کرکٹرز کے سر کی انجریز میں شکار ہونے کا خطرہ مزید بڑھ گیا

اہم ترین معاملے کو آئی سی سی اور بورڈز کی جانب سے نظر انداز کیا جانے لگا۔


Sports Desk January 03, 2018
3ٹیموں کو ہی باقاعدہ ڈاکٹر کی خدمات میسر،ایم سی سی میٹنگ میں غور ہوگا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

کرکٹرز کے سر کی انجریز میں مبتلا ہونے کا خطرہ مزید بڑھ گیا جب کہ اہم ترین معاملے کو آئی سی سی اور بورڈز کی جانب سے نظر انداز کیا جارہا ہے۔

کرکٹ میں گذشتہ کچھ عرصے سے کھلاڑیوں کے سر پر گیند لگنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، آسٹریلوی بیٹسمین فل ہیوز بھی اسی وجہ سے جان گنوا بیٹھے تھے، اس کے باوجود کرکٹرز کو سر کی مہلک انجریز سے بچانے کیلیے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے گئے۔

کرکٹ آسٹریلیا کے سابق ڈاکٹر پیٹر بروکنر نے خبردار کیاکہ کرکٹرز کو بہت بڑے خطرے سے دوچار کردیا گیا ہے،انھوں نے رگبی اسٹائل ہیڈ انجری تشخیص اختیار کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ بروکنز نے کہاکہ سرکی چوٹوں کے حوالے سے انٹرنیشنل کرکٹ کا ردعمل بہت ہی سست ہے۔

اس خطرے کو کم کرنے کیلیے سنجیدہ کوششیں نہیں کی جا رہیں، تین بنیادی مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے جس میں ہیڈ انجری کا شکار ہونے والے کھلاڑی کی جگہ متبادل کھلانے کی پابندی، معیاری تشخیص اور فل ٹائم ٹیم ڈاکٹرز کا فقدان شامل ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ کچھ عرصے میں کم سے کم تین کرکٹرز ٹیسٹ میچز کے دوران سر پر چوٹ کھانے کے باوجود کھیلنے پر راضی دکھائی دیے، ان میں پاکستان کے احمد شہزاد، بنگلہ دیشی مشفیق الرحیم اور سری لنکن سادیرا سمارا وکرما شامل ہیں،دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی ٹیم کا اپنا ڈاکٹر نہیں ہے۔

بروکنر نے کہاکہ میں دسمبر 2016 میں ایک عجیب صورتحال سے دوچار ہوا، ٹیسٹ میچ کے دوران پاکستانی بیٹسمین اظہر علی کے سر پر چوٹ لگی جس پر مجھے بلایا گیا،اگر میں یہ کہتا کہ انھیں مزید کھیل جاری نہیں رکھنا چاہیے تو پھر اس کا فائدہ ہماری ٹیم آسٹریلیا کو پہنچ سکتا تھا، اظہر نے کہا کہ وہ کھیل جاری رکھ سکتے ہیں اور میں بھی خاموش ہوگیا۔

اسی طرح تین ماہ قبل مشفیق الرحیم نے بھی جنوبی افریقی ڈاکٹر کے مشورے کو نظر انداز کرتے ہوئے سر پر چوٹ کے باوجود کھیلنے کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔

واضح رہے کہ اس وقت صرف آسٹریلیا، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیموں کو کوالیفائیڈ ڈاکٹر کی سہولت دستیاب ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

تشویشناک صورتحال

Dec 28, 2024 01:16 AM |

چاول کی برآمدات

Dec 28, 2024 01:12 AM |

ملتے جلتے خیالات

Dec 28, 2024 01:08 AM |