نظریہ ضرورت کی ضد
دنیا بھر میں پاکستان کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کو خوش آیند قرار دیا جا رہا تھا
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا یہ المیہ ہے، اس کی ستر سالہ عمر رواں کا نصف حصہ فوجی آمروں کے زیر سایہ بسر ہوا اور ملک میں حقیقی معنوں میں جمہوریت پروان نہ چڑھ سکی۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کو آمروں نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ کسی نے آئین کو محض ''کاغذ کا ٹکڑا'' کہا تو کسی نے آئین کا حلیہ ترامیم کر کے بگاڑا، الغرض جو آمر بھی آیا اس نے آئین کو نظراندازکیا اور اپنی طاقت کے بل بوتے پر حکومت کی۔ اور ہم ایک آمرکے دور میں اپنے ایک بازو (مشرقی پاکستان) سے محروم ہو گئے۔
عدالتوں نے اپنے فیصلوں کے ذریعے نظریہ ضرورت کو جنم دیا۔ الغرض ایک جمہوری ریاست کا حلیہ بگاڑ دیا گیا اور ہم کسی بھی سمت کے تعین کے بغیر سفر کرتے رہے، ایک ایسا سفر جس کی کوئی منزل نہ تھی،کوئی راہ متعین نہیں تھی۔ بعض سیاست دان آمروں کے اور بعض اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار بنے تو رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہ کر سکا اور سب کوگھر بھیج دیا گیا، حالانکہ وہ عوام کے منتخب کردہ تھے۔ اسی نظریہ ضرورت کا تازہ ترین شکار نواز شریف بنے۔ ماضی کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے غالب امکان یہی تھا، وہ دیگر سابق وزرائے اعظم کی طرح گھر بیٹھ جائیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا، نا اہلی کے متنازع فیصلے کے بعد جمہوریت کے استحکام، ووٹ کے تقدس، منتخب وزیر اعظم کے وقار کی بحالی اور آئین توڑنے والوں کے خلاف دلیرانہ جدوجہد کا استعارہ بن گئے ہیں۔ بلاشبہ اپنے بیٹے سے خیالی تنخواہ نہ لینے کے جرم کی پاداش میں جس طرح انھیں وزارت عظمیٰ سے علیحدہ کیا گیا اسے عوام کی اکثریت محض سازش قرار دیتی ہے۔ حالانکہ اس سازش سے ملک کو سیاسی اور مالی طور پر ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
جب محمد نواز شریف نے 2013ء میں اقتدار سنبھالا تھا اس وقت ملک کی حالت انتہائی قابل رحم تھی۔ ملک بھر میں دہشت گردی عروج پر تھی۔ کراچی سے وزیرستان تک عوام امن کو ترس گئے تھے۔ پاکستان میں بجلی کا بحران بدترین صورت اختیار کر چکا تھا اور ملک کے بیشتر علاقوں میں 20، 20 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہو رہی تھی۔ معیشت تباہ ہو چکی تھی، مہنگائی کا بے قابو جن کسی طرح کنٹرول میں نہیں آ رہا تھا۔ اس صورت میں محمد نوازشریف نے اقتدار سنبھالتے ہی قوم سے تین وعدے کیے تھے۔ دہشتگردی کا خاتمہ کر کے امن قائم کرنا، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ اور معیشت کو بہتر بنانا۔ اگر ان کے حالیہ چار سالہ دور کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انھوں نے قوم سے جو وعدے کیے تھے وہ قبل از وقت پورے کیے۔ دنیا بھر میں پاکستان کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کو خوش آیند قرار دیا جا رہا تھا۔ اس تناظر میں مسلم لیگ(ن) کے سوشل میڈیا کنونشن سے خطاب کے دوران نوازشریف کا یہ کہنا بالکل بجا دکھائی دیتا ہے کہ اس عدالتی فیصلے کے بعد ملکی ترقی رک گئی، زرمبادلہ کے ذخائرکم ہو گئے۔ اسٹاک مارکیٹ گر گئی اور دنیا بھر میں سیاسی جگ ہنسائی بھی خوب ہوئی کہ ایک منتخب عوامی وزیر اعظم کو اقتدار سے اس طرح الگ کر دیا گیا جس طرح دودھ سے مکھی نکال دی جاتی ہے۔
بعض حلقے یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ محمد نوازشریف کی اسٹیبلشمنٹ سے کبھی نہیں بنی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی پاکستان کے کس وزیراعظم کے ساتھ بنی۔ تقریباً 18 وزرائے اعظم کو اسٹیبلشمنٹ نے قبل از وقت اقتدار سے محروم کر دیا۔ لہٰذا ان پر اس الزام میں کوئی سچائی دکھائی نہیں دیتی۔ اس حوالے سے سابق وزیر اعظم نے عدالتی فیصلے پر بھی نکتہ چینی کی۔ انھوں نے واضح کیا کہ انصاف کے دو پیمانے اور ناانصافی نہیں چلے گی۔ آمروں کو عدالتوں نے خوش آمدید کہا، کسی کی سیاسی خواہشات پر انصاف کے پیمانے طے نہیں ہوتے۔ یہ نہیں ہونے دیں گے کہ شریف خاندان کے لیے ایک الگ اور عمران خان اور ان کی جماعت کے لیے الگ پیمانے ہوں۔ مقدمے کی منصفانہ کارروائی ہر انسان کا حق ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہی معاملہ سابق آمر جنرل پرویز مشرف کا ہے۔ اسی لیے محمد نوازشریف نے سوال کیا کہ آخر ایسی کوئی عدالت ہے جو پرویز مشرف کے خلاف بھی فیصلہ دے۔ یقینا اگر سیاست دانوں پر آئین کا آرٹیکل 62, 63 لاگو ہوتا ہے تو آئین توڑنے والوں پر بھی آرٹیکل کا اطلاق ہوتا ہے مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔
یہی وہ حالات ہیں جنہوں نے نوازشریف کو اقتدار سے محرومی کے بعد پنڈی سے لاہور مارچ کرنے اور آئین اور ووٹ کے تقدس کی بحالی کی تحریک چلانے پر مجبور کیا اور ان کی کال پر عوام جوق درجوق چلے آئے۔ سڑکوں پر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ جس سے ثابت ہوگیا کہ عوام مائنس ون کے فارمولے کو مسترد کرتے ہیں اور جیسے عوام پلس کر لیں پھر اسے کوئی بھی مائنس نہیں کر سکتا ۔ جمہوریت میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں چلے گی۔ ایمپائرکی انگلی کے اشارے پر ناچنے والوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ نوازشریف کا سیاسی نظریاتی بیانیہ، نظریہ ضرورت کی ضد ہے۔ اس نظریے کے تحت ایک منتخب عوامی وزیراعظم کی بھی عزت ہونی چاہیے۔ عوام کے ووٹ کے تقدس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ عوام اور عوام کے منتخب نمایندوں سے 70 برس سے جاری زیادتیاں اب ختم ہونی چاہئیں، آئین توڑنے والوں کا حساب ہونا چاہیے۔ انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ جس لاڈلے کو عدلیہ نے چھوڑا ہے وہ ہمیشہ انتخابات میں دھاندلی کا راستہ ڈھونڈتا ہے، لیکن 2018ء کے الیکشن میں وہ کلین بولڈ ہو جائے گا کیونکہ اب دھرنا مافیا کی سیاست ختم ہونی چاہیے اور اقتدار صرف اور صرف عوام کے حقیقی نمایندوں کا حق ہے۔
عدالتوں نے اپنے فیصلوں کے ذریعے نظریہ ضرورت کو جنم دیا۔ الغرض ایک جمہوری ریاست کا حلیہ بگاڑ دیا گیا اور ہم کسی بھی سمت کے تعین کے بغیر سفر کرتے رہے، ایک ایسا سفر جس کی کوئی منزل نہ تھی،کوئی راہ متعین نہیں تھی۔ بعض سیاست دان آمروں کے اور بعض اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار بنے تو رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہ کر سکا اور سب کوگھر بھیج دیا گیا، حالانکہ وہ عوام کے منتخب کردہ تھے۔ اسی نظریہ ضرورت کا تازہ ترین شکار نواز شریف بنے۔ ماضی کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے غالب امکان یہی تھا، وہ دیگر سابق وزرائے اعظم کی طرح گھر بیٹھ جائیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا، نا اہلی کے متنازع فیصلے کے بعد جمہوریت کے استحکام، ووٹ کے تقدس، منتخب وزیر اعظم کے وقار کی بحالی اور آئین توڑنے والوں کے خلاف دلیرانہ جدوجہد کا استعارہ بن گئے ہیں۔ بلاشبہ اپنے بیٹے سے خیالی تنخواہ نہ لینے کے جرم کی پاداش میں جس طرح انھیں وزارت عظمیٰ سے علیحدہ کیا گیا اسے عوام کی اکثریت محض سازش قرار دیتی ہے۔ حالانکہ اس سازش سے ملک کو سیاسی اور مالی طور پر ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
جب محمد نواز شریف نے 2013ء میں اقتدار سنبھالا تھا اس وقت ملک کی حالت انتہائی قابل رحم تھی۔ ملک بھر میں دہشت گردی عروج پر تھی۔ کراچی سے وزیرستان تک عوام امن کو ترس گئے تھے۔ پاکستان میں بجلی کا بحران بدترین صورت اختیار کر چکا تھا اور ملک کے بیشتر علاقوں میں 20، 20 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہو رہی تھی۔ معیشت تباہ ہو چکی تھی، مہنگائی کا بے قابو جن کسی طرح کنٹرول میں نہیں آ رہا تھا۔ اس صورت میں محمد نوازشریف نے اقتدار سنبھالتے ہی قوم سے تین وعدے کیے تھے۔ دہشتگردی کا خاتمہ کر کے امن قائم کرنا، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ اور معیشت کو بہتر بنانا۔ اگر ان کے حالیہ چار سالہ دور کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انھوں نے قوم سے جو وعدے کیے تھے وہ قبل از وقت پورے کیے۔ دنیا بھر میں پاکستان کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کو خوش آیند قرار دیا جا رہا تھا۔ اس تناظر میں مسلم لیگ(ن) کے سوشل میڈیا کنونشن سے خطاب کے دوران نوازشریف کا یہ کہنا بالکل بجا دکھائی دیتا ہے کہ اس عدالتی فیصلے کے بعد ملکی ترقی رک گئی، زرمبادلہ کے ذخائرکم ہو گئے۔ اسٹاک مارکیٹ گر گئی اور دنیا بھر میں سیاسی جگ ہنسائی بھی خوب ہوئی کہ ایک منتخب عوامی وزیر اعظم کو اقتدار سے اس طرح الگ کر دیا گیا جس طرح دودھ سے مکھی نکال دی جاتی ہے۔
بعض حلقے یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ محمد نوازشریف کی اسٹیبلشمنٹ سے کبھی نہیں بنی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی پاکستان کے کس وزیراعظم کے ساتھ بنی۔ تقریباً 18 وزرائے اعظم کو اسٹیبلشمنٹ نے قبل از وقت اقتدار سے محروم کر دیا۔ لہٰذا ان پر اس الزام میں کوئی سچائی دکھائی نہیں دیتی۔ اس حوالے سے سابق وزیر اعظم نے عدالتی فیصلے پر بھی نکتہ چینی کی۔ انھوں نے واضح کیا کہ انصاف کے دو پیمانے اور ناانصافی نہیں چلے گی۔ آمروں کو عدالتوں نے خوش آمدید کہا، کسی کی سیاسی خواہشات پر انصاف کے پیمانے طے نہیں ہوتے۔ یہ نہیں ہونے دیں گے کہ شریف خاندان کے لیے ایک الگ اور عمران خان اور ان کی جماعت کے لیے الگ پیمانے ہوں۔ مقدمے کی منصفانہ کارروائی ہر انسان کا حق ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہی معاملہ سابق آمر جنرل پرویز مشرف کا ہے۔ اسی لیے محمد نوازشریف نے سوال کیا کہ آخر ایسی کوئی عدالت ہے جو پرویز مشرف کے خلاف بھی فیصلہ دے۔ یقینا اگر سیاست دانوں پر آئین کا آرٹیکل 62, 63 لاگو ہوتا ہے تو آئین توڑنے والوں پر بھی آرٹیکل کا اطلاق ہوتا ہے مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔
یہی وہ حالات ہیں جنہوں نے نوازشریف کو اقتدار سے محرومی کے بعد پنڈی سے لاہور مارچ کرنے اور آئین اور ووٹ کے تقدس کی بحالی کی تحریک چلانے پر مجبور کیا اور ان کی کال پر عوام جوق درجوق چلے آئے۔ سڑکوں پر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ جس سے ثابت ہوگیا کہ عوام مائنس ون کے فارمولے کو مسترد کرتے ہیں اور جیسے عوام پلس کر لیں پھر اسے کوئی بھی مائنس نہیں کر سکتا ۔ جمہوریت میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں چلے گی۔ ایمپائرکی انگلی کے اشارے پر ناچنے والوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ نوازشریف کا سیاسی نظریاتی بیانیہ، نظریہ ضرورت کی ضد ہے۔ اس نظریے کے تحت ایک منتخب عوامی وزیراعظم کی بھی عزت ہونی چاہیے۔ عوام کے ووٹ کے تقدس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ عوام اور عوام کے منتخب نمایندوں سے 70 برس سے جاری زیادتیاں اب ختم ہونی چاہئیں، آئین توڑنے والوں کا حساب ہونا چاہیے۔ انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ جس لاڈلے کو عدلیہ نے چھوڑا ہے وہ ہمیشہ انتخابات میں دھاندلی کا راستہ ڈھونڈتا ہے، لیکن 2018ء کے الیکشن میں وہ کلین بولڈ ہو جائے گا کیونکہ اب دھرنا مافیا کی سیاست ختم ہونی چاہیے اور اقتدار صرف اور صرف عوام کے حقیقی نمایندوں کا حق ہے۔