جامعات کے لیے نیا ضابطہ اخلاق اس کی تشکیل کے اہم خدوخال
اداروں میں طلبہ کیلئے متنوع ادبی سرگرمیوں کی اہمیت سے کسی کو انکارنہیں ہے۔
پاکستان کے معاشرے میں بالعموم اورجامعات کی سطح پر بالخصوص طلبہ کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی کی ضرورت عہد موجود میں کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
اخلاقی تربیت کے فقدان اور جدید مواصلاتی اختراعات کے باعث نوجوان طلبہ کے رویوں میں گراوٹ ، قانون کی عدم پاسداری، بے راہ روی اور شدت پسندانہ عناصر میں شرح اضافہ خطرناک حد تک مشاہدے میں آرہا ہے۔اس لیے تعلیمی مراحل میں ابتدائی، ثانوی درجات میں عمومی اور جامعاتی سطح پرتربیت طلبہ کے لئے خصوصی انقلابی اقدامات لازمی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کی ذہنی وسعت، اصلاح احوال اورجدید چیلنجز سے مقابلہ کیلئے مذہبی ، سماجی اور اخلاقی تعلیمات پر مبنی ایسا پیغام اور ضابطہ اخلاق مہیا کرنے کی شدید ضرورت ہے جس کی عملی تشکیل بھی ممکن ہو۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے بے ہنگم اور غیر متوازن استعمال کی روک تھام کیلئے ایچ ای سی اور جامعات کو ادبیات ، انسانیات اورسماجی علوم کی ترویج میں اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔اداروں میں طلبہ کیلئے متنوع ادبی سرگرمیوں کی اہمیت سے کسی کو انکارنہیں ہے،اس کیلئے اداروں کو خصوصی کیلنڈر تشکیل دینا ہوں گے۔
جامعات میں ان سرگرمیوں کو شعبہ جاتی سطح تک توسیع دی جائے تاکہ تمام طلبہ کو اپنی خداداد صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے زریں مواقع حاصل ہوں۔ طلبہ کو مثبت دھارے میں لانے کیلئے ایک فعال ضابطہ اخلاق جاری کیا جانا چاہیے جس میں جامعات کی حدود میں اساتذہ، طلبہ اور سٹاف کو چند اہم اصول وقوانین کا پابند بنایا جائے، اور اس ضابطہ کی بھرپور ترویج واشاعت کیلئے (Orientations) کے ذریعہ نئے آنے والے اور پہلے سے موجود طلبہ تک پہنچایا جائے۔ چند اہم نکات کی جانب توجہ مفید ہو گی:
(1)طلبہ میں اسلامی فکر کی بیداری کیلئے مطالعہ ومذاکرہ سیرت انتہائی اہم ہے۔ تمام جامعات میں مسندسیرت ( Seerat chair)کا قیام عمل میں لایا جائے، جن کی سربراہی کیلئے متوازن علمی شخصیات کو ایچ ای سی کی طرف سے متعین کیا جائے۔
(2)اخلاقی اور روحانی بالیدگی کیلئے اقبال اور مرشد رومی کا معتدل پیغام انتہائی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس غرض سے جامعات میں ''رومی یا اقبال فورم'' بھی قائم کیے جاسکتے ہیں جو تسلسل کے ساتھ طلبہ میں تصوف اور تزکیہ واصلاح نفس کیلئے کوشاں رہیں۔
(3)جامعات میں اسلامی تہذیب کے مراکز قائم کئے جائیں۔ یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ ہم جب تک اپنے طلبہ کا تعلق ان کے درخشاں اور تابندہ علمی ماضی سے نہیں جوڑیں گے، انہیں اپنے اسلاف کے زریں کارناموں سے آشنا نہیں کریں گے ، تب تک ان میں ذمہ داری کا احساس بیدار نہیں ہو سکتا۔ہمیں طلبہ کو صحیح معنوں میں باشعور اور بیدار مغز، بلند ہمت اورصالح انسان بنانے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس کیلئے (Centre of Civilization Muslims for Excellence) قائم کرنے کیلئے راہ ہموار کرنا ہوگی۔
(4)اسلامی احکامات اور قوانین کی پاسداری کیلئے آئین ونظریہ پاکستان کے منافی ہر قسم کی نقل وحرکت پرپابندی ہوگی۔مباحثوں اور مجالس مذاکرہ کیلئے اس بات کا بھی خصوصی خیال رکھا جائے کہ شدت پسندی کے بڑھتے رجحان کے علاج اور اصلاح احوال کیلئے مستند اور معتدل علماء اور دانشوروں کوہی جامعات کی تقریبات میں مدعو کیا جائے تاکہ اخلاقی اصلاحاتی عمل کو درست سمت میں آگے بڑھایا جاسکے۔
(5) قومی سا لمیت اور استحکام کے منافی کسی بھی سرگرمی کی ہرگز اجازت نہیں ہوگی۔
(6) جامعات کے انتظامی امور اور احکامات میں کسی قسم کی مداخلت ممنوع ہوگی۔
(7)سماجی اور ثقافتی قدروں کی پابندی کی جائے گی، اور اس کے برعکس غیر سماجی اورمنافئی مذہب سرگرمیوں سے بہرصورت اجتناب برتا جائے گا۔اس حوالے سے سوشل میڈیا(فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام اور ٹوئٹروغیرہ) کے استعمال میں اخلاقی حدود سے تجاوز کسی طور قابل قبول نہیں ہوگا۔
(8)شدت پسندی، دہشت گردی کو ہوا دینے والے کسی مواد (تقریری یا تحریری) کو جامعہ کی حدود میں لانا قابل مواخذہ جرم تصور کیا جائے گا۔
(9)اسلامی شعار کی اہانت قابل تعزیرجرم ہے لیکن ساتھ ہی محض ذاتی دشمنی اور عناد وانتقام کیلئے اپنے مخالفین پر توہین مذہب کا غلط الزام عائد کر کے نہ صرف اللہ اور اس کے رسولﷺ کامجرم بننا ہے بلکہ قانوناً یہ بھی قابل تعزیر جرم ہے۔
(10)کسی بھی قسم کی فرقہ وارانہ وابستگی اور اس کی بنیاد پر تعصب پھیلانے کی اجازت نہیں ہوگی، باہمی روادری ،ہم آہنگی اور تحمل کو فروغ دینے کی کوششوں کو بنظر تحسین دیکھا جائے گا۔
(11) اپنی رائے سے عدم موافقت کی صورت میں اساتذہ، طلبہ اور تمام عملہ کو دوسروں کی رائے کا احترام کرنا ہوگا، اس ضمن میں سیاسی اور مسلکی مناظرہ بازی اور بلادلیل بحث ومباحثہ پر پابندی ہوگی۔
(12) تدریسی عملہ یعنی اساتذہ کرام کا احترام یقینی بنایا جائے گا، اساتذہ کی بے حرمتی اور بے ادبی قابل مواخذہ جرم متصور ہوگا۔
(13)نظم وضبط کے قیام کیلئے سکیورٹی عملہ اور دیگر اراکین جامعات سے تعاون کو یقینی بنایا جائے گا۔
(14) جامعات کی حدود میں منشیات کا کاروبارقابل گرفت جرم ہے۔اس کے ساتھ ہی حدود جامعہ (University Premises) لیکچرز ہال، کمرہ ہائے جماعت،برآمدے اور دیگر آمدورفت کے مقامات میں تمباکو نوشی،دیگر منشیات پان /چھالیا یا تھوکنا (Spiting) بھی سختی کے ساتھ منع ہے۔
(15) جملہ قسم کے اشتہار (Wall of Chalking)، پوسٹرزاور بینرز لگانے سخت منع ہوں گے ، خلاف ورزی کی صورت میں جرمانہ اور دیگر تادیبی کاروائی ہوگی۔
(16) جامعات کی حدود میں کسی بھی قسم کا اسلحہ، کندوتیز دھار ہتھیار رکھنا یا اس کا مظاہرہ (Demonstration) قابل مواخذہ جرم متصور ہوگا۔
(17)تمام شعبہ جات میں محققین سکالرز اور اساتذہ اپنی تحقیقی سرگرمیوں میں دیانتداری اور تحقیقی اصولوں کی پاسداری کریں، اس ضمن میں ایچ ای سی اور متعلقہ جامعہ کی ہدایات پر عمل کو یقینی بنایا جائے۔
(18)طلبہ کی کردار سازی میں استاد کے کردار سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا، دنیا اب عالمی گاؤں (Global Village) بن چکی ہے، جہاں معلومات کے انبار تک پلک جھپکتے چند بٹنوں کی حرکت سے پہنچا جا سکتا ہے۔ایسے میں اساتذہ کا کردارتبدیل ہو کر طلبہ کو بڑے مقاصد واہداف کیلئے خواب دکھانے اور اخلاقی قدروں کی آبیاری ،حوصلہ افزائی کے ذریعہ ان میں قوت کار کی استعداد پیدا کرنے کی ضرورت دوچند ہوگئی ہے۔
(19) عصر حاضر میں معلومات انٹرنیٹ کی مختلف ویب سائٹس پر بھی مہیا ہیں،اب پرعزم طلبہ ضروری معلومات تک خود رسائی حاصل کرسکتے ہیں اس لیے ایک استاد کو اپنے رسمی کردار سے آگے بڑھ کراپنے آپ کو ایک ایسے قابل عمل نمونہ کے طور پر پیش کرنا ہے جوان کو درست سمت دیں ،اساتذہ کرام کو طلبہ کی چھپی ہوئی صلاحیتیں نکھارنے پر خصوصی توجہ دینی ہوگی، ان میں گرتی ہوئی قدروں کی نشاندہی کرتے ہوئے کردار سازی پر زور دینا ہوگا اور انہیں ملک و ملت کیلئے سودمند بنانے میں اپنا کلیدی کردار سمجھنے کے ساتھ ساتھ نبھانا بھی ہوگا۔
ملک خداداد میں اضطراب اور انتشار کی سب سے اہم وجہ ضابطوں اور قوانین کی عدم پاسداری ہے۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ضابطے، اصول اور قوانین تو وافر مقدار میں موجود ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں بوجوہ ان کے نفاذ (Implementation) کا رجحان نمو پا ہی نہیں سکا۔ ایسی صورتحال میں بے چینی اور خدشات کی فضا پیدا ہونا فطری ہے۔ لہٰذا سب سے اہم ضرورت ان قوانین کی عملداری کیلئے فعال عملی ڈھانچہ (Mechanism) تشکیل دینا ہے، جس کے لیے جامعہ سرگودھا نے نقش اول کے طور پر ایک کاوش کی ہے۔امید ہے کہ صاحبان علم اس عمل کو مزید تیز سے تیز تر اور بہتر سے بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔n
اخلاقی تربیت کے فقدان اور جدید مواصلاتی اختراعات کے باعث نوجوان طلبہ کے رویوں میں گراوٹ ، قانون کی عدم پاسداری، بے راہ روی اور شدت پسندانہ عناصر میں شرح اضافہ خطرناک حد تک مشاہدے میں آرہا ہے۔اس لیے تعلیمی مراحل میں ابتدائی، ثانوی درجات میں عمومی اور جامعاتی سطح پرتربیت طلبہ کے لئے خصوصی انقلابی اقدامات لازمی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کی ذہنی وسعت، اصلاح احوال اورجدید چیلنجز سے مقابلہ کیلئے مذہبی ، سماجی اور اخلاقی تعلیمات پر مبنی ایسا پیغام اور ضابطہ اخلاق مہیا کرنے کی شدید ضرورت ہے جس کی عملی تشکیل بھی ممکن ہو۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے بے ہنگم اور غیر متوازن استعمال کی روک تھام کیلئے ایچ ای سی اور جامعات کو ادبیات ، انسانیات اورسماجی علوم کی ترویج میں اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔اداروں میں طلبہ کیلئے متنوع ادبی سرگرمیوں کی اہمیت سے کسی کو انکارنہیں ہے،اس کیلئے اداروں کو خصوصی کیلنڈر تشکیل دینا ہوں گے۔
جامعات میں ان سرگرمیوں کو شعبہ جاتی سطح تک توسیع دی جائے تاکہ تمام طلبہ کو اپنی خداداد صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے زریں مواقع حاصل ہوں۔ طلبہ کو مثبت دھارے میں لانے کیلئے ایک فعال ضابطہ اخلاق جاری کیا جانا چاہیے جس میں جامعات کی حدود میں اساتذہ، طلبہ اور سٹاف کو چند اہم اصول وقوانین کا پابند بنایا جائے، اور اس ضابطہ کی بھرپور ترویج واشاعت کیلئے (Orientations) کے ذریعہ نئے آنے والے اور پہلے سے موجود طلبہ تک پہنچایا جائے۔ چند اہم نکات کی جانب توجہ مفید ہو گی:
(1)طلبہ میں اسلامی فکر کی بیداری کیلئے مطالعہ ومذاکرہ سیرت انتہائی اہم ہے۔ تمام جامعات میں مسندسیرت ( Seerat chair)کا قیام عمل میں لایا جائے، جن کی سربراہی کیلئے متوازن علمی شخصیات کو ایچ ای سی کی طرف سے متعین کیا جائے۔
(2)اخلاقی اور روحانی بالیدگی کیلئے اقبال اور مرشد رومی کا معتدل پیغام انتہائی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس غرض سے جامعات میں ''رومی یا اقبال فورم'' بھی قائم کیے جاسکتے ہیں جو تسلسل کے ساتھ طلبہ میں تصوف اور تزکیہ واصلاح نفس کیلئے کوشاں رہیں۔
(3)جامعات میں اسلامی تہذیب کے مراکز قائم کئے جائیں۔ یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ ہم جب تک اپنے طلبہ کا تعلق ان کے درخشاں اور تابندہ علمی ماضی سے نہیں جوڑیں گے، انہیں اپنے اسلاف کے زریں کارناموں سے آشنا نہیں کریں گے ، تب تک ان میں ذمہ داری کا احساس بیدار نہیں ہو سکتا۔ہمیں طلبہ کو صحیح معنوں میں باشعور اور بیدار مغز، بلند ہمت اورصالح انسان بنانے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس کیلئے (Centre of Civilization Muslims for Excellence) قائم کرنے کیلئے راہ ہموار کرنا ہوگی۔
(4)اسلامی احکامات اور قوانین کی پاسداری کیلئے آئین ونظریہ پاکستان کے منافی ہر قسم کی نقل وحرکت پرپابندی ہوگی۔مباحثوں اور مجالس مذاکرہ کیلئے اس بات کا بھی خصوصی خیال رکھا جائے کہ شدت پسندی کے بڑھتے رجحان کے علاج اور اصلاح احوال کیلئے مستند اور معتدل علماء اور دانشوروں کوہی جامعات کی تقریبات میں مدعو کیا جائے تاکہ اخلاقی اصلاحاتی عمل کو درست سمت میں آگے بڑھایا جاسکے۔
(5) قومی سا لمیت اور استحکام کے منافی کسی بھی سرگرمی کی ہرگز اجازت نہیں ہوگی۔
(6) جامعات کے انتظامی امور اور احکامات میں کسی قسم کی مداخلت ممنوع ہوگی۔
(7)سماجی اور ثقافتی قدروں کی پابندی کی جائے گی، اور اس کے برعکس غیر سماجی اورمنافئی مذہب سرگرمیوں سے بہرصورت اجتناب برتا جائے گا۔اس حوالے سے سوشل میڈیا(فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام اور ٹوئٹروغیرہ) کے استعمال میں اخلاقی حدود سے تجاوز کسی طور قابل قبول نہیں ہوگا۔
(8)شدت پسندی، دہشت گردی کو ہوا دینے والے کسی مواد (تقریری یا تحریری) کو جامعہ کی حدود میں لانا قابل مواخذہ جرم تصور کیا جائے گا۔
(9)اسلامی شعار کی اہانت قابل تعزیرجرم ہے لیکن ساتھ ہی محض ذاتی دشمنی اور عناد وانتقام کیلئے اپنے مخالفین پر توہین مذہب کا غلط الزام عائد کر کے نہ صرف اللہ اور اس کے رسولﷺ کامجرم بننا ہے بلکہ قانوناً یہ بھی قابل تعزیر جرم ہے۔
(10)کسی بھی قسم کی فرقہ وارانہ وابستگی اور اس کی بنیاد پر تعصب پھیلانے کی اجازت نہیں ہوگی، باہمی روادری ،ہم آہنگی اور تحمل کو فروغ دینے کی کوششوں کو بنظر تحسین دیکھا جائے گا۔
(11) اپنی رائے سے عدم موافقت کی صورت میں اساتذہ، طلبہ اور تمام عملہ کو دوسروں کی رائے کا احترام کرنا ہوگا، اس ضمن میں سیاسی اور مسلکی مناظرہ بازی اور بلادلیل بحث ومباحثہ پر پابندی ہوگی۔
(12) تدریسی عملہ یعنی اساتذہ کرام کا احترام یقینی بنایا جائے گا، اساتذہ کی بے حرمتی اور بے ادبی قابل مواخذہ جرم متصور ہوگا۔
(13)نظم وضبط کے قیام کیلئے سکیورٹی عملہ اور دیگر اراکین جامعات سے تعاون کو یقینی بنایا جائے گا۔
(14) جامعات کی حدود میں منشیات کا کاروبارقابل گرفت جرم ہے۔اس کے ساتھ ہی حدود جامعہ (University Premises) لیکچرز ہال، کمرہ ہائے جماعت،برآمدے اور دیگر آمدورفت کے مقامات میں تمباکو نوشی،دیگر منشیات پان /چھالیا یا تھوکنا (Spiting) بھی سختی کے ساتھ منع ہے۔
(15) جملہ قسم کے اشتہار (Wall of Chalking)، پوسٹرزاور بینرز لگانے سخت منع ہوں گے ، خلاف ورزی کی صورت میں جرمانہ اور دیگر تادیبی کاروائی ہوگی۔
(16) جامعات کی حدود میں کسی بھی قسم کا اسلحہ، کندوتیز دھار ہتھیار رکھنا یا اس کا مظاہرہ (Demonstration) قابل مواخذہ جرم متصور ہوگا۔
(17)تمام شعبہ جات میں محققین سکالرز اور اساتذہ اپنی تحقیقی سرگرمیوں میں دیانتداری اور تحقیقی اصولوں کی پاسداری کریں، اس ضمن میں ایچ ای سی اور متعلقہ جامعہ کی ہدایات پر عمل کو یقینی بنایا جائے۔
(18)طلبہ کی کردار سازی میں استاد کے کردار سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا، دنیا اب عالمی گاؤں (Global Village) بن چکی ہے، جہاں معلومات کے انبار تک پلک جھپکتے چند بٹنوں کی حرکت سے پہنچا جا سکتا ہے۔ایسے میں اساتذہ کا کردارتبدیل ہو کر طلبہ کو بڑے مقاصد واہداف کیلئے خواب دکھانے اور اخلاقی قدروں کی آبیاری ،حوصلہ افزائی کے ذریعہ ان میں قوت کار کی استعداد پیدا کرنے کی ضرورت دوچند ہوگئی ہے۔
(19) عصر حاضر میں معلومات انٹرنیٹ کی مختلف ویب سائٹس پر بھی مہیا ہیں،اب پرعزم طلبہ ضروری معلومات تک خود رسائی حاصل کرسکتے ہیں اس لیے ایک استاد کو اپنے رسمی کردار سے آگے بڑھ کراپنے آپ کو ایک ایسے قابل عمل نمونہ کے طور پر پیش کرنا ہے جوان کو درست سمت دیں ،اساتذہ کرام کو طلبہ کی چھپی ہوئی صلاحیتیں نکھارنے پر خصوصی توجہ دینی ہوگی، ان میں گرتی ہوئی قدروں کی نشاندہی کرتے ہوئے کردار سازی پر زور دینا ہوگا اور انہیں ملک و ملت کیلئے سودمند بنانے میں اپنا کلیدی کردار سمجھنے کے ساتھ ساتھ نبھانا بھی ہوگا۔
ملک خداداد میں اضطراب اور انتشار کی سب سے اہم وجہ ضابطوں اور قوانین کی عدم پاسداری ہے۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ضابطے، اصول اور قوانین تو وافر مقدار میں موجود ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں بوجوہ ان کے نفاذ (Implementation) کا رجحان نمو پا ہی نہیں سکا۔ ایسی صورتحال میں بے چینی اور خدشات کی فضا پیدا ہونا فطری ہے۔ لہٰذا سب سے اہم ضرورت ان قوانین کی عملداری کیلئے فعال عملی ڈھانچہ (Mechanism) تشکیل دینا ہے، جس کے لیے جامعہ سرگودھا نے نقش اول کے طور پر ایک کاوش کی ہے۔امید ہے کہ صاحبان علم اس عمل کو مزید تیز سے تیز تر اور بہتر سے بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔n