واحد حل پرابلمز کی جڑ تک جائیں
اس کا نام ہے پاکستان مقروض پارٹی عرف پی ایم پی، کیوں کہ اس کا ہر ممبر پیدا ہونے سے بھی پہلے مقروض بن چکا ہوتا ہے.
توکل علی اللہ، جب چاروں طرف سے تمام پارٹیاں اپنا اپنا منشور لانچ کر رہی ہیں تو ہم بھی کیوں نہ اپنی لارجسٹ لارجسٹ اینڈ لارجسٹ پارٹی کا منشور درمیان میں اتار دیں۔ سب سے پہلے تو ہم اپنی لارجسٹ لارجسٹ اینڈ لارجسٹ پارٹی کے بارے میں آپ کو بتا دیں کہ یہ صرف نام کی لارجسٹ پارٹی نہیں ہے بلکہ دو سو ٹکے فی صد سچی لارجسٹ لارجسٹ اینڈ لارجسٹ پارٹی ہے کیوں کہ پورے ملک میں اس کی ممبر شپ ساری پارٹیوں سے زیادہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ خود ممبروں کو بھی پتہ نہیں کہ وہ اس کے ممبر ہیں، آپ سب کچھ سمجھ جائیں گے جب ہم اس کا نام نامی اور اسم گرامی آپ کو بتائیں گے۔
اس کا نام ہے پاکستان مقروض پارٹی عرف پی ایم پی، کیوں کہ اس کا ہر ممبر پیدا ہونے سے بھی پہلے مقروض بن چکا ہوتا ہے، جس طرح چوزے کو اس کی پیدائش سے بھی پہلے کھایا جا سکتا ہے، اس طرح مقروض پارٹی کے اراکین کو پیدا ہونے سے بھی پہلے ہی مقروض کیا جاتا ہے۔ پیدا ہونے کے بعد یہ لوگ ان چیزوں کی قسطیں بھی ادا کرتے ہیں جو کبھی انھوں نے دیکھی ہی نہیں ہوتیں، ویسے بدخواہ تو اسے برے برے ناموں سے پکارتے ہیں مثلاً خدا ماروں کی پارٹی، کالانعام پارٹی یا ووٹ کا انڈا دینے والی مرغی پارٹی لیکن اس کا جدی پشتی اور خاندانی نام مقروض پارٹی ہے اور عرفیت لارجسٹ لارجسٹ اینڈ لارجسٹ پارٹی ہے، اس کی ممبر شپ پیدائشی ہوتی ہے البتہ کسی اور پارٹی کی دم سے لٹک کر اس سے نکلنا آسان ہے، پارٹی کی ایک معروف لیڈرہ اقبال بانو نے فرمایا ہے کہ
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
چنانچہ کچھ پیدا تو اس میں ہوتے ہیں لیکن اپنی ''صلاحیتوں'' کی برکت سے کسی امیر پارٹی، وزیر پارٹی یا کبیر پارٹی میں خود کو ٹرانسفر کر لیتے ہیں۔ خیر چھوڑیئے پارٹی کا تعارف آپ اپنے گریباں میں جھانکیے، خود ہی سب کچھ جان جائیں گے، مسئلہ بلکہ گھمبیر مسئلہ اس وقت ہمارے سامنے منشور کا ہے۔ ویسے تو ہمارا مستقل منشور صدیوں سے ایک ہی چلا آرہا تھا یعنی روٹی کپڑا اور مکان ۔۔۔ لیکن ایک اور پارٹی نے ہمارا بازو مروڑکر زبردستی چھین لیا ہے چنانچہ ہماری پارٹی کے آئینی ماہرین نئے منشور کے لیے بیٹھ گئے، کافی سوچ بچار اور غور و خوض کے بعد بفصل خدا منشور برآمد ہو گیا جو ایک ہی انڈے پر مشتمل ہے لیکن وہ انڈا پیش کرنے سے پہلے یہ وضاحت کر دیں کہ ہماری پارٹی دوسری پارٹی سے کسی طورسے کم نہیں ہے۔
کہاوت بھی یہ ہے کہ گدھا گدھے سے کم ہو تو اس کے کان کاٹنے چاہئیں، تربور اپنے تربور سے کم ہو تو اس کی کھوپڑی تراش لینی چاہیے اور پارٹی، پارٹی سے کم ہو تو اس کا منشور کاٹنا چاہیے، ایسا ہی کچھ ہم نے بھی کیا ہے کیوں کہ حالیہ دنوں میں ''خاتمے'' کا فیشن زوروں پر ہے، پی پی پی غربت کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے، عمران خان کرپشن کو ختم کرنا چاہتا ہے، جماعت اسلامی کفر کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے، جے یو آئی تحفظات ختم کرنا چاہتی ہے، اے این پی دہشت گردی ختم کرنا چاہتی ہے اور مسلم لیگ خود مسلم لیگ ہی کو ختم کرنا چاہتی ہے، مطلب یہ کہ ہر پارٹی میں کسی نہ کسی چیز کے خاتمے کا اعلان ہو رہا ہے اور چوں کہ یہ سب کے سب علاج بالمثل یعنی ہو میو پیتھک طریقہ علاج کی حامی ہیں، اس لیے جن چیزوں کا خاتمہ کرنا مقصود ہوتا ہے، اسے اور زیادہ بڑھا کر خاتمہ چاہتی ہیں۔
مطلب یہ کہ عوام کی قوت مدافعت اور قوت برداشت کو بڑھا کر علاج بالمثل کرنا چاہتی ہیں لیکن ہم ہو میو پیتھک کے بجائے ایلوپتھک یعنی علاج بالضد کے قائل ہیں۔ اس لیے ایک ایسے مرض کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں جو ان تمام پیچیدہ پوشیدہ اور گزیدہ امراض کی دادی جان ہے، کیوں کہ پڑوسی ملک کی دانشورہ عالم شلپا شیٹی نے بالوں کے امراض کا اپائے بتاتے ہوئے فرمایا ہے کہ پرابلم کی جڑ تک جائیں اور ایسا کہتے ہوئے اور بالوں کے تمام امراض گناتے ہوئے اس نے اپنی کھوپڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو قول زرین ارشاد فرمایا ہے وہی ہمارا ایک نکاتی منشور ہے، یعنی سو پرابلم ایک ہی سولوشن ۔۔۔ پرابلم کی جڑ تک جائیں اور فلاں شیمپو استعمال کریں، ظاہر ہے کہ بالوں کے سارے پرابلموں کی جڑ کھوپڑی ہی ہوتی ہے۔
سو ہم نے بھی اپنی پارٹی کے منشور میں پرابلم کی جڑ تک جانا مناسب جانا اور پورے مینی فیسٹو کو صرف ایک دفعے میں مرتکز کیا، خاتموں کا خاتمہ، ممکن ہے، آپ گھبرا جائیں گے کہ اتنے پرابلموں کو کیسے ختم کیا جائے گا۔ تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے، صرف اتنا کریں کہ پرابلم کی جڑ تک جائیں اور پرابلم کی جڑ یا جڑیں کس کو معلوم نہیں ہیں، آپ پھر گھبرانے لگے، یہ اتنا بڑا کام بھی نہیں ہے، ہمیں ایسے بہت سارے اجرتی قاتل معلوم ہیں جو نہایت رعایتی داموں پر بڑی سے بڑی ''پرابلم'' کو صرف ایک گولی سے ''سالوو'' کر سکتے ہیں۔ اتنی صفائی سے کہ ادھر گولی پرابلم کی جڑ یعنی کھوپڑی میں پہنچی اور پرابلم سالوو ۔۔۔ پرابلموں کی جڑ کو ختم کرنے والے ان ''اطبا'' کے نمایندے سے ہماری بات ہوئی ہے۔
وہ دس کے اوپر ایک پرابلم مفت میں یعنی ڈسکاؤنٹ کے طور پر سالوو کرنے کو تیار ہیں لیکن ہمارا خیال ہے کہ اتنا بڑا کام دینے پر وہ کچھ مزید رعایت بھی دے دیں گے، اس طرح کل ملا کر ڈسکاؤنٹ اور رعایتی داموں کو شامل کر کے کل خرچہ نہایت ہی کم آئے گا، یعنی صرف ایک روپیہ فی کھوپڑی سمجھ لیجیے، آپ غلط سمجھ رہے ہیں، ایک ''جڑ'' کی اجرت ایک روپے نہیں ہے بل ہماری پارٹی کے اراکین کو صرف ایک ایک روپیہ چندہ دینا پڑے گا۔ غریب غرباء اور بوڑھوں بچوں کو مہنا کر کے صافی چندہ لگ بھگ دس کروڑ تو اکٹھا ہو ہی جائے گا۔
ایک پرابلم یا کھوپڑی کے اگر ایک لاکھ روپے بھی لگائیں تو ایک ہزار پرابلم تو یوں سمجھ لیجیے کہ ''سالوو'' ہو گئے، اول تو اس ایک ہزاری علاج سے ممکن ہے کہ دوسری پرابلمز یا جڑیں بھی مرجھا جائیں لیکن اگر کچھ ڈھیٹ جڑیں اور پرابلمز پھر بھی ''سالوو'' نہیں ہوئیں تو کوئی بات نہیں ایک نیک نام کے لیے دوبارہ سہ بارہ چندہ ڈالنا کیا مشکل ہے۔ یہ ایک روپیہ تو بچے بھی دے سکتے ہیں، بہرحال چونکہ فیشن آج کل ''خاتمے'' کا چل رہا ہے تو مقروض پارٹی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے گی اور اپنے منشور کی اکلوتی دفعہ پر عمل درآمد کر کے ''پرابلم'' کی جڑ تک جائے گی اور جن جن کھوپڑیوں میں پرابلمز پیدا ہوتی ہیں، ان کو مخصوص اطباء کو ریفر کر کے علاج بالضد کرائے گی۔ بولو ۔۔۔ مقروض پارٹی زندہ باد ۔۔۔ پرابلمز کی جڑوں کا ۔۔۔ خاتمہ کر دو
مگس کو باغ میں اب ''جانے'' بھی دو
کہ ''برحق'' خون پروانے کا ہووے
آڑوؤں یا شفتالو کے پھلوں کو ایک قسم کی بیماری لگتی ہے کہ عین پکنے کے قریب ان میں کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں۔ عام طور پر اس مرض کا علاج بروقت اسپرے کر کے کیا جاتا ہے لیکن وہ بڑا مہنگا پڑتا ہے اور مقروض تو آپ کو پتہ ہے کہ اکثر دیر کر کے جاگتا ہے چنانچہ بعد میں کوئی اسپرے بھی موثر نہیں رہتا اور آڑووں میں کیڑے پڑ ہی جاتے ہیں، چنانچہ ایک اور آسان طریقہ علاج یہ بھی ہے کہ باغ میں جگہ کچھ خاص قسم کے برتن لٹکا دیے جاتے ہیں۔
ان میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ آڑو کو کیڑے لگانے والی مکھیوں کا ''نر'' ان میں پھنس جاتا ہے اور جب نر ہی نہ رہے تو کیڑے پیدا کہاں سے ہوں گے؟ پاکستان نامی اس آڑو پر بھی اسپرے کرنے کا وقت گزر چکا ہے اور پورے باغ پر اسپرے کرنا کسان یعنی مقروض پارٹی کے بس کا کام بھی نہیں ہے، اس لیے وہی علاج بہتر رہے گا کہ کیڑے پیدا کرنے والے نر مکھیوں کا ہی خاتمہ کر دیا جائے تاکہ نہ رہے نر اور نہ پڑیں کیڑے ۔۔۔ اس طرح مقروض پارٹی بھی دوسری پارٹیوں کی طرح ''خاتمے'' کی دوڑ میں شامل ہو جائے گی اور جیت بھی جائے گی۔
اس کا نام ہے پاکستان مقروض پارٹی عرف پی ایم پی، کیوں کہ اس کا ہر ممبر پیدا ہونے سے بھی پہلے مقروض بن چکا ہوتا ہے، جس طرح چوزے کو اس کی پیدائش سے بھی پہلے کھایا جا سکتا ہے، اس طرح مقروض پارٹی کے اراکین کو پیدا ہونے سے بھی پہلے ہی مقروض کیا جاتا ہے۔ پیدا ہونے کے بعد یہ لوگ ان چیزوں کی قسطیں بھی ادا کرتے ہیں جو کبھی انھوں نے دیکھی ہی نہیں ہوتیں، ویسے بدخواہ تو اسے برے برے ناموں سے پکارتے ہیں مثلاً خدا ماروں کی پارٹی، کالانعام پارٹی یا ووٹ کا انڈا دینے والی مرغی پارٹی لیکن اس کا جدی پشتی اور خاندانی نام مقروض پارٹی ہے اور عرفیت لارجسٹ لارجسٹ اینڈ لارجسٹ پارٹی ہے، اس کی ممبر شپ پیدائشی ہوتی ہے البتہ کسی اور پارٹی کی دم سے لٹک کر اس سے نکلنا آسان ہے، پارٹی کی ایک معروف لیڈرہ اقبال بانو نے فرمایا ہے کہ
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
چنانچہ کچھ پیدا تو اس میں ہوتے ہیں لیکن اپنی ''صلاحیتوں'' کی برکت سے کسی امیر پارٹی، وزیر پارٹی یا کبیر پارٹی میں خود کو ٹرانسفر کر لیتے ہیں۔ خیر چھوڑیئے پارٹی کا تعارف آپ اپنے گریباں میں جھانکیے، خود ہی سب کچھ جان جائیں گے، مسئلہ بلکہ گھمبیر مسئلہ اس وقت ہمارے سامنے منشور کا ہے۔ ویسے تو ہمارا مستقل منشور صدیوں سے ایک ہی چلا آرہا تھا یعنی روٹی کپڑا اور مکان ۔۔۔ لیکن ایک اور پارٹی نے ہمارا بازو مروڑکر زبردستی چھین لیا ہے چنانچہ ہماری پارٹی کے آئینی ماہرین نئے منشور کے لیے بیٹھ گئے، کافی سوچ بچار اور غور و خوض کے بعد بفصل خدا منشور برآمد ہو گیا جو ایک ہی انڈے پر مشتمل ہے لیکن وہ انڈا پیش کرنے سے پہلے یہ وضاحت کر دیں کہ ہماری پارٹی دوسری پارٹی سے کسی طورسے کم نہیں ہے۔
کہاوت بھی یہ ہے کہ گدھا گدھے سے کم ہو تو اس کے کان کاٹنے چاہئیں، تربور اپنے تربور سے کم ہو تو اس کی کھوپڑی تراش لینی چاہیے اور پارٹی، پارٹی سے کم ہو تو اس کا منشور کاٹنا چاہیے، ایسا ہی کچھ ہم نے بھی کیا ہے کیوں کہ حالیہ دنوں میں ''خاتمے'' کا فیشن زوروں پر ہے، پی پی پی غربت کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے، عمران خان کرپشن کو ختم کرنا چاہتا ہے، جماعت اسلامی کفر کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے، جے یو آئی تحفظات ختم کرنا چاہتی ہے، اے این پی دہشت گردی ختم کرنا چاہتی ہے اور مسلم لیگ خود مسلم لیگ ہی کو ختم کرنا چاہتی ہے، مطلب یہ کہ ہر پارٹی میں کسی نہ کسی چیز کے خاتمے کا اعلان ہو رہا ہے اور چوں کہ یہ سب کے سب علاج بالمثل یعنی ہو میو پیتھک طریقہ علاج کی حامی ہیں، اس لیے جن چیزوں کا خاتمہ کرنا مقصود ہوتا ہے، اسے اور زیادہ بڑھا کر خاتمہ چاہتی ہیں۔
مطلب یہ کہ عوام کی قوت مدافعت اور قوت برداشت کو بڑھا کر علاج بالمثل کرنا چاہتی ہیں لیکن ہم ہو میو پیتھک کے بجائے ایلوپتھک یعنی علاج بالضد کے قائل ہیں۔ اس لیے ایک ایسے مرض کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں جو ان تمام پیچیدہ پوشیدہ اور گزیدہ امراض کی دادی جان ہے، کیوں کہ پڑوسی ملک کی دانشورہ عالم شلپا شیٹی نے بالوں کے امراض کا اپائے بتاتے ہوئے فرمایا ہے کہ پرابلم کی جڑ تک جائیں اور ایسا کہتے ہوئے اور بالوں کے تمام امراض گناتے ہوئے اس نے اپنی کھوپڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو قول زرین ارشاد فرمایا ہے وہی ہمارا ایک نکاتی منشور ہے، یعنی سو پرابلم ایک ہی سولوشن ۔۔۔ پرابلم کی جڑ تک جائیں اور فلاں شیمپو استعمال کریں، ظاہر ہے کہ بالوں کے سارے پرابلموں کی جڑ کھوپڑی ہی ہوتی ہے۔
سو ہم نے بھی اپنی پارٹی کے منشور میں پرابلم کی جڑ تک جانا مناسب جانا اور پورے مینی فیسٹو کو صرف ایک دفعے میں مرتکز کیا، خاتموں کا خاتمہ، ممکن ہے، آپ گھبرا جائیں گے کہ اتنے پرابلموں کو کیسے ختم کیا جائے گا۔ تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے، صرف اتنا کریں کہ پرابلم کی جڑ تک جائیں اور پرابلم کی جڑ یا جڑیں کس کو معلوم نہیں ہیں، آپ پھر گھبرانے لگے، یہ اتنا بڑا کام بھی نہیں ہے، ہمیں ایسے بہت سارے اجرتی قاتل معلوم ہیں جو نہایت رعایتی داموں پر بڑی سے بڑی ''پرابلم'' کو صرف ایک گولی سے ''سالوو'' کر سکتے ہیں۔ اتنی صفائی سے کہ ادھر گولی پرابلم کی جڑ یعنی کھوپڑی میں پہنچی اور پرابلم سالوو ۔۔۔ پرابلموں کی جڑ کو ختم کرنے والے ان ''اطبا'' کے نمایندے سے ہماری بات ہوئی ہے۔
وہ دس کے اوپر ایک پرابلم مفت میں یعنی ڈسکاؤنٹ کے طور پر سالوو کرنے کو تیار ہیں لیکن ہمارا خیال ہے کہ اتنا بڑا کام دینے پر وہ کچھ مزید رعایت بھی دے دیں گے، اس طرح کل ملا کر ڈسکاؤنٹ اور رعایتی داموں کو شامل کر کے کل خرچہ نہایت ہی کم آئے گا، یعنی صرف ایک روپیہ فی کھوپڑی سمجھ لیجیے، آپ غلط سمجھ رہے ہیں، ایک ''جڑ'' کی اجرت ایک روپے نہیں ہے بل ہماری پارٹی کے اراکین کو صرف ایک ایک روپیہ چندہ دینا پڑے گا۔ غریب غرباء اور بوڑھوں بچوں کو مہنا کر کے صافی چندہ لگ بھگ دس کروڑ تو اکٹھا ہو ہی جائے گا۔
ایک پرابلم یا کھوپڑی کے اگر ایک لاکھ روپے بھی لگائیں تو ایک ہزار پرابلم تو یوں سمجھ لیجیے کہ ''سالوو'' ہو گئے، اول تو اس ایک ہزاری علاج سے ممکن ہے کہ دوسری پرابلمز یا جڑیں بھی مرجھا جائیں لیکن اگر کچھ ڈھیٹ جڑیں اور پرابلمز پھر بھی ''سالوو'' نہیں ہوئیں تو کوئی بات نہیں ایک نیک نام کے لیے دوبارہ سہ بارہ چندہ ڈالنا کیا مشکل ہے۔ یہ ایک روپیہ تو بچے بھی دے سکتے ہیں، بہرحال چونکہ فیشن آج کل ''خاتمے'' کا چل رہا ہے تو مقروض پارٹی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے گی اور اپنے منشور کی اکلوتی دفعہ پر عمل درآمد کر کے ''پرابلم'' کی جڑ تک جائے گی اور جن جن کھوپڑیوں میں پرابلمز پیدا ہوتی ہیں، ان کو مخصوص اطباء کو ریفر کر کے علاج بالضد کرائے گی۔ بولو ۔۔۔ مقروض پارٹی زندہ باد ۔۔۔ پرابلمز کی جڑوں کا ۔۔۔ خاتمہ کر دو
مگس کو باغ میں اب ''جانے'' بھی دو
کہ ''برحق'' خون پروانے کا ہووے
آڑوؤں یا شفتالو کے پھلوں کو ایک قسم کی بیماری لگتی ہے کہ عین پکنے کے قریب ان میں کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں۔ عام طور پر اس مرض کا علاج بروقت اسپرے کر کے کیا جاتا ہے لیکن وہ بڑا مہنگا پڑتا ہے اور مقروض تو آپ کو پتہ ہے کہ اکثر دیر کر کے جاگتا ہے چنانچہ بعد میں کوئی اسپرے بھی موثر نہیں رہتا اور آڑووں میں کیڑے پڑ ہی جاتے ہیں، چنانچہ ایک اور آسان طریقہ علاج یہ بھی ہے کہ باغ میں جگہ کچھ خاص قسم کے برتن لٹکا دیے جاتے ہیں۔
ان میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ آڑو کو کیڑے لگانے والی مکھیوں کا ''نر'' ان میں پھنس جاتا ہے اور جب نر ہی نہ رہے تو کیڑے پیدا کہاں سے ہوں گے؟ پاکستان نامی اس آڑو پر بھی اسپرے کرنے کا وقت گزر چکا ہے اور پورے باغ پر اسپرے کرنا کسان یعنی مقروض پارٹی کے بس کا کام بھی نہیں ہے، اس لیے وہی علاج بہتر رہے گا کہ کیڑے پیدا کرنے والے نر مکھیوں کا ہی خاتمہ کر دیا جائے تاکہ نہ رہے نر اور نہ پڑیں کیڑے ۔۔۔ اس طرح مقروض پارٹی بھی دوسری پارٹیوں کی طرح ''خاتمے'' کی دوڑ میں شامل ہو جائے گی اور جیت بھی جائے گی۔