قانون شکنی کا راستہ روکا جائے

کراچی میں گینگ وار کرمنلز کو سزا دینے میں در حقیقت سانحہ سیالکوٹ دوہرایا گیا۔


March 19, 2013
دہشت گردی کے باعث مکینوں اور پاکستان کے کونے کونے سے یہاں آکر رچ بس جانے والوں کی دلی اور ذہنی کیفیت ناگفتہ بہ ہے۔ فوٹو:فائل

لاہور: کراچی نے لاقانونیت ،انارکی، دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا ریکارڈ توڑدیا ، ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔منگل کو شہر کے معروف عباسی شہید اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر اسد عثمان کو دہشت گردوں نے سیکیورٹی گارڈ سمیت ہلاک کردیا گیا ، گزشتہ روز ایک مقامی کالج کے پرنسپل معروف سوز خواں اور شاعر پروفیسر سبط جعفر اور فوجی اہلکار سمیت 9 افراد جاں بحق ہوگئے۔

اسی طرح ہفتہ اور اتوار کی شب لیاری ٹائون میں بربریت اور وحشیانہ قتل وغارت کا دردناک کھیل پولیس اور رینجرز کے قرب وجوار میں الرٹ رہنے کے باوجود کھیلا گیا ، میڈیا کی متضاد رپورٹوں نے صورتحال کو مزید الجھادیا ہے ۔ کسی کو پتا نہیں چلا کہ ان ملزمان کو گینگ وار کارندے ڈیفنس سے اٹھا کر لائے،انھیں حب کے علاقے سے دعوت دے کر لیاری بلایا گیا یا انھیں جان آباد میں ارشد پپو کی رہائش گاہ سے حراست میں لے کر رات گئے قتل کرکے لاشوں کے ٹکڑے جلا دیے جانے کے بعد راکھ اور ہڈیاں گٹر میں بہادی گئیں۔

ملک میں مافیائی گروپوں میں انتقام کی داستانیں انوکھی نہیں ہیں، کرمنل عناصر معاشرے کا ناسور بنے ہوئے ہیں ، وہ جس دیدہ دلیری سے ملکی سالمیت،ریاستی رٹ اور حکومتی سیٹ اپ کو چیلنج اور کمزور کرنے کی ہولناک وارداتوں میں ملوث ہیں وہ ہر محب وطن پاکستانی کے لیے وجہ تشویش اور لمحہ فکریہ بنا ہوا ہے ، اب تو کراچی کو آفت زدہ شہر قرار دینے سے گریز کا اب انتظامیہ کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں رہا۔ حد ہوچکی ہے ۔ ہزاروں بیگناہ شہری دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کی گولیوں کا روز نشانہ بنتے ہیں ، اس جرم بے گناہی پر ہلاکتوں کے خلاف عوام فریادکس سے کریں ۔جس شہر قائد کا امن مثالی ہواکرتا تھا اسے کس کی نظر بد کھا گئی، یہ کس قسم کا معاشرہ ہے جس میں قانون شکن عناصر کو نکیل ڈالنے والا کوئی نہیں۔

کراچی میں گینگ وار کرمنلز کو سزا دینے میں در حقیقت سانحہ سیالکوٹ دوہرایا گیا۔ خداراسیاسی کارکنوں، بے لوث سماجی رہنمائوں ، علما ئے کرام، ڈاکٹر، اور اساتذہ کے خون بہانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ دہشت گردی کے باعث مکینوں اور پاکستان کے کونے کونے سے یہاں آکر رچ بس جانے والوں کی دلی اور ذہنی کیفیت ناگفتہ بہ ہے۔ وہ حقیقت میں ذہنی اور نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ دہشت گردوں اور بھتہ خوروں کی طاقت، رعونت، بربریت اور قتل و غارت کے جنون کے سامنے قانون نافذ کرنے والے ادارے جس افسوس ناک طریقے سے سرنڈر کرتے دکھائی دے رہے ہیں اس نے قانون کی حکمرانی کو مذاق اور شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کے بنیادی مسئلہ کو گھمبیر شکل دے دی ہے۔

نوشتہ دیوار ہے کہ دہشت گردی نے ملکی معیشت کے لیے خطرات میں اضافہ کیا ہے ،کراچی میں سرمایہ کاری کی فضا مکدر ہوچکی ہے،تاجر خوفزدہ ہوکر شہر چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ شہری پریشان ہیں کہ قاتل دندناتے ہوئے شہریوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور بھرے بازاروں اور مصروف ترین تجارتی علاقوں میں واردات کے بعد راہ فرار اختیار کرتے ہیں جب کہ قتل وغارت کی ساری خبروں کا آغاز ''نامعلوم مسلح افراد'' سے ہوتا ہے ۔

حالیہ واقعہ میں بدنام زمانہ گینگ وار کے مرکزی ملزم ارشد پپو،ان کے بڑے بھائی یاسر عرفات ،ساتھی جمعہ پٹھان عرف شیرا اور دو رشتے داروں کو بہیمانہ طور پرماراگیا حالانکہ کوئی فرد اس کا اختیار نہیں رکھتاکہ وہ خود قانون کو ہاتھ میں لے، اپنے مخالفیں کے سر کاٹے، جسم میں ہر کس و ناکس کو دعوت دی جائے کہ آکر خنجر گھونپے،جسموں کے ٹکڑے کردے،سر تن سے جدا کرکے اس سے گلیوں میں فٹ بال کھیلی جائے، یہی کچھ لیاری میںٕ ہوا۔اس کا کوئی جواز نہ تھا۔تھانے اورعدالتیں کس لیے قائم ہیں۔

اہل وطن ان واقعات پر سخت رنجیدہ ہیں، ہر مجرم کو سزا عدالت سے ملنی چاہیے،ورنہ انارکی ہمیں لے ڈوبے گی۔ کراچی بیروت بن جائے گا۔ پاکستانی معاشرہ کی قرون وسطیٰ یاعہد جاہلیت کے وحشیانہ جزا وسزا کے عہد میں ابھی واپسی نہیں ہوئی ہے ۔اس لیے پولیس اور رینجرز مذکورہ واقعات میں ملوث عناصرکی گرفتاری اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ روکنے کے لیے اپنا آہنی ہاتھ استعمال کریں ورنہ بہت دیر ہوجائیگی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں