ٹرمپ نے اپنا انتخابی وعدہ پورا کیا

ٹرمپ جیسے اسلام دشمن کے کہنے سے قبلہ اول بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت بنے گا بن سکتا ہے

امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کردیا ہے کہ امریکا مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت مانتا ہے اور بہت جلد وہاں امریکی سفارتخانہ منتقل کردیا جائے گا۔ امریکی صدر کے اس اسلام دشمن فیصلے نے دنیا بھر میں ہلچل مچادی، اسلامی برادری سراپا احتجاج بن گئی ہے، ہر چھوٹے بڑے ملک میں امریکی فیصلے کے خلاف احتجاج اور مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ مقبوضہ فلسطین میں تو جدوجہد آزادی کی شدت مزید بڑھ گئی ہے اور قابض اسرائیلی فوج کو فلسطینیوں کی جانب سے زبردست مزاحمت کا سامنا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، جنرل اسمبلی، او آئی سی، عرب لیگ اور دیگر عالمی فورمز پر بھی امریکی صدر کے فیصلے کی شدید مذمت کی گئی ہے اور اسے عالمی امن کے خلاف اقدام قرار دیا جا رہا ہے اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ اپنا اعلان واپس لیں۔

اس ساری صورتحال میں تمام مسلمان قبلہ اول کے معاملے پر ایک ہیں، کوئی بھی ٹرمپ کے اس فیصلے کو ماننے پر تیار نہیں لیکن میری اور مجھ جیسے صحافت کے طالب علموں کی سوچ اور بھی ہے، وہ یہ کہ ٹرمپ نے جو کیا اس سے توقع بھی اسی بات کی کی جاسکتی تھی کیونکہ اس نے اسلام مخالفت کے نعروں سے ہی ووٹ لیا اور اپنے انتخابی منشور میں مسلم ممالک پر سفری پابندیاں عائد کرنے، قبلہ اول بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا وعدہ کیا تھا اور ٹرمپ نے اپنا وعدہ پورا کردیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان حکمراں امریکا کی بھرپور مذمت کریں، ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بھی بنائیں لیکن یہ بھی تو سوچیں کہ انھوں نے اپنے ووٹروں اور عوام سے جو وعدے کیے انھیں کب پورا کیا جائے گا؟

کئی برسوں سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ اسلامی دنیا میں مفادات کی جنگ جاری ہے جس کا فائدہ لوگ اور ملک اٹھا رہے ہیں جو اسلامی دنیا کا اتحاد نہیں چاہتے اور مسلمانوں کے مسائل میں اضافے کے ذمے دار ہیں، پھر ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اکثر اسلامی ملکوں میں حکمراں طبقے اور عوام کے درمیان ایک بہت بڑی خلیج ہے جس کی وجہ طبقاتی فرق، امارت کی خلیج، امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بنانے کی پالیسیاں ہیں۔

انھی حالات کی وجہ سے کسی دل جلے کو کہنا پڑ گیا کہ:

غریبِ شہر ترستا ہے اک نوالے کو

امیرِ شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں

یہ عام مشاہدہ ہے کہ ہر حکومت کے بنتے وقت سیاسی رہنما عوام کو بہتر روزگار، تعلیم، صحت اور بہتر سے بہترین طرز زندگی کی فراہمی کے دعوے کرتے ہیں، وعدے بھی کیے جاتے ہیں لیکن ان وعدوں پر ان کی اصل روح کے مطابق عمل کب ہوگا؟ اس کا انتظار ہر ایک کو ہے۔ سیانے کہہ گئے ہیں کہ اگر ہم اپنے فرائض ادا کرنے شروع کردیں تو ہمارے حقوق کے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔ یہ بات بہت پتے کی ہے لیکن اس کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

ٹرمپ جیسے اسلام دشمن کے کہنے سے قبلہ اول بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت بنے گا بن سکتا ہے۔ یہ دیوانگی میں کہی گئی بات ہے جس کو حقیقت سمجھنا بے وقوفی اور نادانی ہوگی۔ ٹرمپ نے انتہا پسند یہودیوں کو خوش کرنے کے لیے یہ شوشہ چھوڑا ہے اور دنیا بھر میں جاری احتجاج کے بعد اسے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اگر اس فیصلے پر عملدرآمد کی جانب بڑھا گیا تو اس کے نتائج امریکا کے لیے انتہائی بھیانک نکلیں گے۔

اب یہ بات بھی سوچنی چاہیے کہ ہم اسرائیلی پیسے سے صدر کے عہدے تک پہنچنے والے ٹرمپ کی اس حرکت کا جواب کیسے دیں؟ احتجاج، مذمت، تنقید اور مظاہرے اپنی جگہ بالکل صحیح ہیں، ہونے بھی چاہئیں، گلی محلوں میں جلسے جلوس کیے جائیں، احتجاج ہو تاکہ دنیا کو پتا چلے کہ مسلمانوں کو اس امریکی فیصلے سے بہت تکلیف ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے بھی اقدامات ضروری ہیں جن کی وجہ سے خود امریکا کو بھی احساس ہو کہ واقعی اس سے غلطی ہوئی ہے۔


اس حوالے سے کچھ تجاویز ہیں جن پر مسلم حکمراں عمل کریں تو امریکا کو جھٹکا لگایا جاسکتا ہے یا یوں کہوں تو بہتر ہوگا کہ ٹرمپ انتظامیہ کو اس کی بھیانک غلطی کی سزا دی جاسکتی ہے۔

٭ ایسا ہونا ممکن تو نہیں لیکن پہلی تجویز یہی ہے کہ تمام اسلامی ملک امریکا سے تجارتی اور معاشی تعلقات ختم کرکے بھرپور طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں۔

٭ تمام مسلم ممالک امریکی امداد کا ''پھندہ'' لینے سے انکار کردیں اور اپنے دستیاب قومی وسائل کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ ایسا نہیں کہ امریکی امداد نہیں ملے گی تو کوئی ملک آگے نہیں چل سکے گا، بات صرف خود پر اعتماد کی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے ایسے ممالک بھی ہر کسی ملک کے ساتھ ہوتے ہیں جو بغیر کسی شرط کے تعاون کرنے پر تیار رہتے ہیں۔

٭34 اسلامی ممالک کی افواج پر مشتمل اتحاد کی جانب سے اسرائیل اور امریکا کے لیے ایک سخت جواب آنا چاہیے تھا، اگر اتحاد میں شامل تمام ملک امریکا کے سامنے کھڑے ہوجائیں تو عالمی منظرنامہ بدل سکتا ہے۔

٭مذمتی بیانات، احتجاجی ریلیوں اور امریکا مردہ باد کے نعروں سے آگے نکل کر ہمیں امریکی سامراج اور اس کے پٹھوؤں کی پالیسیوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ احتجاج کا ایک موثر طریقہ تو یہ ہے کہ تمام اسلامی ممالک امریکا سے سفارتی تعلقات فی الحال ختم کریں اور اسے مجبور کریں کہ ٹرمپ اپنا فیصلہ واپس لے۔

٭سفارتی سطح پر مظاہرے کیے جائیں، ہر ملک کے سفیر اپنے سفارت خانوں میں احتجاج کریں تاکہ حکومتوں کی جانب سے سرکاری طور پر احتجاج کی آواز وائٹ ہاؤس کے حکمراں تک پہنچ سکے۔

٭اس کے علاوہ بہت ضروری ہے کہ تمام حکومتیں خاص طور پر اور مسلمان بالعموم اس بات کا خیال رکھیں کہ احتجاج اور مظاہروں کے دوران ان بے گناہ غیر مسلموں کو نقصان نہ پہنچے جو خود اپنے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مشکلات اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، یہ پیغام ہر ایک کو اپنے کردار و عمل سے دینا ضروری ہے۔

٭اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام عالمی فورمز پر تمام اسلامی ممالک اپنے اپنے اختلافات بھلاکر فلسطین کے معاملے پر ایک ہوجائیں اور مشترکہ طور پر ہر فورم پر احتجاج ریکارڈ کرائیں تاکہ غیر مسلموں کو اسلامی ممالک کی طاقت اور ان کے اثر و رسوخ کا پتا چل سکے۔

٭تیل پیدا کرنے والے اسلامی ممالک اگر امریکا کو تیل کی سپلائی روک دیں تو یقینی طور پر وہ منہ کے بل گرے گا۔ تیل کی فراہمی اس وقت تک معطل رکھی جائے جب تک واشنگٹن کو فلسطین اور فلسطینیوں سے کی گئی زیادتی کی موثر سزا نہ مل جائے۔

٭کچھ عرصے کے لیے امریکا کا ثقافتی اور سماجی بائیکاٹ کرکے بھی فلسطین مخالف فیصلے کے خلاف آواز اٹھائی جاسکتی ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ امریکا سے تاحیات تعلقات ختم کیے جائیں لیکن احتجاج کرنا اور امریکا کو اس کی فاش غلطی کا احساس دلانے کے لیے اسلامی ممالک کو کچھ سیاسی جرأت اور سفارتی سمجھ بوجھ دکھانی ہوگی۔

ان تجاویز یا خیالات پر تھوڑا بہت بھی عمل کرلیا جائے تو امریکا اور اس کے حواریوں کو پالیسیاں تبدیل کرنی پڑیں گی، اگر مسلم امہ کے حکمرانوں اور عوام میں موجود خلیج کم ہوجائے تو امریکا اور اسرائیل کے خلاف دنیا بھر کے مسلمانوں کے احتجاج کی شدت بہت بڑھ جائے گی۔
Load Next Story