خطوط آزاد

یک خط میں لکھتے ہیں ’’افسوس ہے کہ زمانہ میرے دل و دماغ سے کام لینے کا کوئی سامان نہ کرسکا

لاہور:
''خطوط آزاد'' ان خطوط کا مجموعہ ہے جو مولانا ابوالکلام آزاد نے پچھلی صدی کے پانچ ابتدائی عشروں میں مختلف شخصیات کے نام تحریر کیے۔ اس کتاب کے مرتب مالک رام لکھتے ہیں کہ ان مکاتیب میں مولانا آزاد کی شخصیت کے بہت سے ایسے پہلو سامنے آتے ہیں جن کے بارے میں عوام میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں بہت سے ایسے سماجی مسائل، سیاسی افکار اور عصری تنازعات کے بارے میں بحث کی گئی ہے جو ہمارے لیے آج بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے گزرے ہوئے کل میں تھے۔

مولانا آزاد کے یہ خطوط جن شخصیات کے نام ہیں ان میں مولوی محمد یوسف جعفری رنجور، عبدالماجد دریابادی، مولانا حالی، خواجہ حسن نظامی اور مولانا غلام رسول مہر شامل ہیں۔ سب سے زیادہ خطوط مولانا مہر کے نام ہیں جو 1941ء سے مولانا آزاد کی وفات (1958) تک لکھے گئے۔ ان خطوط میں صحافتی، دینی، سیاسی اور تاریخی سب ہی مسائل پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ ایک خط میں وہ لکھتے ہیں ''مجھے نہیں معلوم آپ میرے خطوط محفوظ رکھتے ہیں یا ضایع ہو جاتے ہیں بہرحال یہ خط سنبھال کر رکھ دیجیے، میری زندگی کا بڑا حصہ گزر چکا، جو باقی ہے وہ بہت کم ہے۔ ممکن ہے میں اس وقت تک نہ رہوں لیکن یہ سطور باقی رہ سکتی ہیں۔''

ایک اور خط میں لکھتے ہیں ''دیکھیے بے خبری میں کتنے صفحے لکھ گیا۔ یا تو خطوں کے جواب میں دو سطر لکھنا بھی دوبھر ہوتا ہے یا یہ عالم ہے کہ دس بارہ صفحے سیاہ ہوچکے ہیں اور ابھی تک کہانی ختم نہیں ہوئی۔ اصل بات یہ ہے کہ رمضان کی آمد نے یکایک بجھی ہوئی طبیعت میں تازگی پیدا کردی ہے۔ عشا کے بعد بیٹھتا ہوں تو صبح تک دماغ کے کیف و سکون میں کوئی بات خلل انداز نہیں ہوتی۔

اس وقت تین بج چکے ہیں۔ اعلیٰ درجے کی سبز چائے کا فنجان سامنے دھرا ہے جو ایک جاپانی دوست نے حال میں بھیجی ہے آپ کو خط لکھ رہا ہوں اور دل میں سوچ رہا ہوں، اگر ایسی چائے کے فنجان میسر ہوں تو پھر اور کون سی نعمت رہ جاتی ہے جس کی انسان خواہش کرے! میرے لیے یہی چائے سحری کی صبوحی ہے اور افطار کا جام خمار شکن بھی۔''

مولانا غلام رسول مہر کے نام مولانا آزاد کے خطوط میں ہر طرح کے موضوع پر اظہار خیال ہے، کہیں مختصر کہیں تفصیل سے۔ ایک خط میں صحافت اردو کے اصول بتاتے ہیں تو دوسرے میں اردو کی تعلیم و ترویج۔ ایک اور خط میں دین اسلام کے بنیادی عقائد پر بحث کرتے ہیں۔ ایک خط میں لکھتے ہیں ''افسوس ہے کہ زمانہ میرے دل و دماغ سے کام لینے کا کوئی سامان نہ کرسکا۔ غالبؔ کو تو صرف ایک شاعری کا رونا تھا۔ نہیں معلوم میرے ساتھ قبر میں کیا کیا چیزیں جائیں گی۔ بعض اوقات سوچتا ہوں تو طبیعت پر حسرت والم کا ایک عجیب عالم طاری ہوجاتا ہے۔

مذہب و فنون، ادب، انشا، شاعری، کوئی وادی ایسی نہیں جس کی بے شمار راہیں مبداء فیاض نے مجھ نامراد کے دماغ پر نہ کھول دی ہوں اور ہر آن و ہر لحظہ نئی نئی بخششوں سے دامن دل مالا مال نہ ہوا ہو۔ ہر روز اپنے آپ کو عالم معنی کے ایک نئے مقام پر پاتا ہوں اور ہر منزل کی کرشمہ سنجیاں پچھلی منزلوں کی جلوہ طرازیاں ماند کردیتی ہیں۔ لیکن افسوس جس ہاتھ نے فکر و نظر کی ان دولتوں سے گراں بار کیا، اس نے شاید سروسامان کار کے لحاظ سے تہی دست رکھنا چاہا۔ میری زندگی کا ماتم یہ ہے کہ اس عہد اور محل کا آدمی نہ تھا مگر اس کے حوالے کردیا۔'' مالک رام کہتے ہیں کہ یہ جو کچھ مولانا نے لکھا، یہ ان کی زندگی کی پوری تصویر تھی۔

محمد یوسف جعفری رنجور کو اپنے حالات زندگی بتاتے ہوئے ایک خط میں لکھتے ہیں۔''میرا نام محی الدین ہے۔ 1303 ہجری میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ میرے والد خیرالدین دہلی کی قدیم سوسائٹی کی یادگار ہیں جن کا خاندان بغداد سے پنجاب آیا اور پنجاب سے شاہ عالم کے زمانے میں دہلی پہنچا۔ غدر سے کچھ پہلے میرے والد بمبئی آئے اور بمبئی سے مکہ معظمہ چلے گئے۔ وہاں ایک مدت رہ کر بغداد، کربلائے معلیٰ، نجف اشرف، مصر، قسطنطنیہ، بیت المقدس وغیرہ کی سیر کرکے پھر مکہ معظمہ آئے۔ وہیں میں پیدا ہوا۔ میری والدہ کا نام زینب تھا۔

میرے والد جہاں جہاں گئے وہ ساتھ رہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میرے والد کو والدہ سے بہت محبت اور الفت تھی۔ والد 1304ھ کے اوائل میں کلکتہ پہنچے۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد والدہ کا انتقال ہوگیا۔ والد غمگین رہے۔ انھی دنوں میں کلکتہ کی بڑی مسجد میں ہر جمعے کو ان کا وعظ ہوتا تھا۔ لوگ جوق در جوق ان کے مرید ہو رہے تھے۔


یوسف رنجور نے ان سے ان کی رباعیاں مانگیں۔ آزاد لکھتے ہیں ''وہ تو کچھ عمدہ نہیں۔ بہرحال تعمیل حکم ضروری ہے۔'' ایک تازہ رباعی۔

افسوس وہ بے غمی کی کہانی نہ رہی

افسوس وہ عیش کی جوانی نہ رہی

لے دے کے رہی تھی ایک جوانی اے مرگ

تو کیا آئی کہ ہائے وہ بھی باقی نہ رہی

مولانا عبدالماجد دریابادی کو ایک خط میں مشورہ دیتے ہیں۔ ''آپ تصنیف وتالیف میں علم اور سعی و عمل میں اصلاح معاشرت۔ ان دو چیزوں کو اپنا مطمع نظر بنائیے۔ پہلی بات تو موجود ہے، دوسری کے لیے بھی آمادہ ہوجائیے۔اپنے تعلیم یافتہ احباب میں چند عزم صادق رکھنے والے اشخاص منتخب کیجیے اور ایک انجمن قائم کیجیے۔ ابتدا میں صرف دو چار نہایت ضروری اور بنیادی باتیں لے لی جائیں اور صرف ان لوگوں کو شریک کیا جائے جو ان پر پوری طرح عمل کرنے کے لیے تیار ہوں اور تمام موانع کا مردانہ وار مقابلہ کریں۔ کوئی ایسی جماعت وجود میں آجائے تو پھر اخبارات کے مباحث مفید ہوسکتے ہیں ورنہ مجرد مضمون نویسی سے اردو میں معاشرتی مباحث کا ایک نیا لٹریچر تو فراہم ہوجائے گا عملاً اصلاح نہیں ہوسکتی لوگوں کو ایک ایسی زندگی بسر کرنے کی دعوت دینا جس کے خصائص و اعمال کا ذہن سے باہر کوئی وجود نہیں، معاشرت کا فلسفہ ہے، اصلاح معاشرت نہیں۔ تاہم مقصود یہ نہیں کہ مضامین نہ لکھے جائیں۔ ان کی ضرورت سے انکار نہیں۔ بہرحال بہتر ہے۔''

حکیم محمد علی طبیب کے نام مولانا الکلام آزاد کا ایک خط، جو انھوں نے 11 جون 1902ء میں لکھا تھا، ایک اہم مسئلے کے حوالے سے تھا۔ مولانا لکھتے ہیں ''آپ جانتے ہیں اور یقیناً مجھ سے اچھا جانتے ہیں کہ محرکین تعلیم انگریزی کی اشاعت سے کیا غرض تھی۔ اشاعت علوم مغربی۔ مگر افسوس ہے کہ یہ غرض تو حاصل نہ ہوئی اور انگریزی ذریعہ ملازمت سمجھ لی گئی۔ اب نہ کوئی سائنس سے غرض نہ فلسفے سے۔ بس انٹر یا ایف اے تک انگریزی پڑھی اور پندرہ روپے پر ملازم ہوگئے۔ پس حالت موجودہ کے لحاظ سے اس وقت کی بڑی ضرورت یہ ہے کہ اپنی ملکی زبان میں علوم مغربی کا ترجمہ کیا جائے اور سائنٹیفک سوسائٹی اور پنجاب یونیورسٹی کی پالیسی سے اتفاق کیا جائے۔

اس کے ساتھ ہی اگر آپ غور کریں گے تو اشاعت علوم مغربی سے ایک اور زہریلا مرض ہندوستان میں پھیل رہا ہے اور جب اس میں ترقی ہوگی تو اس میں یقینا ہوگی۔ پس ضروری ہے کہ اس کا بھی انسداد قبل از وقت کرلیا جائے۔ آپ کہیں گے وہ کون سا مرض ہے؟ حضرت! وہ دہریت اور لامذہبیت کا مرض ہے جو مذہب کی پاک زندگانی کا کام تمام کردیتا ہے اور جس نے یورپ کو مذہب کی قید سے آزاد کردیا ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ اسلام کو ناواقفوں نے سائنس کے خلاف سمجھ لیا ہے۔ اس لیے انھیں مذہب سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔''

مولانا آزاد کے خطوط میں کہیں حروف صلیبیہ کی داستان لکھی ہے تو کہیں ہستی باری تعالیٰ پر دلائل فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، کسی جگہ فلسفہ تنہائی پر رائے زنی ہے تو دوسری جگہ انانیت کا تجزیہ کیا ہے۔ ایک خط میں موسیقی کی تاریخ ہے تو دوسرے میں کاشتکاری کے رموز بیان ہوئے ہیں۔ قدم قدم پر مولانا کی وسعت مطالعہ اور آزادی رائے کا اظہار ہوتا ہے۔
Load Next Story