اتحادی جماعتیں اپوزیشن لیڈر پر متفق نہ ہوسکیں
سیاسی حلقوں کے مطابق اس وقت بلوچستان میں ایک مرتبہ پھر نگران سیٹ اپ کے حوالے سے آئینی بحران ہے۔
لاہور:
صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل میں بلوچستان بازی لے گیا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کی ایڈوائس پر ایک دن قبل ہی گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے بلوچستان اسمبلی کو تحلیل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا تاہم بلوچستان میں صورتحال بحرانی کیفیت کا شکار رہی ، اتحادی جماعتیں اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر متفق نہ ہوسکیں اور اس حوالے سے کل تک حکومتی بنچوں پر بیٹھی تمام اتحادی جماعتیں ایک ایک کرکے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کیلئے پر تولتی رہیں جبکہ ماضی کی طرح مسلم لیگ (ق) اس معاملے پر بھی تقسیم ہوگئی، بلوچستان میں قائد ایوان کے مقابلے میں اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر زیادہ زور دیا گیا۔
اس سے پہلے نواب اسلم رئیسانی کی حکومت کی بحالی پر بھی بلوچستان میں ایک آئینی بحران تھا اور یہ توقع کی جارہی تھی کہ گورنر راج میں مزید توسیع کردی جائے گی کیونکہ نواب اسلم رئیسانی نے وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دینے سے انکار کردیا تھا تاہم بعض دوستوں کی کوششوں سے بالآخر وہ اپنی اتحادی جماعتوں کے ہمراہ صدر پاکستان آصف علی زرداری سے ملاقات کے لئے ایوان صدر پہنچ گئے جس کے بعد اس حوالے سے جو ڈیڈ لاک پیدا ہوا تھا وہ ختم ہوگیا اور اس ملاقات میں تمام گلے شکوے دور کرلئے گئے اور ان کے مطالبے پر چیف سیکرٹری بلوچستان کو رخصت پر بھیج کر ''نم'' کے ڈائریکٹر جنرل محفوظ علی خان کو چیف سیکرٹری بلوچستان کا اضافی چارج دے دیا گیا، بلوچستان حکومت کی بحالی کے بعد جو سب سے اہم مسئلہ اتحادی جماعتوں کو درپیش رہا وہ اپوزیشن لیڈر کا انتخاب تھا۔
اس سے پہلے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے چار ارکان کی حمایت سے نوابزادہ طارق مگسی جو گورنر بلوچستان کے بھائی بھی ہیں کو اپوزیشن لیڈر نامزد کیا گیا تھا اور ان کا باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا تھا لیکن موجودہ اسپیکر مطیع اﷲ آغانے اس نوٹیفکیشن کو منسوخ کردیا تھا جس پر طارق مگسی نے بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور طارق مگسی کو بلوچستان ہائی کورٹ نے دوبارہ اس عہدے پر بحال کردیا۔
نواب اسلم رئیسانی کی اتحادی جماعتوں میں اختلاف اس وقت سامنے آیا جب یہ بات نکلی کہ نگران وزیراعلیٰ کیلئے بی این پی عوامی کے پارلیمانی لیڈر سید احسان شاہ اور اپوزیشن لیڈر کیلئے جمعیت علماء اسلام کے مولانا عبدالواسع کا نام لیا جارہا ہے تو بلوچستان حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں میں پھوٹ پڑ گئی، سب سے پہلے مسلم لیگ (ن) نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے اپنے چھ وزراء کے استعفے گورنر کو بھیج دیئے اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد مسلم لیگ(ق) ،پیپلز پارٹی اور آزاد ارکان نے نوابزادہ طارق مگسی کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے وزارتوں سے استعفے دے دیئے اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کرلیا جن کی تعداد18 تھی۔
اسی دوران جمعیت علماء اسلام ،بی این پی عوامی ، اے این پی، بعض مسلم لیگ(ق)، پی پی اور آزاد ارکان نے بھی اپنی وزارتوں سے استعفے وزیراعلیٰ کو پیش کردیئے، جنہوں نے یہ استعفے اسپیکر کے ذریعے گورنر کو بھیج دیئے اور17 مارچ کی رات اسپیکر بلوچستان اسمبلی سید مطیع اﷲ آغا نے ان20 ارکان کو اپوزیشن کی نشستیں الاٹ کرکے مولانا واسع کو اپوزیشن لیڈر نامزد کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔18 مارچ کی صبح نوابزادہ طارق مگسی اپنے 25 حمایتیوں کے نام کی فہرست لے کر اسپیکر بلوچستان اسمبلی کے پاس جا پہنچے اور انہیں اپوزیشن نشستیں الاٹ کرنے کی درخواست دے دی۔
ساتھ ہی اُنہوں نے مولانا عبدالواسع کے بطور اپوزیشن لیڈر نوٹیفکیشن کو بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا، بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم دو رکنی بنچ نے ان کی درخواست پر اس نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نوابزادہ طارق مگسی کو اپوزیشن لیڈر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ صورتحال کو دیکھتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان نے آئین کے آرٹیکل112(1) کے تحت بلوچستان اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس گورنر کو ارسال کی جنہوں نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر بلوچستان اسمبلی کو ایک دن پہلے تحلیل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔
سیاسی حلقوں کے مطابق اس وقت بلوچستان میں ایک مرتبہ پھر نگران سیٹ اپ کے حوالے سے آئینی بحران ہے اور اب تک یہ چیز طے نہیں ہو پارہی کہ اصل اپوزیشن لیڈر کون ہے؟ تاہم اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان اپنے عہدے پر برقرار ہیں اور آئین کے مطابق وہ اسمبلی کی تحلیل کے تین دن کے اندر نگران سیٹ اپ کے لئے اپنی مشاورت مکمل کرنے کے پابند ہیں ، اگر وہ ان تین دنوں میں مشاورت کرکے نگران سیٹ اپ کیلئے نام نہ دے پائے تویہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا جائے گااور پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا معاملہ اسپیکر کے ہاتھ میں ہوگا جو اپوزیشن اور حکومتی بنچوں سے تین، تین ارکان پر مشتمل کمیٹی بنائیں گے۔
اگر پارلیمانی کمیٹی بھی تین دن میں کسی نام پر اتفاق نہ کرپائی تو یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان کو اس آئینی بحران سے نکالنے کا معاملہ اب بلوچستان کی اتحادی جماعتوں اور وزیراعلیٰ کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کیسی حکمت عملی اس حوالے سے مرتب کرتے ہیں، اگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے تو پھر معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا اور وہ جو بھی فیصلہ کرے گا وہ سب کو قبول کرنا ہوگا، اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں کسی غیر جانبدار نگران سیٹ اپ کیلئے افہام و تفہیم سے معاملات کو طے کرلیں تو یہ ان کیلئے سود مند ہوگا۔
ان سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان کے اندر قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈر سمیت جو بھی آئینی بحران آئے ہیں وہ انتہائی مضحکہ خیز رہے۔ ایک وقت تھا صرف اپوزیشن میں تین ارکان تھے اور اب صورتحال یہ ہے کہ حکومتی بنچوں پر صرف دو تین لوگ ہی وزیراعلیٰ کے ہمراہ رہ گئے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے سابق اسپیکر اسلم بھوتانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران پریس کانفرنس میں ازراہ مذاق کہا تھا کہ اگر تمام ارکان بھی اپوزیشن میں چلے جائیں تو پھر بھی چیف منسٹر میں ہی رہوں گا اور آج عملاً یہ بات ثابت ہوچکی ہے۔
صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل میں بلوچستان بازی لے گیا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کی ایڈوائس پر ایک دن قبل ہی گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے بلوچستان اسمبلی کو تحلیل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا تاہم بلوچستان میں صورتحال بحرانی کیفیت کا شکار رہی ، اتحادی جماعتیں اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر متفق نہ ہوسکیں اور اس حوالے سے کل تک حکومتی بنچوں پر بیٹھی تمام اتحادی جماعتیں ایک ایک کرکے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کیلئے پر تولتی رہیں جبکہ ماضی کی طرح مسلم لیگ (ق) اس معاملے پر بھی تقسیم ہوگئی، بلوچستان میں قائد ایوان کے مقابلے میں اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر زیادہ زور دیا گیا۔
اس سے پہلے نواب اسلم رئیسانی کی حکومت کی بحالی پر بھی بلوچستان میں ایک آئینی بحران تھا اور یہ توقع کی جارہی تھی کہ گورنر راج میں مزید توسیع کردی جائے گی کیونکہ نواب اسلم رئیسانی نے وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دینے سے انکار کردیا تھا تاہم بعض دوستوں کی کوششوں سے بالآخر وہ اپنی اتحادی جماعتوں کے ہمراہ صدر پاکستان آصف علی زرداری سے ملاقات کے لئے ایوان صدر پہنچ گئے جس کے بعد اس حوالے سے جو ڈیڈ لاک پیدا ہوا تھا وہ ختم ہوگیا اور اس ملاقات میں تمام گلے شکوے دور کرلئے گئے اور ان کے مطالبے پر چیف سیکرٹری بلوچستان کو رخصت پر بھیج کر ''نم'' کے ڈائریکٹر جنرل محفوظ علی خان کو چیف سیکرٹری بلوچستان کا اضافی چارج دے دیا گیا، بلوچستان حکومت کی بحالی کے بعد جو سب سے اہم مسئلہ اتحادی جماعتوں کو درپیش رہا وہ اپوزیشن لیڈر کا انتخاب تھا۔
اس سے پہلے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے چار ارکان کی حمایت سے نوابزادہ طارق مگسی جو گورنر بلوچستان کے بھائی بھی ہیں کو اپوزیشن لیڈر نامزد کیا گیا تھا اور ان کا باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا تھا لیکن موجودہ اسپیکر مطیع اﷲ آغانے اس نوٹیفکیشن کو منسوخ کردیا تھا جس پر طارق مگسی نے بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور طارق مگسی کو بلوچستان ہائی کورٹ نے دوبارہ اس عہدے پر بحال کردیا۔
نواب اسلم رئیسانی کی اتحادی جماعتوں میں اختلاف اس وقت سامنے آیا جب یہ بات نکلی کہ نگران وزیراعلیٰ کیلئے بی این پی عوامی کے پارلیمانی لیڈر سید احسان شاہ اور اپوزیشن لیڈر کیلئے جمعیت علماء اسلام کے مولانا عبدالواسع کا نام لیا جارہا ہے تو بلوچستان حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں میں پھوٹ پڑ گئی، سب سے پہلے مسلم لیگ (ن) نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے اپنے چھ وزراء کے استعفے گورنر کو بھیج دیئے اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد مسلم لیگ(ق) ،پیپلز پارٹی اور آزاد ارکان نے نوابزادہ طارق مگسی کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے وزارتوں سے استعفے دے دیئے اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کرلیا جن کی تعداد18 تھی۔
اسی دوران جمعیت علماء اسلام ،بی این پی عوامی ، اے این پی، بعض مسلم لیگ(ق)، پی پی اور آزاد ارکان نے بھی اپنی وزارتوں سے استعفے وزیراعلیٰ کو پیش کردیئے، جنہوں نے یہ استعفے اسپیکر کے ذریعے گورنر کو بھیج دیئے اور17 مارچ کی رات اسپیکر بلوچستان اسمبلی سید مطیع اﷲ آغا نے ان20 ارکان کو اپوزیشن کی نشستیں الاٹ کرکے مولانا واسع کو اپوزیشن لیڈر نامزد کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔18 مارچ کی صبح نوابزادہ طارق مگسی اپنے 25 حمایتیوں کے نام کی فہرست لے کر اسپیکر بلوچستان اسمبلی کے پاس جا پہنچے اور انہیں اپوزیشن نشستیں الاٹ کرنے کی درخواست دے دی۔
ساتھ ہی اُنہوں نے مولانا عبدالواسع کے بطور اپوزیشن لیڈر نوٹیفکیشن کو بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا، بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم دو رکنی بنچ نے ان کی درخواست پر اس نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نوابزادہ طارق مگسی کو اپوزیشن لیڈر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ صورتحال کو دیکھتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان نے آئین کے آرٹیکل112(1) کے تحت بلوچستان اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس گورنر کو ارسال کی جنہوں نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر بلوچستان اسمبلی کو ایک دن پہلے تحلیل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔
سیاسی حلقوں کے مطابق اس وقت بلوچستان میں ایک مرتبہ پھر نگران سیٹ اپ کے حوالے سے آئینی بحران ہے اور اب تک یہ چیز طے نہیں ہو پارہی کہ اصل اپوزیشن لیڈر کون ہے؟ تاہم اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان اپنے عہدے پر برقرار ہیں اور آئین کے مطابق وہ اسمبلی کی تحلیل کے تین دن کے اندر نگران سیٹ اپ کے لئے اپنی مشاورت مکمل کرنے کے پابند ہیں ، اگر وہ ان تین دنوں میں مشاورت کرکے نگران سیٹ اپ کیلئے نام نہ دے پائے تویہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا جائے گااور پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا معاملہ اسپیکر کے ہاتھ میں ہوگا جو اپوزیشن اور حکومتی بنچوں سے تین، تین ارکان پر مشتمل کمیٹی بنائیں گے۔
اگر پارلیمانی کمیٹی بھی تین دن میں کسی نام پر اتفاق نہ کرپائی تو یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان کو اس آئینی بحران سے نکالنے کا معاملہ اب بلوچستان کی اتحادی جماعتوں اور وزیراعلیٰ کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کیسی حکمت عملی اس حوالے سے مرتب کرتے ہیں، اگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے تو پھر معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا اور وہ جو بھی فیصلہ کرے گا وہ سب کو قبول کرنا ہوگا، اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں کسی غیر جانبدار نگران سیٹ اپ کیلئے افہام و تفہیم سے معاملات کو طے کرلیں تو یہ ان کیلئے سود مند ہوگا۔
ان سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان کے اندر قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈر سمیت جو بھی آئینی بحران آئے ہیں وہ انتہائی مضحکہ خیز رہے۔ ایک وقت تھا صرف اپوزیشن میں تین ارکان تھے اور اب صورتحال یہ ہے کہ حکومتی بنچوں پر صرف دو تین لوگ ہی وزیراعلیٰ کے ہمراہ رہ گئے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے سابق اسپیکر اسلم بھوتانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران پریس کانفرنس میں ازراہ مذاق کہا تھا کہ اگر تمام ارکان بھی اپوزیشن میں چلے جائیں تو پھر بھی چیف منسٹر میں ہی رہوں گا اور آج عملاً یہ بات ثابت ہوچکی ہے۔