سندھ ہائیکورٹ کے ایم سی ملازمین کی تنخواہیں3یوم میں ادا کرنے کا حکم
54 ہزارملازمین وپنشنرزکوتنخواہوں کی ادائیگی کے لیے حکومت سندھ اور محکمہ فنانس کی کارکردگی پراظہارعدم اطمینان
سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشیرعالم اور جسٹس صادق حسین بھٹی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کے ایم سی کے 54 ہزار ملازمین وپنشنرزکو تنخواہوں کی ادائیگی کیلیے حکومت سندھ کے محکمہ فنانس اور کے ایم سی حکام کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے 3دن میں واجبات کی ادائیگی کا حکم دیا ہے۔
فاضل بینچ نے کے ایم سی حکام کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت 27مارچ کو جواب اور مکمل ریکارڈ کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوں ، واضح رہے کہ عدالت نے گزشتہ سماعت پر حکم دیاتھا کہ پنشن کی مد میں ملنے والی گرانٹ کسی اور مد میں استعمال نہ کی جائے اور فائر بریگیڈ کے ملازمین کیلیے فائر الاؤنس کی ادائیگی کا بھی جائزہ لیا جائے۔
منگل کو دو رکنی بینچ نے ندیم شیخ ایڈوکیٹ اور سجن یونین کی جانب سے چیف سیکریٹری،سیکریٹری خزانہ،سیکریٹری بلدیات،چیف افسر اور فنانشل ایڈوائزرکے ایم سی کے خلاف دائر توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کی۔
درخواست گزاروں محمد اسماعیل شہیدی اور دیگر نے عدالت کو بتایاکہ شہر میں کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں لیکن حکومت اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی ، 1979کے بلدیاتی نظام کی بحالی کے باوجود نہ تو اکاونٹس افسران کاتقرر کیا گیا ہے اورنہ ہی فنڈز فراہم کیے جارہے ہیں ،جس کی وجہ سے صدر ٹاون کے ملازمین تین ماہ سے جبکہ متعدد ٹاونز کے ملازمین دو دو ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔
حکومت سندھ کی جانب ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل میران محمد شاہ نے موقف اختیار کیا کہ کے ایم سی کو وفاق کی جانب سے صوبائی فنانس ایوارڈ کی مد میں رقم فراہم کی جاتی تھی تاہم 17ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کے اجرا کے بعد حکومت سندھ کے ایم سی کو رقم فراہم کرتی ہے۔
کے ایم سی کی جانب سے بہزاد حیدر ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ حکومت سندھ کی جانب سے عدالت کو غلط معلومات فراہم کرکے گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
فاضل بینچ نے کے ایم سی حکام کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت 27مارچ کو جواب اور مکمل ریکارڈ کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوں ، واضح رہے کہ عدالت نے گزشتہ سماعت پر حکم دیاتھا کہ پنشن کی مد میں ملنے والی گرانٹ کسی اور مد میں استعمال نہ کی جائے اور فائر بریگیڈ کے ملازمین کیلیے فائر الاؤنس کی ادائیگی کا بھی جائزہ لیا جائے۔
منگل کو دو رکنی بینچ نے ندیم شیخ ایڈوکیٹ اور سجن یونین کی جانب سے چیف سیکریٹری،سیکریٹری خزانہ،سیکریٹری بلدیات،چیف افسر اور فنانشل ایڈوائزرکے ایم سی کے خلاف دائر توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کی۔
درخواست گزاروں محمد اسماعیل شہیدی اور دیگر نے عدالت کو بتایاکہ شہر میں کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں لیکن حکومت اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی ، 1979کے بلدیاتی نظام کی بحالی کے باوجود نہ تو اکاونٹس افسران کاتقرر کیا گیا ہے اورنہ ہی فنڈز فراہم کیے جارہے ہیں ،جس کی وجہ سے صدر ٹاون کے ملازمین تین ماہ سے جبکہ متعدد ٹاونز کے ملازمین دو دو ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔
حکومت سندھ کی جانب ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل میران محمد شاہ نے موقف اختیار کیا کہ کے ایم سی کو وفاق کی جانب سے صوبائی فنانس ایوارڈ کی مد میں رقم فراہم کی جاتی تھی تاہم 17ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کے اجرا کے بعد حکومت سندھ کے ایم سی کو رقم فراہم کرتی ہے۔
کے ایم سی کی جانب سے بہزاد حیدر ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ حکومت سندھ کی جانب سے عدالت کو غلط معلومات فراہم کرکے گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔