شاہ زیب قتل کیس۔ قانون بے بس کیوں
بااثر باپ کے بیٹے شاہ رخ نے طاقت کے نشے میں جواں سال شاہ زیب کو فائرنگ کر کے قتل کردیا
یہ کہنا کتنا دل کش ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ لیکن حقیقت میں ایسا کہاں تک ہے؟ کیا غریب و کمزور کو انصاف ملتا ہے؟ کیا بالا دست طبقات سے تعلق رکھنے والوں کو نشان عبرت بنایا گیا ؟ یہ سوال آج ایک عام آدمی کے ذہن میں یہ خبر پڑھنے کے بعد گردش کر رہا ہے کہ کراچی میں شاہ زیب کو قتل کرنیوالے دولتمند شخص کے بیٹے شاہ رخ جتوئی اور کوئٹہ میں ٹریفک سارجنٹ کو سر عام کچلنے والے رکن صوبائی اسمبلی عبدالمجید اچکزئی کو ضمانت پر رہا کردیا گیا جب کہ اپنے شوہر کے قتل کے الزام میں قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے والی رانی بی بی کو 19سال بعد رہائی نصیب ہوئی۔
یہ واقعات سماجی انصاف کے وہ نظارے ہیں جو عوام الناس میں پائے جانے والے اس تاثر کو تقویت بخش رہے ہیں کہ پاکستان میں بااثر طبقات اور غریب و کمزور کے لیے قانون و انصاف کے تقاضے الگ الگ ہیں ۔ دولتمند خاندانوں کے چشم و چراغ تو انسانوں کا خون بہانے کے بعد بھی رہائی کے حقدار ٹھہرتے ہیں اور کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والی رانی بی بی ناکردہ جرم کی سزا میں 19سال تک قید کی سزا کاٹتی ہے، اس دوران پولیس تشدد سے رانی کا والدمار دیا جاتا ہے جب کہ بھائی کی جوانی کو بڑھاپا نگل لیتا ہے۔
ہمارے یہاں اکثر و بیشتر یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ قانون کے راستے میں کبھی دولت حائل ہو جاتی ہے، کبھی قرابت آڑے آتی ہے، کبھی مروت جلوہ دکھاتی ہے تو کبھی مصلحت فتنہ برپا کرتی ہے۔
مذکورہ واقعات اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ پاکستان میں انصاف کے نام پر مذاق ہورہا ہے۔ بااثر اور دولتمند لوگ قانون کے ساتھ کھیل رہے ہیں، انھوں نے قانون کو موم کی ناک بنادیا ہے، جہاں چاہتے ہیں، جیسے چاہتے ہیں، قانون کو اپنے فائدے کے لیے موڑ دیتے ہیں جب کہ یہی قانون جو کہ بااثر طبقات کے لیے موم کی ناک بنا ہوا ہے، کمزور و غریب کے لیے ایسی تلوار ہے جو صرف سر کاٹنا جانتی ہے۔ ایسا آخر کب تک ہوتا رہے گا؟ شاہ زیب قتل کیس کے ملزمان کی رہائی نے دولتمند کے سامنے قانون کی بے بسی کو اور بھی عیاں کردیا ہے، لوگوں کو شاہ رخ جتوئی کی وکٹری کا نشان بناتی 2انگلیاں نہیں بھولتیں، یہ انگلیاں درحقیقت ہمارے معاشرے اور قانون پر ایسا تازیانہ ہیں، جو ہماری بے بسی و بے چارگی پر کوڑے کی طرح برس رہی ہیں۔
دسمبر 2012 میں کراچی کے علاقے ڈیفنس میں بااثر باپ کے بیٹے شاہ رخ نے طاقت کے نشے میں جواں سال شاہ زیب کو فائرنگ کر کے قتل کردیا، اس قتل سے معاشرہ ہل گیا، ابتداء میں پولیس طاقتور گھرانے کے سپوت کے خلاف مقدمہ درج کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتی رہی۔ میڈیا اور عدلیہ کا دباؤ آیا تو ملزم کو بیرون ملک فرار کرادیا گیا، اعلیٰ عدلیہ کی مداخلت پر ملزم کو دبئی سے پکڑ کر لایا گیا، جون 2013 میں انسداد دہشتگردی کی عدالت نے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی، سراج تالپور کو سزائے موت و دیگر کو عمر قید کی سزا سنائی۔
اس سے قبل ملزمان نے اپریل 2013میں مقدمہ دہشتگردی کی عدالت میں نہ چلانے کی درخواست سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی مگر عدالت نے درخواست مسترد کردی، سزا ملنے کے بعد ملزمان نے سزاؤں کے خلاف سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اپیل دائر کی اسے بھی مسترد کردیا گیا، 4سال بعد کیس میں اہم موڑ آیا، سندھ ہائی کورٹ میں سزاؤں کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت میں عدالت نے سزائے موت سمیت دیگر سزاؤں کو کالعدم قرار دیکر قتل کو ذاتی عناد قرار دیا اور معاملہ کی ازسر نو تحقیقات کا حکم دیا، دہشتگردی کی دفعات ختم ہونے کے بعد نئے سرے سے معافی نامہ جمع ہوا، پھر بالآخر دولت جیت گئی اورسب ہاتھ ملتے رہ گئے۔
کہا جا رہا ہے کہ ورثاء نے جب دیت لینے کے بعد ملزموں کو معاف کر دیا تو عدالتیں کیا کرتیں؟ انھیں رہائی کے پروانے پر دستخط تو کرنے ہی تھے، ایک ہوتا ہے قانون پر عمل ہونا اور ایک ہوتا ہے قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنا۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ ہمارے ہاں چونکہ دیت کا قانون رائج ہے، اس لیے ملزم اگر رہا ہو گئے ہیں تو کون سی اچنبھے کی بات ہے؟لیکن کیا دیت کے لیے ورثا کا آزادانہ فیصلہ کرنا ضروری نہیں، کیا انھیں ڈرا دھمکا کر دیت لینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا؟
مقتول شاہ زیب کے والد کا وہ بیان جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ملزمان کے ورثاء نے دھمکی دی ہے کہ اگر معاف نہ کیا تو تمہاری بیٹیوں کو سرعام زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا جائے گا آخر کیوں نظر انداز کیا گیا جب کہ مجرمان کو سزا سنائے جانے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مقتول کی والدہ نے بھی کہا تھا کہ وہ چاہتی ہیں کہ ان کے بیٹے پر گولی چلانے والے کو ملنے والی سزا پر عملدرآمد ہو۔ان حالات میںہرکوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ مقتول شاہ زیب کے لواحقین خود مقتول ہونے کے خوف اور بیٹیوں کی عزت و آبرو بچانے کی خاطر سمجھوتے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ ریاست اگر چاہتی تو اس کیس کو مثال بنا کر معاشرے میں بے رحمانہ عدل کی بنیاد رکھ سکتی تھی۔شاہ رخ جتوئی کیس درحقیقت دولت کی طاقت اور قانون کے درمیان ایک جنگ کی مثال ہے جس میں بالآخر دولت جیت کی طرف بڑھتی نظر آ رہی ہے۔
شروع میں میڈیا کے دباؤ اور عدالت عظمیٰ کی موثر نگرانی کے باعث سب کچھ سرعت کے ساتھ ہوا، انصاف اپنا راستہ بناتا چلا گیا۔ اگر اس کیس کی اپیلیں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے نمٹاکر سزا پرعمل درآمد کر دیا جاتا تو ملک میں عدل و انصاف کی ایک بڑی مثال قائم ہوسکتی تھی، مگر ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ سندھ کے دو بڑے خاندانوں جتوئی اور تالپور کی آل اولاد کو پھانسی دے دی جاتی ؟
قابل غور بات ہے کہ ملزمان کو سزائیں ملنے سے قبل اپریل 2013 میں سندھ ہائی کورٹ اور سزائیں ملنے کے بعد سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے اسے دہشتگردی کا معاملہ قراردیا تو پھر اب کیوں اس مقدمے سے دہشتگردی کی دفعات ختم کی گئی ہیں؟ دہشت گردی کی دفعات اگر غلط تھیں تو یہ نکتہ ابتدا میں بھی تو اٹھایا جا سکتا تھا، مگر اْس وقت چونکہ قانون اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا آسان نہیں تھا، اس لیے خاموشی اختیار کی گئی، لیکن اب جب ساری گرد بیٹھ گئی، اس لیے سب کچھ سیدھا کرلیا گیا۔ پوری قوم نے یہ بھی دیکھا کہ قا تل کو اسپتال میں وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ رکھا گیا لیکن ضمانت منظور ہوتے ہی ساری بیماری ختم ہوگئی اور ہشاش بشاش اٹھ کر چمچماتی گاڑیوں میں اسپتال سے رخصت ہوگیا۔
اس سارے منظرنامے میں امید کی کرن یہ نظر آتی ہے کہ سول سوسائٹی نے انسداد دہشتگردی کی دفعات ختم کرنے اور ملزمان کی رہائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے، جس کے بعد عدلیہ کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس اہم معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرے اور یہ ثابت کرے کہ وہ آزاد ہے اور قانون کی بالا دستی کے لیے کام کرتی ہے، سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ویسے بھی آج کل عوامی مسائل پر از خود نوٹس لے رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں تو چیف جسٹس نے ایک کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ مفاد عامہ کے مقدمات تحریک کی شکل میں چلائینگے، چیف جسٹس کا یہ عزم بلاشبہ قابل تحسین ہے لیکن قانون و انصاف کی یکساں فراہمی یقینی بنانے کے لیے صرف خوبصورت باتیں اور جذبات کافی نہیں، اس کے لیے نظام عدل میں بھی اصلاحات لانا ہوں گی، چیف جسٹس کو اس کا بھی نوٹس لینا چاہیے کہ بااثر طبقات کس طرح قانون کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں، یہ قانون صرف غریب و مظلوم کے لیے ہی حرکت میں کیوں آتا ہے؟ مذکورہ کیس میں اگر سب کچھ قانون کے تحت ہوا یہ سہولت قانون کے مطابق دی جارہی ہے تو پھر مظلوم و غریب کو یہ سہولت کیوں نہیں دی جاتی؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ شاہ زیب قتل کیس کی از سر نو سماعت کی نگرانی چیف جسٹس کچھ اس طرح کرائیں کہ انصاف کا بول بالا ہوتا ہوا نظر آئے۔
یہ واقعات سماجی انصاف کے وہ نظارے ہیں جو عوام الناس میں پائے جانے والے اس تاثر کو تقویت بخش رہے ہیں کہ پاکستان میں بااثر طبقات اور غریب و کمزور کے لیے قانون و انصاف کے تقاضے الگ الگ ہیں ۔ دولتمند خاندانوں کے چشم و چراغ تو انسانوں کا خون بہانے کے بعد بھی رہائی کے حقدار ٹھہرتے ہیں اور کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والی رانی بی بی ناکردہ جرم کی سزا میں 19سال تک قید کی سزا کاٹتی ہے، اس دوران پولیس تشدد سے رانی کا والدمار دیا جاتا ہے جب کہ بھائی کی جوانی کو بڑھاپا نگل لیتا ہے۔
ہمارے یہاں اکثر و بیشتر یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ قانون کے راستے میں کبھی دولت حائل ہو جاتی ہے، کبھی قرابت آڑے آتی ہے، کبھی مروت جلوہ دکھاتی ہے تو کبھی مصلحت فتنہ برپا کرتی ہے۔
مذکورہ واقعات اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ پاکستان میں انصاف کے نام پر مذاق ہورہا ہے۔ بااثر اور دولتمند لوگ قانون کے ساتھ کھیل رہے ہیں، انھوں نے قانون کو موم کی ناک بنادیا ہے، جہاں چاہتے ہیں، جیسے چاہتے ہیں، قانون کو اپنے فائدے کے لیے موڑ دیتے ہیں جب کہ یہی قانون جو کہ بااثر طبقات کے لیے موم کی ناک بنا ہوا ہے، کمزور و غریب کے لیے ایسی تلوار ہے جو صرف سر کاٹنا جانتی ہے۔ ایسا آخر کب تک ہوتا رہے گا؟ شاہ زیب قتل کیس کے ملزمان کی رہائی نے دولتمند کے سامنے قانون کی بے بسی کو اور بھی عیاں کردیا ہے، لوگوں کو شاہ رخ جتوئی کی وکٹری کا نشان بناتی 2انگلیاں نہیں بھولتیں، یہ انگلیاں درحقیقت ہمارے معاشرے اور قانون پر ایسا تازیانہ ہیں، جو ہماری بے بسی و بے چارگی پر کوڑے کی طرح برس رہی ہیں۔
دسمبر 2012 میں کراچی کے علاقے ڈیفنس میں بااثر باپ کے بیٹے شاہ رخ نے طاقت کے نشے میں جواں سال شاہ زیب کو فائرنگ کر کے قتل کردیا، اس قتل سے معاشرہ ہل گیا، ابتداء میں پولیس طاقتور گھرانے کے سپوت کے خلاف مقدمہ درج کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتی رہی۔ میڈیا اور عدلیہ کا دباؤ آیا تو ملزم کو بیرون ملک فرار کرادیا گیا، اعلیٰ عدلیہ کی مداخلت پر ملزم کو دبئی سے پکڑ کر لایا گیا، جون 2013 میں انسداد دہشتگردی کی عدالت نے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی، سراج تالپور کو سزائے موت و دیگر کو عمر قید کی سزا سنائی۔
اس سے قبل ملزمان نے اپریل 2013میں مقدمہ دہشتگردی کی عدالت میں نہ چلانے کی درخواست سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی مگر عدالت نے درخواست مسترد کردی، سزا ملنے کے بعد ملزمان نے سزاؤں کے خلاف سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اپیل دائر کی اسے بھی مسترد کردیا گیا، 4سال بعد کیس میں اہم موڑ آیا، سندھ ہائی کورٹ میں سزاؤں کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت میں عدالت نے سزائے موت سمیت دیگر سزاؤں کو کالعدم قرار دیکر قتل کو ذاتی عناد قرار دیا اور معاملہ کی ازسر نو تحقیقات کا حکم دیا، دہشتگردی کی دفعات ختم ہونے کے بعد نئے سرے سے معافی نامہ جمع ہوا، پھر بالآخر دولت جیت گئی اورسب ہاتھ ملتے رہ گئے۔
کہا جا رہا ہے کہ ورثاء نے جب دیت لینے کے بعد ملزموں کو معاف کر دیا تو عدالتیں کیا کرتیں؟ انھیں رہائی کے پروانے پر دستخط تو کرنے ہی تھے، ایک ہوتا ہے قانون پر عمل ہونا اور ایک ہوتا ہے قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنا۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ ہمارے ہاں چونکہ دیت کا قانون رائج ہے، اس لیے ملزم اگر رہا ہو گئے ہیں تو کون سی اچنبھے کی بات ہے؟لیکن کیا دیت کے لیے ورثا کا آزادانہ فیصلہ کرنا ضروری نہیں، کیا انھیں ڈرا دھمکا کر دیت لینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا؟
مقتول شاہ زیب کے والد کا وہ بیان جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ملزمان کے ورثاء نے دھمکی دی ہے کہ اگر معاف نہ کیا تو تمہاری بیٹیوں کو سرعام زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا جائے گا آخر کیوں نظر انداز کیا گیا جب کہ مجرمان کو سزا سنائے جانے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مقتول کی والدہ نے بھی کہا تھا کہ وہ چاہتی ہیں کہ ان کے بیٹے پر گولی چلانے والے کو ملنے والی سزا پر عملدرآمد ہو۔ان حالات میںہرکوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ مقتول شاہ زیب کے لواحقین خود مقتول ہونے کے خوف اور بیٹیوں کی عزت و آبرو بچانے کی خاطر سمجھوتے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ ریاست اگر چاہتی تو اس کیس کو مثال بنا کر معاشرے میں بے رحمانہ عدل کی بنیاد رکھ سکتی تھی۔شاہ رخ جتوئی کیس درحقیقت دولت کی طاقت اور قانون کے درمیان ایک جنگ کی مثال ہے جس میں بالآخر دولت جیت کی طرف بڑھتی نظر آ رہی ہے۔
شروع میں میڈیا کے دباؤ اور عدالت عظمیٰ کی موثر نگرانی کے باعث سب کچھ سرعت کے ساتھ ہوا، انصاف اپنا راستہ بناتا چلا گیا۔ اگر اس کیس کی اپیلیں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے نمٹاکر سزا پرعمل درآمد کر دیا جاتا تو ملک میں عدل و انصاف کی ایک بڑی مثال قائم ہوسکتی تھی، مگر ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ سندھ کے دو بڑے خاندانوں جتوئی اور تالپور کی آل اولاد کو پھانسی دے دی جاتی ؟
قابل غور بات ہے کہ ملزمان کو سزائیں ملنے سے قبل اپریل 2013 میں سندھ ہائی کورٹ اور سزائیں ملنے کے بعد سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے اسے دہشتگردی کا معاملہ قراردیا تو پھر اب کیوں اس مقدمے سے دہشتگردی کی دفعات ختم کی گئی ہیں؟ دہشت گردی کی دفعات اگر غلط تھیں تو یہ نکتہ ابتدا میں بھی تو اٹھایا جا سکتا تھا، مگر اْس وقت چونکہ قانون اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا آسان نہیں تھا، اس لیے خاموشی اختیار کی گئی، لیکن اب جب ساری گرد بیٹھ گئی، اس لیے سب کچھ سیدھا کرلیا گیا۔ پوری قوم نے یہ بھی دیکھا کہ قا تل کو اسپتال میں وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ رکھا گیا لیکن ضمانت منظور ہوتے ہی ساری بیماری ختم ہوگئی اور ہشاش بشاش اٹھ کر چمچماتی گاڑیوں میں اسپتال سے رخصت ہوگیا۔
اس سارے منظرنامے میں امید کی کرن یہ نظر آتی ہے کہ سول سوسائٹی نے انسداد دہشتگردی کی دفعات ختم کرنے اور ملزمان کی رہائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے، جس کے بعد عدلیہ کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس اہم معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرے اور یہ ثابت کرے کہ وہ آزاد ہے اور قانون کی بالا دستی کے لیے کام کرتی ہے، سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ویسے بھی آج کل عوامی مسائل پر از خود نوٹس لے رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں تو چیف جسٹس نے ایک کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ مفاد عامہ کے مقدمات تحریک کی شکل میں چلائینگے، چیف جسٹس کا یہ عزم بلاشبہ قابل تحسین ہے لیکن قانون و انصاف کی یکساں فراہمی یقینی بنانے کے لیے صرف خوبصورت باتیں اور جذبات کافی نہیں، اس کے لیے نظام عدل میں بھی اصلاحات لانا ہوں گی، چیف جسٹس کو اس کا بھی نوٹس لینا چاہیے کہ بااثر طبقات کس طرح قانون کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں، یہ قانون صرف غریب و مظلوم کے لیے ہی حرکت میں کیوں آتا ہے؟ مذکورہ کیس میں اگر سب کچھ قانون کے تحت ہوا یہ سہولت قانون کے مطابق دی جارہی ہے تو پھر مظلوم و غریب کو یہ سہولت کیوں نہیں دی جاتی؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ شاہ زیب قتل کیس کی از سر نو سماعت کی نگرانی چیف جسٹس کچھ اس طرح کرائیں کہ انصاف کا بول بالا ہوتا ہوا نظر آئے۔