الیکشن 2018 امکانات اور اندیشے

جو نظام ہمارے ہاں رائج اس میں ایک طاقتور اقلیت ہی ہمیشہ اقتدار میں آتی ہے۔

ہمارے منتخب نمایندوں کا ان معاملات پر لڑنا جھگڑنا، جن سے عوام کا مفاد وابستہ نہیں، معمول کی بات ہے۔ یہ پارلیمنٹرین قبل از وقت انتخابات کے لیے تو جوش و خروش سے مہم چلاسکتے ہیں،مگر سینیٹرز کی مطلوبہ تعداد حالیہ مردم شمار ی کے تحت حلقہ بندیوں کی ترمیم کا بل پاس کرانے کے لیے 19 دسمبر سے قبل اکٹھی نہیں ہوسکی تھی۔بالآخر یہ مرحلہ طے ہوا اور انتخابات بروقت کرانے کی راہ میں حائل بنیادی رکاوٹ ختم ہوئی۔ اس حساس نوعیت کے کام کو سرانجام دینے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 10 نومبر کی ڈیڈ لائن مقرر کی، صوبائی سطح پر ہونے والی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کے لیے پانچ ماہ کا وقت رکھا گیا۔

انتخابات کا مقررہ وقت،یعنی جولائی /اگست 2018ء میں انعقاد ممکن ہے۔ البتہ اس کے لیے کئی چیلنجز پر قابو پانا ہوگا۔ کیا الیکشن کمیشن آف پاکستان مقررہ وقت میں مستند الیکٹرول ضوابط تیار کرسکتا ہے،وہ بھی ان حالات میںجب کچھ حلقوں میں ہونے والی مردم شمار ی کے ڈیٹا کو دوبارہ جانچنے کی ضرورت پڑ سکتی ہو؟نامکمل یا غلط ڈیٹا الیکشن کمیشن کے اضافی وقت کا متقاضی ہوگا۔ نئی حلقہ بندیوں سے متعلق یوں بھی چند جماعتوں میں ناپسندگی اور غصہ پایا جاتا ہے۔ اسی باعث اس عمل کا شفاف اور تنازعات سے پاک ہونا از حد ضروری ہے۔ فقط اسی صورت میں انتخابی عمل سے پہلے، دوران یا بعد میں ہونے والے احتجاج اور اعتراضات سے بچا جا سکتا ہے۔

سابق وزیر اعظم میاںنواز شریف اور ان کے خاندان سے جڑے تنازعات کی وجہ سے مشکل مزید سنگین ہو جاتی ہے، جس میں اُن کی متوقع نااہلی مزید اضافہ کرسکتی ہے۔ رواں برس جولائی میں جب سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کونااہل قرار دیتے ہوئے اُن کے اور اُن کے اہل خانہ کے خلاف کریمنل تفتیش کا حکم دیا تھا،تب سے وہ مسلسل درشت لہجے میں اعلیٰ عدلیہ پر تنقید کر رہے ہیں۔

یہاں تک کہ عدلیہ پر گزشتہ ستر برسوں میں آمریت کو مضبوط کرنے کا الزام بھی تھوپ دیا۔البتہ انھوں نے اپنے خلاف لگنے والے کرپشن کے الزامات کی وضاحت کرنے کی ایک بار بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ شاید وہ بھول گئے، یہ ایک آمر ہی تھا، جس نے اُن کے لیے سیاسست کی زمین تیار کی، یہاں تک کہ انھیں پہلی بار وزیر اعظم کی کرسی بھی اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی سے ملی۔ ان کے وفادار اور اہل خانہ نہ صرف ججز کو ڈراتے دھمکا تے رہے ہیں، بلکہ بڑی ہی چالاکی سے وہ پاک فوج پر طنز کرتے رہے۔

ریاستی اداروں کے خلاف نفرت بھڑکانے کی دیوانگی کے پیچھے ایک منظم طریقہ ہے۔سابق وزیرا عظم کی خواہش ہے کہ ان کے کیسز کی سماعت جس قدر ممکن ہو، تاخیر کا شکار ہوجائے۔لندن کے متواتر اور طویل دورے نیب کے سامنے پیش ہونے کے عمل میں تعطل ڈال رہے ہیں۔ اب ان کی تازہ کاوش اس تحریک کا اعلان ہے، جسے انھیں نے حیران کن طور پر تحریک عدل کا نام دیا ہے۔

شاید انھیں لگتا ہے کہ ہم نومبر 1997ء کا وہ دن بھول گئے، جب ن لیگ کے رہنما اور کارکنوں نے سپریم کورٹ پر دھاوا بولا تھا،جس کا مقصد اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ پر دباؤ ڈال کر نواز شریف کے خلاف چلنے والے توہین عدالت کیس کو ملتوی کرانا تھا۔ وہ افراد جنھوں نے اعلیٰ ترین عدلیہ پر حملہ کیا ہو، حکومت کرنے کے کیسے اہل ہوسکتے ہیں؟ یاد کھیں،جتنا یہ کیس طول پکڑتا جائے گا، التوا کا شکار ہوتا جائے گا، اتنے ہی آیندہ انتخابات متاثر ہوں گے۔


2017ء کی مردم شماری 19 سال کے طویل وقفے کے بعد منعقد ہوئی تھی، اس مردم شماری نے دیہی اور شہری علاقوں کے تناسب اور ملازمتوں کے کوٹے پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت آبادی 207.8 ملین ہے، جس میں 1998ء کی مردم شماری سے 75.4ملین اضافہ ہوا ہے۔ ملکی آبادی کی اکثریت یعنی 52.9 فی صد پنجاب میں مقیم ہے۔ ملک کی اکثریتی آبادی، یعنی 63.6 فی صد اب بھی شہروں میں رہتی ہے۔ البتہ سندھ کا معاملہ ذرا مختلف ہے، جہاں 52.02 فی صد آبادی شہروں میں مقیم ہے۔

سندھ میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے اعتراضات عائد کرتے ہوئے 2017ء کی مردم شمار ی کو متنازع ٹھہرا دیا ہے۔ حکومت نے غیرجانب دار پارٹی کے ذریعے منتخب بلاکس کی ایک فی صد آبادی کے آڈٹ کی جو تجویز پیش کی، اسے ایم کیو ایم پاکستان نے یکسر رد کرتے ہوئے منتخب بلاکس کے پانچ فی صد حصے کے آڈٹ کی شرط عائد کی۔ کونسل برائے مشترکہ مفادات (CCI) کی جانب سے ان اعتراضات کو تسلیم تو کیا گیا، مگر کیوں کہ اس مشق میں اب زیادہ حلقوں کا احاطہ کیا جائے گا، ان میں اضافی وقت لگنا یقینی ہے، اس وجہ سے فیصلہ تاحال نہیں آیا ہے۔آزاد مبصرین کا خیال ہے کہ انتخابی بلاکس کی 5 فی صد آبادی کے آڈٹ کے لیے چھ سے سات ماہ لگ سکتے ہیں، جب حکومت کا موقف ہے کہ یہ کام تین ماہ میں کیا جاسکتا ہے۔

سینیٹ انتخابات کے اوقات اور طریقہ کار میں بھی چند مسائل پہناں ہیں۔سینیٹ کی ٹرم چھ برس کی ہوتی ہے۔ 2003 سے یہ طریقہ رائج ہے کہ سینیٹ کی 104 سیٹوں میں سے نصف یعنی 52 سیٹوںکے انتخابات ہر تین سال بعد منعقد ہوتے ہیں۔ الغرض سینیٹ کے انتخابات اس طرح ڈیزائن کیے گئے ہیں کہ نصف ارکان کی ٹرم تین سال بعد ختم ہوجاتی ہے۔ سینیٹ کے آیندہ انتخابات مارچ 2018 میں منعقد ہوں گے۔ اب اگر یہی اسمبلیاں سینیٹرز کا انتخاب کریں گی، تو انھیں کسی طور عوام کا نمایندہ نہیں کہا جاسکے گا ، کیوںکہ مردم شماری کے نتائج نے اب بہت کچھ بدل دیا ہے۔ اور یوں سینیٹ کے یہ انتخابات حقائق کی عکاسی کرنے میں ناکام رہیں گے۔

جو نظام ہمارے ہاں رائج اس میں ایک طاقتور اقلیت ہی ہمیشہ اقتدار میں آتی ہے۔ ہماری قومی اور صوبائی اسمبلی کی 80 فیصد سیٹوں پر اسی طبقے سے تعلق رکھنے والے افرادبرا جمان ہیں۔ اسی وجہ سے اکثریت الیکشن کے اس نظام سے مایوس اور متنفر ہوتی جارہی ہے، جس میں یہ طاقتور اقلیت ہی ہمیشہ فاتح ٹھہرتی ہے، اسی باعث کم سے کم لوگ الیکشن والے روز ووٹ ڈالنے باہر نکلتے ہیں۔ اس گریز کے بعد ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے، جس میں یہی طاقتور اقلیت ،اکثریت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

اب یہی دیکھ لیجیے ڈیڑھ کروڑ ووٹ لے کر، جو پاکستان کی کل آبادی کا فقط 7.5 فی صد ہے، میاں نواز شریف اٹھارہ کروڑ عوام کی جانب سے منتخب کیے جانے کے دعوے دار ہیں۔ اندازہ لگائیے، ان حالات میں نیا سینیٹ کس کا ترجمان ہوگا۔ہمارے انتخابی عمل کو حقیقی جمہوریت کا ترجمان اور عکاس ہونا چاہیے۔موجود نظام تو فقط شرمندگی کا سامان اور بے حسی کا نوحہ ہے۔دو امیدواروں کے درمیان واضح انتخاب کے طریقے کو اپنا کر، جو "run-off vote" کہلاتا ہے، ہم دھاندلی اور نتائج تبدیل کرنے کے مسئلے پر ایک حد تک قابو پاسکتے ہیں۔

بجائے اس کے کہ ماضی کے انتخابات کے مانند 2018 انتخابات بھی ہمارے مسائل میں اضافہ کریں، ایسا طریقہ اختیار کیاجانا چاہیے، جس میں تمام شراکت داروں کا مشورہ اور مفاہمت شامل ہو۔اس عمل میں ہونے والی تاخیر سے موجودہ سینیٹ کی زندگی کچھ وقت کے لیے، غالباً چھ ماہ بڑھ جائے گی۔بہتر گورننس کی ضرورت کے ڈاکٹرائن کے تحت یہ تاخیر ناگزیر ہے۔یہ نصابی یا نظریاتی نہیں، بلکہ عملی تجویز ہے، اس سمت پیش قدمی کے لیے، جہاں ہم اپنے کئی مسائل پر قابو پاسکتے ہیں۔ یاد رہے، ہمارے ہر اقدام کا مقصد موجودہ غیریقینی صورت حال سے نجات ہونی چاہیے۔

(فاضل مصنف دفاعی اور سیکیورٹی تجزیہ کارہیں)
Load Next Story