سندھ میں سرکاری اسپتالوں میں صرف 13 ہزار بستر آبادی پونے 5 کروڑ

1300 افراد پرایک ڈاکٹرکی سہولت میسر، عالمی اسٹینڈرڈ 600 افراد پر ایک معالج ہے۔


Tufail Ahmed January 03, 2018
صرف ایک برنس سینٹر جہاں جھلسے ہوئے مریضوں کا علاج مشکل، آبادی کے لحاظ سے نرسوں اور پیرا میڈیکل عملے میں بھی نمایاں فرق۔ فوٹو؛ فائل

کراچی سمیت صوبے کی آبادی پونے 5 کروڑ کے لحاظ سے سرکاری اسپتالوں میں بستروں کی تعداد انتہائی محدود ہو گئی۔

ایکسپریس سروے رپورٹ کے مطابق صوبے کی آبادی حالیہ مردم شماری کے جاری کردہ اعداد وشمارکے مطابق کراچی سمیت صوبے کی آبادی 4 کروڑ 78 لاکھ ہے اس گنجان آبادی والے صوبے میں سرکاری اسپتالوں میں بستروں کی تعداد صرف 16ہزار ہے جبکہ پونے 5 کروڑ کی آبادی پر صرف ایک برنس سینٹر ہے جہاں جھلسے ہوئے مریضوں کو علاج کیلیے شدید دباؤ ہوتا ہے جبکہ آبادی کے لحاظ سے سرکاری اسپتالوں ڈاکٹروں ، نرسوں اورپیرامیڈیکل عملے کی تعداد میں بھی نمایاں فرق ہے۔

حکومت کے اس غیرسنجیدہ اورغیر مساوی اورغیر ذمے دارانہ طرز عمل کی وجہ سے صوبے کے عوام آج بھی صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، ترقی پذیر ممالک میں آج بھی پاکستان میں صحت کی بنیادی سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے سب سے زیادہ اموات بچوںکی ہورہی ہیں،بالائی سندھ میں صحت کا بنیادی ڈھانچہ این جی اوکے حوالے کرنے سے تھر سمیت دیگرعلاقوں میں یومیہ درجنوں بچے زندگی کی بازی ہاررہے ہیں ، پاکستان میں حکومت نے صحت اور تعلیم کو کبھی اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا۔

سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہر حکومت نے اپنے مطلب کے آرڈینس اسمبلی سے منظوری کرانے میںکامیابی حاصل کرلیتی ہے لیکن ہر حکومت نے عوام کے صحت کے مسائل کو پس پشت ڈال دیاجاتا ہے پاکستان میں صحت کے مسائل ہولناک صورت اختیارکرنے لگے۔

سرکاری اسپتالوں اور عالمی اداروں کے اشتراک سے چلنے والے صحت کے منصوبوں پر پیپلز پارٹی کی ایک اہم خاتون رہنما کی ہدایت پرسیاسی بنیاد پر تقرریوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے لیکن حکومت صحت کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں جس کی وجہ سے صوبے میں بیماریوں کے بوجھ میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔

اس وقت صوبے کی آبادی کے لحاظ سے سرکاری اسپتالوں میں بستروں کی تعدادکا اندازہ بخوبی لگاسکتے ہیں، محکمہ صحت کے ماتحت صوبے کے7 ٹیچینگ اسپتال ہیں ان میںکراچی میں سول اسپتال میں 18سو بستر مختص ہیں، جناح اسپتال میں یہ تعداد17سو بتائی جاتی ہے بچوںکے قومی ادارہ امراض اطفال میں 800، لیاری اسپتال میں500 بستر، قومی امراض قلب میں 750 آیس آئی یوٹی میں 500 ، حیدرآباد لمس ٹیچینگ اسپتال 1400بستر،نوابشاہ بے نظیر آباد اسپتال ایک ہزار بستر،لاڑکانہ بے نظیر بھٹو (سابقہ چانڈکا اسپتال) 1400،خیرپور اسپتال 500 ، غلام مہر میڈیکل کالج واسپتال سکھر800، سندھ گورنمنٹ کورنگی اسپتال350 سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد200 سندھ گورنمنٹ نیوکراچی 200 بستر ، قطر اسپتال 400، سعودآباد اسپتال180، چلڈرن اسپتال 200 جبکہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ماتحت چلنے والے عباسی اسپتال میں ایک ہزار بستر موجود ہیں ۔

علاوہ ازیں 2 اربن ہیلتھ سینٹرز50بستر ،50بستر موجود ہیں ، بلدیہ عظمیٰ کے ماتحت رفیقی شہید اسپتال، گزدر آباد ، سوبھراج اسپتال سمیت دیگر ضلعی اربن اسپتالوں کے بستروں کی تعداد مجموعی طورپر 13ہزاربنتی ہے ، سرکاری اسپتالوں میں 1665افراد پر صرف ایک بستر مختص کیاگیا ، اسی طرح بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ماتحت چلنے والے اسپتالوں میں ادویہ کا بحران جاری ہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مرکزی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے عالمی اداروہ صحت کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 6سو افراد پر ایک ڈاکٹر کی سہولت ہونی چاہیے، 1500سو ڈینٹل مریضوں کیلیے ایک ڈینٹل سرجن کی سہولت لازمی ہے۔

ڈاکٹر قیصر سجاد نے بتایا کہ کراچی سمیت ملک بھر میں صحت کا شعبہ انتہائی پستی کا شکار ہے حکمران اپنی بدعنوانیاں بچانے کیلیے سیاسی توڑ جوڑ میں مصروف جبکہ کراچی سمیت ملک بھر میں مختلف وائرل اور بیمابریوں کے بوجھ میں کئی گنا اضافہ ہوگیا جب کہ مریضوں کی تعداد ہولناک صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔ ان سرکاری اسپتالوں کوسالانہ ارابوں پرکا بجٹ فراہم کیاجاتا ہے لیکن حکومت عوام کے سرکاری اسپتالوں کو خاموشی سے نجی شعبوں کے حوالے کرنے میں مصروف ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں