معاشی بحران اور دھرنوں کی سیاست

ملکی معیشت کو بچانا ہوگا، اگر سیاستدان متحد ہوجائیں تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہیں۔



قیام پاکستان سے لے کر آج تک، لیاقت علی خان سے لے کر میاں نواز شریف تک ملک کے اندر یہ المیہ رہا ہے کہ کوئی بھی وزیراعظم اپنی جمہوری مدت مکمل نہیں کرسکا ہے، یوں تو ملک کے اندر بیشتر وقت آمریتی حکومت اقتدار میں رہی ہیں لیکن جمہوریت کے دور حکومتوں میں بھی عوام مسائل سے دوچار رہے ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد ملک کے اندر جو قائد نے منشور دیا اس پر سیاستدان چلنے کے بجائے مفادوں کے راستوں پر چلنے لگے وہ مفاد جو آج جنگ کی صورت اختیار کرچکے ہیں، جناح کی رحلت کے بعد برابری کی بنیاد کا فارمولہ بھی اسی وقت دم توڑگیا تھا، جس کے بعد ذاتی مفادوں کی جنگ شروع ہوگئی جو ابھی تک جاری ہے، ملک کے اندر طویل عرصے تک آمریت کی حکمرانی رہی ہے اور وہ حکمرانی عوامی مفاد میں نہیں ہوتی، عوام تو جمہوریت کو پسند کرتے ہیں، لیکن ہم بات مشرف دور سے شروع کرتے ہیں جس نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر خود اقتدار پر قابض ہونے کی آمرانہ روایات کی پاسداری کی۔

بڑے عرصے تک ق لیگ کے ساتھ ملکر اقتدار پر قابض رہے جس کے بعد 2006 سے لے کر 2007 تک جلاوطنی کی زندگی گذارنے والے سیاستدان ایک بار پھر سرگرم ہوگئے اور وطن آگئے، 27 دسمبر 2007 میں برصغیر کی مانی ہوئی عظیم رہنماء اور مسلم ممالک کی پہلی خاتون وزیراعظم کا اعزاز رکھنے والی محترمہ بینظیر بھٹو کو جمہوریت اور عوام دشمن دہشت گردوں نے شہید کر دیا۔ محترمہ کے شہید ہونے پہ پاکستان ایک جمہوری وژن رکھنے والی لیڈر سے محروم ہو گیا۔

2008ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی ملک کے اندر جمہوری حکومت قائم کرنے میں کامیاب تو ہوگئی ، جس کے بعد مشرف کو صدر مملکت کے عہدے سے ہٹادیا گیا یا ان کے ساتھ ڈیل ہوئی یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن پیپلزپارٹی کے حکومتی دور میں دو وزراء اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف کو عہدوں سے ہٹادیا گیا، جس کے بعد سیاسی بحران شروع ہوگیا، جو بحران سالوں سے ملک پر قابض تھا، اس کے بعد جب 2013 ء میں نواز لیگ وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی تو بحرانوں کی قطاریں لگ گئی جب کہ نواز لیگ سرکار نے پہلا وعدہ عوام سے کیا کہ کچھ ہی عرصے کے اندر بجلی کے بحران کا خاتمہ کیا جائیگا لیکن بحران تو ختم نہ ہوسکا ایک اور بحران نے جنم لے لیا، جو دھرنے کی صورت میں سامنے آیا، وہ تھا تحریک انصاف کا دھرنا جس کو آزادی مارچ کا نام دیا گیا اور اسلام آباد ڈی چوک پر دھرنا دیا گیا۔

یہ دھرنا 2013ء کے عام انتخابات میں نواز لیگ کی مبینہ دھاندلی کے خلاف دیا گیا تھا۔ اس دھرنے کے بعد کنٹینر کی سیاست کا آغا ہوگیا۔13 اگست کی شام کو لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان عوامی تحریک غیر آئینی طریقے سے لانگ مارچ نہیں کر سکتے۔

لاہور ہائی کورٹ نے اسلام آباد میں دھرنا دینے سے دونوں جماعتوں کو روک دیا جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور ماہر قانون اعتزاز احسن کا کہنا تھاکہ لاہور ہائی کورٹ کا لانگ مارچ کے خلاف پیٹیشن پر فیصلہ بظاہر تضادات سے بھرپور ہے۔17اگست کی شام کو عمران خان نے سول نافرمانی تحریک شروع کرنے کا عندیہ دے دیا اس کے لیے انھوں نے دو دن کی مہلت دی۔لیکن نواز لیگ سرکار بھی اپنے موقف پر بضد رہی، آخر کار اسلام آباد میں جاری آزادی مارچ و انقلاب مارچ کی وجہ سے کراچی اسٹاک ایکسچینج پاکستانی تاریخ میں کم ترین سطح تک پہنچ گئی۔

دھرنوں کی سیاست نے ماڈل ٹاؤن میں خون کی ہولی دکھائی اور 14 افراد کو قتل کردیا گیا، جب کہ دارالحکومت تو دھرنوں کی سیاست کا محور رہا، کبھی پی ٹی آئی تو کبھی منہاج القرآن تو کبھی تحریک لبیک کی جانب سے دھرنے دیے گئے، اس طرح امن و امان کی صورتحال بھی ایک چیلنج بن کر رہ گئی، موجودہ حکومتی دور میں دہشتگردی کے بڑے واقعات ہوئے، سانحہ پشاور کا جب بھی ذکر آتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، بلوچستان میں کئی بار دہشتگردی کے واقعات ہوئے جن میں کئی انسانی جانیں ضایع ہوگئی، امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کے بعد سرمایہ کاروں نے بھی پاکستان کا رخ کرنا چھوڑ دیا، جس کی وجہ سے ملکی معیشت کو کافی نقصان پہنچا۔

موجودہ حکومت نے گزشتہ ساڑھے 4 سال میں 35 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرضہ لیاہے مختلف مالیاتی اداروں کی جانب سے گرانٹس کی مد میں 2 ارب 66کروڑ ڈالر فراہم کیے گئے۔ 2013-14 کے دوران 6 ارب 44 کروڑ ڈالراور 2014-15کے دوران5 ارب 39 کروڑ ڈالر کا قرض لیاگیا۔ 2015-16 کے دوران 6 ارب91کروڑ ڈالر جب کہ 2016-17 کے دوران 10 ارب55 کروڑ ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا۔علاوہ ازیں رواں مالی سال کے دوران اکتوبر تک حکومت نے 2 ارب 34 کروڑ ڈالرکا قرض لیا جب کہ پاکستان کو ورلڈ بینک اور چین کی جانب سے سب سے زیادہ قرضہ فراہم کیاگیا لیکن باوجود اس کے ملکی معیشت تو نہ سنبھل سکی ، روپے کی قدر ضرور کم ہو گئی۔

میاں صاحب کے نااہل ہونے کے بعد نواز لیگ سرکار اور رہنماء نے تو عدلیہ کو بھی آڑے ہاتھوں لے لیا ہے اور ماضی میں نواز لیگ نے عدلیہ کے حکم نہیں مانے ہیں اور عدلیہ پر حملے بھی کرائے ہیں، لیکن اب جو صورتحال نواز لیگ نے پیدا کی ہے اور تشویش ناک ہے۔

میاں صاحب نے تو وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد چاروں صوبوں میں برابری کے بنیاد پر سہولیات کی فراہمی یا پیکیج دینے کے حوالے سے کوئی اقدام نہیں اٹھائے یہاں تک کے مشرف دور کا بڑا منصوبہ رینی کینال بھی مکمل کرانے میں ناکام ہوگئے جس پر 80 ارب روپے سے بھی زائد رقم خرچ کی گئی ہے، نہ صحت کی سہولیات اور نہ ہی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کیے گئے ہیں، لیکن مہنگائی ضرور عروج پر پہنچ گئی جس کو ملک کا ہر فرد جھیلنے پر مجبور ہوگیا ہے، کہا جاتا ہے کہ ڈائیلاگ جمہوریت کا حسن ہے لیکن یہ باتیں تو صرف کتابوں میں ہی اچھی لگ رہی ہیں، کیوں کے زمینی حقائق تو ان کے برعکس ہی ہیں۔

جب دھرنوں کی سیاست سے ملک کو نقصان ہو رہا ہے تو سیاستدانوں کو ملکی مفاد میں ایسے حربے استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے، لیکن اب تو ذاتی مفادات کی جنگ ہے، سربراہ تحریک انصاف آج بھی دھرنوں کی سیاست پر یقین رکھے بیٹھے ہیں، جب کہ دھرنوں کی وجہ سے ملکی معیشت تباہ و برباد ہوچکی ہے، ملک قرضوں کی دلدل میں پھنس چکا ہے، ملک کا ہر فرد ٹیکس کی صورت میں آٹے کی چکی کی طرح پس رہا ہے، لیکن عوام کے مفادات کو کون دیکھتا ہے یہاں تو اپنی انا کو دیکھا جاتا ہے، یہاں تو اپنے ذاتی مفادوں کو ترجیح دی جاتی رہی ہے۔

پاکستان عوامی تحریک کے زیرِ اہتمام حزبِ اختلاف کی بڑی سیاسی جماعتوں پر مشتمل کل جماعتی کانفرنس میں شرکا نے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ کو 'سانحہ ماڈل ٹاؤن' کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے انھیں مستعفی ہونے کے لیے سات جنوری تک کی ڈیڈ لائن دی ہے۔مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ 'سانحہ ماڈل ٹاؤن' کے ذمے داروں کے استعفیٰ کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن تک استعفے نہ آنے پر تمام جماعتوں کے نمایندوں پر مشتمل سٹیئرنگ کمیٹی اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے آیندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں تنبیہ دیتے ہوئے کہا کہ 'عوامی عدالت بھی لگ سکتی ہے، احتجاج بھی ہو سکتا ہے، دھرنا اور کچھ اور بھی ہو سکتا ہے، اے پی سی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ کسی اندرونی بیرونی دباؤ کے تحت سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزمان اور'قومی دولت لوٹنے والے' شریف خاندان سے کسی قسم کا کوئی این ار او یا مصالحت نہ کی جائے اور وہ کسی بھی ماورائیِ قانون ریلیف کو قبول نہیں کریں گے۔

ملک کا نصیب سیاست دانوں کے ہاتھوں میں آگیا ہے، سیاست دانوں کو ذاتی مفادات کی جنگ ختم کرکے ملک کا نصیب بنانا ہوگا، جیسے اشفاق احمد نے کہا ہے کہ زندگی میں کوئی خوشی، کوئی رشتہ، کوئی جذبہ کبھی مستقل نہیں ہوتا، ان کے پاؤں ہوتے ہیں ہمارا سلوک اور رویہ دیکھ کے کبھی یہ بھاگ کر قریب آجاتے ہیں اور کبھی آہستہ آہستہ دور چلے جاتے ہیں، اس لیے سیاست دانوں کو خوشحال پاکستان کے لیے اقدامات اٹھانے ہونگے، دھرنوں کی سیاست کو ہمیشہ کے لیے ختم کرکے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہوگا، ملکی معیشت کو بچانا ہوگا، اگر سیاستدان متحد ہوجائیں تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہیں، حضرت شیخ سعدی کا کہنا ہے کہ اگر چڑیوں میں اتحاد ہوجائے تو وہ شیر کی کھال اتار سکتی ہیں، اس لیے ملکی مفادات اور ملکی سالمیت کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں