یہ سلوک اساتذہ کے ساتھ ہورہا ہے…
اپنے خون میں نہائے ہوئے لوگ، خون کے آنسو روتے ہوئے لوگ ان بڑے لوگوں کو ووٹ دیکر مقدس اور طاقتور بناتے ہیں
PESHAWAR:
ڈنڈے اور لاٹھیاں برس رہی تھیں، بھاگ دوڑ، دھکم دھکا، کوئی گرا، کوئی بھاگا، سب پر پولیس وحشیانہ طور پر، ڈنڈے برسا رہی تھی، کسی کا سر پھٹا اور خون میں لت پت ہوا، کالر سے پکڑ کر گاڑیوں میں پھینکا گیا، عورتیں چیخ رہی تھیں، پولیس اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کر رہی تھی۔ لیکن یہ کون لوگ تھے؟ احتجاج کر رہے تھے؟ شاید حکومت کے خلاف ہوں گے؟ غدار ہوں گے؟ غیر ملکی ایجنٹ؟ کوئی دہشتگرد؟ ہاں! پھر کسی مافیا سے تعلق ہوگا؟ ایک خاتون زور زور سے چیخ کے کہہ رہی تھی کہ ''یہ جمہوریت ہے؟ یہ سلوک اساتذہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ہم ڈاکٹر اور انجینئر بناتے ہیں ہمارے ساتھ ایسا سلوک!''
ہاں یہ قوم کے معمار تھے، یہ اساتذہ تھے جوکہ قوم کے شعور کی آبیاری کرتے ہیں اور باشعور قوم کی بنیاد رکھتے ہیں نومبر 2017ء کے آخری ہفتے سے سندھ کے مختلف اضلاع سے اساتذہ کے احتجاج کی خبریں آرہی تھیں۔ 10 دسمبر 2017ء انسانی حقوق کے عالمی دن ہزاروں اساتذہ اکٹھے ہوئے لانگ مارچ شروع ہوا۔ سندھ کے مختلف اضلاع میں یہ اساتذہ اپنے مطالبات پیش کرتے رہے۔
ذرایع کہتے ہیں کہ سندھ حکومت کی جانب سے 2012ء میں اسکول ٹیچرز کیلیے ایک اشتہار آیا تھا جسکے ذریعے NTS کا ٹیسٹ پاس کرکے اسکول ٹیچر کی نوکری حاصل کی تھی۔ یہ کانٹریکٹ پہ بھرتی ہوئے تھے۔ کچھ اساتذہ نے سندھ یونیورسٹی کا منعقد کردہ ٹیسٹ پاس کرکے نوکری حاصل کی۔ موجودہ جدوجہد پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن اور دیگر تنظیموں کی مشترکہ ہے ان کا مطالبہ نوکری ریگولر کرنے کا ہے اور اسکول ٹیچرز کو گریڈ 16 دینے کا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ کافی سال سے ایک ہی گریڈ کے اسکیل میں نوکری کرنے والے اساتذہ کو ایک پروموشن بھی نہیں ملا۔ سارے اسکول ٹیچرز ہیں لگ بھگ 21500 ، مرد اور خواتین ہیں جن کے پیچھے لاکھوں بچوں کا مستقبل ہے۔ 25 دسمبر 2017ء کو بھی یہ سب کراچی پریس کلب سے وزیر اعلیٰ ہاؤس کی طرف احتجاج کرتے ہوئے جا رہے تھے۔ ہاتھوں میں کوئی ہتھیار نہیں تھے۔ نہ ٹینک نہ گولے نہ خودکش جیکٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہاتھوں میں کلاشنکوف اور پسٹل بھی نہیں تھے۔ ہاں کچھ پلے کارڈز اور بینرز جن پر احتجاجی کلمات لکھے تھے۔
لیکن ان پر پولیس کی جانب سے کیا گیا بدترین تشدد قابل مذمت ہے۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ محفوظ علاقہ جہاں سارے ایسے لوگ رہتے ہیں جنکی جانیں بہت قیمتی ہوتی ہیں۔ یہی تڑپتے اور راستوں پر نعرے لگانیوالے احتجاج کی صدائیں بلند کرنیوالے لوگ، اپنے خون میں نہائے ہوئے لوگ، خون کے آنسو روتے ہوئے لوگ، اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم لوگ! ان بڑے لوگوں کو ووٹ دیکر مقدس اور طاقتور بناتے ہیں۔ اتنا مقدس اور طاقتور کہ ان تک رسائی بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوجاتی ہے۔جو کچھ معزز اساتذہ کے ساتھ ہوا بہت غلط ہوا۔ یہ کالم شایع ہونے تک حکومتی مذاکرات ہوچکے ہیں اساتذہ کے مطالبات ماننے کا وعدہ بھی ہوچکا ہے اور احتجاج بھی جاری ہے۔
وزیر اعلیٰ نے احتجاج کا نوٹس تو لے لیا اور ایک عجیب سا بیان کسی اخبار میں لگا ہوا تھا کہ اساتذہ ہر پانچ سال بعد ٹیسٹ دیکر اپنے آپ کو اہل ثابت کریں۔ اپنی قابلیت کا ثبوت دیں۔ حیرت بھی ہوتی ہے لیکن اچھی بات ہے کہ پھر تو یہ قانون سب پر لاگو ہونا چاہیے جو کہ اپنے ووٹرز کی امیدوں پر پورے نہیں اترتے۔ ہر سال ہر مہینے ان کا بھی احتساب عوام کو کرنے کا حق ملنا چاہیے۔ جب اساتذہ کی تحریک کے مختلف شرکا اور نمایندوں سے معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ متعلقہ شعبہ کس حد تک نظراندازی کا شکار ہے۔ سوال صرف اساتذہ کی قابلیت اور اہلیت کا تو نہیں ہوتا۔ تعلیمی عمل کیلیے اور بھی بہت سے عناصر ہیں جوکہ اس عمل کو مکمل کرنے کیلیے ضروری ہیں۔ عوام روڈ اور راستوں پر کیوں آتے ہیں؟ جب نظراندازی، حق تلفی، ناانصافی، جبر حد سے بڑھتا ہے تب عوام احتجاج کرتے ہیں۔ جمہوری دور میں سب کو اظہار کی آزادی ہوتی ہے۔ لیکن گزشتہ دنوں میں کراچی میں بالخصوص جتنے بھی احتجاج ہوئے ہیں ان مظاہرین پر بدترین تشدد کیا گیا۔ یہی ہوتا آیا ہے۔ جب بھی الیکشن کا وقت آتا ہے مختلف طریقوں سے لوگوں سے وعدے کیے جاتے ہیں۔ عارضی نوکریاں دی جاتی ہیں پھر کچھ عرصے بعد وہ لوگ احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔
دیکھا جائے تو تعلیم کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا لیکن عملی طور پر یہ محکمہ نظرانداز کیاجارہا ہے۔ سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان ہوا۔ نئی نئی پابندیاں لاگو کی گئیں جن کا اطلاق صرف اساتذہ پر ہوا، لیکن حکومت بند اسکولوں کو کھلوانے میںکامیاب نہیں ہوئی اور نہ ہی نئے اسکول قائم کرنے کا عمل مکمل ہوسکا۔ تعلیمی نظام میں انتظامی معاملات بھی بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جن کے بغیر تعلیمی عمل جاری رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ اساتذہ کی بھرتی کی بھی واضح پالیسی یا قانون ہونا چاہیے تاکہ کوئی بھی کسی ابہام میں نہ رہے۔ اساتذہ کی قابلیت اہلیت کے ساتھ ساتھ نصاب اور طریقہ امتحان میں بھی ترامیم کی بہت گنجائش موجود ہے۔ اس جدوجہد میں جو اساتذہ شریک ہیں ان کے مطالبات میں خواتین کے ساتھ ہراسمنٹ کے حوالے سے بھی مطالبات موجود ہیں۔ مطالبات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔سندھ میں سب اساتذہ کو 25 سال سروس مکمل ہونے پر ٹائم اسکیل BPS-16 دیا جائے۔
2۔ NTS پاس اساتذہ کو کنفرم کیا جائے۔
3۔سندھ یونیورسٹی کا ٹیسٹ پاس کرنے والے اساتذہ کو ریگولر کیا جائے۔
4۔ اساتذہ کی اولاد کیلیے 25 فیصد کوٹہ مقرر کیا جائے۔
5۔ بایو میٹرک سسٹم کو 2016ء کی پہلی آف پوسٹنگ کے مطابق لاگو کرکے ضلع سطح پر لایا جائے اور اساتذہ کی اتفاقی چھٹی کا طریقہ آسان کیا جائے۔
6۔ STR پالیسی جو کرپشن کا باعث بن رہی ہے اور اساتذہ مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں اس میں پسے اساتذہ کو قریبی علاقوں میں پوسٹنگ دی جائے۔
7۔ سندھ کے شہری اساتذہ، ٹائم اسکیل کے آرڈر ڈائریکٹر آف اسکول پرائمری ایجوکیشن کے بجائے ہر ضلع کے تعلیمی آفیسر کی طرف منتقل کیے جائیں۔
8۔ مینجمنٹ کیڈر پالیسی کو آسان بنایا جائے۔
9۔ اساتذہ کی تقرری یونین کاؤنسل تعلقہ سے کراچی سے ہے۔ ان کے مسائل حل کیے جائیں۔
10۔ پرائمری اسکولز میں سینیارٹی کی بنیاد پر ہیڈ ماسٹر کی اہلیت رکھنے والے اساتذہ کی SNE منظور کی جائے۔
11۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے 24-08-2012 کے مطابق سندھ کے اساتذہ کو بھی پنجاب کے مطابق تقرری کی تاریخ سے رننگ اسکیل دیا جائے۔
12۔ ایلیمنٹری اسکولز میں I.B.A ٹیسٹ کے ذریعے 17 گریڈ کی انتظامی پوسٹ پر ناتجربہ کار ہیڈ ماسٹرز کی تقرری سے بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ وہاں تجربہ کار ہیڈ ماسٹر مقرر کیے جائیں۔
13۔ حیدرآباد کی فیصل ٹیچرز کو ہراساں کرنے والے آفیسر کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور ٹیچرز پر کیے گئے جھوٹے کیس ختم کیے جائیں۔
14۔ بینوویلنٹ فنڈ کے اختیارات ریونیو ضلع تعلیمی عہدیداران کو منتقل کیے جائیں۔
15۔ فنانشل اسسمنٹ فنڈ جوکہ ملازم کی بیوہ کو ملتا ہے وہ کراچی سے ضلع آفس منتقل کیا جائے۔
16۔ 2002 سے تعلیمی انکریمنٹ بحال کی جائیں۔
17۔ میڈیکل الاؤنس میں اضافہ یا میڈیکل کارڈ کا اجرا۔
18۔ ہارڈ الاؤنس میں اضافہ۔
19۔ سن کوٹہ پر عمل درآمد کیا جائے۔
20۔ سندھ کے اساتذہ کی گروپ انشورنس ریٹائرمنٹ کے فوری بعد ادا کیا جائے۔
ان مطالبات کا تعلق زیادہ تر انتظامی معاملات سے ہے۔ ان مطالبات پڑھ کر بھی بہت سے سوال ابھرتے ہیں۔ کہ اساتذہ سے توقعات تو بہت رکھی جاتی ہیں لیکن گورنمنٹ انھیں انتظامی سہولیات دینے سے قاصر ہے اور پھر لاٹھی چارج بھی ان پر ہوتا ہے۔ ان کی قابلیت اور اہلیت پر بھی انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔
دیکھیں کہ کب تک حکمران ان نہتے اساتذہ پر نظرکرم کرتے ہیں۔ غضب کی ٹھٹھرتی سردی میں احتجاج پر بیٹھے ہوئے اساتذہ کو سرخ سلام! کہ وہ تعلیمی عمل کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔ منتظر ہیں کہ جس عذاب اور ہتک آمیز تشدد سے گزرے ہیں اس کا ازالہ ہو۔
ڈنڈے اور لاٹھیاں برس رہی تھیں، بھاگ دوڑ، دھکم دھکا، کوئی گرا، کوئی بھاگا، سب پر پولیس وحشیانہ طور پر، ڈنڈے برسا رہی تھی، کسی کا سر پھٹا اور خون میں لت پت ہوا، کالر سے پکڑ کر گاڑیوں میں پھینکا گیا، عورتیں چیخ رہی تھیں، پولیس اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کر رہی تھی۔ لیکن یہ کون لوگ تھے؟ احتجاج کر رہے تھے؟ شاید حکومت کے خلاف ہوں گے؟ غدار ہوں گے؟ غیر ملکی ایجنٹ؟ کوئی دہشتگرد؟ ہاں! پھر کسی مافیا سے تعلق ہوگا؟ ایک خاتون زور زور سے چیخ کے کہہ رہی تھی کہ ''یہ جمہوریت ہے؟ یہ سلوک اساتذہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ہم ڈاکٹر اور انجینئر بناتے ہیں ہمارے ساتھ ایسا سلوک!''
ہاں یہ قوم کے معمار تھے، یہ اساتذہ تھے جوکہ قوم کے شعور کی آبیاری کرتے ہیں اور باشعور قوم کی بنیاد رکھتے ہیں نومبر 2017ء کے آخری ہفتے سے سندھ کے مختلف اضلاع سے اساتذہ کے احتجاج کی خبریں آرہی تھیں۔ 10 دسمبر 2017ء انسانی حقوق کے عالمی دن ہزاروں اساتذہ اکٹھے ہوئے لانگ مارچ شروع ہوا۔ سندھ کے مختلف اضلاع میں یہ اساتذہ اپنے مطالبات پیش کرتے رہے۔
ذرایع کہتے ہیں کہ سندھ حکومت کی جانب سے 2012ء میں اسکول ٹیچرز کیلیے ایک اشتہار آیا تھا جسکے ذریعے NTS کا ٹیسٹ پاس کرکے اسکول ٹیچر کی نوکری حاصل کی تھی۔ یہ کانٹریکٹ پہ بھرتی ہوئے تھے۔ کچھ اساتذہ نے سندھ یونیورسٹی کا منعقد کردہ ٹیسٹ پاس کرکے نوکری حاصل کی۔ موجودہ جدوجہد پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن اور دیگر تنظیموں کی مشترکہ ہے ان کا مطالبہ نوکری ریگولر کرنے کا ہے اور اسکول ٹیچرز کو گریڈ 16 دینے کا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ کافی سال سے ایک ہی گریڈ کے اسکیل میں نوکری کرنے والے اساتذہ کو ایک پروموشن بھی نہیں ملا۔ سارے اسکول ٹیچرز ہیں لگ بھگ 21500 ، مرد اور خواتین ہیں جن کے پیچھے لاکھوں بچوں کا مستقبل ہے۔ 25 دسمبر 2017ء کو بھی یہ سب کراچی پریس کلب سے وزیر اعلیٰ ہاؤس کی طرف احتجاج کرتے ہوئے جا رہے تھے۔ ہاتھوں میں کوئی ہتھیار نہیں تھے۔ نہ ٹینک نہ گولے نہ خودکش جیکٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہاتھوں میں کلاشنکوف اور پسٹل بھی نہیں تھے۔ ہاں کچھ پلے کارڈز اور بینرز جن پر احتجاجی کلمات لکھے تھے۔
لیکن ان پر پولیس کی جانب سے کیا گیا بدترین تشدد قابل مذمت ہے۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ محفوظ علاقہ جہاں سارے ایسے لوگ رہتے ہیں جنکی جانیں بہت قیمتی ہوتی ہیں۔ یہی تڑپتے اور راستوں پر نعرے لگانیوالے احتجاج کی صدائیں بلند کرنیوالے لوگ، اپنے خون میں نہائے ہوئے لوگ، خون کے آنسو روتے ہوئے لوگ، اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم لوگ! ان بڑے لوگوں کو ووٹ دیکر مقدس اور طاقتور بناتے ہیں۔ اتنا مقدس اور طاقتور کہ ان تک رسائی بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوجاتی ہے۔جو کچھ معزز اساتذہ کے ساتھ ہوا بہت غلط ہوا۔ یہ کالم شایع ہونے تک حکومتی مذاکرات ہوچکے ہیں اساتذہ کے مطالبات ماننے کا وعدہ بھی ہوچکا ہے اور احتجاج بھی جاری ہے۔
وزیر اعلیٰ نے احتجاج کا نوٹس تو لے لیا اور ایک عجیب سا بیان کسی اخبار میں لگا ہوا تھا کہ اساتذہ ہر پانچ سال بعد ٹیسٹ دیکر اپنے آپ کو اہل ثابت کریں۔ اپنی قابلیت کا ثبوت دیں۔ حیرت بھی ہوتی ہے لیکن اچھی بات ہے کہ پھر تو یہ قانون سب پر لاگو ہونا چاہیے جو کہ اپنے ووٹرز کی امیدوں پر پورے نہیں اترتے۔ ہر سال ہر مہینے ان کا بھی احتساب عوام کو کرنے کا حق ملنا چاہیے۔ جب اساتذہ کی تحریک کے مختلف شرکا اور نمایندوں سے معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ متعلقہ شعبہ کس حد تک نظراندازی کا شکار ہے۔ سوال صرف اساتذہ کی قابلیت اور اہلیت کا تو نہیں ہوتا۔ تعلیمی عمل کیلیے اور بھی بہت سے عناصر ہیں جوکہ اس عمل کو مکمل کرنے کیلیے ضروری ہیں۔ عوام روڈ اور راستوں پر کیوں آتے ہیں؟ جب نظراندازی، حق تلفی، ناانصافی، جبر حد سے بڑھتا ہے تب عوام احتجاج کرتے ہیں۔ جمہوری دور میں سب کو اظہار کی آزادی ہوتی ہے۔ لیکن گزشتہ دنوں میں کراچی میں بالخصوص جتنے بھی احتجاج ہوئے ہیں ان مظاہرین پر بدترین تشدد کیا گیا۔ یہی ہوتا آیا ہے۔ جب بھی الیکشن کا وقت آتا ہے مختلف طریقوں سے لوگوں سے وعدے کیے جاتے ہیں۔ عارضی نوکریاں دی جاتی ہیں پھر کچھ عرصے بعد وہ لوگ احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔
دیکھا جائے تو تعلیم کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا لیکن عملی طور پر یہ محکمہ نظرانداز کیاجارہا ہے۔ سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان ہوا۔ نئی نئی پابندیاں لاگو کی گئیں جن کا اطلاق صرف اساتذہ پر ہوا، لیکن حکومت بند اسکولوں کو کھلوانے میںکامیاب نہیں ہوئی اور نہ ہی نئے اسکول قائم کرنے کا عمل مکمل ہوسکا۔ تعلیمی نظام میں انتظامی معاملات بھی بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جن کے بغیر تعلیمی عمل جاری رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ اساتذہ کی بھرتی کی بھی واضح پالیسی یا قانون ہونا چاہیے تاکہ کوئی بھی کسی ابہام میں نہ رہے۔ اساتذہ کی قابلیت اہلیت کے ساتھ ساتھ نصاب اور طریقہ امتحان میں بھی ترامیم کی بہت گنجائش موجود ہے۔ اس جدوجہد میں جو اساتذہ شریک ہیں ان کے مطالبات میں خواتین کے ساتھ ہراسمنٹ کے حوالے سے بھی مطالبات موجود ہیں۔ مطالبات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔سندھ میں سب اساتذہ کو 25 سال سروس مکمل ہونے پر ٹائم اسکیل BPS-16 دیا جائے۔
2۔ NTS پاس اساتذہ کو کنفرم کیا جائے۔
3۔سندھ یونیورسٹی کا ٹیسٹ پاس کرنے والے اساتذہ کو ریگولر کیا جائے۔
4۔ اساتذہ کی اولاد کیلیے 25 فیصد کوٹہ مقرر کیا جائے۔
5۔ بایو میٹرک سسٹم کو 2016ء کی پہلی آف پوسٹنگ کے مطابق لاگو کرکے ضلع سطح پر لایا جائے اور اساتذہ کی اتفاقی چھٹی کا طریقہ آسان کیا جائے۔
6۔ STR پالیسی جو کرپشن کا باعث بن رہی ہے اور اساتذہ مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں اس میں پسے اساتذہ کو قریبی علاقوں میں پوسٹنگ دی جائے۔
7۔ سندھ کے شہری اساتذہ، ٹائم اسکیل کے آرڈر ڈائریکٹر آف اسکول پرائمری ایجوکیشن کے بجائے ہر ضلع کے تعلیمی آفیسر کی طرف منتقل کیے جائیں۔
8۔ مینجمنٹ کیڈر پالیسی کو آسان بنایا جائے۔
9۔ اساتذہ کی تقرری یونین کاؤنسل تعلقہ سے کراچی سے ہے۔ ان کے مسائل حل کیے جائیں۔
10۔ پرائمری اسکولز میں سینیارٹی کی بنیاد پر ہیڈ ماسٹر کی اہلیت رکھنے والے اساتذہ کی SNE منظور کی جائے۔
11۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے 24-08-2012 کے مطابق سندھ کے اساتذہ کو بھی پنجاب کے مطابق تقرری کی تاریخ سے رننگ اسکیل دیا جائے۔
12۔ ایلیمنٹری اسکولز میں I.B.A ٹیسٹ کے ذریعے 17 گریڈ کی انتظامی پوسٹ پر ناتجربہ کار ہیڈ ماسٹرز کی تقرری سے بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ وہاں تجربہ کار ہیڈ ماسٹر مقرر کیے جائیں۔
13۔ حیدرآباد کی فیصل ٹیچرز کو ہراساں کرنے والے آفیسر کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور ٹیچرز پر کیے گئے جھوٹے کیس ختم کیے جائیں۔
14۔ بینوویلنٹ فنڈ کے اختیارات ریونیو ضلع تعلیمی عہدیداران کو منتقل کیے جائیں۔
15۔ فنانشل اسسمنٹ فنڈ جوکہ ملازم کی بیوہ کو ملتا ہے وہ کراچی سے ضلع آفس منتقل کیا جائے۔
16۔ 2002 سے تعلیمی انکریمنٹ بحال کی جائیں۔
17۔ میڈیکل الاؤنس میں اضافہ یا میڈیکل کارڈ کا اجرا۔
18۔ ہارڈ الاؤنس میں اضافہ۔
19۔ سن کوٹہ پر عمل درآمد کیا جائے۔
20۔ سندھ کے اساتذہ کی گروپ انشورنس ریٹائرمنٹ کے فوری بعد ادا کیا جائے۔
ان مطالبات کا تعلق زیادہ تر انتظامی معاملات سے ہے۔ ان مطالبات پڑھ کر بھی بہت سے سوال ابھرتے ہیں۔ کہ اساتذہ سے توقعات تو بہت رکھی جاتی ہیں لیکن گورنمنٹ انھیں انتظامی سہولیات دینے سے قاصر ہے اور پھر لاٹھی چارج بھی ان پر ہوتا ہے۔ ان کی قابلیت اور اہلیت پر بھی انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔
دیکھیں کہ کب تک حکمران ان نہتے اساتذہ پر نظرکرم کرتے ہیں۔ غضب کی ٹھٹھرتی سردی میں احتجاج پر بیٹھے ہوئے اساتذہ کو سرخ سلام! کہ وہ تعلیمی عمل کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔ منتظر ہیں کہ جس عذاب اور ہتک آمیز تشدد سے گزرے ہیں اس کا ازالہ ہو۔