پاکستان کا بھارت کو منہ توڑ جواب

سیٹھی صاحب فرماتے ہیں، آپ جانتے ہیں ہم نے واضح اسٹینڈ لیا ہے، اب مالی نقصان ہوگا۔

skhaliq@express.com.pk

''بھارت اور پاکستان کے درمیان باہمی سیریز کا کوئی امکان نہیں، دونوں ٹیمیں کسی نیوٹرل وینیو پر بھی نہیں کھیل سکتیں'' بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کا یہ بیان سامنے آتے ہی پی سی بی ہیڈکوارٹرز میں ہلچل مچ گئی، چیئرمین نجم سیٹھی نے ہنگامی اجلاس طلب کر لیا، اس میں سی او او سبحان احمد سمیت تمام اعلیٰ آفیشلز کو بلایا گیا۔

اس وقت سیٹھی صاحب کا چہرہ غصے سے تمتما رہا تھا، انھوں نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیا بھارت نے ہمیں بے وقوف سمجھا ہوا ہے، آئے دن کرکٹ نہ کھیلنے کی دھمکی دیتا رہتا ہے، وہ پہلے ہی کون سا ہمارے ساتھ کھیل رہا ہے، مگر اب میں نے فیصلہ کر لیاکہ اسے سخت سبق سکھائیں گے، کیوں سبحان تمہارا کیا خیال ہے، جی سر آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، چیئرمین کو جواب ملا۔

پھر سیٹھی صاحب فرمانے لگے کہ کئی برس ہو گئے پاک بھارت باہمی سیریز نہیں ہوئی، ٹیسٹ کھیلے تو10 برس گذر چکے مگر اس دوران ہم نمبر ون بھی بنے، ہمارے کھلاڑیوں نے ریکارڈز قائم کیے، وہ آئی پی ایل نہیں کھیلتے مگر ہماری ٹیم ٹی ٹوئنٹی میں سب سے آگے ہے، ون ڈے میں ہم نے بھارت کو ہی فائنل میں ہرا کر چیمپئنز ٹرافی جیتی،اس سے صاف ظاہرہے کہ ہماری کرکٹ کو بھارت سے باہمی سیریز نہ کھیلنے سے فرق نہیں پڑا۔

بالکل ٹھیک کہا سر آپ نے درمیان میں سے ایک آواز آئی، پھر ایک اور صاحب کہنے لگے سر ہماری تنخواہوں میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے، غیرملکی دورے اور دیگر مراعات بھی جاری ہیں، بورڈ کے خزانے میں بڑی رقم موجود ہے، لہذا دیوالیہ بھی نہیں ہوئے، پھر جو نقصان نقصان کی رٹ لگاتے ہیں وہ کیا ہے، ایک اور آفیشل نے جواب دیا وہ تو ممکنہ فائدہ نہ ہونے کو ہم نقصان کہتے ہیں۔

یہ سن کر وہ اچھا کہہ کر خاموش ہو گئے، اب میں فوراً پریس کانفرنس بلا کر دیکھو بھارت کا کیا حال کرتا ہوں، اب تو میاں صاحب بھی وزیر اعظم نہیں رہے لہذا دوستیوں کے سبب ان کی ناراضگی کا بھی کوئی ڈر نہیں، چیئرمین نے جب یہ کہا تو ایک اور ساتھی نے جواب دیا جی سر آپ کو بھی کہا جاتا ہے کہ بھارت کیلیے نرم گوشہ رکھتے ہیں لہذا آج اگلا پچھلا حساب برابر کر دیں۔

اتنے میں سابقہ چیئرمین شہریارخان بھی کانفرنس روم میں داخل ہو جاتے ہیں، ان کا بھرپور استقبال ہوتا ہے،انھیں بھارتی امور میں مہارت کی وجہ سے خاص طور پر مدعو کیا گیا تھا، وہ کہتے ہیں کہ بھارت کو سبق سکھانے کا وقت آگیا، میری وہاں بڑی رشتہ داریاں ہیں مگر سب جانتے ہیں میرے ساتھ کیسا سلوک کیا گیا تھا، اب ہمیں بھی اعلان کر دینا چاہیے کہ جاؤ ہم بھی نہیں کھیلتے۔

کچھ دیر بعد پریس کانفرنس ہونے لگتی ہے، چیئرمین مسکراتے ہوئے صحافیوں سے کہتے ہیں، آج پانچ سوال نہیں جو پوچھنا ہے پوچھیں میں یہاں موجود ہوں لیکن پہلے میری باتیں سن لیں، بھارت اگر ہم سے نہیں کھیلنا چاہتا تو نہ کھیلے ہم کشکول لے کر پیچھے نہیں بھاگیں گے، آئی سی سی کو بھی ہمارا پیغام ہے کہ اتنے دنوں میں وہ ٹریبیونل بھی تشکیل نہیں دے سکی،اس کا بھارت پر کوئی زور نہیں چلتا لہذا ہم عالمی ایونٹس میں بھی بلو شرٹس سے مقابلہ نہیں کریں گے۔


اب ورلڈکپ، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی، چیمپئنز ٹرافی میں بھی بھارت سے میچز نہیں ہوں گے،بھارتی حکومت نے کھیلوں کو سیاست سے مکس کر دیا، ہم کب تک صبر کریں گے، بس اب بہت ہوچکا،مجھے نہیں لگتا کہ آئی سی سی پاک بھارت کرکٹ روابط بحال کرانے میں سنجیدہ ہے، اس لیے اب ہم بھی ٹھوس قدم اٹھائیں گے، بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ باہمی میچز کے وقت بھارتی حکومت روک لیتی ہے، آئی سی سی کے مقابلوں میں اجازت مل جاتی ہے، یہ تو کھلا تضاد ہو گیا۔

اب ہمارا بھی واضح موقف ہے کہ جب تک بھارت کشمیریوں پر مظالم بند نہیں کرتا، سرحد پر بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا،ہمارے ملک میں دہشت گردی کی کارروائیاں ختم نہیں کی جاتیں،بے جواز الزام تراشی نہیں روکی جاتی، ہم بھی بھارت کے ساتھ کسی بھی ایونٹ میں نہیں کھیلیں گے، ہماری اپنی پی ایس ایل کامیاب ہو چکی،اس سے رقم کمائیں گے، دیگر ممالک سے تعلقات بہتر بنائے جائیں گے، میں ہنگامی دورے کر کے باہمی سیریز کیلیے بات چیت کروں گا۔

پریس کانفرنس کے بعد کونسل کے چیف کی چیئرمین پی سی بی کو کال آتی ہے، سیٹھی صاحب آپ تو ناراض ہو گئے، میں بھارت سے بات کرتا ہوں، پاک بھارت مقابلے تو کرکٹ کا حسن ہیں، یہ تو ایشز سے بڑھ کر ہیں،کروڑوں لوگ روایتی حریفوں کے میچز دیکھنا چاہتے ہیں، مگر آپ جانتے ہیں ہمارا بس نہیں چلتا ، پھر بھی میں کوشش ضرور کروں گا۔

بورڈ آفس میں پھر ایک اجلاس کا انعقاد ہوتا ہے، سیٹھی صاحب فرماتے ہیں، آپ جانتے ہیں ہم نے واضح اسٹینڈ لیا ہے، اب مالی نقصان ہوگا، اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ افسران کے غیرملکی دورے،تنخواہوں میں اضافے، بونسز وغیرہ بند کیے جائیں، بالکل سر ہم سب تیار ہیں، جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہو کر سب کہنے لگتے ہیں، اچانک ایک کال آتی ہے،دوسری جانب ذاکر خان تھے، وہ کہتے ہیں سر مجھے جو کئی برس کے بغیر کام کے تنخواہ دے رہے ہیں میں اب اس سے دستبردار ہوتا ہوں، سر میرے ڈپارٹمنٹ میں اتنے غیر ضروری ملازم ہیں میں سب کو فارغ کرنے کی تجویز پیش کروں گا۔

ایسی ہی کئی آوازیں سامنے آتی ہیں، خوشی سے سرشار سی ایف او بتاتے ہیں اگر ایسا ہوگیا تو ہمیں اتنے کروڑ کی بچت ہو گی یوں مالی حالات مزید مستحکم ہو جائیں گے،سلیکٹرز کا بھی پیغام آیا ہے وہ کہہ رہے ہیں پہلے تو یہ کام مفت میں ہوتا تھا ہمیں کیوں لاکھوں روپے دے رہے ہیں، ہمیں معاوضہ نہیں چاہیے، دوستوں کو نوازنے کا سلسلہ ختم کرتے ہوئے فلاں فلاں کو بھی گھر بھیج دیں گے ایک اور اعلیٰ افسر کہنے لگے، اسی کے ساتھ اجلاس ختم ہو گیا، سب کو ایسا لگنے لگا اب پاکستان کرکٹ میں نئے سال کے ساتھ نیا سورج طلوع ہوگا۔

اٹھیں بابا ہمارے اسکول کا ٹائم ہو گیا ہے، میری بیٹی نے یہ کہا تو میں ہڑبڑا کر اٹھ گیا،ساتھ ہی یہ جان گیا کہ سب کچھ محض ایک خواب تھا۔

(نوٹ:آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں۔)
Load Next Story