سرکاری اسکولوں کی حالت زار
گوٹھ، دیہات اور شہروں کے بہت سے اسکولوں میں جرائم پیشہ افراد کا قبضہ ہے۔
آخرکار چیف جسٹس کو تعلیم کے حوالے سے بھی نوٹس لینا ہی پڑا، یوں لگتا ہے کہ پورے ملک میں چور بازاری، رشوت ستانی اور بدی کا راج ہے، وہی شخص برائیوں سے بچا ہوا ہے جو باضمیر ہو، اسلامی تعلیمات سے زیادہ نہ سہی تھوڑی بہت واقفیت ضرور رکھتا ہو۔ چونکہ ہر ادارہ بری طرح کرپشن میں مبتلا ہے اس کی بنیادی وجہ تعلیم سے دوری، تربیت کا نہ ہونا اور علم کی ناقدری ہے۔ اقتدار سے محبت کرنے والوں کو اپنی قوم کا ذرہ برابر درد نہیں ہے، ان کے بچے مریں یا جئیں، فاقہ کشی کریں، تعلیم حاصل کریں یا نہ کریں، حکومت وقت کا مسئلہ ہر گز نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج قوم گمراہی کے اندھیروں میں ڈوب چکی ہے چونکہ علم کی شمع کو دولت کی ہوس اور روایات کی پاسداری نے گل کر دیا ہے۔
گوٹھ، دیہات اور شہروں کے بہت سے اسکولوں میں جرائم پیشہ افراد کا قبضہ ہے۔ بچے اور اساتذہ ان اسکولوں سے سرے سے غائب ہیں، بچوں کا مستقبل تباہ ہو چکا ہے لیکن اساتذہ کا مستقبل روشن ہے اس لیے کہ وہ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں، صرف کاغذات کی خانہ پری کی حد تک ہی ان کے نام محدود ہیں۔ ایک طرف وہ ناجائز رقم بٹورنے میں لگے ہوئے ہیں تو دوسری طرف وہ دوسری ملازمت اختیار کیے ہوئے ہیں اور اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم دلوا رہے ہیں، روپے، پیسے کی کمی نہیں، خوشحالی ہی خوشحالی ہے اور اگر ریٹائرڈ ہونے کا وقت آ گیا تب ریٹائرمنٹ کی لاکھوں کی رقم بھی خوشی خوشی وصول کر کے اپنی زندگی کو خوشیوں اور کامیابیوں سے سجا لیں گے۔ دوسروں کے حقوق غصب کرنے اور پیسے سے پیسہ بنانے کے ہنر سے ہماری قوم اچھی طرح واقف ہو چکی ہے۔
سرکاری اسکولوں کی حالت قابل رحم ہے۔ پچھلے دنوں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حکم پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر محمد یامین کی ہدایت پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج منور سلطانہ اور دیگر عملے نے شرافی گوٹھ لانڈھی ٹاؤن کے علاقے میں واقع15 سرکاری اسکولوں کا دورہ کیا۔ گورنمنٹ پرائمری مڈل اسکول مانسہرہ کالونی اسکول نمبر 4 کے گراؤنڈ میں 100 سے زائد نشے کے عادی افراد موجود تھے اس موقعے پر پریشان حال ٹیچرز اور اسکول کے عملے نے ججز کو دیکھتے ہی رونا شروع کر دیا اور بتایا کہ پورے اسکول میں ہیرئونچیوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔
اگر بھگانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ پتھر مارتے ہیں، ٹیچرز زخمی ہو جاتی ہیں۔ یہ نشئی اساتذہ اور طالب علموں کو تنگ کرتے ہیں، ٹیچرز دروازہ بند کر کے اپنا تحفظ کرتی ہیں اور زیادہ تر بچے خوف کے باعث اسکول نہیں آتے ہیں۔ ان حالات میں درس و تدریس بے حد کٹھن اور جان لیوا کام بن چکا ہے۔ متعدد بار لانڈھی ٹاؤن کو شکایات بھی کی گئیں لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
قابل غور اور دکھ کی بات یہ ہے کہ لانڈھی ٹاؤن میں کوئی تھانہ موجود نہیں ہے کیا؟ اگر ہے تو پولیس کا کام صرف جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی ہی کرنا رہ گیا۔ پولیس کے ہوتے ہوئے جرائم پیشہ افراد نے تعلیمی سرگرمیوں کو سبوتاژ کر دیا ہے۔ ہر ذی شعور یہ بات سوچ سکتا ہے کہ اگر اسکولوں سے ہیروئنچیوں اور بدکردار لوگوں کو نکالنے میں پولیس دلچسپی نہیں لے رہی ہے تو اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے، یہی کہ ان سے معمولی رقم سو، دو سو رپے وصول کی جاتی ہو گی۔ اس حقیر رقم کے عوض، انھیں تحفظ اور قوم کے بچوں کا مستقبل تاریک کرنے میں قوم کے محافظوں کا بڑا ہاتھ ہے۔
لانڈھی ٹاؤن کے اسکولوں کے اساتذہ نے ہاتھ جوڑ کر تحفظ اور تبادلے کی درخواست بھی کی، اس موقعے پر فاضل جج نے تھانہ شرافی گوٹھ کو فوری سیکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیا تاہم ہمیشہ کی ہی طرح ایس ایچ او نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ ان کا یہ عمل پوری قوم کے لیے دکھ اور باعث ندامت ہے۔
ان کا مقصد یہی ہے نا کہ وہ تعلیمی اداروں میں اسی قسم کے حالات رکھنا چاہتے ہیں، محکمہ پولیس اور تعلیمی اداروں کی اہم شخصیات، وزیر تعلیم، سیکریٹری تعلیم کی غفلت نے ہی آج پاکستان کو اس موڑ پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ پاکستان کا ہر شہری عدم تحفظ کا شکار ہے، جرائم پیشہ بھی پاکستانی ہی ہیں۔ وہ پیدائشی ایسے نہیں تھے بلکہ انھیں ایسا ماحول دے کر تعلیم کی راہوں کو مسدود کیا گیا ہے۔
وہ تعلیم اور تعلیم کا مقصد بھول گئے اور ایک انجانے اندھیرے راستے کے مسافر بن گئے۔ وہ تو برباد ہوئے ہی ساتھ میں پورا گھرانہ دکھوں کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہو گیا۔ ایک نہیں بے شمار گھرانے اولاد کے بھٹک جانے کی وجہ سے تباہی کی دلدل میں اتر چکے ہیں اس کی وجہ تعلیم سے دوری ہے۔ یقینا جب انسان شعور و دانش سے دور ہو جاتا ہے۔ تب اچھے برے کی تمیز خود بخود مٹ جاتی ہے۔ آج چھوٹے بڑے کا ادب و لحاظ ختم ہو چکا ہے رزق حلال کی اہمیت بھی جاتی رہی۔
سرکاری اسکول ایک طرف اصطبل کا نعم البدل بن چکے ہیں تو دوسری طرف ان اساتذہ کا رویہ بھی افسوسناک ہے، جو اپنی ذمے داریوں کو فراموش کر چکے ہیں۔ ساتھ میں اگر کچھ اسکولوں میں تدریسی امور انجام دیا جا رہا ہے تو ان اسکولوں کی عمارت اس قدر خستہ ہے کہ نہ جانے کس وقت منہدم ہو جائے۔ باتھ روم تک اسکولوں میں نہیں بنائے گئے ہیں، نہ پانی کا انتظام ہے۔ فرنیچر نام کی کوئی چیز نہیں، اگر ہے تو ٹوٹی پھوٹی کرسیوں اور چند میزوں کے علاوہ کوئی سہولت کی چیز میسر نہیں، اساتذہ کے لیے کوئی خاص کمرہ مخصوص نہیں۔ سرکاری اسکولوں کا ایسا ہی حال ہر علاقے میں ہے۔
ابراہیم حیدری کے اسکولوں کا بھی عبرتناک نقشہ تھا۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج منور سلطانہ نے ابراہیم حیدری سمیت ملیر ٹاؤن کے 32 سرکاری اسکولوں کا دورہ کیا۔ عمارتیں منہدم ہو جانے کے خوف سے اساتذہ کھلے آسمان تلے پڑھا رہے تھے، ان اسکولوں میں کہیں ٹینکر مافیا کا قبضہ تھا اور کئی اسکولوں میں رہائش اختیار کی گئی تھی۔ گورنمنٹ پرائمری گرلز اسکول لالہ آباد کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا ایک حصے میں واٹر ٹینکروں مافیا کا قبضہ تھا ان لوگوں نے بڑے بڑے ٹینک بنائے ہوئے تھے اور علاقے کو پانی فروخت کرنے کا کام شروع کیا ہوا تھا۔
اسکول کے دوسرے حصے میں نامعلوم افراد آتشیں اسلحہ چھپاتے ہیں۔ اس خوف سے وہاں لوگ نہیں جا سکتے ہیں، کئی اسکولوں میں ہیڈ ماسٹر بغیر کسی وجہ کے غائب تھے فاضل جج نے ہیڈ ماسٹر کو نا اہلی کی بناء پر معطل کر دیا۔ گرلز اسکول ابراہیم حیدری نمبر ایک میں خاتون چوکیدار نے قبضہ کیا ہوا تھا اور اس نے ببانگ دہل اپنے عزیز و اقارب کو کرائے کے طور پر اسکول کے کمرے فراہم کیے تھے۔ اسکول کے اردگرد قبرستان بھی بنا دیا گیا ہے، تا کہ بچے خوفزدہ رہیں اور اسکول آنا ہی ترک کر دیں۔
گوٹھ، دیہات اور شہروں کے بہت سے اسکولوں میں جرائم پیشہ افراد کا قبضہ ہے۔ بچے اور اساتذہ ان اسکولوں سے سرے سے غائب ہیں، بچوں کا مستقبل تباہ ہو چکا ہے لیکن اساتذہ کا مستقبل روشن ہے اس لیے کہ وہ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں، صرف کاغذات کی خانہ پری کی حد تک ہی ان کے نام محدود ہیں۔ ایک طرف وہ ناجائز رقم بٹورنے میں لگے ہوئے ہیں تو دوسری طرف وہ دوسری ملازمت اختیار کیے ہوئے ہیں اور اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم دلوا رہے ہیں، روپے، پیسے کی کمی نہیں، خوشحالی ہی خوشحالی ہے اور اگر ریٹائرڈ ہونے کا وقت آ گیا تب ریٹائرمنٹ کی لاکھوں کی رقم بھی خوشی خوشی وصول کر کے اپنی زندگی کو خوشیوں اور کامیابیوں سے سجا لیں گے۔ دوسروں کے حقوق غصب کرنے اور پیسے سے پیسہ بنانے کے ہنر سے ہماری قوم اچھی طرح واقف ہو چکی ہے۔
سرکاری اسکولوں کی حالت قابل رحم ہے۔ پچھلے دنوں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حکم پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر محمد یامین کی ہدایت پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج منور سلطانہ اور دیگر عملے نے شرافی گوٹھ لانڈھی ٹاؤن کے علاقے میں واقع15 سرکاری اسکولوں کا دورہ کیا۔ گورنمنٹ پرائمری مڈل اسکول مانسہرہ کالونی اسکول نمبر 4 کے گراؤنڈ میں 100 سے زائد نشے کے عادی افراد موجود تھے اس موقعے پر پریشان حال ٹیچرز اور اسکول کے عملے نے ججز کو دیکھتے ہی رونا شروع کر دیا اور بتایا کہ پورے اسکول میں ہیرئونچیوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔
اگر بھگانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ پتھر مارتے ہیں، ٹیچرز زخمی ہو جاتی ہیں۔ یہ نشئی اساتذہ اور طالب علموں کو تنگ کرتے ہیں، ٹیچرز دروازہ بند کر کے اپنا تحفظ کرتی ہیں اور زیادہ تر بچے خوف کے باعث اسکول نہیں آتے ہیں۔ ان حالات میں درس و تدریس بے حد کٹھن اور جان لیوا کام بن چکا ہے۔ متعدد بار لانڈھی ٹاؤن کو شکایات بھی کی گئیں لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
قابل غور اور دکھ کی بات یہ ہے کہ لانڈھی ٹاؤن میں کوئی تھانہ موجود نہیں ہے کیا؟ اگر ہے تو پولیس کا کام صرف جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی ہی کرنا رہ گیا۔ پولیس کے ہوتے ہوئے جرائم پیشہ افراد نے تعلیمی سرگرمیوں کو سبوتاژ کر دیا ہے۔ ہر ذی شعور یہ بات سوچ سکتا ہے کہ اگر اسکولوں سے ہیروئنچیوں اور بدکردار لوگوں کو نکالنے میں پولیس دلچسپی نہیں لے رہی ہے تو اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے، یہی کہ ان سے معمولی رقم سو، دو سو رپے وصول کی جاتی ہو گی۔ اس حقیر رقم کے عوض، انھیں تحفظ اور قوم کے بچوں کا مستقبل تاریک کرنے میں قوم کے محافظوں کا بڑا ہاتھ ہے۔
لانڈھی ٹاؤن کے اسکولوں کے اساتذہ نے ہاتھ جوڑ کر تحفظ اور تبادلے کی درخواست بھی کی، اس موقعے پر فاضل جج نے تھانہ شرافی گوٹھ کو فوری سیکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیا تاہم ہمیشہ کی ہی طرح ایس ایچ او نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ ان کا یہ عمل پوری قوم کے لیے دکھ اور باعث ندامت ہے۔
ان کا مقصد یہی ہے نا کہ وہ تعلیمی اداروں میں اسی قسم کے حالات رکھنا چاہتے ہیں، محکمہ پولیس اور تعلیمی اداروں کی اہم شخصیات، وزیر تعلیم، سیکریٹری تعلیم کی غفلت نے ہی آج پاکستان کو اس موڑ پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ پاکستان کا ہر شہری عدم تحفظ کا شکار ہے، جرائم پیشہ بھی پاکستانی ہی ہیں۔ وہ پیدائشی ایسے نہیں تھے بلکہ انھیں ایسا ماحول دے کر تعلیم کی راہوں کو مسدود کیا گیا ہے۔
وہ تعلیم اور تعلیم کا مقصد بھول گئے اور ایک انجانے اندھیرے راستے کے مسافر بن گئے۔ وہ تو برباد ہوئے ہی ساتھ میں پورا گھرانہ دکھوں کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہو گیا۔ ایک نہیں بے شمار گھرانے اولاد کے بھٹک جانے کی وجہ سے تباہی کی دلدل میں اتر چکے ہیں اس کی وجہ تعلیم سے دوری ہے۔ یقینا جب انسان شعور و دانش سے دور ہو جاتا ہے۔ تب اچھے برے کی تمیز خود بخود مٹ جاتی ہے۔ آج چھوٹے بڑے کا ادب و لحاظ ختم ہو چکا ہے رزق حلال کی اہمیت بھی جاتی رہی۔
سرکاری اسکول ایک طرف اصطبل کا نعم البدل بن چکے ہیں تو دوسری طرف ان اساتذہ کا رویہ بھی افسوسناک ہے، جو اپنی ذمے داریوں کو فراموش کر چکے ہیں۔ ساتھ میں اگر کچھ اسکولوں میں تدریسی امور انجام دیا جا رہا ہے تو ان اسکولوں کی عمارت اس قدر خستہ ہے کہ نہ جانے کس وقت منہدم ہو جائے۔ باتھ روم تک اسکولوں میں نہیں بنائے گئے ہیں، نہ پانی کا انتظام ہے۔ فرنیچر نام کی کوئی چیز نہیں، اگر ہے تو ٹوٹی پھوٹی کرسیوں اور چند میزوں کے علاوہ کوئی سہولت کی چیز میسر نہیں، اساتذہ کے لیے کوئی خاص کمرہ مخصوص نہیں۔ سرکاری اسکولوں کا ایسا ہی حال ہر علاقے میں ہے۔
ابراہیم حیدری کے اسکولوں کا بھی عبرتناک نقشہ تھا۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج منور سلطانہ نے ابراہیم حیدری سمیت ملیر ٹاؤن کے 32 سرکاری اسکولوں کا دورہ کیا۔ عمارتیں منہدم ہو جانے کے خوف سے اساتذہ کھلے آسمان تلے پڑھا رہے تھے، ان اسکولوں میں کہیں ٹینکر مافیا کا قبضہ تھا اور کئی اسکولوں میں رہائش اختیار کی گئی تھی۔ گورنمنٹ پرائمری گرلز اسکول لالہ آباد کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا ایک حصے میں واٹر ٹینکروں مافیا کا قبضہ تھا ان لوگوں نے بڑے بڑے ٹینک بنائے ہوئے تھے اور علاقے کو پانی فروخت کرنے کا کام شروع کیا ہوا تھا۔
اسکول کے دوسرے حصے میں نامعلوم افراد آتشیں اسلحہ چھپاتے ہیں۔ اس خوف سے وہاں لوگ نہیں جا سکتے ہیں، کئی اسکولوں میں ہیڈ ماسٹر بغیر کسی وجہ کے غائب تھے فاضل جج نے ہیڈ ماسٹر کو نا اہلی کی بناء پر معطل کر دیا۔ گرلز اسکول ابراہیم حیدری نمبر ایک میں خاتون چوکیدار نے قبضہ کیا ہوا تھا اور اس نے ببانگ دہل اپنے عزیز و اقارب کو کرائے کے طور پر اسکول کے کمرے فراہم کیے تھے۔ اسکول کے اردگرد قبرستان بھی بنا دیا گیا ہے، تا کہ بچے خوفزدہ رہیں اور اسکول آنا ہی ترک کر دیں۔