نگران وزیراعلیٰ خیبر پختونخواکی اتفاق رائے سے نامزدگی
اصل امیدوار اسی وقت میدان میں اتارے جائیں گے جب عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوگا۔
خیبرپختونخو ااسمبلی نے دیگر صوبائی اسمبلیوں کے مقابلے میں سب سے پہلے حلف اٹھایا تھا اس لیے خیبرپختونخوا نے نگران وزیراعلیٰ کی نامزدگی بھی دیگر صوبوں اور مرکز سے بھی پہلے کی ہے اور یہ تقرری وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر نے انتہائی اتفاق رائے سے کی ہے جس کے نتیجہ میں جسٹس(ر)طارق پرویز نگران وزیراعلیٰ کے طور پر نامزد ہوکر سامنے آگئے ہیں۔
جسٹس(ر) طارق پرویز کی تقرری کا خیر مقدم تمام جماعتوں نے کیا ہے، تاہم پیپلزپارٹی جو صوبہ میں اے این پی کی اتحادی جماعت ہے اس کی جانب سے اس سلسلے میں اعتراضات سامنے آگئے ہیں ،پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر انور سیف اللہ کا اس بارے میں موقف بڑا واضح ہے کہ انھیں جسٹس(ر) طارق پرویز کے نگران وزیراعلیٰ نامزد کیے جانے پر اعتراض نہیں بلکہ ان کا اعتراض طریقہ کار پر ہے، گویا وہ اپنی اتحادی جماعت سے گلہ کررہے ہیں۔
تاہم ان کا یہ گلہ اس موقع پر اس لیے بھی بے جا ہوجاتا ہے کہ خیبرپختونخوا کی حد تک اے این پی اور پیپلزپارٹی کے ایک دوسرے سے جو اختلافات پیدا ہوچکے ہیں وہ کسی نہ کسی صورت میں تو سامنے آنے ہی تھے اور یہی وجہ ہے کہ جب پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے پارلیمانی لیڈر اور دیگر ارکان نے غیر سرکاری بلوں کی صورت میں ایسے معاملات چھیڑنا چاہے جن کے ذریعے عوام کو تو ریلیف مل سکتا تھا تاہم اے این پی کو کریدٹ نہیں جارہا تھا تو اے این پی کے تمام ارکان کو اسمبلی سے غائب ہی کردیاگیا جس کی وجہ سے اسمبلی کا سیشن نہ صرف ملتوی بلکہ اس دور کے لیے ختم ہی کردیا گیا۔
نگران وزیراعلیٰ کی نامزدگی کے حوالے سے بھی ایسی ہی صورت حال درپیش رہی، چونکہ وزیراعلیٰ ایک مرتبہ پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر انور سیف اللہ کے ساتھ مشاورت کرچکے تھے اس لیے جب نگران وزیراعلیٰ کے حوالے سے نام کی تبدیلی کی گئی تو انہوں نے دوبارہ مشاورت کرنا مناسب نہ سمجھی اور اپوزیشن لیڈر کو اعتماد میں لیتے ہوئے نگران وزیراعلیٰ کے نام کا اعلان کردیا گیا تاہم اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اے این پی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان کی گزشتہ دنوں صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ہونے والے ملاقات میں یہ طے پاگیا تھا کہ مرکز میں پیپلزپارٹی جسے بھی نگران وزیراعظم نامزد کرے گی،اے این پی اس کی حمایت کرے گی اور خیبرپختونخوا میں جسے اے این پی نگران وزیراعلی نامزد کرے گی پیپلزپارٹی اس کی حمایت کرے گی ،مذکورہ فارمولے کے تحت خیبرپختونخو ا میں نگران وزیراعلیٰ کی تقرری کردی گئی ہے ۔
عام انتخابات کے لیے شیڈول کا اعلان نہ ہونے کی وجہ سے تاحال سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان بھی نہیں کرپا رہیں اور وہ اس انتظار میں ہیں کہ جونہی آئندہ عام انتخابات کے لیے شیڈول کا اعلان ہو اس کے ساتھ ہی وہ اپنے امیدواروں کا بھی اعلان کردیں یہی وجہ ہے کہ جے یو آئی (ف)، پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ(ن)،اے این پی اور تحریک انصاف میں سے کسی بھی پارٹی کے باقاعدہ امیدوار تاحال سامنے نہیں آئے تاہم ازخود ڈیکلیئرڈ کردہ امیدواروں کی بھرمار ہے جو اپنی انتخابی مہم بھی چلارہے ہیں۔
اصل امیدوار اسی وقت میدان میں اتارے جائیں گے جب عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوگا، سیاسی پارٹیوں نے امیدواروں کے ناموںکا اعلان تو نہیں کیا تاہم ان کے آپس میں مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور یہ سلسلہ چار پارٹیوں کے درمیان ہے جن میں جے یوآئی ،مسلم لیگ(ن) اور جماعت اسلامی کے ساتھ رابطوں میں ہے جبکہ مسلم لیگ(ن)ایک جانب اگر جے یو آئی کے ساتھ مذاکرات کررہی ہے تو ساتھ ہی وہ جماعت اسلامی کے ساتھ بھی مذاکرات شروع کیے ہوئے ہے جبکہ جماعت اسلامی کی صورت حال یہ ہے کہ وہ جے یو آئی کے ساتھ ،ساتھ تحریک انصاف کے ساتھ بھی مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے۔
گو کہ ان ابتدائی مذاکرات میں ان پارٹیوں نے آپس میں معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی ہیں تاہم ان مذاکرات میں ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے اندازہ لگایاجا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معاملہ طے پاجائے گا اور مسلم لیگ(ن)اور جے یو آئی آپس میں ساتھ چلنے پر تیار ہوجائیں گی تاہم نگران وزیراعظم کے نام کے حوالے سے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان کی جانب سے جسٹس(ر)شاکر اللہ جان کا نام جے یو آئی سے مشاورت کے بغیر اپنے طور پر فہرست سے نکالنے کی وجہ سے دونوں پارٹیوں میں جو دراڑ پڑی ہے اس کے اثرات صوبہ کی سطح پر بھی آئیں گے اور اگر یہ دونوں پارٹیاں ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو بھی جاتی ہیں تو اس کے لیے انھیں کافی سے زیادہ لچک کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔
ان سطور میں کہا گیا تھا کہ اگر مرکزی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے جواب دینے میں تاخیر کی تو اس کے نتیجے میں صورت حال خراب بھی ہوسکتی ہے اور ایسی ہی صورت حال بننے جارہی ہے کیونکہ تادم تحریر مرکزی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کوئی سگنل نہیں دیا جس کی وجہ سے ایک جانب جے یو آئی باقاعدہ طور پر مرکز سے مطالبہ کررہی ہے کہ وہ گرین سگنل دے تاکہ معاملات کو آگے بڑھایاجاسکے جبکہ دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل ملتوی کرنے کا اعلان کردیا ہے اور ساتھ ہی عوام کو متنبہ بھی کیا ہے کہ وہ اے این پی، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے جلسوں سے دور رہیں ۔
جسٹس(ر) طارق پرویز کی تقرری کا خیر مقدم تمام جماعتوں نے کیا ہے، تاہم پیپلزپارٹی جو صوبہ میں اے این پی کی اتحادی جماعت ہے اس کی جانب سے اس سلسلے میں اعتراضات سامنے آگئے ہیں ،پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر انور سیف اللہ کا اس بارے میں موقف بڑا واضح ہے کہ انھیں جسٹس(ر) طارق پرویز کے نگران وزیراعلیٰ نامزد کیے جانے پر اعتراض نہیں بلکہ ان کا اعتراض طریقہ کار پر ہے، گویا وہ اپنی اتحادی جماعت سے گلہ کررہے ہیں۔
تاہم ان کا یہ گلہ اس موقع پر اس لیے بھی بے جا ہوجاتا ہے کہ خیبرپختونخوا کی حد تک اے این پی اور پیپلزپارٹی کے ایک دوسرے سے جو اختلافات پیدا ہوچکے ہیں وہ کسی نہ کسی صورت میں تو سامنے آنے ہی تھے اور یہی وجہ ہے کہ جب پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے پارلیمانی لیڈر اور دیگر ارکان نے غیر سرکاری بلوں کی صورت میں ایسے معاملات چھیڑنا چاہے جن کے ذریعے عوام کو تو ریلیف مل سکتا تھا تاہم اے این پی کو کریدٹ نہیں جارہا تھا تو اے این پی کے تمام ارکان کو اسمبلی سے غائب ہی کردیاگیا جس کی وجہ سے اسمبلی کا سیشن نہ صرف ملتوی بلکہ اس دور کے لیے ختم ہی کردیا گیا۔
نگران وزیراعلیٰ کی نامزدگی کے حوالے سے بھی ایسی ہی صورت حال درپیش رہی، چونکہ وزیراعلیٰ ایک مرتبہ پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر انور سیف اللہ کے ساتھ مشاورت کرچکے تھے اس لیے جب نگران وزیراعلیٰ کے حوالے سے نام کی تبدیلی کی گئی تو انہوں نے دوبارہ مشاورت کرنا مناسب نہ سمجھی اور اپوزیشن لیڈر کو اعتماد میں لیتے ہوئے نگران وزیراعلیٰ کے نام کا اعلان کردیا گیا تاہم اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اے این پی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان کی گزشتہ دنوں صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ہونے والے ملاقات میں یہ طے پاگیا تھا کہ مرکز میں پیپلزپارٹی جسے بھی نگران وزیراعظم نامزد کرے گی،اے این پی اس کی حمایت کرے گی اور خیبرپختونخوا میں جسے اے این پی نگران وزیراعلی نامزد کرے گی پیپلزپارٹی اس کی حمایت کرے گی ،مذکورہ فارمولے کے تحت خیبرپختونخو ا میں نگران وزیراعلیٰ کی تقرری کردی گئی ہے ۔
عام انتخابات کے لیے شیڈول کا اعلان نہ ہونے کی وجہ سے تاحال سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان بھی نہیں کرپا رہیں اور وہ اس انتظار میں ہیں کہ جونہی آئندہ عام انتخابات کے لیے شیڈول کا اعلان ہو اس کے ساتھ ہی وہ اپنے امیدواروں کا بھی اعلان کردیں یہی وجہ ہے کہ جے یو آئی (ف)، پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ(ن)،اے این پی اور تحریک انصاف میں سے کسی بھی پارٹی کے باقاعدہ امیدوار تاحال سامنے نہیں آئے تاہم ازخود ڈیکلیئرڈ کردہ امیدواروں کی بھرمار ہے جو اپنی انتخابی مہم بھی چلارہے ہیں۔
اصل امیدوار اسی وقت میدان میں اتارے جائیں گے جب عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوگا، سیاسی پارٹیوں نے امیدواروں کے ناموںکا اعلان تو نہیں کیا تاہم ان کے آپس میں مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور یہ سلسلہ چار پارٹیوں کے درمیان ہے جن میں جے یوآئی ،مسلم لیگ(ن) اور جماعت اسلامی کے ساتھ رابطوں میں ہے جبکہ مسلم لیگ(ن)ایک جانب اگر جے یو آئی کے ساتھ مذاکرات کررہی ہے تو ساتھ ہی وہ جماعت اسلامی کے ساتھ بھی مذاکرات شروع کیے ہوئے ہے جبکہ جماعت اسلامی کی صورت حال یہ ہے کہ وہ جے یو آئی کے ساتھ ،ساتھ تحریک انصاف کے ساتھ بھی مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے۔
گو کہ ان ابتدائی مذاکرات میں ان پارٹیوں نے آپس میں معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی ہیں تاہم ان مذاکرات میں ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے اندازہ لگایاجا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معاملہ طے پاجائے گا اور مسلم لیگ(ن)اور جے یو آئی آپس میں ساتھ چلنے پر تیار ہوجائیں گی تاہم نگران وزیراعظم کے نام کے حوالے سے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان کی جانب سے جسٹس(ر)شاکر اللہ جان کا نام جے یو آئی سے مشاورت کے بغیر اپنے طور پر فہرست سے نکالنے کی وجہ سے دونوں پارٹیوں میں جو دراڑ پڑی ہے اس کے اثرات صوبہ کی سطح پر بھی آئیں گے اور اگر یہ دونوں پارٹیاں ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو بھی جاتی ہیں تو اس کے لیے انھیں کافی سے زیادہ لچک کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔
ان سطور میں کہا گیا تھا کہ اگر مرکزی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے جواب دینے میں تاخیر کی تو اس کے نتیجے میں صورت حال خراب بھی ہوسکتی ہے اور ایسی ہی صورت حال بننے جارہی ہے کیونکہ تادم تحریر مرکزی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کوئی سگنل نہیں دیا جس کی وجہ سے ایک جانب جے یو آئی باقاعدہ طور پر مرکز سے مطالبہ کررہی ہے کہ وہ گرین سگنل دے تاکہ معاملات کو آگے بڑھایاجاسکے جبکہ دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل ملتوی کرنے کا اعلان کردیا ہے اور ساتھ ہی عوام کو متنبہ بھی کیا ہے کہ وہ اے این پی، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے جلسوں سے دور رہیں ۔