سالِ گزشتہ کا المیہ
جلد ہی قوم کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بارٹر سسٹم کے تحت رہائی کی خوشخبری دی جائے گی
'' سلاخوں کے پیچھے بیڈ پر ایک خاتون منہ پر چادر اوڑھے لیٹی ہوئی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہڈیوں اور گوشت کا ڈھیر بیڈ پر دھرا ہو، بے حس وحرکت۔ جیل حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ 'یہی وہ قیدی ہے جس کی آپ کو تلاش ہے۔'' ہیوسٹن امریکا کے پاکستانی قونصل خانے کی قونصلر جنرل عائشہ فاروقی کا یہ بیان گزشتہ سال مارچ میں ذرایع ابلاغ کے ذریعے اس وقت منظر عام پر آیا جب وہ دختر پاکستان ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملنے جیل گئی تھیں جو وہاں ساڑھے چودہ سال سے ناحق قید ہیں۔
پاکستانی سفارتکار عائشہ فاروقی کے مطابق انھیں اس بیرک تک، جس میں ڈاکٹر عافیہ قید ہیں، تب لے جایا گیا جب انھوں نے جنیوا کنونشن کی شق 2047ء کا حوالہ دیا۔ عائشہ فاروقی کے ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کے لیے جیل جانے کی نوبت ان کی صحت سے متعلق تشویشناک اطلاعات موصول ہونے کے بعد آئی تھی جب کہ گزشتہ ڈھائی سالوں سے اہل خانہ کی ان سے ٹیلی فون پر ہونے والی چند منٹ کی بات چیت کا سلسلہ بھی منقطع ہوچکا تھا۔
ظاہر ہے گھر والے ڈاکٹر عافیہ کی خیریت اور صحت کے حوالے سے جاننے کے لیے سخت فکرمند تھے، عائشہ فاروقی کے مندرجہ بالا بیان سے ان کے زندہ ہونے کی تصدیق تو ہوگی، مگر ان کی غیر تسلی بخش حالت کی اطلاعات نے ان کی تشویش اور پریشانی میں مزید اضافہ کردیا۔ ڈاکٹر عافیہ کی ضعیف والدہ عصمت صدیقی، بیٹی مریم اور بیٹے احمد کی حالت کا ہر صاحب دل بخوبی اندازہ کرسکتا ہے جو ایک طویل عرصے سے انھیں دیکھنے اور ملنے کے لیے ترس رہے ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ کے اہلخانہ ان کی صحت کی تشویشناک اطلاعات کے بعد کئی بار حکومت سے درخواست کرچکے ہیں کہ ان کی ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کرائی جائے، ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی بھی ان سے ملکر بحیثیت معالج ان کی صحت کا اندازہ کرنا چاہتی ہیں، وہ یہ پیشکش بھی کرچکے ہیں کہ اس کے تمام تر اخراجات وہ خود برداشت کریں گے مگر اس کا بھی حکومت کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں دیا گیا۔
2017ء کو گزرے آج تیسرا دن ہے جس کا المیہ یہ ہے کہ اس کے آغاز میں 20جنوری کو جب باراک اوباما اپنی صدارت کی آئینی مدت پوری کرکے سبکدوش ہورہے تھے تو ڈاکٹر عافیہ کے امریکی وکلاء اسٹیون ڈاؤنز اورکیتھی مینلے صدر مملکت ممنون حسین یا وزیر اعظم نواز شریف کے ایک خط کے منتظر تھے جس کی بنیاد پر ان کی صدارتی معافی کے ذریعے رہائی عمل میں آنی تھی اور اس کے لیے ڈاکٹر عافیہ کے وکلاء مکمل طور پر پْرامید تھے۔
گویا ان کی رہائی اور وطن واپسی کی راہ میں یہ خط رکاوٹ بنا ہوا تھا مگر اپنے ہی وعدوں اور تسلیوں کے برعکس حکومت نے یہ رکاوٹ دور کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے بقول وہ اس خط کے حصول کے لیے مارچ 2016ء سے 20جنوری 2017ء تک مسلسل کوشش کرتے رہیں، وہ اور ڈاکٹر عافیہ کے امریکی وکلاء صدر ممنون حسین اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے علاوہ سابق مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور سابق وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان سے بار بار رابطہ کرکے مطلوبہ خط کے لیے یاد دہانی کراتے رہے مگر ان میں سے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
اس دوران حقیقت حال کا پتہ چلنے پر ملک کے چپے چپے سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے حکمرانوں سے خط لکھنے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ 9 ماہ کے اس عرصے میں عوام، عافیہ موومنٹ کے رضاکاروں اور مختلف سیاسی و دینی جماعتوں نے بھی جدوجہد شروع کردی۔ ایک طرف کراچی اور حیدرآباد پریس کلب کے باہر رضاکاروں نے 86روزہ '' عافیہ رہائی علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ'' لگایا تو دوسری جانب خیبر پختونخوا میں رضاکاروں نے لکی مروت سے براستہ بنوں، ڈومیل، کرک، لاچی،کوہاٹ تا پشاور اور پھر پشاور سے براستہ پبی، نوشہرہ، اکوڑہ خٹک، جہانگیرہ، خیرآباد، اٹک تا اسلام آباد کئی سو کلومیٹر پیدل مارچ کرکے اقتدار کے ایوانوں تک ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کے لیے امریکی صدر کو خط لکھنے کا مطالبہ پہنچایا۔
انہی دنوں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے خود بھی حیدرآباد، پشاور، لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اور کئی دیگر شہروں کا دورہ کرکے ڈاکٹر عافیہ کے حق میں مختلف سیاسی، سماجی اور دینی جماعتوں نیز عافیہ موومنٹ کے زیر اہتمام جلسے ، جلوسوں، ریلیوں میں شرکت کی اور پریس کانفرنسوں سے خطاب کیا۔ ان کی طرف سے مجھے بھیجی گئی ایک ای میل میں بتایا گیا ہے کہ جوں جوں امریکی صدر باراک اوباما کی سبکدوشی کی تاریخ 20 جنوری قریب آتی گئی، حکمرانوں سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے خط لکھنے کا مطالبہ زور پکڑتا گیا جس سے پریشان ہوکر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کی جانب سے بالواسطہ اور بلا واسطہ ڈاکٹر عافیہ کے اہل خانہ کے پاس پیغامات آنے لگے جن میں کہا گیا تھا کہ جلد ہی قوم کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بارٹر سسٹم کے تحت رہائی کی خوشخبری دی جائے گی۔
ان پیغامات میں مزید کہا گیا تھا کہ جہاں آپ کے گھرانے نے اتنا صبرکیا اور قربانیاں دی ہیں وہاں ملک وقوم کی خاطر مزید کچھ دن صبر سے کام لینے کی قربانی دیں۔ ان کی جانب سے پرنٹ خواہ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بھی یہ بات عام کی گئی، حتیٰ کہ کچھ ٹی وی ٹاک شوز میں بھی پرائم منسٹر ہاؤس کے حوالے سے ڈاکٹرعافیہ کو شکیل آفریدی کے بدلے واپس لانے کا مژدہ بھی سنایا گیا۔
لیکن 20 جنوری تو کیا 2017ء کا پورا سال بھی گزرگیا اور حکمرانوں نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کا موقعہ گنوادیا، جس کے نتیجے میں انھیں ناکردہ گناہ کی سزا کے طور پر مزید ایک سال امریکی جیل میں قید تنہائی کاٹنی پڑی۔ پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کی طرف سے نا اہل قرار دیے جانے والے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی اپنے پیش رو حکمرانوں اور دیگر سیاستدانوں کی طرح ڈاکٹر عافیہ کو قوم کی بیٹی قرار دیا تھا اور 2013ء میں برسر اقتدار آنے کے فوراً بعد ڈاکٹر عافیہ کی والدہ عصمت صدیقی اور بیٹی مریم سے ملاقات کے دوران انھوں نے یقین دلایا تھا کہ خواہ کچھ بھی کرنا پڑے وہ ڈاکٹر عافیہ کو 100 دن میں وطن واپس لائیں گے۔
وہ خود تو نااہل قرار دیے جانے کے بعد اقتدار سے بے دخل ہوگئے لیکن سالِ گزشتہ کے دوران ان کی پارٹی مسلم لیگ (ن) بہرحال اقتدار میں تھی لیکن اس نے بھی میاں صاحب کی طرح کچھ نہیں کیا ورنہ ان کے جانشین وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اگر چاہتے تو صدر ٹرمپ کو کرسمس کے موقعے پر خط لکھ کر ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی میں کردار ادا کرسکتے تھے لیکن انھوں نے وہ آخری موقع بھی گنوا دیا۔
ڈاکٹر فوزیہ نے اپنی ای میل میں یہ تاریخی حقیقت یاد دلاتے ہوئے کہ صرف غیرت مند قیادت والی قوموں اور تہذیبوں نے ہی ترقی کی ہے، اس واقعے کا حوالہ دیا ہے جب ایک بھارتی خاتون کی نیویارک میں امریکی قوانین کی خلاف ورزی پر پولیس کے ہاتھوں گرفتاری پر انڈیا میں گویا بھونچال آ گیا تھا۔ حکومت، اپوزیشن، فوج اور دیگرریاستی اداروں نے بھی سول سوسائٹی اور عوام کے ساتھ ملکر احتجاج کیا، نوبت یہاں تک پہنچی کہ امریکا سے سفارتی تعلقات توڑنے پر غورکیا جانے لگا جس پر امریکا کوگھٹنے ٹیکنے پڑے، اسی قومی غیرت ہی کا اعجاز ہے کہ آج دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں انڈیا کا تیسرا نمبر ہے۔
ہمارے حکمرانوں نے تو کچھ نہیں کیا لیکن ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی جدوجہد اب عالمگیر حیثیت حاصل کر چکی ہے اور دنیا کے کونے کونے سے ان کی رہائی کے لیے آواز بلند کی جا رہی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے کئی دوسرے ممالک کی طرح خود امریکا میں بھی قانون دان، دانشور اور سول سوسائٹی کے ارکان ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ قوم کی اس مظلوم بیٹی کے اہل خانہ اور ان کی رہائی کے لیے جدوجہد کرنے والوں نے اپنے تئیں ہر ممکن کوشش کرکے دیکھ لی ہے ۔ ڈاکٹر فوزیہ کے بقول زنجیر عدل بھی ہلائی جا چکی ہے ، اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن نمبر 2015ء/3139، لاہور ہائی کورٹ میں 2009ء/ 1071ح ، اور سندھ ہائی کورٹ میں 2013ء/1315 دائر ہیں لیکن عدالتی احکامات پر بھی عمل نہیں کیا گیا، یہی سالِ گزشتہ کا المیہ ہے۔