بلوچ تناظر میں پاک ایران گیس لائن منصوبہ
اس معاہدے پر دستخط ایک ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب بلوچستان میں اس کی حقیقی قیادت کا فقدان ہے۔
پاکستان میں توانائی کے بڑھتے ہوئے بحران اور خطے میں توانائی کے تحفظ نے بلوچستان کی اسٹرٹیجک اور اقتصادی اہمیت کو اجاگر کر دیا ہے۔ بیجنگ، تہران اور اسلام آباد کے درمیان کیے گئے ہر معاہدے میں بلوچستان کو مرکزی اہمیت حاصل رہی۔ اگرچہ پاکستانی اور ایرانی اسٹیبلشمنٹ نے بلوچستان کے محل وقوع، اسٹریٹجک اہمیت اور بے شمار اقتصادی فوائد کو نظر انداز اور اس کا استحصال کیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ فرانس کے رقبے کے برابر بلوچستان ایک جغرافیائی اور سیاسی حقیقت ہے جس کی جغرافیائی اسٹریٹجک خصوصیات مسلّم ہیں جو 44 فیصد پاکستان اور 16 فیصد ایران کے زمینی ٹکڑے پر مشتمل ہے۔
اس کے باوجود، بحیثیت مجموعی بلوچوں کو پاکستان اور ایران دونوں میں مخصوص صورتحال کا سامنا رہا اور بے پناہ قدرتی وسائل کا مالک ہونے کے باوجود وہ سیاسی طور پر پسماندہ رہے اور نہایت خراب اقتصادی اور سماجی حالات میں زندگی گزارتے رہے ہیں، اس کے علاوہ بلوچ عوام کو تہران اور اسلام آباد کے ساتھ نہایت خراب سیاسی تعلقات کا سامنا رہا۔ بلوچستان میں سیاسی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے، خاص طور پر مشرقی بلوچستان کے حالات سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی ایران اور پاکستان نے کئی بلین ڈالرز کی گیس پائپ لائن پروجیکٹ پر چابہار میں ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جہاں ایران کے بلوچ پورٹ سٹی سے 1900 کلو میٹر طویل پائپ لائن سے 750 ملین کیوبک فٹ گیس روزانہ درآمد کی جائے گی۔
بلوچستان 7.5 ارب ڈالر کے اس پروجیکٹ کے لیے واحد زمینی راستہ ہے۔ اس طویل ترین پائپ لائن کا تقریباً 1200 کلومیٹر پر مشتمل حصہ (جو ایران کے پارس گیس فیلڈ کو پاکستان کے نوابشاہ میں بنیادی تقسیم کے نظام سے منسلک کرے گی) ایران اور پاکستان کے تنازعہ زدہ علاقے سے گزرے گی۔ پاکستان اور ایران نے 17 مارچ 2010کو استنبول میں ایک آپریشنل معاہدے پر دستخط کیے تھے تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ یہ تمام معاہدے ان معاہدات سے مختلف ہیں جو مئی 2009 میں آصف علی زرداری نے تہران کے دورے کے موقع پر کیے تھے کیونکہ تمام معاہدے خفیہ ہیں، اسی طرح نو مرتب انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم پر خاموشی سے گیس کی خرید و فروخت کے متنازعہ معاہدے پر دستخط کیے گئے۔
خطے میں توانائی کے تحفظ کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ سیاسی و اقتصادی اور حفاظتی پہلوئوں پر کام کیے بنا اس قسم کے اقدامات پر عجلت کا مظاہرہ سیاسی اسٹنٹ کے طور پر تو کیا جا سکتا ہے لیکن ایسے بڑے خوابوں کو رو بہ عمل لانے کے لیے تمام پہلوئوں پر دانشمندی اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا از حد ضروری ہے۔ بلوچستان میں درپیش اہم چیلنجز بشمول ناختم ہونے والی سیاسی چپقلش، متنازعہ امریکی خدشات اور فرقہ وارانہ مذہبی گروپوں کی مخالفت جیسے پرانے اور سنگین مسائل کو حل کیے بغیر کئی بلین ڈالر کے گیس پائپ لائن منصوبے کی پیشرفت میں کئی مضمرات درپیش ہیں۔
اسلام آباد نے ہمیشہ کی طرح مجوزہ گیس پائپ لائن منصوبے پر بلوچوں کی رضامندی کی اہمیت کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک بڑی اور اہم سیاسی غلطی کر دی ہے۔ اس معاہدے پر دستخط ایک ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب بلوچستان میں اس کی حقیقی قیادت کا فقدان ہے۔ خطہ اس وقت دائمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور بلوچ عوام کے درمیان کشیدگی جیسے ماحول سے دو چار ہے جب کہ اسلام آباد میں بھی غیر بلوچ سیکیورٹی آپریٹس برسرکار ہیں۔ 2005 میں بھی بلوچوں کی طرف سے اس طرح کی بین الاقوامی پائپ لائن کی مخالفت کا اظہار کیا گیا تھا۔ مقتول بلوچ قوم پرست اکبر خان بگٹی نے کہا تھا کہ ''صرف خلوص نیت سے ہی ایران اور وسطی ایشیا سے بھارت تک مجوزہ گیس پائپ لائن بلوچ اپنی زمین سے گزارنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔''
چابہار میں گیس پائپ لائن افتتاح کے فوری بعد ہی، تمام تر بلوچ سیاسی پارٹیوں سمیت اہلسنت والجماعت اور سخت موقف رکھنے والے سنی مذہبی گروہ نے بلوچستان کے نوشکی ضلع میں ایک کھلے اجلاس میں کسی بھی قیمت پر اس پروجیکٹ کو روکنے کی دھمکی دی ہے، اگرچہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بلوچستان میں اہلسنت والجماعت کو بلوچ سوسائٹی میں بڑھتی ہوئی قوم پرستی اور اعتدال پسند سیاسی قیادت سے مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔
اس سے پہلے 2006 میں سرکاری اور بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن بینچوں کے ارکان نے بے مثال اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجوزہ آئی پی آئی گیس پائپ لائن منصوبے میں صوبے کی رائلٹی کے حصول میں ایک قرارداد پاس کی، اس کے علاوہ اسمبلی نے گیس پائپ لائن مذاکرات میں نمایندگی، ملحقہ آبادی کے لیے مفت گیس، سو فیصد کام کا حصہ اور انڈیا کی طرف سے دی جانے والی کسی بھی رائلٹی کے بڑا حصہ طلب کیا۔ تاہم مجوزہ گیس پائپ لائن منصوبے میں بلوچستان کی غیر مراعات یافتہ آبادی کے لیے کسی بھی قسم کے اقتصادی یا سماجی فوائد نہیں رکھے گئے ہیں۔
پائپ لائن ایرانی کمپنی کی جانب سے تعمیر کی جائے گی جو اپنی ہائی ٹیکنالوجی کا استعمال اور ایرانی مزدوروں کا ہی استعمال کرے گی۔ وفاق کی طرف سے جو سیکیورٹی فراہم کی جائے گی جیسے فرنٹیئر کور اور دیگر اس میں بلوچ نہیں ہوں گے اس کے علاوہ دوسری ملازمتوں پر بھی دیگر صوبوں کے تعلیم یافتہ تکنیکی ماہرین کو موقع دیا جائے گا، کیونکہ ان کے پاس مواقعے ہیں اور انھوں نے اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی ہے۔ مزید برآں اس میں کوئی قانونی یا آئینی بات موجود نہیں کہ سیکیورٹی، روزگار یا گیس سمیت کسی بھی قسم کی رائلٹی بلوچستان کے عوام کو دی جائے گی۔
برسوں سے قومی معیشت کو ایندھن فراہم کرنے کے باوجود بلوچ عوام کو اسلام آباد کی پالیسیوں اور وعدوں کی طرف سے ہمیشہ مایوس کن تجربات کا سامنا ہوا ہے، صوبے میں گیس کے صارفین ملک کے 10 فیصد سے بھی کم ہیں، جب کہ پنجاب میں 69 فیصد ہیں جہاں گیس کی پیداوار محض 4.7 فیصد ہے۔
متنازعہ قیمت بھی منصوبے کی کامیابی کو غیر ممکن بنا رہی ہے۔ قیمت معاہدے کے مطابق، پاکستان ایرانی گیس مختلف قیمتوں پر خریدے گا۔ ایک مقررہ شرح کی کمی گیس کی برآمد کے لیے ایران کو زیادہ فائدہ پہنچائے گی۔ ایران سے درآمدہ گیس کی قیمت بلوچستان اور سندھ سے نکالی جانے والی گیس سے زیادہ مہنگی پڑے گی۔ تاہم، ایرانی گیس کی قیمت کا اندازہ بین الاقوامی تیل کی قیمت کے تناسب سے 78 فیصد لگایا جا رہا ہے۔
پاکستان کے مرکزی سیاسی نظام کے وجہ سے وفاق اور صوبوں کے درمیان مسلسل سیاسی اور اقتصادی تنازعات جنم لیتے رہتے ہیں۔ اگرچہ بلوچ پاکستان کے داخلی اور خارجی معاملات سمیت پالیسی سازی میں بھی اسٹیک ہولڈرز نہیں ہیں، اسلام آباد اس حقیقت سے انحراف نہیں کر سکتا کہ بلوچستان جو ملک کے 44 فیصد زمینی حصے پر مشتمل اہم اسٹرٹیجی کے حامل سرحدی اور ساحلی علاقوں پر مشتمل ہے اور ایران کے ذریعے توانائی کی دولت سے مالا مال مشرق وسطیٰ سے جڑا ہوا ہے۔ جب تک بلوچستان کے تنازعات میں مثبت پیش رفت نہیں ہوتی، ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ محض ایک خواب ہی رہے گا۔
(مضمون نگار سابق سینیٹر ہیں)