چنیوٹ کے منفرد حقائق
کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ لفظ چنیوٹ دو الفاظ ’’چن‘‘ یعنی چاند اور ’’اوٹ‘‘ یعنی ’’کسی چیز کے پیچھے‘‘کا مجموعہ ہے۔
وسطی پنجاب میں واقع شہر چنیوٹ اپنے چوبی فرنیچر، حویلیوں اور مساجد کی وجہ سے مشہور ہے۔
تاریخ سے وابستہ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ لفظ چنیوٹ دو الفاظ ''چن'' یعنی چاند اور ''اوٹ'' یعنی ''کسی چیز کے پیچھے''کا مجموعہ ہے۔دریائے چناب اور پہاڑوں کے سنگم میں جب چاند پہاڑوں کی اوٹ سے نکل کر سامنے آتا ہے تو دریا میں چاند کی پرچھائی دلکش منظر پیش کرتی ہے ۔اسی نسبت سے شہر کا نام چنیوٹ رکھا گیا ۔تاہم سات سال پہلے چنیوٹ میں ایک قلعہ نما سرائے کی دریافت سے شہر کا تاریخی منظر نامہ یکسر تبدیل ہوتا دیکھائی دیتا ہے۔
اس سرائے کے بارے میں خیال ہے کہ یہ 326 قبل مسیح میں راجا چندر گپت موریا کی رانی نے ہندو شاہی دور میں تعمیر کروائی تھی۔کتاب ''چنیوٹ کی تاریخ'' میں مورخ لکشمی نارائن لکھتے ہیں کہ رانی چندن شکار کی غرض سے مردوں کے بھیس میں چنیوٹ آیا کرتی تھی۔شکار کیلئے پہاڑوں اور دریا چناب کا سنگم اْس کی پسندیدہ جگہیں تھیں مگر یہاں رہائش کیلئے کوئی مقام نہ ہونے کے باعث اْسے مشکلات درپیش آتی تھیں۔تبھی اْس نے دریائے چناب کے بائیں کنارے پر پہاڑوں کے دامن میں ایک سرائے تعمیر کروائی جس کا نام چندن یوٹ رکھا گیا جس کا مطلب ''چندن کی جائے پناہ''ہے۔
اس سرائے کی دیواروں کی تعمیر میں مقامی پہاڑوں کا پتھر استعمال کیا گیا۔دیواروں کی چوڑائی تین فٹ تھی۔ یہ شاید چنیوٹ کی زمین پر رکھی جانے والی پہلی بنیاد تھی۔بعدازاں اس سرائے کے گرد شہر آباد ہوتا گیا جسے چند یوٹ کہا جانے لگا جو آج کل چنیوٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں یہ بھی لکھا ملتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سرائے کو یونیورسٹی کی شکل دے دی گئی جہاں بدھ مت کے اعلیٰ علوم سکھائے جاتے تھے۔ اس یونیورسٹی کا ذکر کئی پْرانی مذہبی کتابوں میں بھی موجود ہے۔
محکمہ آثار قدیمہ پاکستان نے سات سال قبل اس سرائے کی دریافت کے دوران پہاڑوں کے دامن میں مٹی کے بڑے بڑے ٹیلوں کی تین مختلف مقامات سے کھدائی کرتے ہوئے اس کا 10 فیصد سے زائد حصہ دریافت بھی کر لیا تھا مگر باقی تمام حصہ تاحال مٹی کے ٹیلوں تلے دبا ہوا ہے ۔ محکمہ کی طرف سے کام روک دیا گیا ہے۔مذکورہ جگہ پر کھدائی کے بعد نمودار ہونے والی تقریباً تین فٹ چوڑی دیواریں اب واضح دکھائی دیتی ہیں۔
سرگودھا میں تعینات محکمہ آثار قدیمہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار ،محمد ایوب کا کہنا ہے ، کھدائی کے دوران پہاڑ کے دامن میں شمشان گھاٹ (ہندووں کی مردہ جلانے کی جگہ) کے آثار بھی ملے ہیں جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہاں ایک بڑا شہر آباد رہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس یونیورسٹی کی دریافت کے دوران دیواروں میں دبائے گئے مٹکے بھی ملے جن میں زمانہ قدیم کے لوگ اپنی قیمتی اشیا محفوظ کرکے دیواروں یا زمین میں دفن کر دیا کرتے تھے۔مٹکوں میں موجود اْس دور کے زیورات وغیرہ محکمہ آثار قدیمہ کے پاس محفوظ ہیں۔محمد ایوب کے بقول محکمے کو جیسے ہی مزید فنڈز ملے، سرائے پر دوبارہ کام شروع ہو گا تاکہ ہندو شاہی دور میں آباد اس تاریخی شہر اور اْس دور کے لوگوں کے رہن سہن کے بارے میں مزید شواہد حاصل ہوسکیں۔
تاریخ سے وابستہ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ لفظ چنیوٹ دو الفاظ ''چن'' یعنی چاند اور ''اوٹ'' یعنی ''کسی چیز کے پیچھے''کا مجموعہ ہے۔دریائے چناب اور پہاڑوں کے سنگم میں جب چاند پہاڑوں کی اوٹ سے نکل کر سامنے آتا ہے تو دریا میں چاند کی پرچھائی دلکش منظر پیش کرتی ہے ۔اسی نسبت سے شہر کا نام چنیوٹ رکھا گیا ۔تاہم سات سال پہلے چنیوٹ میں ایک قلعہ نما سرائے کی دریافت سے شہر کا تاریخی منظر نامہ یکسر تبدیل ہوتا دیکھائی دیتا ہے۔
اس سرائے کے بارے میں خیال ہے کہ یہ 326 قبل مسیح میں راجا چندر گپت موریا کی رانی نے ہندو شاہی دور میں تعمیر کروائی تھی۔کتاب ''چنیوٹ کی تاریخ'' میں مورخ لکشمی نارائن لکھتے ہیں کہ رانی چندن شکار کی غرض سے مردوں کے بھیس میں چنیوٹ آیا کرتی تھی۔شکار کیلئے پہاڑوں اور دریا چناب کا سنگم اْس کی پسندیدہ جگہیں تھیں مگر یہاں رہائش کیلئے کوئی مقام نہ ہونے کے باعث اْسے مشکلات درپیش آتی تھیں۔تبھی اْس نے دریائے چناب کے بائیں کنارے پر پہاڑوں کے دامن میں ایک سرائے تعمیر کروائی جس کا نام چندن یوٹ رکھا گیا جس کا مطلب ''چندن کی جائے پناہ''ہے۔
اس سرائے کی دیواروں کی تعمیر میں مقامی پہاڑوں کا پتھر استعمال کیا گیا۔دیواروں کی چوڑائی تین فٹ تھی۔ یہ شاید چنیوٹ کی زمین پر رکھی جانے والی پہلی بنیاد تھی۔بعدازاں اس سرائے کے گرد شہر آباد ہوتا گیا جسے چند یوٹ کہا جانے لگا جو آج کل چنیوٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں یہ بھی لکھا ملتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سرائے کو یونیورسٹی کی شکل دے دی گئی جہاں بدھ مت کے اعلیٰ علوم سکھائے جاتے تھے۔ اس یونیورسٹی کا ذکر کئی پْرانی مذہبی کتابوں میں بھی موجود ہے۔
محکمہ آثار قدیمہ پاکستان نے سات سال قبل اس سرائے کی دریافت کے دوران پہاڑوں کے دامن میں مٹی کے بڑے بڑے ٹیلوں کی تین مختلف مقامات سے کھدائی کرتے ہوئے اس کا 10 فیصد سے زائد حصہ دریافت بھی کر لیا تھا مگر باقی تمام حصہ تاحال مٹی کے ٹیلوں تلے دبا ہوا ہے ۔ محکمہ کی طرف سے کام روک دیا گیا ہے۔مذکورہ جگہ پر کھدائی کے بعد نمودار ہونے والی تقریباً تین فٹ چوڑی دیواریں اب واضح دکھائی دیتی ہیں۔
سرگودھا میں تعینات محکمہ آثار قدیمہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار ،محمد ایوب کا کہنا ہے ، کھدائی کے دوران پہاڑ کے دامن میں شمشان گھاٹ (ہندووں کی مردہ جلانے کی جگہ) کے آثار بھی ملے ہیں جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہاں ایک بڑا شہر آباد رہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس یونیورسٹی کی دریافت کے دوران دیواروں میں دبائے گئے مٹکے بھی ملے جن میں زمانہ قدیم کے لوگ اپنی قیمتی اشیا محفوظ کرکے دیواروں یا زمین میں دفن کر دیا کرتے تھے۔مٹکوں میں موجود اْس دور کے زیورات وغیرہ محکمہ آثار قدیمہ کے پاس محفوظ ہیں۔محمد ایوب کے بقول محکمے کو جیسے ہی مزید فنڈز ملے، سرائے پر دوبارہ کام شروع ہو گا تاکہ ہندو شاہی دور میں آباد اس تاریخی شہر اور اْس دور کے لوگوں کے رہن سہن کے بارے میں مزید شواہد حاصل ہوسکیں۔