الیکشن کا راستہ…جالب کی برسی

سپریم کورٹ اپنے ایک فیصلے میں یہ کہہ چکی ہے کہ ’’شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن خود مختار ہے


Saeed Parvez March 19, 2013

ابھی چند سال پہلے کی بات ہے، ایران میں انتخابات کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں بس دو چار روز بعد نئی پارلیمنٹ کا چنائو ہونا تھا کہ انتہاء درجے کی دہشت گردی کے ذریعے موجود پارلیمنٹ کی عمارت کو بموں کے دھماکوں سے اڑا دیا گیا اور 70 ارکان پارلیمنٹ موقعے پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ یہ مملکت کو ہلا دینے والا واقعہ تھا۔ مگر عظیم انقلابی امام خمینی کے پیروکاروں نے اس درجہ بڑی دہشت گردی کا جواب پوری قوت سے دیتے ہوئے کہا ''انتخابات ملتوی نہیں ہوں گے'' اور پھر انتخابات ہوئے۔

امام خمینی کے افکار ایرانیوں کے لیے مشعل راہ ہیں، جس کی روشنی میں ایران ترقی کی منازل طے کر رہا ہے، مخالفین نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا مگر ایران ایٹمی طاقت بن کے رہا۔ جو قوم ہمت نہیں ہارتی، مسلسل کام کرتی ہے اﷲ بھی ایسے ہی لوگوں کی مدد کرتا ہے۔ سب کو یاد ہو گا امریکا کے جاسوس طیارے ایران کی طرف بڑھے ان کا ٹارگٹ تھا کہ اپنے محصور سفارت کاروں کو بحفاظت نکال لیا جائے مگر امریکی طیارے ایران کے بارڈر کو عبور نہ کر سکے اور گر کر تباہ ہو گئے۔

ہمارے ملک میں بھی انتخابات سر پر آن پہنچے ہیں۔ سپریم کورٹ اپنے ایک فیصلے میں یہ کہہ چکی ہے کہ ''شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن خود مختار ہے'' سپریم کورٹ کا فیصلہ بہت واضح ہے لیکن قوم آگے نہ جانے پائے اس کے لیے ''کچھ لوگ'' مگر طاقتور لوگ رستہ روک رہے ہیں، حیلے بہانوں سے الیکشن کمیشن کے لیے مسائل پیدا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں جب کہ آزاد الیکشن کمیشن اپنے سربراہ مرد آہن فخر الدین جی ابراہیم کی قیادت میں اپنے شیڈول کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے۔

میں پہلے بھی یہ بات فخر الدین جی ابراہیم صاحب کے حوالے سے لکھ چکا ہوں مگر یہاں اس موقعے پر اس بات کو دہرانا بہت ضروری ہے کہ جس وقت ملک میں فخر الدین جی ابراہیم کو چیف الیکشن کمشنر بنانے کی باتیں ہو رہی تھیں انھی دنوں میں ایک ملاقات کے دوران فخر الدین جی ابراہیم نے مجھ سے کہا تھا ''بس اب ایک کام اور اﷲ مجھ سے لے لے کہ میں آزاد اور منصفانہ الیکشن کروانے میں کامیاب ہو جائوں'' یہ الفاظ کہتے ہوئے ان کے چہرے اور آنکھوں میں اپنے رب کے حضور التجا تھی اور حوصلوں کی بھرمار تھی، جیسے وہ شفاف اور منصفانہ الیکشن ہر قیمت پر کروانا چاہتے ہوں۔

فخر الدین جی ابراہیم کی پوری زندگی شفاف اور منصفانہ گزری ہے، اب وہ 86 سال کے ہو چکے ہیں، سوچیے کیا کیا نشیب و فراز ان کی زندگی میں آئے ہونگے، کن کن مقامات و حالات سے وہ گزرے ہونگے اور دنیا جانتی ہے کہ وہ ہر مقام سے سرخرو گزرے۔ ایسا شخص جس نے نیک نامی کمائی ہو، بڑے بڑے عہدے سنبھالے ہوں اور فقیری اپنی جگہ قائم ہو، درویشی چولا نہ اتارا ہو اب وہ شخص اپنے اﷲ کے آگے ملتجی ہے کہ اے میرے اﷲ مجھ سے ایک کام اور لے لے کہ میں اس دکھوں کی ماری قوم کو شفاف اور منصفانہ الیکشن دے دوں، ذرا سوچئے! کہ عمر کے اس حصے میں وہ اپنے ملک، اپنی سر زمین کے لیے کس قدر فکر مند اور بے چین ہیں۔

فخر الدین جی ابراہیم یہ چاہتے ہیں کہ صاف ستھرے لوگ پارلیمنٹ کا حصہ بنیں، کوئی بدعنوان شخص الیکشن میں حصہ نہ لے پائے، آئین کی دفعات 62 اور 63 چیف الیکشن کمشنر کو یہ اختیارات دیتی ہیں اور اسی لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے فیصلہ دے دیا کہ شفاف اور منصفانہ الیکشن کے لیے الیکشن کمیشن خود مختار ہے، اسکروٹنی کے مراحل سے گریزاں جدی، پشتی، سیاسی گھرانے، پریشان ہیں کہ صاف دامن کہاں سے لائیں۔ الیکشن2013 پاکستان کے موجودہ اندرونی و بیرونی گھمبیر حالات کی وجہ سے بہت اہمیت اختیار کر چکے ہیں، ٹیکس نادہندگان، بینکوں کے قرضے ہڑپ کر جانے والے، اربوں کی کرپشن کرنے والے کب چاہیں گے کہ ان کو اسمبلیوں کی کرسیوں سے محروم کر دیا جائے، سو سانحات، حادثات ہو رہے ہیں۔

کبھی کوئٹہ کی ہزارہ برادری، کبھی عباس ٹائون کراچی تو کبھی جوزف کالونی بادامی باغ لاہور، ان کے علاوہ ''پاکستان کے حب'' کراچی شہر میں ٹارگٹ کلنگ کا بازار گرم ہے، بندے اغواء ہوتے ہیں، اگلے روز ان کی لاشیں ملتی ہیں، چلتے پھرتے شہری نشانہ بن رہے ہیں، اورنگی ٹائون کی پچاس سالہ خاتون ڈائریکٹر جنہوں نے اپنی زندگی کے بہترین30 سال غریبوں کی بحالی و خدمت میں لگا دیے اور شادی بھی نہیں کی وہ اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں رہتی تھیں، انھیں گولیاں مار کر ختم کر دیا گیا ہے اور اب ان کی بوڑھی ماں اکیلی رہ گئی ہیں، افسوس کہ وقت نے اس عظیم سماجی کارکن خاتون کو مار دیا کہ جس نے اورنگی ٹائون کے غریبوں کی آبادکاری، بحالی کے لیے اپنی عمر کے30 سال نذر کر دیے، وہ کوئی معروف نام بھی نہ تھا وہ تو خاموشی سے معاشرے کے پسے ہوئے لوگوں کی خدمت کر رہی تھیں مگر پروین رحمٰن کو قتل کر دیا گیا۔

الیکشن کو سبوتاژ کیا جائے اس کے لیے ''دشمن'' نے ساری حدیں عبور کر لی ہیں اور جیسے جیسے الیکشن قریب آ رہا ہے دہشت گردانہ کارروائیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔ حالات گو بہت کٹھن ہیں مگر پھر بھی ''ہم کو چلنا ہے یونہی رات بسر ہونے تک '' اور الیکشن کے راستے سے ہی ہم اپنی منزل کی طرف آگے بڑھ سکیں گے۔

کراچی کے حالات بہت خراب ہیں، پچھلے ایک ہفتے سے رینجرز جگہ جگہ چھاپے مار رہی ہے، ملزمان کو گرفتار کیا جا رہا ہے، پولیس بھی مزید حرکت میں آئی ہے مگر حالات مسلسل بے قابو ہیں، اس بڑے شہر کے لیے مزید اور نتیجہ خیز کاوشوں کی ضرورت ہے۔

شہر کراچی سے خصوصی تعلق رکھنے والے حبیب جالب کی بیسویں برسی ابھی گزری ہے، برسی والے دن تمام چینلز دن اور رات جالب کے بارے میں پروگرام کرتے رہے، ایک پروگرام میں افتخار عارف کہہ رہے تھے ''حبیب جالب پاکستان کا ضمیر بن چکے تھے، ایک اور پروگرام میں اینکر کہہ رہے تھے''آج شاعر عوام حبیب جالب کی برسی منائی جا رہی ہے، وہ حبیب جالب جو زندگی بھر آمروں اور فوجی ڈکٹیٹروں کے خلاف لڑتا رہا آج بھی لوگ اسے یاد کرتے ہیں۔

مگر آمروں اور ڈکٹیروں کی برسی کوئی نہیں مناتا'' مجھے بھی ایک بڑے چینل پر بلایا گیا اور سوالوں کے علاوہ مجھ سے یہ سوال بھی پوچھا گیا ''سانحہ عباس ٹائون، جوزف کالونی اور دیگر دہشت گردی کے واقعات پر حبیب جالب ہوتے تو وہ کیا لکھتے؟'' میں نے جواب دیا کہ آپ کے اس سوال میں جو دکھ چھپا ہوا ہے وہی دکھ مجھے بھی پریشان کیے رکھتا ہے۔ محسن بھوپالی نے لکھا تھا ''نہیں ہے ایک بھی جالب، غزل سرا ہیں بہت'' یقیناً اگر آج جالب زندہ ہوتے تو عباس ٹائون، جوزف نگر، ہزارہ برادری کے سانحات پر تڑپ جاتے'' جالب صاحب کی حیات میں ہی کراچی کے حالات خراب ہونا شروع ہو گئے تھے، اس پر انھوں نے لکھا تھا۔

شہر پہ خوف کے سائے ہیں

یہ کیسے دن آئے ہیں

روتے ہیں پیاسے نیناں

درد کے بادل چھائے ہیں

موت سے لڑنے والے لوگ

گھبرائے، گھبرائے ہیں

چاند سے چہرے، پھول سے لوگ

مرجھائے مرجھائے ہیں

گئے تھے شہر کراچی ہم

آنسو، آہیں لائے ہیں

یارو! جالب کے بارے میں، میں کیا کہوں، اس کے عہد کے ہر ''بڑے آدمی'' نے اس کے حق میں گواہی دی ہے، وہ جگر ہوں، فراق ہوں، فیض ہوں، سبط حسن ہوں، جوش ہوں، کرار حسین ہوں، علی سردار جعفری ہو و دیگر یا خان عبد الغفار خان ہوں، حسین شہید سہروردی ہوں، شورش کاشمیری ہوں، مولانا عطاء اﷲ بخاری، مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، ِمولانا بھاشانی یا نوابزادہ نصراﷲ خان ہوں، ذوالفقار علی بھٹو ہوں، میر غوث بخش بزنجو ہوں، مولانا مودودی ہوں، مولانا عبد الستار خاں نیازی ہوں، چوہدری ظہور الٰہی ہوں، میاں محمود علی قصوری ہوں، سی آر اسلم ہوں اور تو اور جنرل ایوب خان اور نواب کالا باغ نے بھی جالب کا اعتراف کیا، نواب امیر محمد خان آف کالا باغ نے کیا کہا سنیے ''اپنے دور حکومت میں ایک شخص سے میں بہت عاجز رہا، اس کی جائیداد ہوتی تو ضبط کر لیتا، اس کے کھیت ہوتے تو آگ لگا دیتا، دولت ہوتی تو تگنی کا ناچ نچا دیتا، مگر اس کے پاس سوائے شاعری اور ضمیر کے کچھ بھی نہیں، جس میں کچھ نہ بگاڑ سکا اور وہ شخص تھا حبیب جالب۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں