پنجاب اسمبلی کے پانچ سالہ دور میں ریکارڈ قانون سازی
اسمبلی کا ہر اجلاس ہلڑ بازی، غل غپاڑے، گالم گلوچ اور نعرے بازی کا شکار رہا اور کوئی سنجیدہ بحث نہیں ہوسکی۔
پنجاب اسمبلی نے تیسری بار اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے۔
اس سے پہلے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور پرویز مشرف کے ادوار میں پنجاب اسمبلی نے اپنی معیاد پوری کی۔ موجودہ اسمبلی نے ریکارڈ قانون سازی کی اور پانچ سال کے دوران 134بل پاس ہوئے جس کا کریڈٹ یقینی طور پر سپیکر پنجاب اسمبلی رانامحمد اقبال خاں اور وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو جائے گا۔ اس سے پہلے بھٹو دور میں 118بل منظور کئے گئے تھے۔ پنجاب میں ریکارڈ قانون سازی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت بیشتر وزارتیں صوبوں کے حوالے کردی گئی ہیں جنہیں صوبائی سطح پرچلانے کیلئے قانون سازی کی ضرورت تھی۔
پنجاب اسمبلی میںٕ مزید 11بلز منظوری کے عمل میں تھے مختلف محکموں کی قائمہ کمیٹیاں ان کی منظوری دے چکی تھیں اور پنجاب اسمبلی کے آخری دنوں ان کی منظوری متوقع تھی مگر پنجاب اسمبلی کا آخری اجلاس نہ ہونے کے باعث ان 11 بلز پر قانون سازی نہیں ہوسکی۔ پنجاب اسمبلی پانچ سال کے دوران نئے بلدیاتی نظام کے بل کی منظوری دینے میں ناکام رہی اس حوالے سے بل بلدیاتی و دیہی ترقی کی قائمہ کمیٹی کے پاس زیرالتواء ہے اور اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی، تاہم اس کو اسمبلی اور سپیکر کی ناکامی تصور نہیں کیا جاسکتا، اس صورتحال کی ذمہ دار صوبائی حکومت ہے کیونکہ وہ بلدیاتی انتخابات کیلئے تیار نہیں تھی۔
5 سال کے دوران پنجاب اسمبلی میں حکومتی کارکردگی اچھی نہیں رہی، پنجاب اسمبلی میں وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا ون مین شو رہا، پانچ پارلیمانی سالوں میں قائد ایوان محمد شہباز شریف نے اسمبلی میں سب سے کم وقت دیا، وہ مجموعی طور پر 16مرتبہ اور سال بھر میں 3 بار ایوان میں آئے ،ا پوزیشن لیڈر راجہ ریاض احمد بھی عدم دلچسپی کا شکار رہے۔ وزراء محکموں کے متعلق تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ کسی اہم حکومتی فیصلے میں پنجاب اسمبلی کو کوئی حیثیت نہیںدی گئی اور کسی رکن اسمبلی کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ یہ پوچھے کہ حکومتی فیصلوں میں پنجاب اسمبلی کو کیوں اہمیت نہیں دی گئی۔ اپوزیشن کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں کا مالی امور اور بے ضابطگیوں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں رہا۔ چوہدری ظہیر الدین اور عبدالقادر گیلانی کا بطور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کردار نہ ہونے کے برابر رہا ہے ۔ گزشتہ چھ ماہ سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ٹو کا کوئی اجلاس نہیں ہوسکا۔لاہور میں میٹرو بس اور کلمہ چوک سمیت دیگر اہم منصوبوں کے معاملے پر پنجاب اسمبلی کو اعتماد میں نہیں لیا گیااور یہ منصوبہ جات بجٹ میں بھی شامل نہیں تھے اس معاملے پر پنجاب اسمبلی کا کہیں کوئی کردار نظر نہیں آیا۔ ارکان اسمبلی وفاق اور صوبائی حکومت سے اپنے ترقیاتی فنڈز کے حصول میں لگے رہے ۔کسی نے محسوس نہیں کیا کہ صوبے کا 39 فیصد بجٹ صرف لاہور اور گردونواح پر خرچ ہورہا ہے۔
اسمبلی کا ہر اجلاس ہلڑ بازی، غل غپاڑے، گالم گلوچ اور نعرے بازی کا شکار رہا اور کوئی سنجیدہ بحث نہیں ہوسکی۔ مسلم لیگ کی خواتین ارکان اسمبلی نے ایوان کو مسلسل مذاق بنائے رکھا۔ سینئر ترین رکن اسمبلی حامد ناصر چٹھہ سمیت دیگر کئی ارکان بہت کم اجلاس میں آئے جبکہ حامد ناصر چٹھہ نے پانچ سال میں کسی معاملے پر ایک بار بھی اسمبلی کے فلور پر اظہار خیال نہیں کیا۔ اپوزیشن میں سے پارلیمانی لیڈر میجر(ر) ذوالفقار گوندل ،ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شوکت بسراء اور احسان الحق نولاٹیہ کے سوا کسی کی کارکردگی اچھی نہیں رہی۔
شوکت بسرا پہلی بار اسمبلی میں آئے اور اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ عظمیٰ بخاری پانچ سال یونیفیکیشن بلاک کے ارکان اسمبلی کو لوٹا کہتی رہیں، وہ لوٹے توڑتی رہیں اور اسمبلی میں لوٹے ٹھاہ کے نعرے لگاتی رہیںمگر آخری دنوں وہ اس نعرے کے برخلاف خود مسلم لیگ(ن) میں شامل ہوگئیں۔ افسوسناک امر ہے کہ حکومت پنجاب اسمبلی کا الوداعی سیشن نہیں بلاسکی حالانکہ بزنس ایڈوائزری کمیٹی کی مشاورت میں اجلاس بلانے کا فیصلہ ہوگیا تھا جس میں سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال کی طرف سے ارکان کے اعزاز میں ظہرانے اور فوٹو سیشن کا بھی پروگرام تھا لیکن سانحہ بادامی باغ کے دباؤ اور دیگر ناگزیر وجوہات کے پیش نظر اجلاس نہیں بلایا جاسکا۔
سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال خان نے پانچ سال اچھے طریقے سے ہاؤس کو کنڈکٹ کیا، ہمیشہ حکومت اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلے۔ وہ روزانہ پنجاب اسمبلی آتے اور پنجاب اسمبلی کو سب سے زیادہ وقت دینے والے سپیکر رہے، انہوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا اور سرکاری وسائل کو ذاتی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا جس کے باعث ان پر کوئی الزام نہیں ہے۔
رانا محمد اقبال نے سیاست میں عوامی خدمت ، رواداری اور ملنساری میں اپنے والد رانا پھول محمد خان مرحوم کی روایات کو نہ صرف قائم رکھابلکہ ان روایات کو آگے بڑھایا ہے اور وہ بطور سپیکر پنجاب اسمبلی بھی قصور کے عوام سے بھرپور رابطے میں بھی رہے۔آخر میں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ پنجاب اسمبلی پالیسی ساز ادارہ ہے یا اس نے بلدیاتی کام کرنے ہیں، موجودہ جمہوری دور میں بھی یہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بنارہا۔ یوں یہ پالیسی ساز ہے نہ ڈویلپمنٹ کا ادارہ ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ یہ ڈکلیئر کرنا ہوگا کہ اسمبلی کا کام کیا ہوتا ہے۔
اس سے پہلے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور پرویز مشرف کے ادوار میں پنجاب اسمبلی نے اپنی معیاد پوری کی۔ موجودہ اسمبلی نے ریکارڈ قانون سازی کی اور پانچ سال کے دوران 134بل پاس ہوئے جس کا کریڈٹ یقینی طور پر سپیکر پنجاب اسمبلی رانامحمد اقبال خاں اور وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو جائے گا۔ اس سے پہلے بھٹو دور میں 118بل منظور کئے گئے تھے۔ پنجاب میں ریکارڈ قانون سازی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت بیشتر وزارتیں صوبوں کے حوالے کردی گئی ہیں جنہیں صوبائی سطح پرچلانے کیلئے قانون سازی کی ضرورت تھی۔
پنجاب اسمبلی میںٕ مزید 11بلز منظوری کے عمل میں تھے مختلف محکموں کی قائمہ کمیٹیاں ان کی منظوری دے چکی تھیں اور پنجاب اسمبلی کے آخری دنوں ان کی منظوری متوقع تھی مگر پنجاب اسمبلی کا آخری اجلاس نہ ہونے کے باعث ان 11 بلز پر قانون سازی نہیں ہوسکی۔ پنجاب اسمبلی پانچ سال کے دوران نئے بلدیاتی نظام کے بل کی منظوری دینے میں ناکام رہی اس حوالے سے بل بلدیاتی و دیہی ترقی کی قائمہ کمیٹی کے پاس زیرالتواء ہے اور اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی، تاہم اس کو اسمبلی اور سپیکر کی ناکامی تصور نہیں کیا جاسکتا، اس صورتحال کی ذمہ دار صوبائی حکومت ہے کیونکہ وہ بلدیاتی انتخابات کیلئے تیار نہیں تھی۔
5 سال کے دوران پنجاب اسمبلی میں حکومتی کارکردگی اچھی نہیں رہی، پنجاب اسمبلی میں وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا ون مین شو رہا، پانچ پارلیمانی سالوں میں قائد ایوان محمد شہباز شریف نے اسمبلی میں سب سے کم وقت دیا، وہ مجموعی طور پر 16مرتبہ اور سال بھر میں 3 بار ایوان میں آئے ،ا پوزیشن لیڈر راجہ ریاض احمد بھی عدم دلچسپی کا شکار رہے۔ وزراء محکموں کے متعلق تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ کسی اہم حکومتی فیصلے میں پنجاب اسمبلی کو کوئی حیثیت نہیںدی گئی اور کسی رکن اسمبلی کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ یہ پوچھے کہ حکومتی فیصلوں میں پنجاب اسمبلی کو کیوں اہمیت نہیں دی گئی۔ اپوزیشن کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں کا مالی امور اور بے ضابطگیوں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں رہا۔ چوہدری ظہیر الدین اور عبدالقادر گیلانی کا بطور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کردار نہ ہونے کے برابر رہا ہے ۔ گزشتہ چھ ماہ سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ٹو کا کوئی اجلاس نہیں ہوسکا۔لاہور میں میٹرو بس اور کلمہ چوک سمیت دیگر اہم منصوبوں کے معاملے پر پنجاب اسمبلی کو اعتماد میں نہیں لیا گیااور یہ منصوبہ جات بجٹ میں بھی شامل نہیں تھے اس معاملے پر پنجاب اسمبلی کا کہیں کوئی کردار نظر نہیں آیا۔ ارکان اسمبلی وفاق اور صوبائی حکومت سے اپنے ترقیاتی فنڈز کے حصول میں لگے رہے ۔کسی نے محسوس نہیں کیا کہ صوبے کا 39 فیصد بجٹ صرف لاہور اور گردونواح پر خرچ ہورہا ہے۔
اسمبلی کا ہر اجلاس ہلڑ بازی، غل غپاڑے، گالم گلوچ اور نعرے بازی کا شکار رہا اور کوئی سنجیدہ بحث نہیں ہوسکی۔ مسلم لیگ کی خواتین ارکان اسمبلی نے ایوان کو مسلسل مذاق بنائے رکھا۔ سینئر ترین رکن اسمبلی حامد ناصر چٹھہ سمیت دیگر کئی ارکان بہت کم اجلاس میں آئے جبکہ حامد ناصر چٹھہ نے پانچ سال میں کسی معاملے پر ایک بار بھی اسمبلی کے فلور پر اظہار خیال نہیں کیا۔ اپوزیشن میں سے پارلیمانی لیڈر میجر(ر) ذوالفقار گوندل ،ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شوکت بسراء اور احسان الحق نولاٹیہ کے سوا کسی کی کارکردگی اچھی نہیں رہی۔
شوکت بسرا پہلی بار اسمبلی میں آئے اور اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ عظمیٰ بخاری پانچ سال یونیفیکیشن بلاک کے ارکان اسمبلی کو لوٹا کہتی رہیں، وہ لوٹے توڑتی رہیں اور اسمبلی میں لوٹے ٹھاہ کے نعرے لگاتی رہیںمگر آخری دنوں وہ اس نعرے کے برخلاف خود مسلم لیگ(ن) میں شامل ہوگئیں۔ افسوسناک امر ہے کہ حکومت پنجاب اسمبلی کا الوداعی سیشن نہیں بلاسکی حالانکہ بزنس ایڈوائزری کمیٹی کی مشاورت میں اجلاس بلانے کا فیصلہ ہوگیا تھا جس میں سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال کی طرف سے ارکان کے اعزاز میں ظہرانے اور فوٹو سیشن کا بھی پروگرام تھا لیکن سانحہ بادامی باغ کے دباؤ اور دیگر ناگزیر وجوہات کے پیش نظر اجلاس نہیں بلایا جاسکا۔
سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال خان نے پانچ سال اچھے طریقے سے ہاؤس کو کنڈکٹ کیا، ہمیشہ حکومت اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلے۔ وہ روزانہ پنجاب اسمبلی آتے اور پنجاب اسمبلی کو سب سے زیادہ وقت دینے والے سپیکر رہے، انہوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا اور سرکاری وسائل کو ذاتی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا جس کے باعث ان پر کوئی الزام نہیں ہے۔
رانا محمد اقبال نے سیاست میں عوامی خدمت ، رواداری اور ملنساری میں اپنے والد رانا پھول محمد خان مرحوم کی روایات کو نہ صرف قائم رکھابلکہ ان روایات کو آگے بڑھایا ہے اور وہ بطور سپیکر پنجاب اسمبلی بھی قصور کے عوام سے بھرپور رابطے میں بھی رہے۔آخر میں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ پنجاب اسمبلی پالیسی ساز ادارہ ہے یا اس نے بلدیاتی کام کرنے ہیں، موجودہ جمہوری دور میں بھی یہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بنارہا۔ یوں یہ پالیسی ساز ہے نہ ڈویلپمنٹ کا ادارہ ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ یہ ڈکلیئر کرنا ہوگا کہ اسمبلی کا کام کیا ہوتا ہے۔