پڑھا لکھا پنجاب یا سندھ
سندھ اور پنجاب کی سڑکوں پر مہنگی گاڑیوں میں گھومنے والے کچھ سرکاری اہلکاروں کا بھی یہی حال ہے
MINGORA:
آج کل مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا اندازہ کام کے بجائے ان اشتہارات سے لگایا جارہا ہے جو ہمیں اخبارات اور ٹی وی پر دکھائے جاتے ہیں۔ تعلیمی میدان میں ترقی کے لیے دیے جانے والے ان اشتہاروں پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ سندھ اور پنجاب کے علاوہ ملک میں کوئی بھی پڑھا لکھا موجود نہیں اور یہ بھی انکشاف ہوتا ہے کہ ماضی میں پڑھنے لکھنے کا کام صرف انسان کرتے تھے مگر اب یہ کام صوبوں نے سنبھال لیا ہے۔ کہتے ہیں کسی گاؤں میں ایک شخص مونچھوں پر تیل لگائے سر پر بہت بڑی پگڑی باندھے گھوڑے پر سوار ہو کر روزانہ گاؤں کی گلیوں سے گزرتا۔ جو بھی اسے دیکھتا سلام کرتا اور سمجھتا کہ یہ صاحب بہت پڑھے لکھے ہیں۔
ایک دن گاؤں کے ایک باسی کو کسی دوست یا رشتے دار کا خط ملا۔ بے چارہ بہت پریشان ہوا کہ نہ خود پڑھ سکتا ہوں اور نہ کسی سے پڑھوا سکتا ہوں۔ یکایک خیال آیا کہ جو شخص گھوڑے پر سوارہو کر روزانہ گلی سے گزرتا ہے اس سے پڑھوا لیا جائے،چنانچہ خط تھامے اس شخص کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعدجب اس کا گھوڑا نمودار ہوا تو وہ خط تھامے اس کے سامنے آیا اور دعا سلام کے بعد کہنے لگا کہ میں جاہل اور ان پڑھ آدمی ہوں براہ کرم یہ چٹھی پڑھ دیجیے۔ گھڑ سوار نے جواب دیا کہ پڑھنا لکھنا تو میں بھی نہیں جانتا۔ دیہاتی نے حیرت اور طنز سے سوال کیا کہ اگر آپ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تو اتنی بڑی پگڑی باندھ کر گھوڑے پر سواری کا کیا فائدہ؟ یہ بات سن کر گھڑ سوار خاموشی سے گھوڑے سے نیچے اترا اور دیہاتی سے کہنے لگا تھوڑی دیر کو گھوڑے پر بیٹھ جاؤ۔ جب دیہاتی گھوڑے پر بیٹھ گیا تو اس شخص نے اپنے سر سے پگڑی اتار کردیہاتی کے سر پر رکھی اوراسے کہنے لگا کہ اگر پکڑی باندھنے اورگھوڑے پرسواری کرنے سے کوئی شخص پڑھا لکھا ہو سکتا ہے یا خط پڑھ سکتا ہے تو تم پڑھ لو۔
سندھ اور پنجاب کی سڑکوں پر مہنگی گاڑیوں میں گھومنے والے کچھ سرکاری اہلکاروں کا بھی یہی حال ہے جو اپنے حلیے سے تو انتہائی پڑھے لکھے نظر آتے ہیں مگرحقیقت اس سے بالکل مختلف ہے ۔ پڑھے لکھے پنجاب اور سندھ پر حکومت کرنے والے پڑھے لکھے وزرا ء اور اراکین اسمبلیوں میں جانے کے بعد جب ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہیں یا اپوزیشن جماعت سے تعلق رکھنے والی خواتین کی بے عزتی کرتے ہوئے ایسی زبان استعمال کرتے ہیں جو بازاروں میں بولتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے تو ان کے تعلیمی کوائف اور اہلیت پر مہر ثبت ہو جاتی ہے۔
سندھ کے پڑھے لکھے وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم نے تعلیم کی بہتری کے لیے جو منصوبے بنائے اور دو دن قبل جو تعلیمی کمیٹی تشکیل دی گئی وہ قابل ستائش عمل ہے کہ تعلیم کے فروغ کے لیے اس سے پہلے اس انداز میں کسی نے بھی نہیں سوچا تھا، مگر اصل فائدہ تب ہو گا جب دیگر ترقیاتی منصوبوں کی طرح تعلیم کے لیے مختص کی جانے والی رقم کے ساتھ بھی وہ سلوک نہ ہو جو ماضی میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ہوتا چلا آیا ہے۔ قومی اسمبلی کے الیکشن جوں جوں نزدیک آ رہے ہیں پنجاب کی حکومت کی طرح سندھ کی حکومت نے بھی اپنی کار کردگی دکھانے کے لیے ذرایع ابلاغ پر''پڑھے لکھے سندھ'' کے اشتہارات کے ساتھ اپنی انتخابی مہم شروع کر دی ہے۔
یاد رہے کہ کوئی بھی ریاست، شہر، گاؤں یا زمین پڑھی لکھی نہیں ہوتی بلکہ اس پر رہنے والے افراد پڑھے لکھے ہوتے ہیں لیکن ان صوبوں پر حکومت کرنے والوں کوجب اس بات کا یقین ہو گیا کہ ہم خود اور ہمارے سرکاری اہلکار پڑھ لکھ چکے ہیں تو انھوں نے بچوں کے بجائے صوبوں کو اسکول میں داخل کرنے کا منصوبہ شروع کردیا، اگر دونوں صوبوں پر حکومت کرنے والوں کو علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کا اتنا ہی اداراک ہے اور انسانوں کے بجائے صوبوں کو پڑھانے کا اتنا ہی شوق ہے تواس دھرتی پر موجود ہزاروں سال پرانی اس تہذیب کو کیوں نہیں بچانا چاہتے جسے دنیا موئن جودڑو، ہڑپا اور ٹیکسلا کے نام سے یاد کرتی ہے۔
آج سے پچاس سال قبل والے اسکولوں اور مدرسوں کا احیاء کیوں نہیں کیا جاتا جن کے ٹھنڈے فرش اور ٹاٹوں پر بیٹھ کر پڑھنے والے ایسے ایسے نام سامنے آئے کہ دنیا آج بھی ان کے علم و فضل کی مثالیں دیتے نہیں تھکتی۔ اس میں شک نہیں کہ پنجاب کی حکومت نے سرکاری اسکولوں کی بہتری، اساتذہ کے اوقات کار اور غریب بچوں کی مفت تعلیم کے لیے پہلے سے کہیں بہتر اور جدید انداز اپنایا اور اب سندھ کی حکومت بھی تعلیمی اداروں کی حالت پر توجہ دینے لگی ہے جس سے مستقبل کے تعلیمی نظام میں بہتری آئے گی اور ماضی میں علم و فضل کی پہچان بننے والوں کی طرح اس صوبے کے نوجوان موجودہ دور میں بھی تعلیم کی نئی منازل تک پہنچ سکیں گے، مگر پچھلے دنوں پولیس نے جس انداز سے شہر کی سڑکوں پر اساتذہ پر تشدد کیا اس کے بعد'' پڑھے لکھے سندھ '' کا اشتہار دیکھ کرکوئی بھی شخص پریشان ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کچھ سادہ دل دوستوں کا کہنا تھا کہ جن اساتذہ پر تشدد کیا گیا ان میں زیادہ ترگھوسٹ اور کم پڑھے لکھے تھے۔
ایک لمحے کو اگر یہ بات تسلیم کر بھی لی جائے کہ ان کی تعلیمی قابلیت مشکوک تھی اور وہ گھوسٹ تھے تو انھیں بھرتی کرنے والے ''گھوسٹ'' کہاں سے آئے تھے؟ سندھ میں تعلیم کی بہتری کے اقدامات اور اس سلسلے میں دیے جانے والے اشتہارات کی بحث اپنی جگہ مگر پنجاب میں اپنے قدم مضبوط کرنے کے لیے وہاں کی حکومت تعلیم کی بہتری کے لیے چاہے کتنے ہی اشتہار کیوں نے دے تب تک یہ اشتہار جھوٹ کا پلندہ ہی سمجھے جائیں گے جب تک حکومتی سطح پر بچوں کو اسکولوں میں مادری زبان کے ذریعے تعلیم کی سہولت فراہم نہیں کی جاتی۔ جہاں تک سندھ کا تعلق ہے تو تمام تر اختلافات کے باوجود ہم اپنے سندھی بھائیوں کو دوسرے صوبوں کے شہریوں سے اس لیے زیادہ پڑھا لکھاکہہ سکتے ہیں کہ یہاں کے اسکولوں میں بچوں کو مادری زبان پڑھائی جارہی ہے۔
جس سے یہ فائدہ ہوا کہ سندھی زبان میں 1920ء سے جاری ہونے والے اخبار ''الواحد'' کے بعد اس زبان کے اخبارات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا اور اب لگ بھگ ایک درجن سندھی اخبارات کے ساتھ سات سندھی ٹی وی چینلز کی نشریات بھی جاری ہیں اوراگرسندھی زبان میں چھپنے والی کتابوں اور رسائل کا ذکر کیا جائے تو دوسرے صوبوں میں رہنے والے علم دوست مزید حیران ہوں گے۔بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں بھی تعلیمی اداروں اور مادری زبان کے ساتھ وہاں کی حکومتوں اور دہشتگردوں نے جو سلوک کیا اس کی ایک الگ داستان ہے جس کا متحمل یہ کالم نہیں ہو سکتا اس لیے ان دونوں صوبوں کا ذکر پھر کسی وقت پر اٹھا رکھتے ہیں مگر یہ بات طے ہے کہ جب تک سندھ کی طرح باقی تین صوبوں کی حکومتیں پرائمری کی سطح پر بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دینے کا بندو بست نہیں کرتیں تب تک تعلیمی ترقی کے تمام دعوے بس دعوے ہی رہیں گے۔