جنرل پرویز مشرف کی دہری پالیسی
القاعدہ کے لوگوں نے بلاول ہاؤس کی چاردیواری کے ساتھ کھڑے کنٹینر میں بم رکھ کر بے نظیر کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی
پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کو 10 سال ہوگئے، برطانوی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار اور اقوام متحدہ کا مشن بے نظیر کے قاتلوں کی حتمی نشاندہی نہیں کرسکا ۔ اب سابق صدر پرویز مشرف نے اقرار کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے منسلک بعض عناصر بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ انھوں نے برطانوی نشریاتی ادارے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ معاشرے میں مذہبی انتہاپسندی موجود ہے، یوں اسٹیبلشمنٹ سے منسلک بعض عناصرکا اس معاملے میں کردار ہوسکتا ہے۔
انگریزی کے سب سے بڑے اخبار میں بے نظیر بھٹو قتل کے بارے میں شایع ہونے والی رپورٹ میں القاعدہ کے بے نظیر قتل کیس میں ملوث ہونے کا بھی انکشاف کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ القاعدہ کے قائد اسامہ بن لادن بے نظیر کے سخت مخالف تھے۔ انھوں نے 1989ء میں وزیراعظم بے نظیرکے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے آئی جے آئی کے رہنما میاں نواز شریف کو خطیر رقم فراہم کی تھی تاکہ قومی اسمبلی کے اراکین کو خریدا جاسکے۔ اسامہ کو یقین دلایا گیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد شریعت نافذ کریں گے ۔
پھر اسامہ سعودی عرب چلے گئے جہاں ان کا پاسپورٹ ضبط کرلیاگیا۔ القاعدہ کے لوگوں نے بلاول ہاؤس کی چاردیواری کے ساتھ کھڑے کنٹینر میں بم رکھ کر بے نظیر کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی مگر پولیس کے دستے کی فرض شناسی کی بناء پر یہ بم ناکارہ ہوگیا۔ اسامہ سعودی عرب سے نکل کر سوڈان پہنچے' وہاں سے نکالے جانے کے بعد کابل پہنچ گئے جہاں طالبان کے لیڈر ملا عمر کے اثالین کے فرائض انجام دینے لگے، یوں طالبان حکومت کا ایک جبر کا دور آیا۔ اس دور میں خواتین اور غیر مسلم شہریوں کے ساتھ بدترین سلوک ہوا۔ اسامہ نے امریکا میں نائن الیون کی دہشت گردی کا منصوبہ ترتیب دیا۔ امریکی صدر بش نے اس دہشت گردی کو مذہبی بنیاد پر جنگ میں تبدیل کردیا۔ امریکا اور اتحادی فواج نے کابل میں طالبان حکومت کا خاتمہ کیا۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی طالبان اور اسامہ سے قریبی تعلقات رہے۔ اس عرصے کی دستیاب دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ طالبان حکومت کو اس بات پر تیارکرنے کے لیے کہ وہ اسامہ کو افغانستان سے نکال دیں، ایک اعلیٰ سطح وفد کابل گیا تھا جس میں علمائے کرام کے علاوہ جنرل محمود بھی شامل تھے۔ لیکن یہ بات چیت ناکام ہوگئی ۔
امریکا اور اتحادی فوج نے افغانستان پر حملہ کردیا ، پھر اسامہ تورا بورا کی پہاڑیوں پر امریکا اور اتحادی افواج کی بمباری کے دوران محفوظ طریقے سے قبائلی علاقے میں پہنچ گئے' وہاں سے وہ ایبٹ آباد کے ایک مکان میں مقیم ہوگئے اور مئی 2011ء کے امریکی میرین دستوں کے آپریشن تک وہیں مقیم رہے۔ اس دوران ان کی چار بیویاں اور بچے بھی وہاں پہنچ گئے اور ان کی چھوٹی اہلیہ کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی۔ وکی لیکس کی جاری کردہ ایک دستاویز میں کہا گیا تھا کہ اسامہ کا خاندان کراچی کے علاقے گلشن اقبال کے ایک گھر میں مقیم رہا۔ جنرل پرویز مشرف نے گزشتہ سال یہ اقرار بھی کیا تھا کہ ان کی حکومت نے کابل میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد بھی طالبان کی حمایت کی تھی۔
جنرل صاحب نے اپنے اس فیصلے کی یہ وجہ بتائی کہ افغانستان میں بھارت کے اثرا ت کو روکنے کے لیے یہ حکمت عملی استعمال کی گئی مگر اس مجموعی صورتحال کے سارے نقصانات پاکستان کے عوام کو برداشت کرنے پڑے۔ کابل میں لڑی جانے والی جنگ پہلے پشاور اور کوئٹہ پہنچی اور پھر لاہور میں تباہی مچائی، کراچی بھی اس کی زد میں آگیا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملے اور ایف آئی اے کی عمارت کی تباہی کے بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے طالبان سے منسلک کالعدم مذہبی تنظیموں سے مفاہمت کرلی تھی جس کی بناء پر لاہور میں وقتی طور پر دھماکے بند ہوگئے مگر جنوبی پنجاب میں کالعدم تنظیموں کے مضبوط ٹھکانے قائم ہوئے۔ کچھ عرصے بعد لاہور میں بچوں کے پارک اور مال روڈ پر ہونے والے دھماکوں میں بچوں سمیت قابل پولیس افسر شہید ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف حکومت کی دورخی پالیسی کے بے تحاشا نقصانات ہوئے۔ طالبان کوکراچی کی مضافاتی پٹی پر آباد کردیا گیا۔ ان مذہبی انتہاپسندوں نے کراچی میں محرم کے جلوسوں پر حملے اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کی بے تحاشہ وارداتیں کیں۔
جنرل مشرف کی حکومت کراچی میں کارساز میں بے نظیر بھٹو کے جلوس پر خودکش حملے کی تحقیقات میں ناکام رہی، یوں گمراہ عناصر کو راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو کو شہید کرنے کا موقع ملا۔ جنرل پرویز مشرف کی ان پالیسیوں کے نتیجے میں ملک میں تو صورتحال خراب ہوئی مگر پاکستان کا بین الاقوامی طور پر تشخص بھی خراب ہوا۔ دنیا کے مختلف علاقوں خاص طور پر امریکا اور برطانیہ میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں میں پاکستانی شہریوں کے ملوث ہونے کے الزامات لگائے، اور پاکستان دشمن عناصر کو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملا مگر 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہونے کے باوجود صورتحال میں بہت زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔
وزیر اعظم گیلانی کی حکومت طالبان اور مذہبی انتہاپسند کالعدم تنظیموں کے خلاف مؤثر آپریشن کے لیے تیار تھی۔ انتہاپسندانہ مائنڈ سیٹ کی تبدیلی کے لیے مدرسوں میں اصلاحات، تعلیمی اداروں کے نصاب میں تبدیلی، اسلحہ پر پابندی اور ریاست کے مجموعی بیانیے کی تبدیلی کے معاملات شامل تھے مگر ریاست کے ایک مضبوط گروپ کی جانب سے مزاحمت کی بناء پر کچھ نہیں ہوسکا۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف خود ان قوتوں کے آلہ کار بن گئے۔ ان کے قومی اسمبلی کے اراکین نے رجعت پسند قوتوں کی بھرپور حمایت کی، مگر میاں نواز شریف کو اپنی اس پالیسی کی سزا بھگتنی پڑی۔ ان کی حکومت نے جب بھی معاشرے میں رواداری اور مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے اقداما ت کیے رجعت پسندوں کی مزاحمتی دیوار حائل ہوگئی۔
گزشتہ مہینے اسلام آباد میں دھرنا اورمسلم لیگ ن کے خلاف حلقہ 120 کے انتخابات کے موقعے پر مساجد کا استعمال سب اس کی ہی شکلیں ہیں۔ پشاور میں گزشتہ ماہ ہونے والے دھماکے اور کوئٹہ میں کرسمس کی عبادت کے لیے چرچ میں جمع ہونے والے مسیحی عورتوں اور مردوں پر خودکش حملہ جنرل پرویز مشرف کی دہری پالیسی سے منسلک ہوتا ہے۔ القاعدہ اور طالبان بے نظیر بھٹو کے اس لیے مخالف تھے کہ وہ ایک خاتون تھیں اور اپنے لبرل خیالات کی بناء پر ریاست کے جمہوری کردار کو مستحکم کرنا چاہتی ہیں اور بے نظیر کی عوام میں مقبولیت ان رجعت پسندوں کو اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیتی۔ جنرل پرویز مشرف کے اس بیان سے ثابت ہوگیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا ایک رجعت پسند حصہ ان عناصر کا سرپرست تھا۔ اس حصے کو پاکستان کا ایک جمہوری اور لبرل تشخص قبول نہیں ہے۔
جنرل پرویز مشرف پر جب مقدمہ چلانے کی میاں نواز شریف کوشش کررہے تھے تو اردو بولنے والے بعض دانشور اس مقدمے کی واپسی پر زور دیتے تھے۔ انھیں جنرل مشرف کا ذاتی زندگی کا رویہ زیادہ متوجہ کرتا تھا مگر ان دانشوروں نے جنرل مشرف کی اپنے اقتدار کے لیے دہری پالیسی کے نقصان کا ادراک نہیں کیا۔ اس پالیسی کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو جیسی رہنما سے عوام محروم ہوگئے، یوں جمہوری اداروں کی بالادستی کی سب سے بڑی آواز خاموش ہوگئی۔ جنرل پرویز مشرف براہِ راست بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث بھی نہ ہوں مگر ان کی انتظامیہ کی سوچ اور پالیسی کی بناء پر پاکستان کو اتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔