درسگاہوں کو حقیقی معنوں میں درسگاہ بنایا جائے اور وہاں سے غیر قانونی قابضین کو بے دخل کیا جائے تمام درسگاہوں میں اساتذہ کی حاضری لازمی قرار دی جائے تمام درسگاہوں میں اساتذہ کو صلاحیت کی بنیاد پر منتخب کیا جائے نہ کہ سفارش کی بنیاد پر۔

مزید یہ کہ اساتذہ کو تمام سیاسی سہولیات فراہم کی جائیں اور بروقت اساتذہ کو ماہانہ اجرت ادا کی جائے۔ اپنے حقوق کی حق تلفی و ماہانہ اجرت تاخیر سے ملنے پر احتجاج اساتذہ کا حق ہے جیسے کہ ریاست کے تمام شہریوں کا اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے پرامن احتجاج حق ہے چنانچہ اساتذہ کا پرامن احتجاج کا حق تسلیم کیا جائے اور پرامن احتجاج کے دوران اساتذہ پر پولیس اہلکاروں کا وحشیانہ لاٹھی چارج کا سلسلہ فی الفور بند کیا جائے اور اساتذہ کے تمام جائز مطالبات تسلیم کیے جائیں تاکہ اساتذہ اپنی تمام تر صلاحیتیں فقط فروغ علم کے لیے استعمال کرسکیں یکسوئی کے ساتھ۔ پنجم ریاست کے ساتھ ساتھ ہمارے سماج کے لوگوں کا بھی اولین فرض ہے کہ وہ بھی اساتذہ کو ان کا حقیقی مقام دیں کیونکہ اساتذہ کرام وہ طبقہ ہے جوکہ مستقبل کے قومی معماروں کی تربیت میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے اور اساتذہ کا یہ کردار مزید موثر بنایا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں