نواز شریف کی پارٹی صدارت کے خلاف درخواستیں منظور

اختیار میں بلاجواز مداخلت نہیں کرسکتے مگر کوئی ترمیم آئین سے متصادم ہو تو جائزہ لے سکتے ہیں، چیف جسٹس


Numainda Express January 02, 2018
قانون کالعدم کرنے کا طریقہ کار کیا ہے یہ بھی دیکھنا ہوگا، عدالت۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے عوامی نمائندگی ایکٹ 2017 کے تحت نااہل شخص کی پارٹی صدارت کے خلاف درخواستیں سماعت کیلیے منظور کرتے ہوئے ایکٹ کی منظوری تک تمام تفصیلات طلب کرلیں جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف، ن لیگ، الیکشن کمیشن، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی اور وزارت قانون سمیت تمام فریقوں کو نوٹس جاری کردیے اور اٹارنی جنرل کو معاونت کیلیے طلب کرلیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل فل بینچ نے قرار دیا کہ درخواست گزاروں نے قانونی نکتہ اٹھایاکہ نااہل شخص کیسے سیاسی جماعت کا سربراہ بن سکتا ہے جبکہ درخواست گزاروں کا یہ بھی موقف ہے کہ مقدمہ عوامی مفاد اور بنیادی حقوق سے تعلق رکھتا ہے اور ایک نااہل شخص کا پارٹی سربراہ بننا آئین کی شق 9اور 17سے متصادم ہے، آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی کے بعد پارٹی صدارات کیلیے اہل ہونا قانونی سوال ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون بنانے کیلیے پارلیمان سپریم ادارہ ہے، ہم پارلیمان کے قانون بنانے کے اختیار میں مداخلت نہیں کرسکتے لیکن بنیادی حقوق اور عوامی مفاد ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، اگر کوئی ترمیم کسی مروجہ بنیادی قانون یا آئین کی کسی شق اور بنیادی حقوق سے متصادم ہو تو عدالت پارلیمان کے منظور کردہ قانون کا جائزہ لینے کی مجاز ہے۔ ہم کو قانون کے مطابق چلنا ہے، پارلیمان کے منظور کردہ قانون کو کالعدم کرنے کا طریقہ کار کیا ہے، اس کو بھی دیکھنا ہوگا کیونکہ پارلیمان بالادست ادارہ ہے اور خود بھی اس قانون کو کالعدم کراسکتی ہے۔

سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزارشیخ رشید کے وکیل فروغ نسیم نے استدعاکی کہ عدالت مخالف فریقوںکو نوٹس جاری کرے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نوٹس کیلیے وجہ ہونا چاہیے، عدالتی نظیریں پیش کریں اور مطمئن کریں کہ پارلیمان سے منظور کردہ قانون کالعدم کیا جاسکتا ہے، ایسا نہیںہے کہ آپ نے درخواست دائر کی اور ہم نوٹس جاری کردیں، یہ اتنا آسان سوال نہیں، پارلیمان قانون سازی کیلیے سپریم باڈی ہے اور ہم نے جہانگیر ترین کیس میں بھی قرار دیا ہے کہ پارلیمان بالادست ادارہ ہے۔

درخواست گزار پارلیمان کے منظور کردہ قانون کو کالعدم کرانا چاہتے ہیں لیکن اس کا کیا طریقہ کار ہوگا، ہم کو اسے دیکھنا ہے، عدالت کو آسان نہ لیا جائے۔ حشمت حبیب ایڈووکیٹ نے کہاکہ عدالتی نظیریں لانے کیلیے وقت دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایک سینئر وکیل کو ہمیشہ تیار ہونا چاہیے، التوا کی درخواست شایان شان نہیں۔ درخواستیں 3 ماہ پہلے دائر ہوئیں ،کم از کم 2مثالیں دیدیں۔

کچھ وقفے کے بعد جب سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وکیل ذوالفقار بھٹہ نے بتایاکہ عدالت نے توہین عدالت قانون میں ترمیم کالعدم کردی تھی۔ فروغ نسیم نے کہا کہ ایک سے زیادہ مقدمات میں عدالت نے پارلیمان کا منظور کردہ قانون کالعدم کیا، عدالت کو پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین پر جائزے کا اختیار ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درخواستوں کے قابل سماعت اور مفاد عامہ کا مقدمہ ہونے پر بھی مطمئن کرنا پڑے گا کیونکہ ہم پارلیمنٹ کے اختیار میں بلاجواز مداخلت نہیں کرسکتے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کے استفسار پر کہ عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق203کس طرح قانون سے متصادم ہے، وکیل نے کہاکہ ایک شخص جسے سپریم کورٹ نے نااہل کردیا ہو اور بددیانت قرار دیا ہو وہ پارٹی صدر کیسے بن سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ بددیانت نہیں نااہل کہو۔ فیصلے کی رو سے وہ رکن قومی اسمبلی اور وزیر اعظم نہیں رہے، یہ کہاں لکھا ہے کہ وہ سیاست نہیں کرسکتے۔ فروغ نسیم نے کہاکہ سربراہ پارٹی کو کنٹرول کرتا ہے، منتخب ارکان کس طرح نااہل شخص کی ہدایات کے پابند ہوسکتے ہیں؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ پارٹی صدر کے سرٹیفکیٹ سے منتخب ارکان رکنیت کھوسکتے ہیں، پارٹی صدر قانون سازی کو متاثر کرسکتا ہے، ارکان پارٹی صدر کے زیراثر ہوتے ہیں۔ پارٹی سربراہ کے اختیارات کو اسی جماعت کے منشور کی تناظر میں بھی دیکھنا ہوگا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق فروغ نسیم نے پاناما فیصلے میں جسٹس اعجاز الاحسن کی آبزرویشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ایماندار آدمی کا مجھ پر حکمراں ہونا میرا بنیادی حق ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نااہلی کا لفظ استعمال کرنے میں احتیاط سے کام لے رہے ہیں، کیا آپ کہنا چاہتے ہیں اگر کسی شخص کی پارلیمنٹ سے رکنیت ختم ہو جائے تو گورننس کا حقدار نہیں، آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں نااہل شخص کا پارٹی سربراہ بننا آرٹیکل9 کی خلاف ورزی ہے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ پارلیمنٹیرین کی فیصلہ سازی کا دارومدار پارٹی سربراہ کی ہدایات پر ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ دیکھنا ہوگا اس بنیاد پر قانون کو کالعدم کیا جاسکتا ہے؟

فروغ نسیم نے کہا کہ شق 203 میں ترمیم ایک شخص کے مفاد کے لیے کی گئی ہے اور باز محمد کاکڑ کیس میں قرار دیا گیاہے کہ ایسی قانون سازی غیرآئینی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کاکڑ کیس میں ماضی کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا لیکن یہ لارجر بینچ کا فیصلہ ہے وہ تبصرہ نہیں کریں گے۔ تمام جماعتوں نے قانون کے حق میں پارلیمنٹ کے اندر ووٹ دیا حتیٰ کہ آپ کی جماعت نے بھی دیا۔ فروغ نسیم نے کہاکہ ان کی جماعت کے ایک رکن نے سینیٹ میں ووٹ دیا اور ایک ووٹ کی اکثریت سے قانون منظور ہوا۔

پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہاکہ بعد میں سینیٹ نے67ووٹوں کے ساتھ اس قانون کے خلاف قرارداد منظور کی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسا ہے تو پارلیمنٹ خود اس قانون کو کالعدم قرار کیوں نہیں دے دیتی۔ فروغ نسیم نے کہا کہ این آر او کیس کا فیصلہ بھی انہی بنیادوں پر کیا گیا۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ پارلیمانی جمہوریت میں پارٹی سربراہ اصل حکومت چلاتے ہیں، سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی وغیرہ تو برائے نام ہیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ پھر ہم درخواستیں سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے نوٹس جاری کردیتے ہیں۔ جسٹس پارٹی کے وکیل اکرام چوہدری نے کہاکہ ان کی درخواست میں مذکورہ قانون کی شق16اور 202 کو بھی چیلنج کیا گیاہے کیونکہ الیکشن کمیشن کو کارکردگی رپورٹ پارلیمنٹ کے سامنے رکھنے کا پابند کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ یہ تو پارلیمنٹ کی بالادستی کیلیے ہے، اس سے الیکشن کمیشن کا اختیار تو متاثر نہیں ہوتا۔ نئی جماعتوں کی رجسٹریشن کیلیے قواعد بنانا تو اچھی بات ہے، عدالت نے ان کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کردی جبکہ ایک درخواست گزار راحیل کامران کی طرف سے التوا کی درخواست بھی مسترد کرتے ہوئے سماعت23جنوری تک ملتوی کردی۔ عدالت نے رجسٹرار آفس کو ہدایت کی کہ اس ضمن میں دیگر متفرق درخواستوں کو بھی نمبر لگا کر23جنوری کو سماعت کیلیے مقررکیا جائے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں