شام کا بحران یا عالمی مفادات کی جنگ
شام میں خانہ جنگی عرصہ دراز سے جاری ہے جسے ہر گروپ اپنی انا کی جنگ تصور کرتا ہے
WELLINGTON, NEW ZEALAND:
شام میں خانہ جنگی شروع ہوئے چھ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ لاکھوں لوگ جان کی بازی ہار چکے، انسانیت کی دھجیاں اڑائی گئیں، مگر شام کا داخلی بحران اب بھی ختم نہیں ہوا۔ شاید اسے ختم ہونے نہیں دیا جاتا۔ ہر دور میں، ہر زمانے میں طاقتور ریاستیں چھوٹی اور اپنے مفادات سے جڑی ریاستوں کی جان نہیں چھوڑتیں۔ ایسا ہی معاملہ یہاں بھی ہے۔ امریکا اور روس ہر گز شام سے اپنا اثر و رسوخ کم ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے اور اس کے پس پشت ان کے کئی مقاصد ہوں گے۔
شام مغربی ایشیا کا ایک اسلامی ملک ہے جسے انگلش میں ''سیریا'' (syria) کہتے ہیں۔ اس کے ہمسایہ ممالک میں ترکی، عراق، لبنان، اردن اور اسرائیل ہیں۔ 1967 میں اسرائیل نے شام کے کچھ علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا جو بعد میں اسرائیل سے منسلک ہوگئے۔ شام میں خانہ جنگی عرصہ دراز سے جاری ہے جسے ہر گروپ اپنی انا کی جنگ تصور کرتا ہے۔ ایک عرصہ قبل بشارالاسد کی طرف سے، جو شام کے مضبوط صدر ہیں، کچھ پر امن مظاہرین کو کچلنے کےلیے ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں شام پیچیدہ صورتحال کی طرف رواں ہوا۔ پرامن مظاہرین بپھر گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے خطرناک باغیوں نے جنم لے لیا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اور بشارالاسد کی انا اور غلط پالیسیوں کی بدولت انتہا پسند تنظیموں کو بھی متحرک ہونے کا موقع مل گیا اور انتہا پسند تنظیموں نے باغیوں کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف جنگ شروع کردی۔
ملکی حالات دن بدن بگڑنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے شام کے کُرد بھی متحرک ہوگئے۔ حزب اللہ نے شامی حکومت یعنی بشارالاسد کا ساتھ دیا۔ وقت آیا کہ عراق میں موجود داعش نے شام میں بھی پنجے گاڑنے شروع کردیئے۔ کچھ عرصہ بعد انتہا پسند تنظیم داعش نے شام کے علاقے النصر پر اپنا قلعہ جمالیا۔ ملک شام مکمل طور افراتفری کی لپیٹ میں لپٹا قتل و غارت کا منظر پیش کرنے لگا۔ باغیوں نے بھی قبضے جمائے، مگر داعش نے سب کو پس پشت ڈال کر اپنا تسلط جمانا شروع کردیا۔ ایسے میں ایران اور حزب اللہ بشارالاسد کے بڑے اتحادی رہے جبکہ اسرائیل، امریکا، اور ترکی باغیوں کو سپورٹ کرنے لگے۔ یہاں تک کہ امریکا نے باغیوں کو اسلحہ فراہم کیا۔ وہی اسلحہ پھر داعش کو بھی فراہم کیا گیا بلکہ امریکا کی طرف سے داعش کے دہشت گردوں کو باقاعدہ تربیت بھی دی گئی۔
مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق داعش کی مدد کےلیے سعودی عرب، کویت اور قطر کی طرف سے بھاری رقم براستہ ترکی داعش تک پہنچائی جاتی رہی۔ ایسے میں مسلمانوں کی فرقہ ورانہ نفرت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب سمیت دوسرے عرب ممالک یہ چاہتے ہیں کہ ایران سمیت ان کے قریبی اتحادیوں کی طاقت اور خودمختاری کبھی پنپنے کا نام نہ لے، جبکہ ایران اور اس کے ساتھی یہ چاہتے ہیں کہ عالم اسلام میں صرف ان کا بول بالا ہو۔ مسلمانوں کے مسلکوں کی لڑائی سے امریکا کو خوب فائدہ ہوا۔
اسی بدولت امریکا نے عربوں کی سرمایہ کاری سے مسلمانوں ہی کے کچھ علاقوں میں اپنے مفادات کی جنگ لڑی۔ داعش سمیت بہت سی انتہا پسند تنظیموں کو اسلحہ اور تربیت فراہم کی۔ مغربی ایشیائی ممالک کی بربادی اور افراتفری ہی سے اسرائیل کے مفادات بھی منسلک ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک ایشیائی بالخصوص مغربی ایشیائی ریاستوں کی موجودہ بحرانی صورتحال میں اسرائیل کا بڑا عمل دخل ہے اور امریکا کے علاوہ یورپی یونین بھی اسرائیل کو مکمل پنپنے کا محفوظ ماحول فراہم کررہی ہے تاکہ اسرائیل ''گریٹر اسرائیل'' کا منصوبہ مکمل کرسکے۔
دوسرا بڑا فائدہ جو اٹھایا جا رہا ہے، وہ یہ ہے کہ عراق، لیبیا اور شام جیسے مسلم ممالک خام تیل کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں۔ امریکا اس جنگی بحران کے پس پشت ان ممالک سے تیل نکال رہا ہے۔ تمام متنازعہ علاقوں میں امریکا اپنے تیل نکالنے کے مشن پر گامزن ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں سے داعش نے عراق اور شام کے کچھ علاقوں سے خام تیل نکال کر امریکا کو فروخت کرکے اپنے مالی وسائل نہ صرف پورے کیے بلکہ اپنے آئندہ منصوبوں کےلیے محفوظ بھی کرلیے۔
روس بھی ایک مفاد پرست ملک ہے، اور دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی عالمی حیثیت کو بحال کرنا چاہتا ہے۔ روس نے بھی شام کی بحرانی صورتحال میں دخل اندازی کی۔ روسی افواج اور حکومت نے بشارالاسد کو سپورٹ کیا اور اسلحہ دیا، مالی مدد کی۔ بشارالاسد کا پلڑا بھاری کرنے میں روس اور چین کے اسلحے کا بھی بڑا کردار ہے۔ گزشتہ دنوں روسی صدر کی نے شام میں خانہ جنگی ختم ہونے کا اعلان کیا اور کہا کہ شام مکمل طور پر آزاد ہے، داعش ختم ہوچکی ہے۔ امریکی کا مؤقف ذرا مختلف ہے اور امریکا ابھی شام میں مزید عمل دخل چاہتا ہے۔ شاید بدلتی صورتحال میں امریکا مسلم ممالک کو مزید غیر مستحکم کرنے کی پالیسیوں پر گامزن رہنا چاہتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق داعش کے لاکھوں کارندے بھاری اسلحے سمیت شام سے کہیں اور منتقل ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب ان کا اگلا پڑاؤ کہاں ہے؟ ان کے پاس مالی وسائل اور اسلحہ بھی موجود ہے۔ یہاں دو پہلو نکل سکتے ہیں: یا تو امریکا کچھ دیر بعد پھر انہیں واپس شام کی طرف دھکیل دے گا یا پھر کسی اور اسلامی ریاست کی طرف قافلے رواں ہوں گے۔ ایسے میں ایشیائی ممالک کو بالعموم اور مغربی ایشیائی ممالک کو بالخصوص محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ امریکا یروشلم کو اسرائیل کا قرار دینے کے بعد کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ کسی بھی مسلم ریاست کے حالات بہتر ہوں۔ بلکہ وہ مسلم ریاستوں کو مزید افراتفری کی فضا میں جھونکنا چاہتا ہے۔
ایسے میں پاکستان کو بھی چاہیے کہ اپنے اندرونی معاملات، جتنی جلد ہوسکے، احسن طریقے سے نمٹائے تاکہ کوئی بھی دشمن ہمارے داخلی معاملات کو الجھانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ جہاں تک شام و عراق کے جنگی بحران پر بات کی جائے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ سلسلہ کچھ وقت کےلیے دھیما ضرور ہوا ہے لیکن امریکا اسے پھر سلگائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
شام میں خانہ جنگی شروع ہوئے چھ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ لاکھوں لوگ جان کی بازی ہار چکے، انسانیت کی دھجیاں اڑائی گئیں، مگر شام کا داخلی بحران اب بھی ختم نہیں ہوا۔ شاید اسے ختم ہونے نہیں دیا جاتا۔ ہر دور میں، ہر زمانے میں طاقتور ریاستیں چھوٹی اور اپنے مفادات سے جڑی ریاستوں کی جان نہیں چھوڑتیں۔ ایسا ہی معاملہ یہاں بھی ہے۔ امریکا اور روس ہر گز شام سے اپنا اثر و رسوخ کم ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے اور اس کے پس پشت ان کے کئی مقاصد ہوں گے۔
شام مغربی ایشیا کا ایک اسلامی ملک ہے جسے انگلش میں ''سیریا'' (syria) کہتے ہیں۔ اس کے ہمسایہ ممالک میں ترکی، عراق، لبنان، اردن اور اسرائیل ہیں۔ 1967 میں اسرائیل نے شام کے کچھ علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا جو بعد میں اسرائیل سے منسلک ہوگئے۔ شام میں خانہ جنگی عرصہ دراز سے جاری ہے جسے ہر گروپ اپنی انا کی جنگ تصور کرتا ہے۔ ایک عرصہ قبل بشارالاسد کی طرف سے، جو شام کے مضبوط صدر ہیں، کچھ پر امن مظاہرین کو کچلنے کےلیے ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں شام پیچیدہ صورتحال کی طرف رواں ہوا۔ پرامن مظاہرین بپھر گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے خطرناک باغیوں نے جنم لے لیا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اور بشارالاسد کی انا اور غلط پالیسیوں کی بدولت انتہا پسند تنظیموں کو بھی متحرک ہونے کا موقع مل گیا اور انتہا پسند تنظیموں نے باغیوں کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف جنگ شروع کردی۔
ملکی حالات دن بدن بگڑنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے شام کے کُرد بھی متحرک ہوگئے۔ حزب اللہ نے شامی حکومت یعنی بشارالاسد کا ساتھ دیا۔ وقت آیا کہ عراق میں موجود داعش نے شام میں بھی پنجے گاڑنے شروع کردیئے۔ کچھ عرصہ بعد انتہا پسند تنظیم داعش نے شام کے علاقے النصر پر اپنا قلعہ جمالیا۔ ملک شام مکمل طور افراتفری کی لپیٹ میں لپٹا قتل و غارت کا منظر پیش کرنے لگا۔ باغیوں نے بھی قبضے جمائے، مگر داعش نے سب کو پس پشت ڈال کر اپنا تسلط جمانا شروع کردیا۔ ایسے میں ایران اور حزب اللہ بشارالاسد کے بڑے اتحادی رہے جبکہ اسرائیل، امریکا، اور ترکی باغیوں کو سپورٹ کرنے لگے۔ یہاں تک کہ امریکا نے باغیوں کو اسلحہ فراہم کیا۔ وہی اسلحہ پھر داعش کو بھی فراہم کیا گیا بلکہ امریکا کی طرف سے داعش کے دہشت گردوں کو باقاعدہ تربیت بھی دی گئی۔
مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق داعش کی مدد کےلیے سعودی عرب، کویت اور قطر کی طرف سے بھاری رقم براستہ ترکی داعش تک پہنچائی جاتی رہی۔ ایسے میں مسلمانوں کی فرقہ ورانہ نفرت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب سمیت دوسرے عرب ممالک یہ چاہتے ہیں کہ ایران سمیت ان کے قریبی اتحادیوں کی طاقت اور خودمختاری کبھی پنپنے کا نام نہ لے، جبکہ ایران اور اس کے ساتھی یہ چاہتے ہیں کہ عالم اسلام میں صرف ان کا بول بالا ہو۔ مسلمانوں کے مسلکوں کی لڑائی سے امریکا کو خوب فائدہ ہوا۔
اسی بدولت امریکا نے عربوں کی سرمایہ کاری سے مسلمانوں ہی کے کچھ علاقوں میں اپنے مفادات کی جنگ لڑی۔ داعش سمیت بہت سی انتہا پسند تنظیموں کو اسلحہ اور تربیت فراہم کی۔ مغربی ایشیائی ممالک کی بربادی اور افراتفری ہی سے اسرائیل کے مفادات بھی منسلک ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک ایشیائی بالخصوص مغربی ایشیائی ریاستوں کی موجودہ بحرانی صورتحال میں اسرائیل کا بڑا عمل دخل ہے اور امریکا کے علاوہ یورپی یونین بھی اسرائیل کو مکمل پنپنے کا محفوظ ماحول فراہم کررہی ہے تاکہ اسرائیل ''گریٹر اسرائیل'' کا منصوبہ مکمل کرسکے۔
دوسرا بڑا فائدہ جو اٹھایا جا رہا ہے، وہ یہ ہے کہ عراق، لیبیا اور شام جیسے مسلم ممالک خام تیل کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں۔ امریکا اس جنگی بحران کے پس پشت ان ممالک سے تیل نکال رہا ہے۔ تمام متنازعہ علاقوں میں امریکا اپنے تیل نکالنے کے مشن پر گامزن ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں سے داعش نے عراق اور شام کے کچھ علاقوں سے خام تیل نکال کر امریکا کو فروخت کرکے اپنے مالی وسائل نہ صرف پورے کیے بلکہ اپنے آئندہ منصوبوں کےلیے محفوظ بھی کرلیے۔
روس بھی ایک مفاد پرست ملک ہے، اور دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی عالمی حیثیت کو بحال کرنا چاہتا ہے۔ روس نے بھی شام کی بحرانی صورتحال میں دخل اندازی کی۔ روسی افواج اور حکومت نے بشارالاسد کو سپورٹ کیا اور اسلحہ دیا، مالی مدد کی۔ بشارالاسد کا پلڑا بھاری کرنے میں روس اور چین کے اسلحے کا بھی بڑا کردار ہے۔ گزشتہ دنوں روسی صدر کی نے شام میں خانہ جنگی ختم ہونے کا اعلان کیا اور کہا کہ شام مکمل طور پر آزاد ہے، داعش ختم ہوچکی ہے۔ امریکی کا مؤقف ذرا مختلف ہے اور امریکا ابھی شام میں مزید عمل دخل چاہتا ہے۔ شاید بدلتی صورتحال میں امریکا مسلم ممالک کو مزید غیر مستحکم کرنے کی پالیسیوں پر گامزن رہنا چاہتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق داعش کے لاکھوں کارندے بھاری اسلحے سمیت شام سے کہیں اور منتقل ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب ان کا اگلا پڑاؤ کہاں ہے؟ ان کے پاس مالی وسائل اور اسلحہ بھی موجود ہے۔ یہاں دو پہلو نکل سکتے ہیں: یا تو امریکا کچھ دیر بعد پھر انہیں واپس شام کی طرف دھکیل دے گا یا پھر کسی اور اسلامی ریاست کی طرف قافلے رواں ہوں گے۔ ایسے میں ایشیائی ممالک کو بالعموم اور مغربی ایشیائی ممالک کو بالخصوص محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ امریکا یروشلم کو اسرائیل کا قرار دینے کے بعد کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ کسی بھی مسلم ریاست کے حالات بہتر ہوں۔ بلکہ وہ مسلم ریاستوں کو مزید افراتفری کی فضا میں جھونکنا چاہتا ہے۔
ایسے میں پاکستان کو بھی چاہیے کہ اپنے اندرونی معاملات، جتنی جلد ہوسکے، احسن طریقے سے نمٹائے تاکہ کوئی بھی دشمن ہمارے داخلی معاملات کو الجھانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ جہاں تک شام و عراق کے جنگی بحران پر بات کی جائے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ سلسلہ کچھ وقت کےلیے دھیما ضرور ہوا ہے لیکن امریکا اسے پھر سلگائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔