سشما سوراج صاحبہ کرکٹ کو تو بخش دیں
دس برس بیتے دونوں ملکوں کے درمیان ایک بھی سیریزنہیں ہوسکی
اقوام عالم کے درمیان کھیلوں کے مقابلے امن ،دوستی، بھائی چارے اور قربت کو بڑھانے کا سبب بنتے ہیں،لیکن بدقسمتی سے بھارتی سرکارکرکٹ کو بھی اپنی تنگ نظر سیاسی سوچ اور عصبیت کی عینک سے دیکھتی ہے۔ بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج نے پاکستان سے سیریزکے امکانات کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ کسی نیوٹرل مقام پر بھی باہمی کرکٹ میچزکرانے کے فیصلے سے معذوری ظاہرکی ۔ اس پر تا دم تحریر پاکستان کرکٹ بورڈ کا موقف سامنے نہیں آیا ہے، یہ بیان شائقین کرکٹ کی دل آزاری کا سبب بنا ہے،کیونکہ پاکستان اور بھارت کے کروڑوں لوگوں کا پسندیدہ ترین کھیل کرکٹ ہے۔
وہ اس کھیل کے اتنے دیوانے ہیں کہ جب دونوں ملکوں کے درمیان میچ ہوتا ہے تو وہ اپنی ساری مصروفیات ترک کرکے ٹی وی اسکرینوں کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ایک ایک بال اور شارٹ پر داد دیتے ہیں ۔دونوں روایتی حریفوں کے درمیان کانٹے کے مقابلے ہوتے ہیں، گھمسان کا رن پڑتا ہے۔ شکست پر آنسو اور فتح پر جشن منائے جاتے ہیں۔ دس برس بیتے دونوں ملکوں کے درمیان ایک بھی سیریزنہیں ہوسکی ۔
مسائل کے باجود گرین شرٹس نے ورلڈکپ 2011ء میں شرکت کے بعد 25دسمبر 2012ء سے چھ جنوری دوہزار تیرہ تک شیڈول سیریز میں تین ون ڈے اور دو ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے، پاکستانی ٹیم ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں 2016ء میں شرکت کے لیے بھی پڑوسی ملک گئی تھی ، بھارتی بورڈ نے دوہزار پندرہ سے 2023ء کے درمیان چھ سیریزکھیلنے کا معاہدہ کیا ۔ بھارت کی ہٹ دھرمی ایک مقبول ترین کھیل جس طرح نقصان پہنچا رہی ہے ، اس وجہ سے بھارت کو ہر فورم پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ بھارت کی سوچ کیا ہے۔
اس طرزعمل پر بھارتی کرکٹر کو اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی حکومت کے رویے پر بھی احتجاج کرنا چاہیے کہ وہ آخر کیوں کرکٹ جیسے مقبول کوکھیل اپنی سیاسی انا کی بھینٹ چڑھا رہی ہے ۔ یادش بخیر جنرل ضیاالحق کے دور میں کرکٹ ڈپلومیسی کی اصطلاح نے بھی شہرت پائی تھی، جب وہ سرحدی کشیدگی اور تناؤ کی کیفیت میں اچانک کرکٹ میچ دیکھنے بھارت پہنچ گئے تھے۔
مودی سرکار اور وزیرخارجہ سشما سوراج میں نفرت کے شعلوں کو بھڑکا کر '' پاک بھارت کرکٹ'' کو بھسم کرنے کی خواہش رکھتی ہیں، لیکن یہ خواہش اور سازش ناکام بنانے کے لیے ہمیں کوشش جاری رکھنے ہوگی ، ضرور وہ وقت آئے گا جب دونوں ملکوں کے درمیان روایتی کرکٹ کے مقابلے منعقد ہونگے اور امن کے گیت گائے جائیں گے۔
وہ اس کھیل کے اتنے دیوانے ہیں کہ جب دونوں ملکوں کے درمیان میچ ہوتا ہے تو وہ اپنی ساری مصروفیات ترک کرکے ٹی وی اسکرینوں کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ایک ایک بال اور شارٹ پر داد دیتے ہیں ۔دونوں روایتی حریفوں کے درمیان کانٹے کے مقابلے ہوتے ہیں، گھمسان کا رن پڑتا ہے۔ شکست پر آنسو اور فتح پر جشن منائے جاتے ہیں۔ دس برس بیتے دونوں ملکوں کے درمیان ایک بھی سیریزنہیں ہوسکی ۔
مسائل کے باجود گرین شرٹس نے ورلڈکپ 2011ء میں شرکت کے بعد 25دسمبر 2012ء سے چھ جنوری دوہزار تیرہ تک شیڈول سیریز میں تین ون ڈے اور دو ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے، پاکستانی ٹیم ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں 2016ء میں شرکت کے لیے بھی پڑوسی ملک گئی تھی ، بھارتی بورڈ نے دوہزار پندرہ سے 2023ء کے درمیان چھ سیریزکھیلنے کا معاہدہ کیا ۔ بھارت کی ہٹ دھرمی ایک مقبول ترین کھیل جس طرح نقصان پہنچا رہی ہے ، اس وجہ سے بھارت کو ہر فورم پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ بھارت کی سوچ کیا ہے۔
اس طرزعمل پر بھارتی کرکٹر کو اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی حکومت کے رویے پر بھی احتجاج کرنا چاہیے کہ وہ آخر کیوں کرکٹ جیسے مقبول کوکھیل اپنی سیاسی انا کی بھینٹ چڑھا رہی ہے ۔ یادش بخیر جنرل ضیاالحق کے دور میں کرکٹ ڈپلومیسی کی اصطلاح نے بھی شہرت پائی تھی، جب وہ سرحدی کشیدگی اور تناؤ کی کیفیت میں اچانک کرکٹ میچ دیکھنے بھارت پہنچ گئے تھے۔
مودی سرکار اور وزیرخارجہ سشما سوراج میں نفرت کے شعلوں کو بھڑکا کر '' پاک بھارت کرکٹ'' کو بھسم کرنے کی خواہش رکھتی ہیں، لیکن یہ خواہش اور سازش ناکام بنانے کے لیے ہمیں کوشش جاری رکھنے ہوگی ، ضرور وہ وقت آئے گا جب دونوں ملکوں کے درمیان روایتی کرکٹ کے مقابلے منعقد ہونگے اور امن کے گیت گائے جائیں گے۔