دنیا کو ایک نئی جمہوریت چاہیے
بلاشبہ جمہوریت دنیا میں رائج سیاسی نظاموں میں ایک ترقی یافتہ شکل ہے لیکن یہ کسی طرح بھی حرف آخر نہیں۔
انسانوں کی معلوم تاریخ کے دوران نظام معیشت خواہ کچھ بھی رہا ہو طبقاتی استحصال ہر دور میں جاری رہا اور عوام غریب اور امیر میں تقسیم رہے۔ دنیا میں ہزاروں سالوں پر پھیلے ہوئے غلام داری نظام سے جاگیردارانہ نظام تک 80 فیصد سے زیادہ انسانوں کی حالت معاشی غلاموں جیسی رہی۔
بھاپ کی دریافت کے بعد جب دنیا صنعتی ترقی کے دور میں داخل ہوئی تو دنیا کے شاطر سرمایہ پرستوں کو احساس ہوا کہ صنعتی ترقی سے جو سرمایہ وجود میں آرہا ہے اس پر قبضہ کس طرح جمایا جائے۔ اس سوال کا جواب ان چالاک سرمایہ پرستوں نے سرمایہ دارانہ نظام میں ڈھونڈا۔ اس حوالے سے مغرب میں بڑے بڑے مفکرین کی خدمات حاصل کی گئیں جنھوں نے سرمایہ دارانہ نظام کا ایک مربوط نظام پیش کیا اور اسے انسانی فطرت کے مطابق قرار دیا۔ اس نظام میں ایک ایسا خودکار میکنزم ترتیب دیا گیا جو سرمائے کے ارتکاز میں کردار ادا کرتا رہا۔
اس نظام زر میں ارتکاز زر کا واحد راستہ کرپشن ڈھونڈا گیا،کرپشن اور بے ایمانی کے بغیر ارتکاز زر ممکن ہی نہ رہا لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے عیار سرپرستوں کو احساس تھا کہ جب معاشرے کے دو فیصد کے لگ بھگ افراد کے ہاتھوں میں 80 فیصد سے زیادہ دولت جمع ہوجائے گی ، عوام کی اس بھاری محرومیوں کا شکار اکثریت سرمایہ داروں کے خلاف کھڑی ہوجائے گی اور مشتعل عوام کے اشتعال سے سرمایہ داروں کو بچانا مشکل بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔
اس خطرے سے بچنے کی تدابیر سوچتے ہوئے سرمایہ داری کے مفکرین نے جمہوریت کا راستہ ڈھونڈ نکالا اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ جب عوام کے منتخب نمایندے قانون ساز اداروں میں پہنچیں گے تو قانون عوام کے مفادات کے مطابق بنیں گے۔ جمہوریت کا یہ پروپیگنڈا زور و شور سے کیا گیا اور قانون و انصاف کا ایک انتہائی عیارانہ اور پرفریب نظام تشکیل دیا گیا۔
سرمایہ دارانہ نظام کے مبلغین نے مقابلے کو ایک اہم فیکٹرکہا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اس نظام میں ہر شہری کو ترقی کرنے کے یکساں مواقع میسر ہوں گے لیکن اس نظام کی تشکیل اس طرح کی کہ سرمایہ مٹھی بھر ایلیٹ کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتا رہا اور انسانوں کی 80 فیصد سے زیادہ اکثریت نان جویں کو محتاج ہوگئی۔
ظاہر ہے اس ناانصافی کے خلاف عوام کا اشتعال لازمی تھا سو اس سے سرمایہ داروں کو بچانے کے لیے قانون اور انصاف کا وہ بدترین نظام رائج کیا گیا جس کا کام سرمائے اور سرمایہ داروں کے مفادات کے تحفظ کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ اس نظام میں نجی ملکیت کو قانونی اور آئینی تحفظ فراہم کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام اس اقتصادی ناانصافی کے خلاف متحرک ہونے سے معذور ہوگئے۔ پوری ریاستی مشنری عملاً بالادست طبقات کے مفادات کی محافظ بن گئی۔
یوں طبقاتی استحصال کا وہ منظم سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے قومی دولت کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ چند خاندانوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہوگیا ہے اور بل گیٹس لکشمی متل جیسے مٹھی بھر سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں 70-80 ارب ڈالر جمع ہوگئے اور غربت میں اس طرح اضافہ ہوتا رہا کہ لوگ بھوک سے تنگ آکر انفرادی اور اجتماعی خودکشیاں کرنے لگے لاکھوں لوگ بھوک بیماری سے ہلاک ہونے لگے اور مارکیٹ میں قیمتوں کا توازن برقرار رکھنے کے لیے لاکھوں ٹن گندم یا تو جلائی جانے لگی یا سمندر برد کی جانے لگی۔
پاکستان جیسے انتہائی پسماندہ ملک میں جہاں 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور روٹی سے محروم ہیں وہاں ہزاروں نہیں لاکھوں من گندم غیر محفوظ گوداموں میں گل سڑ کر خراب ہو رہی ہے کوئی حکمرانوں کی اس مجرمانہ غفلت کا احتساب کرنے والا نہیں۔ اس ظلم و استحصال کو جمہوریت کے پردے میں بڑی عیاری کے ساتھ چھپایا جا رہا ہے۔ قومی اداروں میں اربوں کی کرپشن ہو رہی ہے۔
حکمران طبقات اربوں کی کرپشن میں ملوث بتائے جا رہے ہیں جس کا بھانڈا پاناما لیکس جیسے اسکینڈلز میں پھوٹ رہا ہے اور قانون اور انصاف بے دست و پا نظر آرہا ہے۔ چونکہ طاقتور حکمران طبقات کرپشن کے ان اسکینڈلوں میں ملوث ہیں اس لیے احتساب منہ تک رہا ہے اور اگر محتسب ادارے ان طبقات پر احتساب کا شکنجہ ذرا مضبوط کرتے ہیں تو جمہوریت خطرے میں ہے کا نعرہ لگا کر احتساب کی گرفت کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس اشرافیائی جمہوریت کا ڈھنڈورا اس طرح پیٹا جاتا ہے کہ جمہوریت کو خطرہ پیدا ہوگیا تو ملک اور ملک کے مستقبل کو خطرہ لاحق ہوجائے گا چوروں ڈاکوؤں لٹیروں کی جان جمہوریت کے طوطے میں بند ہے اگر اس طوطے کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے تو لٹیروں کی جان پر بندھ جاتی ہے آج ہر طرف جمہوریت کی جو دہائی دی جا رہی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 70 سال کے عرصے میں پہلی بار اشرافیائی جمہوریت کے گلے میں رسی ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جمہوریت کی آڑ میں 70 سال سے لوٹ مار کا جو سلسلہ جاری ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سرمائے کے زور پر جمہوریت کے چیمپینوں نے ایسے جمہوری دانشور پیدا کر رکھے ہیں جو اس اشرافیائی جمہوریت کے سب سے بڑے وکیل اور محافظ بنے ہوئے ہیں اور مڈل کلاس وہ طبقہ ہے جو جمہوریت کا پرچم تھامے ہوئے ہے۔
دنیا کے 7 ارب سے زیادہ انسانوں کو ایسی جمہوریت کے پھندے میں پھنسا کر رکھ دیا گیا ہے جس میں عوام محض عضو معطل بنے ہوئے ہیں۔ جمہوریت عوام کی بالادستی پر منحصر ہوتی ہے اور صورتحال یہ ہے کہ جمہوریت میں عوام کی حیثیت کرائے کے غلاموں جیسی بناکر رکھ دی گئی ہے خاص طور پر پسماندہ ملکوں میں جو نیابتی جمہوریت نافذ ہے وہ دراصل اشرافیہ کے ہاتھوں میں لوٹ مار کا لائسنس بن گئی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ جمہوریت تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ترقی یافتہ اور پسماندہ ملکوں میں عوام کے سروں پر مسلط ہے۔ اور اس کے خلاف آواز اٹھانا، اس لیے مشکل ہوتا ہے کہ اس کا کوئی بہتر متبادل موجود نہیں، اگر ہے تو اسے اس قدر بدنام کردیا گیا ہے کہ عوام اس سے بدظن ہوگئے ہیں۔
سرمایہ دارانہ جمہوریت کے مبلغین کا فرمانا ہے کہ جمہوریت کا مطلب ''عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے'' ہے۔ کیا ہماری جمہوریت اس تعریف پر پوری اترتی ہے؟ بلاشبہ جمہوریت دنیا میں رائج سیاسی نظاموں میں ایک ترقی یافتہ شکل ہے لیکن یہ کسی طرح بھی حرف آخر نہیں کیونکہ ہر شعبہ زندگی میں تسلسل کے ساتھ ترقی کا عمل جاری رہتا ہے اس تناظر میں دنیا کے دانشوروں مفکروں فلسفیوں اور اہل علم کا فرض ہے کہ اس اشرافیائی جمہوریت کی جگہ جمہوریت کا ایک ایسا منصفانہ اور آبرومندانہ نظام متعارف کرانے کے لیے آگے بڑھیں جو حقیقی معنوں میں اکثریت کی نمایندہ ہو اور جس میں نہ لوٹ مار کی گنجائش ہو نہ 80 فیصد سرمایہ دو فیصد اشرافیہ کے ہاتھوں میں جمع ہونے کی گنجائش ہو ایسی جمہوریت میں عوام 80/2 میں تقسیم ہونے سے بچ سکتے ہیں ورنہ۔۔۔۔!