حسرت اُن غنچوں پہ…
یہ سچ ہے کہ یمن کے معاملے میں تعاون نہ کرنے پر تعلقات میں کچھ سرد مہری ضرور پیدا ہوگئی تھی
سعودی حکمرانوں کی جانب سے شہبازشریف کا بلایاجانا اور اُن کے لیے خصوصی طور پر وہاں سے سعودی جہاز کا بھیجاجانا ہمارے یہاں کے بہت سے سیاستدانوں کے لیے یقینا تشویش اور پریشانی کا حامل رہا، اُن کے لیے تو یہ بات کسی بھی لحاظ سے آسمانی بجلی سے کم نہ تھی اور وہ بے ساختہ برہم اور سیخ پا ہوکر دلوں کی اِس کجی کواپنی زبانوں پر لے آئے۔کسی نے کہا کہ شریف خاندان اپنی کرپشن بچانے کے لیے سعودی حکمرانوں سے مدد لینے سعودی عرب پہنچ گیا ہے۔ کسی نے کہا کہ وہ اب ایک بار پھر وہاں جاکر سعودی بادشاہوں کے پاؤں پڑیں گے اور گھٹنے پکڑ یں گے اور کسی نے اِس تناظر میں یہاں تک کہ ڈالا کہ اب ہم کوئی نیا این آر او نہیں ہونے دیں گے۔
حالانکہ یہ سب کہنے والوں کو ابھی یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ شریف برادران کا یہ دورہ کس مقصد کے لیے تھا۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ شریف فیملی کا سعودی عرب جانے کا فی الحال ایسا کوئی پروگرام سرے سے تھا ہی نہیں۔ وہ تو خود ابھی تک اپنے جھمیلوں سے اور عدالتوں میں اپنی پیشیوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ انھیں بھلا اتنی فرصت اب کہاں کہ وہ سعودی حکمرانوں سے جو خود اپنے ملک کے کرپٹ لوگوں سے آج کل نبرد آزما ہیں اپنے خلاف کرپشن کے مبینہ الزامات سے بچاؤکی درخوست یا استدعا کر پائیں۔ شہباز شریف تو حالیہ دنوں میں انتہائی مصرو ف ہیں۔
جوں جوں الیکشن قریب آتے جارہے ہیں اُن کی مصروفیات اور بھی بڑھتی جارہی ہے اور جب سے اگلے وزیراعظم کے منصب کے لیے حکمراں جماعت نے انھیں اپنے متوقع اُمیدوار کے طور پر نامزد کیا ہے اُن کی ذمے داریوں میں بے تحاشہ اضاٖفہ ہوگیا ہے۔ رہ گیا سوال میاں نواز شریف کا تووہ بھی فی الحال ایسے کسی دورے کی موڈ میں نہیں تھے۔ وہ تو خود عوامی ہمدردیاں اور حمایت حاصل کرنے کے لیے آج کل اپنے ہی ملک میں بہت سرگرم اورمتحرک ہیں۔ جن دنوں انھیں سعودی عرب طلب کیاگیا وہ سرگودھا میں ایک بہت بڑا جلسہ کرنے والے تھے ۔انھیں تو باامر مجبوری اِس دورے کی دعوت قبول کرنا پڑی۔
یہ سچ ہے کہ یمن کے معاملے میں تعاون نہ کرنے پر تعلقات میں کچھ سرد مہری ضرور پیدا ہوگئی تھی لیکن تعلقات بہر حال پھر بھی قائم و دائم تھے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی کھیپ میں سعودی حکمرانوں کے لیے ابھی تک کوئی ایسا دوسرا قابل اعتماد سیاستداں پیدا نہیں ہوا جس سے وہ کھل کر راز داری کی باتیں کرسکیں ۔ یہی انداز فکر ترکی کے موجودہ حکمرانوں کا بھی ہے ۔
وہ بھی پاکستان کے تمام سیاستدانوں میںسے صرف شریف برادران ہی کو اپنا مخلص دوست اور بھائی تصورکرتے ہیں ۔خاص کر میاں شہباز شریف کو اُن کے ویژن اور اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے وہ انھیںایک ترقی پسند انقلابی رہنما کے طور پر جانتے اورسمجھتے ہیں ۔حسن ِاتفاق سے اِن دنوں ترک وزیراعظم بھی سعودی عرب کے دورے پر ہیں اور وہاں وہ شہبازشریف سے ملاقات کرکے بہت خوش بھی ہوئے ۔ ہم سب یہ اچھی طرح جانتے ہیںکہ سعودی عرب میں یہ ملاقاتیں شریف فیملی کو بچانے کی غرض سے ہرگز نہیں ہو رہی ہیں۔
یہ تو کسی انتہائی اہم اورحساس بین الاقوامی معاملے پر چند قابل اعتماد دوستوں کا اجتماع ہے۔سعودی حکمراں اُن سے باہم مشورہ کرکے کسی بڑے فیصلے پر پہنچنا چاہتے ہیں۔اِسی غر ض سے انھوں نے اپنا خصوصی طیارہ بھیج کر میاںشہباز شریف کو فوراً طلب کرلیا۔معاملہ اگر شریف فیملی کی کرپشن کاہوتا تو سعودی حکمرانوں کی جانب سے اِس قدر کرم نوازیاں بھلا کیوں کر ہوتیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگلے وزیراعظم کے طور پر میاں نواز شریف کے بعد سب سے زیادہ قابل قبول شخص اگر پاکستان میں کوئی ہے تووہ صرف شہباز شریف ہی ہیں۔ پاناما کیس اورعدالتوں سے میاں نواز شریف کی نااہلی کا تمام ہنگامہ اور شوروغوغا صرف پاکستان ہی میں ہے دنیا کے باقی ملکوں کا اِس سے نہ کوئی تعلق ہے اور نہ کوئی سروکار ۔
شریف فیملی کا سعودی عرب کااچانک جاناہمارے کئی سیاسی حلقوں کے لیے انتہائی مایوسی اور پریشانی کاباعث بھی بنا۔ جو حلقے اگلے انتخابات کے حوالے سے پی ٹی آئی کی متوقع کامیابی کے ابھی سے اندازے لگائے بیٹھے تھے اوراگلے منتخب وزیراعظم کے طور پر عمران خان کی شخصیت کو دیکھ رہے تھے انھیں شریف فیملی کی سعودی عرب میں اِس عزت افزائی سے یقینا سخت مایوسی ہوئی ہے۔
وہ اِس معاملے کو لے کر سعودی عرب کے خلاف اپنی اِس خفگی اور برہمی کا اظہار تو نہیں کرسکتے تھے لیکن وہ اپنی خفت مٹانے کے لیے چرب زبانی اورکذب بیانی کا سہارا تو لے سکتے تھے لہذا انھوں نے ایسا ہی کیا اور اِس دورے کومیاں نوازشریف کی معافی تلافی کے لیے سعودی حکمرانوں کی کوشش قرار دیتے ہوئے اُسے کسی نئے این آر او سے تشبیہ دینی شروع کردی۔ لیکن چونکہ اِس دورے کے مضمرات اورمحرکات سے وہ ابھی تک مکمل طور پر واقف نہ تھے شاید اِسی وجہ سے وہ اپنے اِس این آر او والے اپنے اِس ایک بیان پرقائم بھی نہ رہ سکے۔ ابہام اور شکوک کے عالم میں وہ روزانہ اپنے بیانات بھی بدلتے رہے۔
اِس دورے نے اُن کی اب تک بر آنے والی ساری اُمیدوں پراچانک پانی پھیر کررکھدیا ہے۔ میاں نواز شریف کو نااہل قراردلواکر اورحدیبیہ کیس میں میاں شہباز شریف کو راستے سے ہٹا کروہ اِس ملک کا اگلا حکمراں بننے کی جو آس و اُمید لگائے بیٹھے تھے وہ ساری کی ساری اِک لمحے میں زمیں بوس ہوگئیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہمراہ ماڈل ٹاؤن کے کیس کو بنیاد بناکر وہ شہاز شریف کے خلاف جس انتشار اورمحاذآرائی کی سیاست کرنا چاہتے تھے اِس دورے نے اُن کے اِس منصوبے کو بھی خاک میں ملادیا ہے۔
30دسمبر کو لاہور میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کااختتامی اعلامیہ اُن کے انہی خدشات اورمشکلات کی واضح نشاندہی کرتا ہے جس میں بدلتے ہوئے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے احتجاج کی ڈیڈ لائن میں ایک ہفتہ کا اضافہ کردیا ہے۔اِس طے شدہ احتجاجی پروگرام کوایک ہفتے کے لیے مؤخر کیا جانا اپوزیشن کی اُس پریشانی کی واضح نشاندہی کرتا ہے جو انھیں شریف برادران کے اِس دورے کی وجہ سے لاحق ہوگئی تھی ۔انھیں یقینا یہ خدشات گھیرنے لگے تھے تھے کہ کہیںملکی اور بیرونی تمام قوتیں میاں شہباز شریف کو اگلے وزیراعظم کے طور پر ابھی سے قبول تو نہیں کر رہیں۔
آل پارٹیزکانفرنس کے اِس اعلامیے سے سب سے زیادہ مایوسی شیخ رشید کو ہوئی ہے جو شہباز شریف کو انتخابی معرکے سے باہر کرنے کے لیے آخری حربے کے طور پر ماڈل ٹاؤن کیس کو بنیاد بنا کر فساد اور ہنگامہ آرائی کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔اب ہمارے یہ سارے سیاسی پہلوان شہباز شریف کے سعودی عرب دورے کے نتائج کے انتظار میں ایک ہفتہ بڑے کرب اور بے چینی میں گزاریں گے اور پھر تمام خدو خال واضح ہونے کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہونگے۔
شہباز شریف کو سعودی حکمرانوں کی طرف سے ملنے والی پذیرائی یااُن کے ساتھ طے ہونے والے معاملات کو دیکھ کر ہی یہ نتیجہ اخذ کیاجاسکے گا کہ آنے والے دنوں میں کون سا پاکستانی حکمراں اُن کے لیے قابل قبول ہوگا۔وہ میاں شہباز شریف کو اِس منصب کے لیے کتنا اہل اورقابل سمجھتے ہیں۔وہ اگر اپنے کسی دوسرے اہم معاملے میں اُن سے صلاح مشورہ بھی کرتے ہیںتویہ میاں شہباز شریف کے لیے یقینا بڑے اعزاز کی بات ہوگی۔
لیکن یہی بات ہمارے خان صاحب کے لیے انتہائی دکھ اور رنج و الم کا باعث ہوگی۔ خان صاحب جو 2018ء الیکشنوں کے نتیجے میں خود کو اِس ملک کا وزیراعظم دیکھ رہے ہیں اُن کی یہ حسرت شاید شہباز شریف کی موجودگی میں شاید کبھی پوری نہ ہوسکے۔ویسے بھی خان صاحب کے لیے وزیراعظم بننے کا یہ آخری موقعہ ہے ۔ہوسکتا ہے اِس کے بعد وہ اِس ملک کے جمہوری نظام ہی سے مایوس ونا اُمید ہوکرخود ساختہ جلاوطنی پر مجبور ہو جائیں۔
حالانکہ یہ سب کہنے والوں کو ابھی یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ شریف برادران کا یہ دورہ کس مقصد کے لیے تھا۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ شریف فیملی کا سعودی عرب جانے کا فی الحال ایسا کوئی پروگرام سرے سے تھا ہی نہیں۔ وہ تو خود ابھی تک اپنے جھمیلوں سے اور عدالتوں میں اپنی پیشیوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ انھیں بھلا اتنی فرصت اب کہاں کہ وہ سعودی حکمرانوں سے جو خود اپنے ملک کے کرپٹ لوگوں سے آج کل نبرد آزما ہیں اپنے خلاف کرپشن کے مبینہ الزامات سے بچاؤکی درخوست یا استدعا کر پائیں۔ شہباز شریف تو حالیہ دنوں میں انتہائی مصرو ف ہیں۔
جوں جوں الیکشن قریب آتے جارہے ہیں اُن کی مصروفیات اور بھی بڑھتی جارہی ہے اور جب سے اگلے وزیراعظم کے منصب کے لیے حکمراں جماعت نے انھیں اپنے متوقع اُمیدوار کے طور پر نامزد کیا ہے اُن کی ذمے داریوں میں بے تحاشہ اضاٖفہ ہوگیا ہے۔ رہ گیا سوال میاں نواز شریف کا تووہ بھی فی الحال ایسے کسی دورے کی موڈ میں نہیں تھے۔ وہ تو خود عوامی ہمدردیاں اور حمایت حاصل کرنے کے لیے آج کل اپنے ہی ملک میں بہت سرگرم اورمتحرک ہیں۔ جن دنوں انھیں سعودی عرب طلب کیاگیا وہ سرگودھا میں ایک بہت بڑا جلسہ کرنے والے تھے ۔انھیں تو باامر مجبوری اِس دورے کی دعوت قبول کرنا پڑی۔
یہ سچ ہے کہ یمن کے معاملے میں تعاون نہ کرنے پر تعلقات میں کچھ سرد مہری ضرور پیدا ہوگئی تھی لیکن تعلقات بہر حال پھر بھی قائم و دائم تھے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی کھیپ میں سعودی حکمرانوں کے لیے ابھی تک کوئی ایسا دوسرا قابل اعتماد سیاستداں پیدا نہیں ہوا جس سے وہ کھل کر راز داری کی باتیں کرسکیں ۔ یہی انداز فکر ترکی کے موجودہ حکمرانوں کا بھی ہے ۔
وہ بھی پاکستان کے تمام سیاستدانوں میںسے صرف شریف برادران ہی کو اپنا مخلص دوست اور بھائی تصورکرتے ہیں ۔خاص کر میاں شہباز شریف کو اُن کے ویژن اور اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے وہ انھیںایک ترقی پسند انقلابی رہنما کے طور پر جانتے اورسمجھتے ہیں ۔حسن ِاتفاق سے اِن دنوں ترک وزیراعظم بھی سعودی عرب کے دورے پر ہیں اور وہاں وہ شہبازشریف سے ملاقات کرکے بہت خوش بھی ہوئے ۔ ہم سب یہ اچھی طرح جانتے ہیںکہ سعودی عرب میں یہ ملاقاتیں شریف فیملی کو بچانے کی غرض سے ہرگز نہیں ہو رہی ہیں۔
یہ تو کسی انتہائی اہم اورحساس بین الاقوامی معاملے پر چند قابل اعتماد دوستوں کا اجتماع ہے۔سعودی حکمراں اُن سے باہم مشورہ کرکے کسی بڑے فیصلے پر پہنچنا چاہتے ہیں۔اِسی غر ض سے انھوں نے اپنا خصوصی طیارہ بھیج کر میاںشہباز شریف کو فوراً طلب کرلیا۔معاملہ اگر شریف فیملی کی کرپشن کاہوتا تو سعودی حکمرانوں کی جانب سے اِس قدر کرم نوازیاں بھلا کیوں کر ہوتیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگلے وزیراعظم کے طور پر میاں نواز شریف کے بعد سب سے زیادہ قابل قبول شخص اگر پاکستان میں کوئی ہے تووہ صرف شہباز شریف ہی ہیں۔ پاناما کیس اورعدالتوں سے میاں نواز شریف کی نااہلی کا تمام ہنگامہ اور شوروغوغا صرف پاکستان ہی میں ہے دنیا کے باقی ملکوں کا اِس سے نہ کوئی تعلق ہے اور نہ کوئی سروکار ۔
شریف فیملی کا سعودی عرب کااچانک جاناہمارے کئی سیاسی حلقوں کے لیے انتہائی مایوسی اور پریشانی کاباعث بھی بنا۔ جو حلقے اگلے انتخابات کے حوالے سے پی ٹی آئی کی متوقع کامیابی کے ابھی سے اندازے لگائے بیٹھے تھے اوراگلے منتخب وزیراعظم کے طور پر عمران خان کی شخصیت کو دیکھ رہے تھے انھیں شریف فیملی کی سعودی عرب میں اِس عزت افزائی سے یقینا سخت مایوسی ہوئی ہے۔
وہ اِس معاملے کو لے کر سعودی عرب کے خلاف اپنی اِس خفگی اور برہمی کا اظہار تو نہیں کرسکتے تھے لیکن وہ اپنی خفت مٹانے کے لیے چرب زبانی اورکذب بیانی کا سہارا تو لے سکتے تھے لہذا انھوں نے ایسا ہی کیا اور اِس دورے کومیاں نوازشریف کی معافی تلافی کے لیے سعودی حکمرانوں کی کوشش قرار دیتے ہوئے اُسے کسی نئے این آر او سے تشبیہ دینی شروع کردی۔ لیکن چونکہ اِس دورے کے مضمرات اورمحرکات سے وہ ابھی تک مکمل طور پر واقف نہ تھے شاید اِسی وجہ سے وہ اپنے اِس این آر او والے اپنے اِس ایک بیان پرقائم بھی نہ رہ سکے۔ ابہام اور شکوک کے عالم میں وہ روزانہ اپنے بیانات بھی بدلتے رہے۔
اِس دورے نے اُن کی اب تک بر آنے والی ساری اُمیدوں پراچانک پانی پھیر کررکھدیا ہے۔ میاں نواز شریف کو نااہل قراردلواکر اورحدیبیہ کیس میں میاں شہباز شریف کو راستے سے ہٹا کروہ اِس ملک کا اگلا حکمراں بننے کی جو آس و اُمید لگائے بیٹھے تھے وہ ساری کی ساری اِک لمحے میں زمیں بوس ہوگئیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہمراہ ماڈل ٹاؤن کے کیس کو بنیاد بناکر وہ شہاز شریف کے خلاف جس انتشار اورمحاذآرائی کی سیاست کرنا چاہتے تھے اِس دورے نے اُن کے اِس منصوبے کو بھی خاک میں ملادیا ہے۔
30دسمبر کو لاہور میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کااختتامی اعلامیہ اُن کے انہی خدشات اورمشکلات کی واضح نشاندہی کرتا ہے جس میں بدلتے ہوئے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے احتجاج کی ڈیڈ لائن میں ایک ہفتہ کا اضافہ کردیا ہے۔اِس طے شدہ احتجاجی پروگرام کوایک ہفتے کے لیے مؤخر کیا جانا اپوزیشن کی اُس پریشانی کی واضح نشاندہی کرتا ہے جو انھیں شریف برادران کے اِس دورے کی وجہ سے لاحق ہوگئی تھی ۔انھیں یقینا یہ خدشات گھیرنے لگے تھے تھے کہ کہیںملکی اور بیرونی تمام قوتیں میاں شہباز شریف کو اگلے وزیراعظم کے طور پر ابھی سے قبول تو نہیں کر رہیں۔
آل پارٹیزکانفرنس کے اِس اعلامیے سے سب سے زیادہ مایوسی شیخ رشید کو ہوئی ہے جو شہباز شریف کو انتخابی معرکے سے باہر کرنے کے لیے آخری حربے کے طور پر ماڈل ٹاؤن کیس کو بنیاد بنا کر فساد اور ہنگامہ آرائی کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔اب ہمارے یہ سارے سیاسی پہلوان شہباز شریف کے سعودی عرب دورے کے نتائج کے انتظار میں ایک ہفتہ بڑے کرب اور بے چینی میں گزاریں گے اور پھر تمام خدو خال واضح ہونے کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہونگے۔
شہباز شریف کو سعودی حکمرانوں کی طرف سے ملنے والی پذیرائی یااُن کے ساتھ طے ہونے والے معاملات کو دیکھ کر ہی یہ نتیجہ اخذ کیاجاسکے گا کہ آنے والے دنوں میں کون سا پاکستانی حکمراں اُن کے لیے قابل قبول ہوگا۔وہ میاں شہباز شریف کو اِس منصب کے لیے کتنا اہل اورقابل سمجھتے ہیں۔وہ اگر اپنے کسی دوسرے اہم معاملے میں اُن سے صلاح مشورہ بھی کرتے ہیںتویہ میاں شہباز شریف کے لیے یقینا بڑے اعزاز کی بات ہوگی۔
لیکن یہی بات ہمارے خان صاحب کے لیے انتہائی دکھ اور رنج و الم کا باعث ہوگی۔ خان صاحب جو 2018ء الیکشنوں کے نتیجے میں خود کو اِس ملک کا وزیراعظم دیکھ رہے ہیں اُن کی یہ حسرت شاید شہباز شریف کی موجودگی میں شاید کبھی پوری نہ ہوسکے۔ویسے بھی خان صاحب کے لیے وزیراعظم بننے کا یہ آخری موقعہ ہے ۔ہوسکتا ہے اِس کے بعد وہ اِس ملک کے جمہوری نظام ہی سے مایوس ونا اُمید ہوکرخود ساختہ جلاوطنی پر مجبور ہو جائیں۔