خوبصورت خیال کے پھول بانٹتا تھا
گھرکے لان میں گلاب کی مہک ،دریائے سندھ کی خوشبو سے مل کر فضاؤں میں جادو سا جگانے لگتی
بچپن کے دن مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔
یہ دن کھیل کود، فطرت کے مناظر اورکتابوں کی یادوں سے سجے ہیں۔ سندھ کے مختلف شہروں کو قریب سے دیکھنے کا اعزاز حاصل ہوا،وہ تمام شہر خوبصورت تھے۔ جوہی شہرکی یادیں اکثر ذہن پر دستک دیتی ہیں۔ درخت، دریا کا کنارہ اور مٹی کے بگولے اپنی طرف بلاتے ہیں۔ بچپن کا کچھ حصہ جامشوروکالونی میں گزرا۔
گھرکے لان میں گلاب کی مہک ،دریائے سندھ کی خوشبو سے مل کر فضاؤں میں جادو سا جگانے لگتی۔ گھرکی دیواروں پر بوگن ویلیا لہلہاتے۔ نیم اور پیپل کے درختوں کی گھنی چھاؤں تلے، دوپہر میں بھی کھیلتے رہتے۔ سیاہ راتوں میں ستاروں کی طرح ٹمٹماتے جگنو طلسماتی دنیا کا حصہ دکھائی دیتے۔
گھرکے سامنے ایک ایسا گھر تھا جو امرود کے درختوں میں گھرا رہتا ۔ امرود کی مہک اور اس گھر میں موجود لائبریری اپنی طرف کھینچتے۔ میں اور میری دوست فرح ناز کو کتاب سے بے حد شغف تھا۔ اس زمانے میں '' ہمدرد نونہال'' اور ''بچوں کی دنیا'' ہمارے پسندیدہ مقبول ماہنامے تھے۔گاؤں میں بھی بڑوں کی لائبریری تھی ۔ کزن سے کہہ رکھا تھا کہ کوئی بھی گاؤں سے آئے تو کتابیں ضرور بھیجنا۔ ایک طرف سندھی کی لوک کہانیاں زیر مطالعہ رہیں تو دوسری جانب بچوں کے رسالے پڑھا کرتے۔یہ حقیقت ہے کہ لوک ادب خاص طور پر لوک کہانیاں بچوں کی تصوراتی طاقت کو فروغ دیتے ہیں بلکہ انھیں حکمت عملی کے جوہر سے بہرہ ور کرتے ہیں۔دنیا کی ہر زبان میں لوک کہانیاں موجود ہیں۔ یہ ادب پڑھنے والے بچے ذہین، فعال اور تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔ مختلف زبانوں کے لوک ادب کا ذخیرہ انگریزی زبان میں دستیاب ہے۔ جس میں قصے، حکایتیں، داستان و رزمیہ داستان وغیرہ شامل ہیں۔
سندھی میں لوک ادب کی کہانیاں نہ فقط موضوع و اخلاقی پیغام کے حوالے سے بہترین ہیں۔ یہ لوک کہانیاں سادہ، معلوماتی اور زبان کی چاشنی سے بھرپور ہیں۔ جس زبان میں لوک ادب کا ورثہ موجود ہو اسے دنیا کی اہم ترین زبانوں میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ سندھی زبان میں لوک ادب کا حصہ بھرپورومربوط ہے۔ سندھ کے معروف محقق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے لوک ادب کی کہانیوں کو ترتیب دینے کا گراں قدر کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ یہ لوک کہانیاں بادشاہوں، سوداگروں، پریوں، دیو وجادوگروں، چڑیلوں، سمجھدار ٹھگوں و عام لوگوں پر مشتمل ہیں۔ جانوروں اور پرندوں کے حوالے سے بھی کہانیاں ملتی ہیں۔
انگریزی میں بیوٹی اینڈ دی بیسٹ، سنڈریلا، سلیپنگ بیوٹی و دیگر کہانیاں موجود ہیں۔ والدین یا گھر کے بڑے جب بچوں کو کہانیاں سناتے ہیں تو یہ بچے خوش مزاج اورکارآمد فرد بنتے ہیں۔ جو خاندان و معاشرے کے لیے بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ ساتھ مل بیٹھنے اورکہانیاں سننے اور سنانے کے درمیان آپس میں ذہنی اور روحانی تعلق جڑ جاتا ہے جسے Neural Coupling کہا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار سے سوجھ بوجھ، فہم و فراست میں اضافہ ہوتا ہے اور رابطے و تعلق سے مضبوط ہوتے ہیں۔ اخلاقی و انسانی قدریں مستحکم ہوتی ہیں اور محبت کا رجحان دکھائی دیتا ہے۔
آجکل بچے موبائل وکمپیوٹرز کے خبط میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ ٹیلی وژن، سینما یا مشینیں، کتاب کا نعم البدل نہیں ہوسکتے۔ جن معاشروں نے کتاب سے رابطہ نہیں توڑا، وہاں سماجی شعور اور مثبت رویے ملتے ہیں۔ بقول ایک مفکر '' بچوں کی ابتدائی زندگی میں انھیں تخلیقی کاموں و فطرت کے قریب رکھنا چاہیے۔ تاکہ وہ حسیاتی طور پر متحرک ہوسکیں۔ ان مشاغل میں کتاب کا مطالعہ سرفہرست ہے۔''
مجھے یاد ہے کہ ہمدرد نونہال ایک ایسا رسالہ تھا، جو ہر ماہ اپنے دامن میں معلومات کا خزانہ سمیٹے آتا اور ذہن میں ایک تصوراتی کھڑکی وا ہوجاتی۔ اس کھڑکی کے باہر ایک خوبصورت طلسماتی دنیا موجود تھی۔ ان کہانیوں میں موضوعات ایک مضبوط کردار کے اردگرد گھومتے۔ جو مشکلات کا سامنا کرنا جانتا تھا۔ یہ کردار حالات کی بھول بھلیوں سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوجاتے۔ یا ایسے کردار ہوتے جو دوسروں کی مدد کرنے کو اولین فرض سمجھتے۔ چاہے لوک کہانیاں ہوں یا عام موضوعات، ان میں بچوں کی بہترین ذہنی تربیت کے اصلاحی پہلو نمایاں تھے، مگر آج ہمارے بچے مشینوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہوئے، احساس سے عاری نظر آتے ہیں۔
موبائل کی ریڈیائی لہریں حواسوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ذہن کو دیر تک متحرک اور مصروف رکھنا، ذہنی صحت کے لیے نقصان دے ثابت ہوتا ہے۔ ذہن کو فعال رکھنے کے لیے اسے پرسکون رکھنا بے حد ضروری ہے۔ آج بچوں کی حالت دیکھ لیجیے کہ کس قدر لاتعلق اور جسمانی طور پر غیرفعال نظر آتے ہیں۔ ان کے مسائل کا حل کتاب اور تعمیری سرگرمیوں میں پوشیدہ ہے۔ کھیل کود اور کھلی فضا سے دور، آج کے نوجوان ڈپریشن و اینگزائیٹی کا شکار ہوچکے ہیں۔ بچوں کے لیے اسٹڈی سرکلز کا تشکیل پانا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ گھر و تعلیمی اداروں کو مل کر مطالعے کے ذوق کو فروغ دینا چاہیے۔
ہمدرد نونہال بچوں کا ایک ایسا رسالہ تھا جو گزشتہ 65 سال سے مستقل بلاناغہ شایع ہو رہا تھا۔ جس کے لیے نونہال کے مدیر مسعود احمد برکاتی کی کوششیں و کاوشیں قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے بچوں کے لیے اپنی نوعیت کا پہلا سفرنامہ تحریر کیا تھا۔ علمی خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے بچوں کے ادب کو فروغ دینے میں مصروف رہے۔ حکیم محمد سعید کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ آپ کا تعلق ہندوستان کی ریاست ٹونک سے تھا۔ تقسیم ہند کے بعد جب پاکستان آئے کافی عرصہ ہمدرد فاؤنڈیشن سے وابستہ رہے۔ ہمدرد صحت کے مدیر، منتظم اور ہمدرد وقف پاکستان کے ٹرسٹی اور پبلی کیشنز ڈویژن کے سینئر ڈائریکٹر تھے۔ مسعود احمد برکاتی 11 دسمبر کو 87 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمدرد نونہال نے اس ملک کے کئی بچوں کی ذہنی تربیت کی اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارا۔ اس ضمن میں مرحوم مسعود احمد برکاتی کا نام سنہری حروف میں وقت کی تاریخ کا حصہ بنے گا۔ کہ کوئی مدبر شخص ایسا بھی تھا جو پینسٹھ برس تک مستقل بچوں میں خوبصورت خیال کے پھول بانٹتا رہا۔
آج ملک میں کتنے لوگ ہیں جو بچوں کی فلاح و بہبود اور ذہنی بہتری کے لیے سوچتے ہیں۔ موجودہ دور میں ہمارے بچے و نوجوان ذہنی تھکن و منفی رویوں کا شکار ہیں۔ ہمیں ان بچوں کو یکسانیت کے بھنور سے باہر نکالنے کے لیے کوئی مربوط حکمت عملی ترتیب دینی پڑے گی۔
بچوں میں مطالعے کا ذوق بحال کرنے کے لیے تعلیمی اداروں کے ویران کتب خانوں کو دوبارہ سرگرم کرنا پڑے گا۔ بچوں کے نصاب میں لوک ادب کی کہانیاں بھی شامل کرنی پڑیں گی۔سرکاری اسکولوں میں ایک پیریڈ لائبریری کا بھی ہونا چاہیے۔ مطالعے کی اہمیت پر سیمینار، ورک شاپس و مذاکرے منعقد کیے جانے چاہئیں۔سندھی زبان میں لوک ادب کے خزانے کو منظرعام پر لانے کے لیے اردو میں ترجمہ اشد ضروری ہے۔ ان کہانیوں کو نصاب میں شامل کرنا چاہیے۔
بچے ہر قوم کا قیمتی سرمایہ اور مستقبل کے معمار ہیں۔ والدین قیمتی وقت اگر انھیں دیں گے تو آنے والے کل میں یہی وقت ان بچوں کی اخلاقی و روحانی طاقت بنے گا۔ آج بڑوں کے ذہنی تضادات اور اختلافات کے درمیان یہ بچے، بچپن کے فطری پن سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں موبائل کی جگہ کتاب ہونی چاہیے۔
یہ دن کھیل کود، فطرت کے مناظر اورکتابوں کی یادوں سے سجے ہیں۔ سندھ کے مختلف شہروں کو قریب سے دیکھنے کا اعزاز حاصل ہوا،وہ تمام شہر خوبصورت تھے۔ جوہی شہرکی یادیں اکثر ذہن پر دستک دیتی ہیں۔ درخت، دریا کا کنارہ اور مٹی کے بگولے اپنی طرف بلاتے ہیں۔ بچپن کا کچھ حصہ جامشوروکالونی میں گزرا۔
گھرکے لان میں گلاب کی مہک ،دریائے سندھ کی خوشبو سے مل کر فضاؤں میں جادو سا جگانے لگتی۔ گھرکی دیواروں پر بوگن ویلیا لہلہاتے۔ نیم اور پیپل کے درختوں کی گھنی چھاؤں تلے، دوپہر میں بھی کھیلتے رہتے۔ سیاہ راتوں میں ستاروں کی طرح ٹمٹماتے جگنو طلسماتی دنیا کا حصہ دکھائی دیتے۔
گھرکے سامنے ایک ایسا گھر تھا جو امرود کے درختوں میں گھرا رہتا ۔ امرود کی مہک اور اس گھر میں موجود لائبریری اپنی طرف کھینچتے۔ میں اور میری دوست فرح ناز کو کتاب سے بے حد شغف تھا۔ اس زمانے میں '' ہمدرد نونہال'' اور ''بچوں کی دنیا'' ہمارے پسندیدہ مقبول ماہنامے تھے۔گاؤں میں بھی بڑوں کی لائبریری تھی ۔ کزن سے کہہ رکھا تھا کہ کوئی بھی گاؤں سے آئے تو کتابیں ضرور بھیجنا۔ ایک طرف سندھی کی لوک کہانیاں زیر مطالعہ رہیں تو دوسری جانب بچوں کے رسالے پڑھا کرتے۔یہ حقیقت ہے کہ لوک ادب خاص طور پر لوک کہانیاں بچوں کی تصوراتی طاقت کو فروغ دیتے ہیں بلکہ انھیں حکمت عملی کے جوہر سے بہرہ ور کرتے ہیں۔دنیا کی ہر زبان میں لوک کہانیاں موجود ہیں۔ یہ ادب پڑھنے والے بچے ذہین، فعال اور تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔ مختلف زبانوں کے لوک ادب کا ذخیرہ انگریزی زبان میں دستیاب ہے۔ جس میں قصے، حکایتیں، داستان و رزمیہ داستان وغیرہ شامل ہیں۔
سندھی میں لوک ادب کی کہانیاں نہ فقط موضوع و اخلاقی پیغام کے حوالے سے بہترین ہیں۔ یہ لوک کہانیاں سادہ، معلوماتی اور زبان کی چاشنی سے بھرپور ہیں۔ جس زبان میں لوک ادب کا ورثہ موجود ہو اسے دنیا کی اہم ترین زبانوں میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ سندھی زبان میں لوک ادب کا حصہ بھرپورومربوط ہے۔ سندھ کے معروف محقق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے لوک ادب کی کہانیوں کو ترتیب دینے کا گراں قدر کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ یہ لوک کہانیاں بادشاہوں، سوداگروں، پریوں، دیو وجادوگروں، چڑیلوں، سمجھدار ٹھگوں و عام لوگوں پر مشتمل ہیں۔ جانوروں اور پرندوں کے حوالے سے بھی کہانیاں ملتی ہیں۔
انگریزی میں بیوٹی اینڈ دی بیسٹ، سنڈریلا، سلیپنگ بیوٹی و دیگر کہانیاں موجود ہیں۔ والدین یا گھر کے بڑے جب بچوں کو کہانیاں سناتے ہیں تو یہ بچے خوش مزاج اورکارآمد فرد بنتے ہیں۔ جو خاندان و معاشرے کے لیے بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ ساتھ مل بیٹھنے اورکہانیاں سننے اور سنانے کے درمیان آپس میں ذہنی اور روحانی تعلق جڑ جاتا ہے جسے Neural Coupling کہا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار سے سوجھ بوجھ، فہم و فراست میں اضافہ ہوتا ہے اور رابطے و تعلق سے مضبوط ہوتے ہیں۔ اخلاقی و انسانی قدریں مستحکم ہوتی ہیں اور محبت کا رجحان دکھائی دیتا ہے۔
آجکل بچے موبائل وکمپیوٹرز کے خبط میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ ٹیلی وژن، سینما یا مشینیں، کتاب کا نعم البدل نہیں ہوسکتے۔ جن معاشروں نے کتاب سے رابطہ نہیں توڑا، وہاں سماجی شعور اور مثبت رویے ملتے ہیں۔ بقول ایک مفکر '' بچوں کی ابتدائی زندگی میں انھیں تخلیقی کاموں و فطرت کے قریب رکھنا چاہیے۔ تاکہ وہ حسیاتی طور پر متحرک ہوسکیں۔ ان مشاغل میں کتاب کا مطالعہ سرفہرست ہے۔''
مجھے یاد ہے کہ ہمدرد نونہال ایک ایسا رسالہ تھا، جو ہر ماہ اپنے دامن میں معلومات کا خزانہ سمیٹے آتا اور ذہن میں ایک تصوراتی کھڑکی وا ہوجاتی۔ اس کھڑکی کے باہر ایک خوبصورت طلسماتی دنیا موجود تھی۔ ان کہانیوں میں موضوعات ایک مضبوط کردار کے اردگرد گھومتے۔ جو مشکلات کا سامنا کرنا جانتا تھا۔ یہ کردار حالات کی بھول بھلیوں سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوجاتے۔ یا ایسے کردار ہوتے جو دوسروں کی مدد کرنے کو اولین فرض سمجھتے۔ چاہے لوک کہانیاں ہوں یا عام موضوعات، ان میں بچوں کی بہترین ذہنی تربیت کے اصلاحی پہلو نمایاں تھے، مگر آج ہمارے بچے مشینوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہوئے، احساس سے عاری نظر آتے ہیں۔
موبائل کی ریڈیائی لہریں حواسوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ذہن کو دیر تک متحرک اور مصروف رکھنا، ذہنی صحت کے لیے نقصان دے ثابت ہوتا ہے۔ ذہن کو فعال رکھنے کے لیے اسے پرسکون رکھنا بے حد ضروری ہے۔ آج بچوں کی حالت دیکھ لیجیے کہ کس قدر لاتعلق اور جسمانی طور پر غیرفعال نظر آتے ہیں۔ ان کے مسائل کا حل کتاب اور تعمیری سرگرمیوں میں پوشیدہ ہے۔ کھیل کود اور کھلی فضا سے دور، آج کے نوجوان ڈپریشن و اینگزائیٹی کا شکار ہوچکے ہیں۔ بچوں کے لیے اسٹڈی سرکلز کا تشکیل پانا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ گھر و تعلیمی اداروں کو مل کر مطالعے کے ذوق کو فروغ دینا چاہیے۔
ہمدرد نونہال بچوں کا ایک ایسا رسالہ تھا جو گزشتہ 65 سال سے مستقل بلاناغہ شایع ہو رہا تھا۔ جس کے لیے نونہال کے مدیر مسعود احمد برکاتی کی کوششیں و کاوشیں قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے بچوں کے لیے اپنی نوعیت کا پہلا سفرنامہ تحریر کیا تھا۔ علمی خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے بچوں کے ادب کو فروغ دینے میں مصروف رہے۔ حکیم محمد سعید کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ آپ کا تعلق ہندوستان کی ریاست ٹونک سے تھا۔ تقسیم ہند کے بعد جب پاکستان آئے کافی عرصہ ہمدرد فاؤنڈیشن سے وابستہ رہے۔ ہمدرد صحت کے مدیر، منتظم اور ہمدرد وقف پاکستان کے ٹرسٹی اور پبلی کیشنز ڈویژن کے سینئر ڈائریکٹر تھے۔ مسعود احمد برکاتی 11 دسمبر کو 87 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمدرد نونہال نے اس ملک کے کئی بچوں کی ذہنی تربیت کی اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارا۔ اس ضمن میں مرحوم مسعود احمد برکاتی کا نام سنہری حروف میں وقت کی تاریخ کا حصہ بنے گا۔ کہ کوئی مدبر شخص ایسا بھی تھا جو پینسٹھ برس تک مستقل بچوں میں خوبصورت خیال کے پھول بانٹتا رہا۔
آج ملک میں کتنے لوگ ہیں جو بچوں کی فلاح و بہبود اور ذہنی بہتری کے لیے سوچتے ہیں۔ موجودہ دور میں ہمارے بچے و نوجوان ذہنی تھکن و منفی رویوں کا شکار ہیں۔ ہمیں ان بچوں کو یکسانیت کے بھنور سے باہر نکالنے کے لیے کوئی مربوط حکمت عملی ترتیب دینی پڑے گی۔
بچوں میں مطالعے کا ذوق بحال کرنے کے لیے تعلیمی اداروں کے ویران کتب خانوں کو دوبارہ سرگرم کرنا پڑے گا۔ بچوں کے نصاب میں لوک ادب کی کہانیاں بھی شامل کرنی پڑیں گی۔سرکاری اسکولوں میں ایک پیریڈ لائبریری کا بھی ہونا چاہیے۔ مطالعے کی اہمیت پر سیمینار، ورک شاپس و مذاکرے منعقد کیے جانے چاہئیں۔سندھی زبان میں لوک ادب کے خزانے کو منظرعام پر لانے کے لیے اردو میں ترجمہ اشد ضروری ہے۔ ان کہانیوں کو نصاب میں شامل کرنا چاہیے۔
بچے ہر قوم کا قیمتی سرمایہ اور مستقبل کے معمار ہیں۔ والدین قیمتی وقت اگر انھیں دیں گے تو آنے والے کل میں یہی وقت ان بچوں کی اخلاقی و روحانی طاقت بنے گا۔ آج بڑوں کے ذہنی تضادات اور اختلافات کے درمیان یہ بچے، بچپن کے فطری پن سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں موبائل کی جگہ کتاب ہونی چاہیے۔