پاک امریکا تعلقات
اس وقت امریکا میں ٹرمپ اور ان کے دفاعی ادارے پینٹاگون کا راج ہے
پاک امریکا تعلقات میں بہت سے نشیب وفراز آئے اور یوں ہمارے ان کے ساتھ 70 سال بیت گئے، لیکن اب کی بار جو دوریاں واقع ہوئی ہیں، ایسی مثال ماضی میں نہیں ملتی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکا کی تاریخ میں جتنی بد ترین قیادت اب کے بار موجود ہے، اس کی بھی مثال ان کی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔
ان ستر سالوں کی تاریخ میں دنیا بھی بہت بدلی ہے ہم بیسویں صدی سے اکیسویں صدی میں داخل ہوئے، سویت یونین ٹوٹا، سرد جنگ کا اختتام آیا۔ امریکا واحد سپر پاور ہوکر تین دہائیاں پارکر گیا مگر اب اس کی اس حیثیت کو چین نے چیلنج کر دیا ہے۔ اس کی معیشت تیز پھیلی اور پھیل رہی ہے کہ 2030ء تک اس کی مجموعی پیداوار امریکا کے برابر ہوجائیگی۔
خود چین کا اثر ساؤتھ ایشیا میں بھی بہت تیزی سے پھیل رہا ہے جہاں ہندوستان چین کے بڑھتے ہوئے اس اثر سے بہت پریشان ہے۔ نیپال جہاں کی اکثریت ہندو مذہب کے ماننے والوں کی ہے لیکن اب کے بار پارلیمنٹ میں دو ماؤسٹ پارٹیوں نے الحاق بنا کے اکثریت حاصل کر لی ہے اور اس بات کا بھی کھل کے اظہار کیا ہے کہ وہ چین کے اور قریب تر جائیں گے جب کہ اسی رفتار سے ہندوستان سے دوریاں اختیارکریں گے۔ سری لنکا تو چین کے قریب پہلے سے ہی تھا لیکن اس دسمبرکو انتہائی حساس سمندری پورٹ 99 سال کے لیے چین کی سرکاری کمپنی کو لیز پر دی ہے اور اس طرح بحر ہند وبحیرہ عرب کی دو بندرگاہیں پورٹ گوادر اور ساؤتھ کوسٹ سری لنکا چین کے پاس آگئی ہیں ۔
2011ء تک مالدیپ میں چین کا کوئی سفارتخانہ نہیں تھا مگر اب مالدیپ چین کے قریب اس حد تک آگیا ہے کہ اس کے 75% بیرونی قرضاجات پر چین کی مہر لگی ہوئی ہے۔ جہاں تک بھوٹان کا تعلق ہے وہ اتنا تو Landlocked ہے اس کی دوستیاں کتنی بھی ہندوستان کے ساتھ قریب ہوں لیکن اسے چین سے بلآخر اپنے راستے استوارکرنے ہوں گے۔ خود بنگلہ دیش بھی کتنا ہندوستان کے قریب ہو لیکن وہاں کے قوم پرست ہندوستان کے اتنے گہرے اثرو رسوخ کو اچھا شگون نہیں سمجھتے۔
اس پورے تناظر میں افغانستان میں شورش ایک حقیقت بھی ہے اور نہیں بھی۔ امریکا اگر افغانستان سے چلا جاتا ہے تو یوں سمجھیے امریکا کا رہا سہا اثر ساؤتھ ایشیا میں اور اپنی فوجی موجودگی تاریخ بن کے رہ جائے گی۔ ہندوستان کو یہ خیال ہے کہ وہ چین جتنی ایک بہت بڑی طاقت ہے اور اسی طرح ابھرے گا۔
سویت یونین تک ہندوستان نے غیر جانبدار خارجہ پالیسی اپنا کے رکھی اور پھر جب ان کی شرح نمو 7 فیصد کے اعتبار سے ان 25 سال میں بڑھی۔ ان کی مڈل کلاس جو امریکا کی کل آبادی یعنی 35 کروڑ تک ہے اور دفاعی اعتبار سے بہت مضبوط ملک ہے۔ ایسی سوچ آنا ایک فطری عمل تھا کہ ہندوستان بھی دنیا کی سپر طاقت بن کے ابھر رہا ہے۔
اس وقت امریکا میں ٹرمپ اور ان کے دفاعی ادارے پینٹاگون کا راج ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ بہت تیزی سے ان دنوں میں سکڑی ہے۔ امریکا میں بھی وہی رونالڈ ریگن والا جنگی جنون سوار ہے اور دنیا پھر سے سرد جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں بھی امریکا کی پالیسی نے تضاد اور تیزکردیے ہیں۔ امریکا اور ہندوستان مل کر چین کے ساؤتھ ایشیا میں بڑھتے ہوئے اثرکو روکنا چاہتے ہیں۔ ہمارے تعلقات امریکا کے ساتھ برابرکے کبھی بھی نہ تھے۔ ہم نے جب آزادی پائی تو برطانیہ کے سپر پاور ہونے کی طاقت امریکا منتقل ہو رہی تھی۔اکثر تاریخ دانوں کی یہی رائے ہے کہ برطانیہ و اس کے اتحادی کبھی متحدہ ہندوستان کانگریس کے حوالے نہیں کرنا چاہتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ کانگریس سویت یونین کے اثر و رسوخ میں تھی اور جہاں پاکستان واقع ہے وہاں سے سویت یونین کا اثرو رسوخ شروع ہوتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے پاس ایک مضبوط سیاسی نظام و ادارے بھی نہیں تھے۔
لہذا بلآخر ایوب خان کے مارشل لاء نے اور خود لیاقت علی خان کی خارجہ پالیسی کے پہلے فیصلوں اور سطحوں نے ہمیں امریکا کی طرف بہت زیادہ دھکیل دیا اور اسی طرح امریکا اور سویت یونین کی بیچ سرد جنگ میں ہم ہراول ریاست کے طور پر استعمال ہوتے رہے اور ساتھ امریکا کی کبھی بھی یہاں کے لوگ ترجیح نہیں رہے۔ اس کے برعکس امریکا نے یہاں آمریتوں کی حمایت جاری رکھی اور یوں پاکستان کے ادارے کمزور ہوتے رہے۔ اور بلاخر ہمیں افغانستان کی جنگ میں اس وقت دھکیل دیا جب سویت یونین کی فوجیں وہاں داخل ہوئیں۔ ہمارے مذہب کو خوب اشتعال دلایا کہ مجاہدین پیدا ہوں ملک سے یہاں جہاد کرنے آئے۔ بھٹوکو پھانسی ہوئی۔ بھٹوکا قصور یہ تھا کہ وہ عوام کا لیڈر تھا۔ ملک میں جنرل ضیاء مذہبی انتہا پرستی کی وہ بنیاد ڈال گئے جس سے آج تک ہم چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکے۔
مختصر یہ کے پاک امریکا تعلقات کو اب کے بار تیزی سے بدلتی دنیا کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ اب امریکا اپنے بین الاقوامی اثر و رسوخ میں اتنا طاقتور بھی نہیں رہا۔ چین ابھرتی ہوئی طاقت بھی ہے اور ہماری فطری ضرورت بھی۔ افغانستان میں ہندوستان کا اثر و رسوخ بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ خود امریکا چین کے اثر رسوخ کو روکنے کے لیے بہت ہی واضح انداز میں ہندوستان سے اثر بڑھا چکا ہے اور وہ چاہتا بھی ہے کہ ہندوستان کا افغانستان میں اثرورسوخ بڑھے۔ اس میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ہندوستان نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے افغانستان کی سر زمین استعمال کی ہے۔ چین نے بار بار کوشش کی ہے کہ وہ افغانستان اور ہمارے بیچ میں ثالثی کرے تو خود ہندوستان اور ہمارے ساتھ بھی۔ لیکن امریکا ساؤتھ ایشیا میں دیرپا امن نہیں چاہتا اور مسلمان ممالک میں موجود امن کو برباد کرنے کے در پر ہے۔ امریکا پر اس وقت جنگی جنون سوار ہے وہ اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرنا چاہتا ہے۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم نے کبھی بھی اپنی خارجہ پالیسی کو وسیع تناظر میں نہیں دیکھا۔خارجہ پالیسی پر اس حکومت کا بھی عجیب رویہ رہا کہ خود چار سال میں یہ ملک کو وزیر خارجہ بھی نہ دے سکے۔
یہ خوش آیندہ عمل تھا کہ خود فوج کے سربراہ نے سینیٹ میں ان کیمرہ بریفنگ دی اور خارجہ و داخلی خطرات پر آگاہی دی۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ فوج فاٹا کے بارے میں آئینی اصلاحات میں دلچسپی لے رہی ہے تو خود پوری پاک افغان سرحد کو خار دار تاروں سے بند کر رہے ہیں جو کہ بہت ہی مشکل کام ہے۔ ہم افغانستان سے اس ملک میں ہوتی ہی دہشتگردی کو روکنے میں بہت حد تک کامیاب بھی گئے ہیں، لیکن ہمارے پاس اب بھی ایسے نظریے و سوچ کے لوگ ہیں جو انتہا پرست سوچ کو ہوا دے رہے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں جامع اور واضح انداز میں ایک لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا اور جو پاک امریکا تعلقات میں غلط فہمی ہے، اسے دورکرنا ہوگا۔
ان ستر سالوں کی تاریخ میں دنیا بھی بہت بدلی ہے ہم بیسویں صدی سے اکیسویں صدی میں داخل ہوئے، سویت یونین ٹوٹا، سرد جنگ کا اختتام آیا۔ امریکا واحد سپر پاور ہوکر تین دہائیاں پارکر گیا مگر اب اس کی اس حیثیت کو چین نے چیلنج کر دیا ہے۔ اس کی معیشت تیز پھیلی اور پھیل رہی ہے کہ 2030ء تک اس کی مجموعی پیداوار امریکا کے برابر ہوجائیگی۔
خود چین کا اثر ساؤتھ ایشیا میں بھی بہت تیزی سے پھیل رہا ہے جہاں ہندوستان چین کے بڑھتے ہوئے اس اثر سے بہت پریشان ہے۔ نیپال جہاں کی اکثریت ہندو مذہب کے ماننے والوں کی ہے لیکن اب کے بار پارلیمنٹ میں دو ماؤسٹ پارٹیوں نے الحاق بنا کے اکثریت حاصل کر لی ہے اور اس بات کا بھی کھل کے اظہار کیا ہے کہ وہ چین کے اور قریب تر جائیں گے جب کہ اسی رفتار سے ہندوستان سے دوریاں اختیارکریں گے۔ سری لنکا تو چین کے قریب پہلے سے ہی تھا لیکن اس دسمبرکو انتہائی حساس سمندری پورٹ 99 سال کے لیے چین کی سرکاری کمپنی کو لیز پر دی ہے اور اس طرح بحر ہند وبحیرہ عرب کی دو بندرگاہیں پورٹ گوادر اور ساؤتھ کوسٹ سری لنکا چین کے پاس آگئی ہیں ۔
2011ء تک مالدیپ میں چین کا کوئی سفارتخانہ نہیں تھا مگر اب مالدیپ چین کے قریب اس حد تک آگیا ہے کہ اس کے 75% بیرونی قرضاجات پر چین کی مہر لگی ہوئی ہے۔ جہاں تک بھوٹان کا تعلق ہے وہ اتنا تو Landlocked ہے اس کی دوستیاں کتنی بھی ہندوستان کے ساتھ قریب ہوں لیکن اسے چین سے بلآخر اپنے راستے استوارکرنے ہوں گے۔ خود بنگلہ دیش بھی کتنا ہندوستان کے قریب ہو لیکن وہاں کے قوم پرست ہندوستان کے اتنے گہرے اثرو رسوخ کو اچھا شگون نہیں سمجھتے۔
اس پورے تناظر میں افغانستان میں شورش ایک حقیقت بھی ہے اور نہیں بھی۔ امریکا اگر افغانستان سے چلا جاتا ہے تو یوں سمجھیے امریکا کا رہا سہا اثر ساؤتھ ایشیا میں اور اپنی فوجی موجودگی تاریخ بن کے رہ جائے گی۔ ہندوستان کو یہ خیال ہے کہ وہ چین جتنی ایک بہت بڑی طاقت ہے اور اسی طرح ابھرے گا۔
سویت یونین تک ہندوستان نے غیر جانبدار خارجہ پالیسی اپنا کے رکھی اور پھر جب ان کی شرح نمو 7 فیصد کے اعتبار سے ان 25 سال میں بڑھی۔ ان کی مڈل کلاس جو امریکا کی کل آبادی یعنی 35 کروڑ تک ہے اور دفاعی اعتبار سے بہت مضبوط ملک ہے۔ ایسی سوچ آنا ایک فطری عمل تھا کہ ہندوستان بھی دنیا کی سپر طاقت بن کے ابھر رہا ہے۔
اس وقت امریکا میں ٹرمپ اور ان کے دفاعی ادارے پینٹاگون کا راج ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ بہت تیزی سے ان دنوں میں سکڑی ہے۔ امریکا میں بھی وہی رونالڈ ریگن والا جنگی جنون سوار ہے اور دنیا پھر سے سرد جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں بھی امریکا کی پالیسی نے تضاد اور تیزکردیے ہیں۔ امریکا اور ہندوستان مل کر چین کے ساؤتھ ایشیا میں بڑھتے ہوئے اثرکو روکنا چاہتے ہیں۔ ہمارے تعلقات امریکا کے ساتھ برابرکے کبھی بھی نہ تھے۔ ہم نے جب آزادی پائی تو برطانیہ کے سپر پاور ہونے کی طاقت امریکا منتقل ہو رہی تھی۔اکثر تاریخ دانوں کی یہی رائے ہے کہ برطانیہ و اس کے اتحادی کبھی متحدہ ہندوستان کانگریس کے حوالے نہیں کرنا چاہتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ کانگریس سویت یونین کے اثر و رسوخ میں تھی اور جہاں پاکستان واقع ہے وہاں سے سویت یونین کا اثرو رسوخ شروع ہوتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے پاس ایک مضبوط سیاسی نظام و ادارے بھی نہیں تھے۔
لہذا بلآخر ایوب خان کے مارشل لاء نے اور خود لیاقت علی خان کی خارجہ پالیسی کے پہلے فیصلوں اور سطحوں نے ہمیں امریکا کی طرف بہت زیادہ دھکیل دیا اور اسی طرح امریکا اور سویت یونین کی بیچ سرد جنگ میں ہم ہراول ریاست کے طور پر استعمال ہوتے رہے اور ساتھ امریکا کی کبھی بھی یہاں کے لوگ ترجیح نہیں رہے۔ اس کے برعکس امریکا نے یہاں آمریتوں کی حمایت جاری رکھی اور یوں پاکستان کے ادارے کمزور ہوتے رہے۔ اور بلاخر ہمیں افغانستان کی جنگ میں اس وقت دھکیل دیا جب سویت یونین کی فوجیں وہاں داخل ہوئیں۔ ہمارے مذہب کو خوب اشتعال دلایا کہ مجاہدین پیدا ہوں ملک سے یہاں جہاد کرنے آئے۔ بھٹوکو پھانسی ہوئی۔ بھٹوکا قصور یہ تھا کہ وہ عوام کا لیڈر تھا۔ ملک میں جنرل ضیاء مذہبی انتہا پرستی کی وہ بنیاد ڈال گئے جس سے آج تک ہم چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکے۔
مختصر یہ کے پاک امریکا تعلقات کو اب کے بار تیزی سے بدلتی دنیا کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ اب امریکا اپنے بین الاقوامی اثر و رسوخ میں اتنا طاقتور بھی نہیں رہا۔ چین ابھرتی ہوئی طاقت بھی ہے اور ہماری فطری ضرورت بھی۔ افغانستان میں ہندوستان کا اثر و رسوخ بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ خود امریکا چین کے اثر رسوخ کو روکنے کے لیے بہت ہی واضح انداز میں ہندوستان سے اثر بڑھا چکا ہے اور وہ چاہتا بھی ہے کہ ہندوستان کا افغانستان میں اثرورسوخ بڑھے۔ اس میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ہندوستان نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے افغانستان کی سر زمین استعمال کی ہے۔ چین نے بار بار کوشش کی ہے کہ وہ افغانستان اور ہمارے بیچ میں ثالثی کرے تو خود ہندوستان اور ہمارے ساتھ بھی۔ لیکن امریکا ساؤتھ ایشیا میں دیرپا امن نہیں چاہتا اور مسلمان ممالک میں موجود امن کو برباد کرنے کے در پر ہے۔ امریکا پر اس وقت جنگی جنون سوار ہے وہ اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرنا چاہتا ہے۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم نے کبھی بھی اپنی خارجہ پالیسی کو وسیع تناظر میں نہیں دیکھا۔خارجہ پالیسی پر اس حکومت کا بھی عجیب رویہ رہا کہ خود چار سال میں یہ ملک کو وزیر خارجہ بھی نہ دے سکے۔
یہ خوش آیندہ عمل تھا کہ خود فوج کے سربراہ نے سینیٹ میں ان کیمرہ بریفنگ دی اور خارجہ و داخلی خطرات پر آگاہی دی۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ فوج فاٹا کے بارے میں آئینی اصلاحات میں دلچسپی لے رہی ہے تو خود پوری پاک افغان سرحد کو خار دار تاروں سے بند کر رہے ہیں جو کہ بہت ہی مشکل کام ہے۔ ہم افغانستان سے اس ملک میں ہوتی ہی دہشتگردی کو روکنے میں بہت حد تک کامیاب بھی گئے ہیں، لیکن ہمارے پاس اب بھی ایسے نظریے و سوچ کے لوگ ہیں جو انتہا پرست سوچ کو ہوا دے رہے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں جامع اور واضح انداز میں ایک لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا اور جو پاک امریکا تعلقات میں غلط فہمی ہے، اسے دورکرنا ہوگا۔