مہنگی بجلی سے بجلی چوری تک
بجلی چوری کو بنیاد بناکر بجلی کے نرخوں میں ہمیشہ اضافہ کیا جاتا ہے۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے یقین دلایا ہے کہ کے الیکٹرک ٹیرف کے مسئلے کو حل کیا جائے گا اور کراچی میں توانائی کے منصوبوں کی ترقی اور استحکام کے لیے تمام اقدامات کیے جائیںگے تاکہ حکومتی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہے۔ انھوں نے یہ یقین دہانی سی پی این ای کے وفد سے ملاقات میں اس وقت کہی جب وفد نے وزیراعظم کی توجہ کے الیکٹرک کے ٹیرف کی طرف مبذول کرائی اور بتایا کہ کے الیکٹرک کا ٹیرف مکمل طور پر تبدیل ہوچکا ہے اور لگتا ہے کہ مستقبل میں کے الیکٹرک توانائی کے شعبے میں مزید کام اور سرمایہ کاری نہیں کرسکے گی جس سے کراچی کی ترقی اور امن وامان کی صورتحال پر منفی اثر پڑے گا۔
وزیراعظم کو مزید بتایاگیا کہ شنگھائی الیکٹرک پاورکمپنی نے کے الیکٹرک کا کنٹرول سنبھالنے اور نوبلین ڈالرکی سرمایہ کاری کا جو اعلان کیا تھا وہ اس سے بھی پیچھے ہٹ گئی ہے ۔ وفد نے مزید کہاکہ کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے ریگولیٹر کو ایسا ماحول فراہم کرنا بہت ضروری ہے جس پر سرمایہ کاروں کو اطمینان ہو۔وزیراعظم نے وفد کو بتایاکہ حکومت کے الیکٹرک میں چوبیس فی صد شیئر ہیں اور حکومت کی ترجیح کراچی کے شہریوں کو بجلی کی قابل اعتماد اور بہترین فراہمی ہے۔
حکومت کراچی میں توانائی کے شعبے میں موثر سرمایہ کاری کی ضرورت سے آگاہ ہے جس کے لیے بھرپور اقدامات کیے جائیںگے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پہلی بار سی پی این ای کے وفد کی نشاندہی پر اظہار خیال کیا ہے جب کہ پی پی حکومت کے 5 سالوں اور نواز شریف کے سوا چار سالوں میں کے الیکٹرک کے معاملات پر کبھی لب کشائی شاید اس لیے نہیں کی گئی کہ وفاقی اور سندھ حکومت کو ماضی میں کبھی اس سلسلے میں بولنے کی جرأت نہیں ہوئی کہ ابراج گروپ ناراض نہ ہوجائے یا وفاقی حکومت کے الیکٹرک کی حکومت اور مکمل خود مختاری میں مداخلت کرنا ہی نہیں چاہتی تھی کیونکہ کے الیکٹرک ریاست کے اندر ایک ریاست ہے جس کے معاملات میں مداخلت سے ہر حکومتی ادارے کے پر چلتے ہیں۔
نیپرا بے بس حکومت خاموش اور عدلیہ صارفین بجلی کے عذاب پر توجہ نہیں دے رہیں جس کا ثبوت عدالتوں میں کے الیکٹرک کے خلاف مقدمات کا دبا رہنا اور کے الیکٹرک کے خلاف ہر اقدام پر اسٹے ہوجانا ہے۔ کے الیکٹرک کے ٹیرف کا مسئلہ طویل عرصے سے التوا کا شکار ہے اور وفاقی حکومت کے الیکٹرک کے معاملے میں دلچسپی نہیں لے رہی اور کراچی کو پاکستان کا حصہ نہیں سمجھا جاتا۔
شنگھائی الیکٹرک پاور نے جب کے الیکٹرک لینے اور سرمایہ کاری سے انکار کیا اس کی وجوہات خود کے الیکٹرک ہے جو اپنی شرائط پرSEP سے معاملہ طے کرنا چاہتی تھی جس پر جماعت اسلامی نے احتجاج اور عدالتی کارروائی کی مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور کے الیکٹرک کی من مانیوں کی سزا صارفین مسلسل بھگت رہے ہیں۔
کے الیکٹرک کے بقول کراچی کے 62 فی صد علاقوں میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہورہی اور کراچی اور کے الیکٹرک کے دائرۂ کار میں کے الیکٹرک نے بجلی کی چوری روکنے میں ناکامی کا اعتراف کرلیا ہے جس کا ذمے دار کے الیکٹرک کا عملہ ہے۔
وزیراعظم نے نجی کمپنی ابراج گروپ کے متعلق کہاکہ وہ نقصان میں جانے والے اداروں کو منافع بخش ادارے بناکر سامنے لاتی ہے مگر شاید وزیراعظم کو یہ علم نہیں کہ کے الیکٹرک جو بجلی چوری کی شکایات کے باوجود کیسے بھاری نفع کمارہاہے اور بجلی کی چوری بھی مسلسل جاری ہے مگر ادارہ منافعے میں ہے کراچی سے بجلی فراہمی کی قیمتی کاپر وائر اتاری جاچکی ہیں عملے کو بڑی تعداد میں فارغ، متعدد دفاتر بند کیے جاچکے ہیں اور 38 فی صد علاقے میں گرمیوں کی طرح سردیوں میں بھی لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے کیونکہ کے الیکٹرک نجی ادارہ ہے جس کا وفاقی حکومت کے اعلانات سے کوئی تعلق نہیں ہے جب کہ حکومت نومبر میں ملک میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کرچکی ہے جس کا اطلاق ملک کے سب سے بڑے شہر پر نہیں ہورہا۔
بجلی کی چوری صرف کراچی نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے اور محکمہ توانائی نے اس سلسلے میں عجیب پالیسی اختیار کر رکھی ہے اور کہا جارہا ہے کہ جن علاقوں میں بجلی چوری ہوگی وہاں لوڈ شیڈنگ بھی جاری رہے گی اور وہاں بجلی بھی نہیں دی جائے گی۔بجلی چوری کو بنیاد بناکر بجلی کے نرخوں میں ہمیشہ اضافہ کیا جاتا ہے اور کمیشن کے لیے ہمیشہ بجلی پیداکرنے والے اداروں سے مہنگی بجلی خرید کر صارفین کو مہنگی بجلی کے بل ادا کرنے پر مجبور کیا گیاجب کہ ن لیگ کی حکومت سے قبل کسی حکومت نے بجلی کی پیداوار اور بڑھانے پر توجہ نہیں دی گئی اور اس سلسلے میں بدنامی کمائی۔
ن لیگ حکومت میں کہا جارہاہے کہ حکومت لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے ساتھ عوام کو سستی بجلی بھی فراہم کرنا چاہتی ہے شکر ہے کہ صارفین بجلی کا لہو نچوڑ لینے کے بعد حکومت کو اب خیال آیا ہے کہ جہاں سے بجلی سستی ملے گی وہیں سے حکومت بجلی خریدے گی۔
ماضی میں عوام مہنگی بجلی بھی خریدنے کو تیار تھے جو انھیں نہیں ملی اور یہ وہ صارفین بجلی ہیں جو ایمانداری سے اپنی استعمال شدہ بجلی کے بل ادا کرنے کو تیار ہیں جواب میں انھیں کے الیکٹرک سمیت ملک بھر میں اضافی بل بھیج کر لوٹا جارہاہے جن کی شنوائی کے الیکٹرک اور سرکاری کمپنیوں میں ممکن نہیں رہی جس کے بعد وفاقی محتسب کا ادارہ باقی رہ گیا تھا جہاں غیر قانونی اضافی بلنگ کے فیصلے تو ہوئے مگر فیصلوں پر عمل نہیں ہو رہا ۔کسی کو اس طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں ہے۔
مہنگی بجلی اور ناجائز اضافی بل ملیںگے تو شریف آدمی بھی بجلی کی چوری پر مجبور ہوجائے گا مگر کسی کو اتنی بھی عقل نہیں، بجلی چوری روکنے میں ناکامی کے بعد حکومت اور کے الیکٹرک کے پاس بجلی مہنگی اور اضافی بلنگ سے عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے کا حل نظر آیا ہے اور بجلی سستی اور چوری روکنے پر توجہ نہیں دی جا رہی اور عوام سے مسلسل دشمنی کرکے انھیں نہ جانے کیوں سزا دی جا رہی ہے۔
وزیراعظم کو مزید بتایاگیا کہ شنگھائی الیکٹرک پاورکمپنی نے کے الیکٹرک کا کنٹرول سنبھالنے اور نوبلین ڈالرکی سرمایہ کاری کا جو اعلان کیا تھا وہ اس سے بھی پیچھے ہٹ گئی ہے ۔ وفد نے مزید کہاکہ کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے ریگولیٹر کو ایسا ماحول فراہم کرنا بہت ضروری ہے جس پر سرمایہ کاروں کو اطمینان ہو۔وزیراعظم نے وفد کو بتایاکہ حکومت کے الیکٹرک میں چوبیس فی صد شیئر ہیں اور حکومت کی ترجیح کراچی کے شہریوں کو بجلی کی قابل اعتماد اور بہترین فراہمی ہے۔
حکومت کراچی میں توانائی کے شعبے میں موثر سرمایہ کاری کی ضرورت سے آگاہ ہے جس کے لیے بھرپور اقدامات کیے جائیںگے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پہلی بار سی پی این ای کے وفد کی نشاندہی پر اظہار خیال کیا ہے جب کہ پی پی حکومت کے 5 سالوں اور نواز شریف کے سوا چار سالوں میں کے الیکٹرک کے معاملات پر کبھی لب کشائی شاید اس لیے نہیں کی گئی کہ وفاقی اور سندھ حکومت کو ماضی میں کبھی اس سلسلے میں بولنے کی جرأت نہیں ہوئی کہ ابراج گروپ ناراض نہ ہوجائے یا وفاقی حکومت کے الیکٹرک کی حکومت اور مکمل خود مختاری میں مداخلت کرنا ہی نہیں چاہتی تھی کیونکہ کے الیکٹرک ریاست کے اندر ایک ریاست ہے جس کے معاملات میں مداخلت سے ہر حکومتی ادارے کے پر چلتے ہیں۔
نیپرا بے بس حکومت خاموش اور عدلیہ صارفین بجلی کے عذاب پر توجہ نہیں دے رہیں جس کا ثبوت عدالتوں میں کے الیکٹرک کے خلاف مقدمات کا دبا رہنا اور کے الیکٹرک کے خلاف ہر اقدام پر اسٹے ہوجانا ہے۔ کے الیکٹرک کے ٹیرف کا مسئلہ طویل عرصے سے التوا کا شکار ہے اور وفاقی حکومت کے الیکٹرک کے معاملے میں دلچسپی نہیں لے رہی اور کراچی کو پاکستان کا حصہ نہیں سمجھا جاتا۔
شنگھائی الیکٹرک پاور نے جب کے الیکٹرک لینے اور سرمایہ کاری سے انکار کیا اس کی وجوہات خود کے الیکٹرک ہے جو اپنی شرائط پرSEP سے معاملہ طے کرنا چاہتی تھی جس پر جماعت اسلامی نے احتجاج اور عدالتی کارروائی کی مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور کے الیکٹرک کی من مانیوں کی سزا صارفین مسلسل بھگت رہے ہیں۔
کے الیکٹرک کے بقول کراچی کے 62 فی صد علاقوں میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہورہی اور کراچی اور کے الیکٹرک کے دائرۂ کار میں کے الیکٹرک نے بجلی کی چوری روکنے میں ناکامی کا اعتراف کرلیا ہے جس کا ذمے دار کے الیکٹرک کا عملہ ہے۔
وزیراعظم نے نجی کمپنی ابراج گروپ کے متعلق کہاکہ وہ نقصان میں جانے والے اداروں کو منافع بخش ادارے بناکر سامنے لاتی ہے مگر شاید وزیراعظم کو یہ علم نہیں کہ کے الیکٹرک جو بجلی چوری کی شکایات کے باوجود کیسے بھاری نفع کمارہاہے اور بجلی کی چوری بھی مسلسل جاری ہے مگر ادارہ منافعے میں ہے کراچی سے بجلی فراہمی کی قیمتی کاپر وائر اتاری جاچکی ہیں عملے کو بڑی تعداد میں فارغ، متعدد دفاتر بند کیے جاچکے ہیں اور 38 فی صد علاقے میں گرمیوں کی طرح سردیوں میں بھی لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے کیونکہ کے الیکٹرک نجی ادارہ ہے جس کا وفاقی حکومت کے اعلانات سے کوئی تعلق نہیں ہے جب کہ حکومت نومبر میں ملک میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کرچکی ہے جس کا اطلاق ملک کے سب سے بڑے شہر پر نہیں ہورہا۔
بجلی کی چوری صرف کراچی نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے اور محکمہ توانائی نے اس سلسلے میں عجیب پالیسی اختیار کر رکھی ہے اور کہا جارہا ہے کہ جن علاقوں میں بجلی چوری ہوگی وہاں لوڈ شیڈنگ بھی جاری رہے گی اور وہاں بجلی بھی نہیں دی جائے گی۔بجلی چوری کو بنیاد بناکر بجلی کے نرخوں میں ہمیشہ اضافہ کیا جاتا ہے اور کمیشن کے لیے ہمیشہ بجلی پیداکرنے والے اداروں سے مہنگی بجلی خرید کر صارفین کو مہنگی بجلی کے بل ادا کرنے پر مجبور کیا گیاجب کہ ن لیگ کی حکومت سے قبل کسی حکومت نے بجلی کی پیداوار اور بڑھانے پر توجہ نہیں دی گئی اور اس سلسلے میں بدنامی کمائی۔
ن لیگ حکومت میں کہا جارہاہے کہ حکومت لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے ساتھ عوام کو سستی بجلی بھی فراہم کرنا چاہتی ہے شکر ہے کہ صارفین بجلی کا لہو نچوڑ لینے کے بعد حکومت کو اب خیال آیا ہے کہ جہاں سے بجلی سستی ملے گی وہیں سے حکومت بجلی خریدے گی۔
ماضی میں عوام مہنگی بجلی بھی خریدنے کو تیار تھے جو انھیں نہیں ملی اور یہ وہ صارفین بجلی ہیں جو ایمانداری سے اپنی استعمال شدہ بجلی کے بل ادا کرنے کو تیار ہیں جواب میں انھیں کے الیکٹرک سمیت ملک بھر میں اضافی بل بھیج کر لوٹا جارہاہے جن کی شنوائی کے الیکٹرک اور سرکاری کمپنیوں میں ممکن نہیں رہی جس کے بعد وفاقی محتسب کا ادارہ باقی رہ گیا تھا جہاں غیر قانونی اضافی بلنگ کے فیصلے تو ہوئے مگر فیصلوں پر عمل نہیں ہو رہا ۔کسی کو اس طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں ہے۔
مہنگی بجلی اور ناجائز اضافی بل ملیںگے تو شریف آدمی بھی بجلی کی چوری پر مجبور ہوجائے گا مگر کسی کو اتنی بھی عقل نہیں، بجلی چوری روکنے میں ناکامی کے بعد حکومت اور کے الیکٹرک کے پاس بجلی مہنگی اور اضافی بلنگ سے عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے کا حل نظر آیا ہے اور بجلی سستی اور چوری روکنے پر توجہ نہیں دی جا رہی اور عوام سے مسلسل دشمنی کرکے انھیں نہ جانے کیوں سزا دی جا رہی ہے۔