ٹرمپ کا ٹویٹ قوم کی اجتماعی دانش کا امتحان

ٹرمپ کی ہرزہ سرائی اپنے باطن میں ایک وحشیانہ روڈ میپ رکھتی ہے

ٹرمپ کی ہرزہ سرائی اپنے باطن میں ایک وحشیانہ روڈ میپ رکھتی ہے، ٹرمپ فوٹو: فائل

ٹوئٹر پر نئے سال کے اپنے پیغام میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکا نے پاکستان کو 15سال میں احمقانہ طور پر33 ارب ڈالر امداد دی جب کہ پاکستان نے اس امداد کے بدلے ہمیں جھوٹ اوردھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا، ٹرمپ نے در حقیقت بش اور اوباما انتظامیہ پر بھی بلاواسطہ چوٹ کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا کہ پاکستان نے امریکی قیادت کو بے وقوف سمجھا۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں ٹرمپ نے یہ الزام بھی دہرایا کہ امریکا جن دہشتگردوں کا افغانستان میں تعاقب کرتا ہے، انھیں پکڑنے میں پاکستان نہ ہونے کے برابر مدد کرتا ہے بلکہ ان دہشتگردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتاہے لیکن اب ایسا نہیں چلے گا۔

پاک امریکا تعلقات کے تاریخی نشیب وفراز کو مد نظر رکھا جائے تو ڈونلڈ ٹرمپ پہلے امریکی صدر ہوں گے جن کی پالیسیوں کو سمجھنے کے لیے ملکی سیاسی نکتہ وروں کی ایک ٹیم درکار ہوگی جو ٹرمپ کی تحلیل نفسی کا فریضہ انجام دے، ان کی پاکستان مخاصمت اور بے بنیاد الزام تراشیوں کے اسباب وعلل اور محرکات کے بھید معلوم کرے۔ ٹرمپ کی ہرزہ سرائی اپنے باطن میں ایک وحشیانہ روڈ میپ رکھتی ہے اور اس کا ادراک حکمرانوں کو نہایت صبر وتحمل اور غیر جذباتی انداز میں کرنے کی ضرورت ہے۔

ٹرمپ عالمی اور امریکا کی داخلی سیاست میں ''بل ان دا چائنا شاپ'' کا رتبہ بلند رکھتے ہیں جن سے امریکی نظام کو سنگین خطرات لاحق ہوگئے ہیں،ان کے یو ٹرن اور ناقابال بیان پسپائیوں کی داستان بھی غیر معمولی ہے۔ وہ بوکھلاہٹ کا شکار نہیں بلکہ ایک ماہرتاجر، بیوپاری اور شکاری کے طور پر اپنے شکار پر جھپٹنے کے بہانے اور موقعے کی تلاش میں ہیں۔ ان سے معاملہ کرنے کے لیے قوم کی اجتماعی دانش کو کام میں لانا چاہیے۔

امریکی صدر کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے وزیرخارجہ خواجہ آصف نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر جلد رد عمل دیا جائے گا، دنیا کو جلد سچائی سے آگاہ کریں گے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ وہ افغانستان میں اپنی ناکامیوں سے مایوس ہوکر پاکستان پر الزامات لگا رہے ہیں۔ ہم امریکا کو ایک ایک پائی کا سرعام حساب دینے کے لیے تیار ہیں۔

انھوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکا کو بہت سے شعبوں میں سروسز فراہم کیں، پاکستان کے فوجی اڈے استعمال ہوتے رہے اور پاکستان سے نیٹو سامان کی ترسیل ہوتی رہی، ٹرمپ نے پاکستان کی جانب سے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فراہم کی جانیوالی سروسز کے معاوضے کو بھی امداد میں شامل کرلیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر امریکا نے پاکستان کے شہری علاقوں میں ڈرون حملے کی کوشش کی تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ امریکا کو پہلے ہی ''نو مور'' کہہ چکے ہیں، ہمارے بیان کے بعد ٹرمپ کے نومور کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ انھوں نے کہا کہ امریکا افغانستان میں فوجی طاقت کے بجائے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اپنائے۔

دریں اثنا وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے وفاقی کابینہ کا اجلاس طلب کرلیا جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان کے حوالے سے بیان پر غور کیا کیا ، صائب ہوتا کہ پارلیمنٹ کا جلد اجلاس بلایا جائے ۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں جب صدر ٹرمپ نے پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ گزشتہ سال امریکی صدر کی جانب سے وضع کی جانیوالی قومی سلامتی کی حکمت عملی میں بھی کہا گیا تھا کہ ہم پاکستان پر اس کی دہشتگردی کے خاتمے کے لیے جاری کوششوں میں تیزی لانے کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔


اس پالیسی کے سامنے آنے کے بعد امریکا کے نائب صدر مائیک پنس نے دورہ افغانستان کے موقعے پر پاکستان سے ایک بار پھر کہا تھا کہ وہ افغانستان کی حکومت کے خلاف لڑنے والے گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم نہ کرے۔ نائب صدر کے اس بیان پر پاکستان کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ بیان امریکی انتظامیہ کے ساتھ ہونیوالے تفصیلی مذاکرات کے منافی ہے اور یہ کہ اتحادی ایک دوسرے کو تنبیہ جاری نہیں کیا کرتے۔ادھر سائڈ ایفکٹ کے طور پر حکومت نے جماعت الدعوہ،لشکرطیبہ، جیش محمد اور فلاح انسانیت سمیت ایک درجن سی زائد دیگر جماعتوں اور انفرادی لوگوں کے عطیات وچندہ اکٹھاکرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

وزیردفاع خرم دستگیر نے ایک ٹی وی ٹاک میں کہا ہے کہ سفارتی معاملات ایک ٹوئٹ سے طے نہیں ہوتے، پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں نہیں، امریکی پالیسی میں ہمیشہ تضاد رہا ، امریکا کا بارباراصرارکرنا کہ اتنے ارب ڈالردیے حالانکہ ہمارا پانچ گنا زیادہ معاشی نقصان ہوا، ہزاروں شہری اور فوجی شہید ہوئے۔ادھر امریکی اداروں کی رپورٹس نے ٹرمپ کا جھوٹ بے نقاب کر دیا۔کانگریشنل ریسرچ سروس کی جاری رپورٹ کے مطابق امریکا نے پاکستان کو 2002 سے اب تک صرف 19 ارب ڈالر امداد دی ہے جب کہ 14 ارب 50 کروڑ ڈالر وہ رقم ہے کہ جو دہشت گردی کے خلاف جنگی اخراجات کی مد میں ادا کیے گئے ہیں۔امریکا کی وفاقی ایجنسیوں کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق2018 میں سب سے زیادہ 3ارب10کروڑ ڈالر امداد اسرائیل کو ملے گی، دیگر ممالک میں مصر، اردن، افغانستان، کینیا، تنزانیہ، یوگنڈا، زیمبیا، نائجیریا اور عراق شامل ہیں ۔

معتبر سیاسی و سفارتی ذرایع کا کہنا ہے کہ ٹرمپ در حقیقت امریکی پالیسیوں کے تسلسل سے چمٹ گئے ہیں، انھیں سسٹم کی زنجیروں نے جکڑ رکھا ہے اور بلند بانگ دعووؤں کے عملی نتائج سے محرومی اور امریکی رائے دہندگان مین اٹھتے ہوئے اضطراب سے چراغ پا ہوچکے ہیں، انھیں بھارت مسلسل اکسا رہا ہے تاکہ خطے میں پاکستان مخالف منظرنامہ ابھار کر کوئی مہم جوئی یا چنگاری بھڑکائی جائے جس میں خطے کے سارے ممالک شدید متاثر ہوسکتے ہیں بلکہ ٹرمپ کی فوجی کارروائی کی یک طرفہ دیوانگی کے باعث انھیں پوری دنیا میں غارت گر امن قرار دیا جائے گا۔

یوں بھی ٹرمپ کے بڑبولے پن سے ہٹ کر اگر دیکھا جائے تو ابتدائی صدارتی دورانیے میں ان کی ہزاروں تجاویز، پیشکشوں، دعوؤں ، وعدوں، ہنگامی اقدامات کی گونج صدا بہ صحرا اور کئی بظاہر ہائی پروفائل فیصلے نقش برآب ثابت ہوئے جس میں اولین ناکامی کا سامنا انھیں شمالی کوریا کے خلاف ایٹمی جنگ کی دھمکی کے فوری جواب اور شدید رد عمل میں کم جونگ ان کی جوابی دھمکی کی صورت میں کرنا پڑا جس میں صدر شمالی کوریا نے امریکا کو دھمکی دی کہ ایٹمی حملہ کا بٹن میری میز پر ہے۔

بلاشبہ پاکستانی اپوزیشن جماعتوں نے بر وقت رد عمل ظاہر کیا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستان مخالف بیان پر آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ واضح کیا کہ ٹرمپ اپنی امداد اپنے پاس رکھیں اور اپنی ناکامیوں کی ذمے داری پاکستان پر نہ ڈالیں۔تاہم امریکا بھارت گٹھ جوڑ کا بھانڈا اس وقت پھوٹا جب بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جا نب سے پا کستان پر الزام تراشیوں کے حوالے سے ٹوئٹ کو بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی پاکستان مخالف مہم کی سب سے بڑی سفارتی کامیابی قراردے ڈالا جب کہ کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ بڑھک ماری کہ آپ کب پاکستان کے حوالے سے سخت موقف اختیار کرو گے۔

اب جب کہ امریکا کی جنوبی ایشائی پالیسی کی بلی اور ٹرمپ کی الزام تراشیوں کا خود ساتہ جن بوتل سے باہر آگیا ہے ارباب اختیار کو پاک امریکا تاریخ میں افہام وتفہیم ، صلح جوئی اور ملکی سالمیت، خود مختاری اور قومی مفادات کے تحفظ کی سب سے بڑی آزمائش کا سامنا ہے اس لیے امریکا پر واضح کیا جائے کہ وہ ہوش مندی سے کام لے ، پاکستان لقمۂ تر نہیں ہے۔
Load Next Story