مسئلہ فلسطین اور اعلان جکارتہ
اعلانِ جکارتہ امریکا، اسرائیل اور ان کے حواریوں کو اقوامِ عالم کا منہ توڑ جواب ہے۔
مسئلہ فلسطین کا ذکر آتے ہی 1948ء کا تاریخی ''نکبہ'' یعنی فلسطینیوں پر ڈھائی جانے والی صہیونی مصیبت اور تباہی، غاصب اسرائیل کے وجود کا خیال آتا ہے جس کے بعد سے آج تک تقریبا ستر سالہ دور میں مظلوم فلسطینی ملت غاصب صہیونیوں کے شکنجے میں ہے اور بد ترین مظالم برداشت کر رہی ہے۔
خاص بات تو یہ ہے کہ امریکی حکومت روز اول سے ہی غاصب جعلی ریاست اسرائیل کے وحشت ناک مظالم کی سرپرستی کررہی ہے اور صہیونیوں کےلیے مسلسل اسلحے کی امداد میں اربوں ڈالرز غاصب اسرائیل کو دے چکی ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکی حکومت نے انسانی قتل وغارت کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ پوری مسلم امہ اور مسیحی برادری کے خلاف ایسا قدم اٹھا لیا ہے کہ جس کے باعث نہ صرف دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں بلکہ دنیا بھر میں موجود کروڑوں مسیحی مذہب کے پیروکاروں کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچی ہے کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطین کے تاریخی دارالحکومت یروشلم (القدس) کو صہیونی غاصب جعلی ریاست اسرائیل کےلیے دارالحکومت قرار دینے کا یکطرفہ فیصلہ اور اعلان کیا ہے۔
اس عنوان سے دنیا بھر میں مسلم دنیا احتجاج کر رہی ہے جبکہ فلسطین کے اندر مسیحی عوام نے بھی امریکی حکومت کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اسی عنوان سے سب سے اہم پیش رفت، ایک کانفرنس کی صورت، انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں ہوئی جو ٹھیک 7 دسمبر کو جکارتہ کی پارلیمنٹ میں منعقد ہوئی جبکہ 6 دسمبر کو امریکی حکومت نے یروشلم کو صہیونی حکومت کا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا تھا۔ جکارتہ میں ہونے والی کانفرنس میں اہم ترین فیصلے کیے گئے جنہیں مجموعی طور پر ''اعلانِ جکارتہ'' کا عنوان دیا گیا ہے۔
جکارتہ کی پارلیمنٹ میں منعقد ہونے والی کانفرنس کاعنوان ''اعلان بالفور کے ایک سو سال اور فلسطین پر صہیونی غاصبانہ تسلط اور فلسطینیوں کی مزاحمت'' رکھا گیا تھا جس میں انڈونیشیا کی اہم شخصیات سمیت پانچ سو سے زائد این جی اوز اور انسانی حقوق کےلیے سرگرم عمل اداروں کے اراکین سمیت سول سوسائٹی کے نمائندوں اور بالخصوص فلسطین، پاکستان، لبنان، شام، ایران، بھارت، ملائیشیا، فلپائن اور ارجنٹائن کے علاوہ دیگر ممالک کے مندوبین نے بھی شرکت کی۔
بین الاقوامی مندوبین میں فلسطین سے معروف اسکالر طاہر شیخ، پاکستان سے فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل اور پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر صابر ابو مریم، لبنان سے عالمی تحریک برائے حقوق واپسی فلسطین کے سربراہ شیخ یوسف عباس، ایران سے انقلاب اسلامی ایران کے بانی رہنما آیت اللہ سید امام خمینی کی دختر محترمہ ڈاکٹر زہرا مصطفوی، فلسطینی تحریک آزادی کی این جی اوز کے اتحاد کے ترجمان سروش نژاد، بین الاقوامی خبر رساں ادارہ قدس پریس کے سربراہ شکیبائی، بھارت سے معروف اسکالر اور فلسطین موومنٹ کے چئیر مین فیروز مٹھی بور والا، ملائیشیا سے علماء کونسل کے مرکزی رہنما شیخ محمد عزمی، فلپائن سے فلسطین فاؤنڈیشن کے چیئرمین علی البنال اور ارجنٹائن سے رابن سہیل اسد و دیگر نے شرکت کی۔
کانفرنس کی میزبانی وائس آف فلسطین انڈونیشیا کے چیئرمین مجتہد ہاشم کی جانب سے کی گئی تھی جبکہ کانفرنس میں جکارتہ کی معروف شخصیات، پارلیمنٹ کے اراکین بین الاقوامی ہم آہنگی برائے مذہب کے صدر اور صدر انڈونیشیا کے ترجمان بالترتیب رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر زلکفی حسن، عبد اللہ بیک، معروف پانسیلا، ایما راچمن اور دیگر نے شرکت کی۔
کانفرنس کے اختتام پر شرکائے کانفرنس سے متفقہ طور پر مسئلہ فلسطین کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے، جس میں امریکی صدر نے القدس شہر کو غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا ہے، اہم اعلان جاری کیا جسے تاریخی حیثیت دیتے ہوئے ''اعلان جکارتہ'' کا نام دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ کانفرنس اعلان بالفور کی ایک سو سالہ سیاہ تاریخ کی مذمت میں منعقد کی گئی تھی جس پر اعلان جکارتہ کی ایک تاریخی حیثیت تسلیم کی گئی ہے۔ اعلان جکارتہ مندرجہ ذیل ہے:
اعلان جکارتہ میں کہا گیا ہے کہ ہم انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں پارلیمنٹ ہاؤس میں مؤرخہ 7، 8 دسمبر2017ء کو منعقد ہونے والی عالمی فلسطین کانفرنس کے شرکاء جو فلسطین، پاکستان، لبنان، شام، ایران، بھارت، ارجنٹائن، فلپائن، ملائیشیا اور انڈونیشیا سے تعلق رکھتے ہیں، متفقہ طور پر اعلان کرتے ہیں کہ تحریکِ آزادئ فلسطین کہ جس کا دارالحکومت یروشلم شہر (القدس شہر) ہے، اس کی حمایت جاری رکھیں گے۔ ہم دنیا بھر کے عوام اور اقوام سے کہتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کی تحریک آزادی کےلیے دنیا بھر میں جاری عالمی مزاحمت اور انتفاضہ فلسطین کی حمایت جاری رکھیں تاکہ فلسطین کے مظلومین کےلیے 1948ء کی سرحدوں پر محیط ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کہ جس کا دارالحکومت القدس ہو، اور وہ تمام فلسطینی اقوام (مسلمان، عیسائی، یہودی) اور وہ لوگ کہ جو 1917ء سے پہلے اور بعد میں دوسرے ممالک سے ہجرت کرکے فلسطین نہ آئے ہوں، باہم اتفاق و یکجہتی کے ساتھ فلسطین میں زندگی بسر کریں۔
اعلان جکارتہ کے سات نکات میں سے دوسرے اہم نکتے میں کہا گیا ہے کہ ہم شرکائے عالمی فلسطین کانفرنس، جکارتہ، واضح طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطین کے دارالحکومت القدس (یروشلم) کی حیثیت بدلنے کے یکطرفہ فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ دنیا کے تمام ممالک کی جانب سے ٹرمپ کے اس فیصلے کو زبردست طریقے سے مسترد کردیا گیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا القدس سے متعلق یکطرفہ فیصلہ تمام بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی توہین اور خلاف ورزی ہے۔ ہم ٹرمپ کی جانب سے فلسطینی دارالحکومت القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے اس اعلان کو یروشلم کےلیے شدید خطرناک تصور کرتے ہیں اور اسے فلسطین و القدس کو صہیونیوں کےلیے یہودیانے کی سازش کا حصہ سمجھتے ہیں جو نہ صرف یروشلم میں موجود مسلمانوں کے مقدس مقامات کےلیے سنگین خطرہ ہے بلکہ مسیحی مقدس مقامات کو بھی شدید خطرہ لاحق سمجھتے ہیں۔
اعلان جکارتہ کے تیسرے نکتے میں کہا گیا ہے کہ دنیا اس بات پر شاہد ہے کہ برطانوی استعمار کی جانب سے فلسطین کی تقسیم کےلیے پیش کیا گیا ''اعلان بالفور'' فلسطینیوں کےلیے ''نکبہ'' ثابت ہوا جس کے باعث گزشتہ ایک سو سال سے فلسطینیوں کی نسلوں کی تباہی جاری ہے۔ ہم متفقہ طور پر اعلان کرتے ہیں کہ برطانوی استعماری حکومت کی جانب سے 1917ء میں فلسطینیوں کے خلاف پیش کیا جانے والا ''اعلان بالفور'' ایک ناقابل رحم اور ناقابل معافی جرم ہے۔
چہارم بیان میں کہا گیا کہ ہم فلسطین پر اسرائیلی غاصبانہ تسلط اور فلسطین کے مظلوم عوام پر غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے ناجائز تسلط اور روزانہ کی بنیادوں پر فلسطینیوں پر جاری رکھے جانے والے صہیونی مظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
اعلان جکارتہ کا پانچواں نکتہ دنیا بھر میں تحریک آزادی فلسطین کےلیے سرگرم افراد سے اپیل سے متعلق ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ ہم دنیا بھر میں تحریک آزادئ فلسطین کےلیے سرگرم عمل اداروں، گروہوں، تنظیموں، این جی اوز، سول سوسائٹی، سیاسی و مذہبی جماعتوں اور رہنماؤں، انسانی حقوق اور امن پسند کارکنوں سے کہتے ہیں کہ سب کے سب متحد ہوکر ایک آواز ہوتے ہوئے فلسطین کی آزادی کےلیے جاری مزاحمت اور مزاحمتی گروہوں کی حمایت کریں اور فلسطین کے مقدس دارالحکومت القدس کے دفاع و تحفظ کےلیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
اعلان جکارتہ کا چھٹا نکتہ خصوصی طور پر مسلم و اسلامی دنیا سے متعلق ہے جس میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ ہم خصوصی طور پر مسلم دنیا سے کہتے ہیں کہ القدس کے دفاع کےلیے اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھیں اور دشمن کے منفی ہتھکنڈوں فرقہ واریت، تقسیم اور دیگر منفی سازشوں کا مقابلہ اپنی وحدت اور اتحاد سے کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور فلسطین و القدس سے متعلق اپنی شرعی ذمہ داریوں کو انجام دیں تاکہ القدس غاصب صہیونیوں کے شکنجے سے آزاد ہو جائے۔
اعلان جکارتہ کے ساتویں اور آخرین نکتے میں بیان کیا گیا ہے کہ ہم شرکائے عالمی فلسطین کانفرنس، جکارتہ، فلسطینی مہاجرین کہ جنہیں غاصب صہیونیوں نے جبری طور پر فلسطین سے بے دخل کیا ہے، ان سب فلسطینیوں کے حق واپسی کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، ہم عالمی برادری سے غزہ کے مسلسل کئی سالہ صہیونی محاصرے کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں اور فلسطین بالخصوص مغربی کنارے میں صہیونی آباد کاری کے عمل کو فی الفور روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
خاص بات تو یہ ہے کہ امریکی حکومت روز اول سے ہی غاصب جعلی ریاست اسرائیل کے وحشت ناک مظالم کی سرپرستی کررہی ہے اور صہیونیوں کےلیے مسلسل اسلحے کی امداد میں اربوں ڈالرز غاصب اسرائیل کو دے چکی ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکی حکومت نے انسانی قتل وغارت کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ پوری مسلم امہ اور مسیحی برادری کے خلاف ایسا قدم اٹھا لیا ہے کہ جس کے باعث نہ صرف دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں بلکہ دنیا بھر میں موجود کروڑوں مسیحی مذہب کے پیروکاروں کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچی ہے کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطین کے تاریخی دارالحکومت یروشلم (القدس) کو صہیونی غاصب جعلی ریاست اسرائیل کےلیے دارالحکومت قرار دینے کا یکطرفہ فیصلہ اور اعلان کیا ہے۔
اس عنوان سے دنیا بھر میں مسلم دنیا احتجاج کر رہی ہے جبکہ فلسطین کے اندر مسیحی عوام نے بھی امریکی حکومت کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اسی عنوان سے سب سے اہم پیش رفت، ایک کانفرنس کی صورت، انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں ہوئی جو ٹھیک 7 دسمبر کو جکارتہ کی پارلیمنٹ میں منعقد ہوئی جبکہ 6 دسمبر کو امریکی حکومت نے یروشلم کو صہیونی حکومت کا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا تھا۔ جکارتہ میں ہونے والی کانفرنس میں اہم ترین فیصلے کیے گئے جنہیں مجموعی طور پر ''اعلانِ جکارتہ'' کا عنوان دیا گیا ہے۔
جکارتہ کی پارلیمنٹ میں منعقد ہونے والی کانفرنس کاعنوان ''اعلان بالفور کے ایک سو سال اور فلسطین پر صہیونی غاصبانہ تسلط اور فلسطینیوں کی مزاحمت'' رکھا گیا تھا جس میں انڈونیشیا کی اہم شخصیات سمیت پانچ سو سے زائد این جی اوز اور انسانی حقوق کےلیے سرگرم عمل اداروں کے اراکین سمیت سول سوسائٹی کے نمائندوں اور بالخصوص فلسطین، پاکستان، لبنان، شام، ایران، بھارت، ملائیشیا، فلپائن اور ارجنٹائن کے علاوہ دیگر ممالک کے مندوبین نے بھی شرکت کی۔
بین الاقوامی مندوبین میں فلسطین سے معروف اسکالر طاہر شیخ، پاکستان سے فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل اور پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر صابر ابو مریم، لبنان سے عالمی تحریک برائے حقوق واپسی فلسطین کے سربراہ شیخ یوسف عباس، ایران سے انقلاب اسلامی ایران کے بانی رہنما آیت اللہ سید امام خمینی کی دختر محترمہ ڈاکٹر زہرا مصطفوی، فلسطینی تحریک آزادی کی این جی اوز کے اتحاد کے ترجمان سروش نژاد، بین الاقوامی خبر رساں ادارہ قدس پریس کے سربراہ شکیبائی، بھارت سے معروف اسکالر اور فلسطین موومنٹ کے چئیر مین فیروز مٹھی بور والا، ملائیشیا سے علماء کونسل کے مرکزی رہنما شیخ محمد عزمی، فلپائن سے فلسطین فاؤنڈیشن کے چیئرمین علی البنال اور ارجنٹائن سے رابن سہیل اسد و دیگر نے شرکت کی۔
کانفرنس کی میزبانی وائس آف فلسطین انڈونیشیا کے چیئرمین مجتہد ہاشم کی جانب سے کی گئی تھی جبکہ کانفرنس میں جکارتہ کی معروف شخصیات، پارلیمنٹ کے اراکین بین الاقوامی ہم آہنگی برائے مذہب کے صدر اور صدر انڈونیشیا کے ترجمان بالترتیب رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر زلکفی حسن، عبد اللہ بیک، معروف پانسیلا، ایما راچمن اور دیگر نے شرکت کی۔
کانفرنس کے اختتام پر شرکائے کانفرنس سے متفقہ طور پر مسئلہ فلسطین کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے، جس میں امریکی صدر نے القدس شہر کو غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا ہے، اہم اعلان جاری کیا جسے تاریخی حیثیت دیتے ہوئے ''اعلان جکارتہ'' کا نام دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ کانفرنس اعلان بالفور کی ایک سو سالہ سیاہ تاریخ کی مذمت میں منعقد کی گئی تھی جس پر اعلان جکارتہ کی ایک تاریخی حیثیت تسلیم کی گئی ہے۔ اعلان جکارتہ مندرجہ ذیل ہے:
اعلان جکارتہ میں کہا گیا ہے کہ ہم انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں پارلیمنٹ ہاؤس میں مؤرخہ 7، 8 دسمبر2017ء کو منعقد ہونے والی عالمی فلسطین کانفرنس کے شرکاء جو فلسطین، پاکستان، لبنان، شام، ایران، بھارت، ارجنٹائن، فلپائن، ملائیشیا اور انڈونیشیا سے تعلق رکھتے ہیں، متفقہ طور پر اعلان کرتے ہیں کہ تحریکِ آزادئ فلسطین کہ جس کا دارالحکومت یروشلم شہر (القدس شہر) ہے، اس کی حمایت جاری رکھیں گے۔ ہم دنیا بھر کے عوام اور اقوام سے کہتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کی تحریک آزادی کےلیے دنیا بھر میں جاری عالمی مزاحمت اور انتفاضہ فلسطین کی حمایت جاری رکھیں تاکہ فلسطین کے مظلومین کےلیے 1948ء کی سرحدوں پر محیط ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کہ جس کا دارالحکومت القدس ہو، اور وہ تمام فلسطینی اقوام (مسلمان، عیسائی، یہودی) اور وہ لوگ کہ جو 1917ء سے پہلے اور بعد میں دوسرے ممالک سے ہجرت کرکے فلسطین نہ آئے ہوں، باہم اتفاق و یکجہتی کے ساتھ فلسطین میں زندگی بسر کریں۔
اعلان جکارتہ کے سات نکات میں سے دوسرے اہم نکتے میں کہا گیا ہے کہ ہم شرکائے عالمی فلسطین کانفرنس، جکارتہ، واضح طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطین کے دارالحکومت القدس (یروشلم) کی حیثیت بدلنے کے یکطرفہ فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ دنیا کے تمام ممالک کی جانب سے ٹرمپ کے اس فیصلے کو زبردست طریقے سے مسترد کردیا گیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا القدس سے متعلق یکطرفہ فیصلہ تمام بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی توہین اور خلاف ورزی ہے۔ ہم ٹرمپ کی جانب سے فلسطینی دارالحکومت القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے اس اعلان کو یروشلم کےلیے شدید خطرناک تصور کرتے ہیں اور اسے فلسطین و القدس کو صہیونیوں کےلیے یہودیانے کی سازش کا حصہ سمجھتے ہیں جو نہ صرف یروشلم میں موجود مسلمانوں کے مقدس مقامات کےلیے سنگین خطرہ ہے بلکہ مسیحی مقدس مقامات کو بھی شدید خطرہ لاحق سمجھتے ہیں۔
اعلان جکارتہ کے تیسرے نکتے میں کہا گیا ہے کہ دنیا اس بات پر شاہد ہے کہ برطانوی استعمار کی جانب سے فلسطین کی تقسیم کےلیے پیش کیا گیا ''اعلان بالفور'' فلسطینیوں کےلیے ''نکبہ'' ثابت ہوا جس کے باعث گزشتہ ایک سو سال سے فلسطینیوں کی نسلوں کی تباہی جاری ہے۔ ہم متفقہ طور پر اعلان کرتے ہیں کہ برطانوی استعماری حکومت کی جانب سے 1917ء میں فلسطینیوں کے خلاف پیش کیا جانے والا ''اعلان بالفور'' ایک ناقابل رحم اور ناقابل معافی جرم ہے۔
چہارم بیان میں کہا گیا کہ ہم فلسطین پر اسرائیلی غاصبانہ تسلط اور فلسطین کے مظلوم عوام پر غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے ناجائز تسلط اور روزانہ کی بنیادوں پر فلسطینیوں پر جاری رکھے جانے والے صہیونی مظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
اعلان جکارتہ کا پانچواں نکتہ دنیا بھر میں تحریک آزادی فلسطین کےلیے سرگرم افراد سے اپیل سے متعلق ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ ہم دنیا بھر میں تحریک آزادئ فلسطین کےلیے سرگرم عمل اداروں، گروہوں، تنظیموں، این جی اوز، سول سوسائٹی، سیاسی و مذہبی جماعتوں اور رہنماؤں، انسانی حقوق اور امن پسند کارکنوں سے کہتے ہیں کہ سب کے سب متحد ہوکر ایک آواز ہوتے ہوئے فلسطین کی آزادی کےلیے جاری مزاحمت اور مزاحمتی گروہوں کی حمایت کریں اور فلسطین کے مقدس دارالحکومت القدس کے دفاع و تحفظ کےلیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
اعلان جکارتہ کا چھٹا نکتہ خصوصی طور پر مسلم و اسلامی دنیا سے متعلق ہے جس میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ ہم خصوصی طور پر مسلم دنیا سے کہتے ہیں کہ القدس کے دفاع کےلیے اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھیں اور دشمن کے منفی ہتھکنڈوں فرقہ واریت، تقسیم اور دیگر منفی سازشوں کا مقابلہ اپنی وحدت اور اتحاد سے کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور فلسطین و القدس سے متعلق اپنی شرعی ذمہ داریوں کو انجام دیں تاکہ القدس غاصب صہیونیوں کے شکنجے سے آزاد ہو جائے۔
اعلان جکارتہ کے ساتویں اور آخرین نکتے میں بیان کیا گیا ہے کہ ہم شرکائے عالمی فلسطین کانفرنس، جکارتہ، فلسطینی مہاجرین کہ جنہیں غاصب صہیونیوں نے جبری طور پر فلسطین سے بے دخل کیا ہے، ان سب فلسطینیوں کے حق واپسی کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، ہم عالمی برادری سے غزہ کے مسلسل کئی سالہ صہیونی محاصرے کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں اور فلسطین بالخصوص مغربی کنارے میں صہیونی آباد کاری کے عمل کو فی الفور روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔