نیا انتباہ یا طبلِ جنگ
توقع یہ تھی کہ بھارت کو صدر ٹرمپ کی پاکستان کو دھمکی نما انتباہ پر مسرت ہو گی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان میں رتی بھر سچ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے ملک نے پاکستان کو گزشتہ 15 سال میں بڑی بے وقوفی سے 33 بلین ڈالر کی رقم امداد میں دیدی، لیکن موصوف کا یہ کہنا غلط ہے کہ امریکا کو اتنی بھاری رقم کے عوض کچھ نہیں ملا۔ یہ بات تو ظاہر ہے کہ پاکستان ڈالروں میں تو ادائیگی نہیں کر سکتا اور نہ ہی امریکا کو اس کی توقع ہے لیکن پاکستان نے اپنے ملک میں امریکا کو فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت دی۔
صدر ٹرمپ نے خوامخواہ کی بدکلامی کی۔ جب انھوں نے کہا کہ ان کے ملک کو جواب میں دروغ گوئی اور دھوکا دہی کے سوا اور کچھ نہیں ملا، وہ ہمارے لیڈروں کو احمق تصور کرتے تھے۔ سرد جنگ کے دوران جب دنیا دو بلاکوں میں بٹی ہوئی تھی۔ پاکستان امریکا کا طرفدار تھا۔
راولپنڈی سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن (CENTO) کا حصہ تھا۔ ایک ایسا اتحاد جس میں ایران، عراق، پاکستان، ترکی اور یوکے شامل تھے۔ یہ 1955ء میں بنایا گیا تھا۔ سنٹو کا مقصد بھی وہی تھی جو نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (NATO) کا تھا جوکہ بہت کامیاب رہی تھی۔ اس کا بڑا مقصد سوویت یونین کی مشرق وسطیٰ تک توسیع کو روکنا تھا۔ اس معاہدے کے اراکین باہمی تعاون اور ایک دوسرے کے تحفظ کے پابند تھے مگر ان ممالک کو ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں مداخلت کا کوئی حق یا اختیار نہ تھا۔ اس گروپ کا اولین نام بغداد پیکٹ تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اس کا پہلا ہیڈکوارٹر بغداد میں تھا۔ لیکن عراق میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں عراق اس گروپ سے علیحدہ ہو گیا۔ عراق میں فوجی بغاوت 1958ء میں ہوئی۔ عراق کی علیحدگی کے بعد گروپ کا نام بھی سنٹو میں تبدیل کردیا گیا جس کا ہیڈکوارٹر انقرہ منتقل کر دیا گیا۔ اس زمانے میں ترکی زیادہ بنیاد پرست نہیں تھا۔
یہ تنظیم یوم کپور کی جنگ سے باہر رہی حالانکہ عراق اس حوالے سے بہت فعال تھا جوکہ دوسروں کو جنگ میں مدد بھی کرتا تھا۔ تاہم اس زمانے میں اس تنظیم سے الگ ہوگیا۔ سینٹو نے 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں بھی کوئی مداخلت نہ کی کیونکہ اس کا دعویٰ تھا کہ معاہدہ سوویت روس کے خلاف تھا نہ کہ بھارت کے خلاف لیکن 1974ء میں ترکی کے قبرص پر حملہ کے بعد یا ایرانی انقلاب کے بعد اس تنظیم کو ختم کر دیا گیا۔
جہاں تک پاکستان کے خلاف ٹرمپ کے ٹویٹ کا تعلق ہے تو پاکستان اسے کسی طرح بھی قبول نہیں کر سکتا چنانچہ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے فوری طور پر جوابی ٹویٹ دیا ''ہم انشاء اللہ جلد صدر ٹرمپ کے ٹویٹ کا جواب دیں گے تاکہ دنیا کو اصل حقائق کا علم ہوسکے اور دنیا کو سچ اور فسانے کا فرق بھی پتہ چل سکے۔''
جلد ہی پاکستان کی وزارت خارجہ نے بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ پاکستان اس قسم کے بے بنیاد الزامات کو سختی سے مسترد کرتا ہے جو حقائق کے منافی ہیں حالانکہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں۔ تاکہ خطے میں امن و امان کو فروغ حاصل ہو اور علاقے میں استحکام پیدا ہو۔ چین جو طویل عرصے سے انتظار میں بیٹھا تھا اس نے قدم بڑھایا اور پاکستان کے دفاع کے لیے آگے آگیا۔ اس نے دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی دلیرانا جنگ اور بھاری قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ ساری دنیا کو پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔
حالانکہ امریکی صدر پاکستان پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ دہشتگردوں کو پناہ دے رہا ہے۔ چین کا موقف ہے کہ دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی غیر معمولی قربانیوں کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان جینگ شوانگ نے بیجنگ میں ٹرمپ کے پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کے بارے میں کہا ہے کہ چین دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے بہادرانہ کردار سے بہت متاثر ہوا ہے جس نے خطے میں امن کے قیام میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ چینی ترجمان نے مزید کہا کہ چین اور پاکستان ہر موسم کے پارٹنر ہیں اور ہم اپنے تعلقات میں مزید اضافہ بھی چاہتے ہیں۔
چین کی طرف سے پاکستان کی حمایت میں یہ بیان متوقع تھا کیونکہ چین پاکستان میں پاک چین اقتصادی راہداری سی پیک کے لیے 50 بلین ڈالر سے زائد رقم صرف کر رہا ہے۔ تاہم بھارت نے اعتراض اٹھایا ہے کہ یہ راہداری پاکستان کے آزاد کشمیر کے علاقے سے گزرتی ہے جسے بھارت مقبوضہ کشمیر کہتا ہے۔ گزشتہ مہینے چین، پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کی ملاقات بیجنگ میں ہوئی جس میں بیجنگ نے اعلان کیا کہ افغانستان کو بھی اس اقتصادی راہداری کے منصوبے میں شامل کرنا چاہتا ہے جس کے بھارت کے ساتھ بھی بہت قریبی تعلقات ہیں۔
دوسری طرف سابق افغان صدر حامد کرزئی نے امریکی صدر ٹرمپ کے پاکستان کے خلاف الزام تراشی کا خیر مقدم کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ امریکا کے ساتھ ایک مشترکہ اتحاد قائم کیا جانا چاہیے تاکہ پاکستان کو سزا دی جاسکے جو طالبان اور عسکریت پسندوں کو پناہ دیتا ہے۔ جن کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ چین دونوں ملکوں کے مابین مصالحت کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ امریکا پاکستان پر دباؤ بڑھا رہا ہے کیونکہ اس نے چین کے ساتھ اتحاد قائم کر لیا ہے۔ چین نے بھاری سرمایہ کاری کی ہے جس سے چین کی رسائی بحیرہ عرب اور بحر ہند تک وسیع ہوگیا ہے۔
چین جانتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان نہ صرف جغرافیائی طور پر باہم پیوست ہیں بلکہ ان میں گہرے تاریخی اور ثقافتی رشتے بھی موجود ہیں یہ الگ بات ہے کہ تعلقات میں احیاناً تلخیاں اور غلط فہمیاں بھی آتی رہی ہیں تاہم اب تینوں ملک پاکستان افغانستان اور چین باہمی تعاون و اشتراک کے ساتھ دہشتگردی کے عفریت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور سہ طرفہ پیشرفت مدمقابل کے لیے مدافعتی اعتبار سے حد سے زیادہ کٹھن ہوتی ہے۔
توقع یہ تھی کہ بھارت کو صدر ٹرمپ کی پاکستان کو دھمکی نما انتباہ پر مسرت ہو گی لیکن ٹرمپ انتظامیہ کے دہشتگردوں اور دہشتگردی کے خلاف بیان کا اطلاق کسی ایک ملک پر نہیں ہوتا بلکہ اس حلقے میں سب ہی آتے ہیں یعنی خود بھارت بھی۔ بھاری وزیراعظم آفس کے وزیر مملکت جیتندر سنگھ نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے حوالے سے کسی ایک قوم یا کسی ایک ملک کو مستثنیٰ نہیں کیا گیا۔
بظاہر ایسا لگ رہا ہے گویا صدر ٹرمپ ایک بالکل نئی امریکی پالیسی کی نمود کے خواہاں ہیں۔ صدر کلنٹن کی پالیسی کے ساتھ اس کا موازنہ کیا جائے تو یہ انتہائی دائیں بازو کی پالیسی لگتی ہے جب کہ کلنٹن کی پالیسی قدرے زیادہ متوازن تھی۔ پرانی اقدار کا اب کوئی خیال نہیں رکھا جا رہا اور ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کو واپس قدامت پسندی کی طرف لے جا رہے ہیں۔
بھارت ممکن ہے کہ ٹرمپ کی پالیسی کے ساتھ اتفاق نہ کرے کیونکہ اس کی پالیسی کا رجحان بائیں بازو کی طرف ہے جو کہ ٹرمپ کی پالیسی کے یکسر متضاد ہے۔ بہرحال دیکھنے کی اصل چیز یہ ہے کہ کیا پاکستان امریکی امداد کے بغیر اپنی معیشت اور اقتصادیات جاری رکھ سکتا ہے یا نہیں۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ تمام رقم کے اعدادوشمار جمع کیے جا رہے ہیں جو ملی اور جو صرف ہوئی ایک اشارہ اس طرف بھی ہے کہ شاید وہ رقم واپس کی جا سکے مگر یہ سب جانتے ہیں کہ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں!
(ترجمہ: مظہر منہاس)
صدر ٹرمپ نے خوامخواہ کی بدکلامی کی۔ جب انھوں نے کہا کہ ان کے ملک کو جواب میں دروغ گوئی اور دھوکا دہی کے سوا اور کچھ نہیں ملا، وہ ہمارے لیڈروں کو احمق تصور کرتے تھے۔ سرد جنگ کے دوران جب دنیا دو بلاکوں میں بٹی ہوئی تھی۔ پاکستان امریکا کا طرفدار تھا۔
راولپنڈی سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن (CENTO) کا حصہ تھا۔ ایک ایسا اتحاد جس میں ایران، عراق، پاکستان، ترکی اور یوکے شامل تھے۔ یہ 1955ء میں بنایا گیا تھا۔ سنٹو کا مقصد بھی وہی تھی جو نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (NATO) کا تھا جوکہ بہت کامیاب رہی تھی۔ اس کا بڑا مقصد سوویت یونین کی مشرق وسطیٰ تک توسیع کو روکنا تھا۔ اس معاہدے کے اراکین باہمی تعاون اور ایک دوسرے کے تحفظ کے پابند تھے مگر ان ممالک کو ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں مداخلت کا کوئی حق یا اختیار نہ تھا۔ اس گروپ کا اولین نام بغداد پیکٹ تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اس کا پہلا ہیڈکوارٹر بغداد میں تھا۔ لیکن عراق میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں عراق اس گروپ سے علیحدہ ہو گیا۔ عراق میں فوجی بغاوت 1958ء میں ہوئی۔ عراق کی علیحدگی کے بعد گروپ کا نام بھی سنٹو میں تبدیل کردیا گیا جس کا ہیڈکوارٹر انقرہ منتقل کر دیا گیا۔ اس زمانے میں ترکی زیادہ بنیاد پرست نہیں تھا۔
یہ تنظیم یوم کپور کی جنگ سے باہر رہی حالانکہ عراق اس حوالے سے بہت فعال تھا جوکہ دوسروں کو جنگ میں مدد بھی کرتا تھا۔ تاہم اس زمانے میں اس تنظیم سے الگ ہوگیا۔ سینٹو نے 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں بھی کوئی مداخلت نہ کی کیونکہ اس کا دعویٰ تھا کہ معاہدہ سوویت روس کے خلاف تھا نہ کہ بھارت کے خلاف لیکن 1974ء میں ترکی کے قبرص پر حملہ کے بعد یا ایرانی انقلاب کے بعد اس تنظیم کو ختم کر دیا گیا۔
جہاں تک پاکستان کے خلاف ٹرمپ کے ٹویٹ کا تعلق ہے تو پاکستان اسے کسی طرح بھی قبول نہیں کر سکتا چنانچہ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے فوری طور پر جوابی ٹویٹ دیا ''ہم انشاء اللہ جلد صدر ٹرمپ کے ٹویٹ کا جواب دیں گے تاکہ دنیا کو اصل حقائق کا علم ہوسکے اور دنیا کو سچ اور فسانے کا فرق بھی پتہ چل سکے۔''
جلد ہی پاکستان کی وزارت خارجہ نے بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ پاکستان اس قسم کے بے بنیاد الزامات کو سختی سے مسترد کرتا ہے جو حقائق کے منافی ہیں حالانکہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں۔ تاکہ خطے میں امن و امان کو فروغ حاصل ہو اور علاقے میں استحکام پیدا ہو۔ چین جو طویل عرصے سے انتظار میں بیٹھا تھا اس نے قدم بڑھایا اور پاکستان کے دفاع کے لیے آگے آگیا۔ اس نے دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی دلیرانا جنگ اور بھاری قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ ساری دنیا کو پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔
حالانکہ امریکی صدر پاکستان پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ دہشتگردوں کو پناہ دے رہا ہے۔ چین کا موقف ہے کہ دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی غیر معمولی قربانیوں کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان جینگ شوانگ نے بیجنگ میں ٹرمپ کے پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کے بارے میں کہا ہے کہ چین دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے بہادرانہ کردار سے بہت متاثر ہوا ہے جس نے خطے میں امن کے قیام میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ چینی ترجمان نے مزید کہا کہ چین اور پاکستان ہر موسم کے پارٹنر ہیں اور ہم اپنے تعلقات میں مزید اضافہ بھی چاہتے ہیں۔
چین کی طرف سے پاکستان کی حمایت میں یہ بیان متوقع تھا کیونکہ چین پاکستان میں پاک چین اقتصادی راہداری سی پیک کے لیے 50 بلین ڈالر سے زائد رقم صرف کر رہا ہے۔ تاہم بھارت نے اعتراض اٹھایا ہے کہ یہ راہداری پاکستان کے آزاد کشمیر کے علاقے سے گزرتی ہے جسے بھارت مقبوضہ کشمیر کہتا ہے۔ گزشتہ مہینے چین، پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کی ملاقات بیجنگ میں ہوئی جس میں بیجنگ نے اعلان کیا کہ افغانستان کو بھی اس اقتصادی راہداری کے منصوبے میں شامل کرنا چاہتا ہے جس کے بھارت کے ساتھ بھی بہت قریبی تعلقات ہیں۔
دوسری طرف سابق افغان صدر حامد کرزئی نے امریکی صدر ٹرمپ کے پاکستان کے خلاف الزام تراشی کا خیر مقدم کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ امریکا کے ساتھ ایک مشترکہ اتحاد قائم کیا جانا چاہیے تاکہ پاکستان کو سزا دی جاسکے جو طالبان اور عسکریت پسندوں کو پناہ دیتا ہے۔ جن کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ چین دونوں ملکوں کے مابین مصالحت کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ امریکا پاکستان پر دباؤ بڑھا رہا ہے کیونکہ اس نے چین کے ساتھ اتحاد قائم کر لیا ہے۔ چین نے بھاری سرمایہ کاری کی ہے جس سے چین کی رسائی بحیرہ عرب اور بحر ہند تک وسیع ہوگیا ہے۔
چین جانتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان نہ صرف جغرافیائی طور پر باہم پیوست ہیں بلکہ ان میں گہرے تاریخی اور ثقافتی رشتے بھی موجود ہیں یہ الگ بات ہے کہ تعلقات میں احیاناً تلخیاں اور غلط فہمیاں بھی آتی رہی ہیں تاہم اب تینوں ملک پاکستان افغانستان اور چین باہمی تعاون و اشتراک کے ساتھ دہشتگردی کے عفریت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور سہ طرفہ پیشرفت مدمقابل کے لیے مدافعتی اعتبار سے حد سے زیادہ کٹھن ہوتی ہے۔
توقع یہ تھی کہ بھارت کو صدر ٹرمپ کی پاکستان کو دھمکی نما انتباہ پر مسرت ہو گی لیکن ٹرمپ انتظامیہ کے دہشتگردوں اور دہشتگردی کے خلاف بیان کا اطلاق کسی ایک ملک پر نہیں ہوتا بلکہ اس حلقے میں سب ہی آتے ہیں یعنی خود بھارت بھی۔ بھاری وزیراعظم آفس کے وزیر مملکت جیتندر سنگھ نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے حوالے سے کسی ایک قوم یا کسی ایک ملک کو مستثنیٰ نہیں کیا گیا۔
بظاہر ایسا لگ رہا ہے گویا صدر ٹرمپ ایک بالکل نئی امریکی پالیسی کی نمود کے خواہاں ہیں۔ صدر کلنٹن کی پالیسی کے ساتھ اس کا موازنہ کیا جائے تو یہ انتہائی دائیں بازو کی پالیسی لگتی ہے جب کہ کلنٹن کی پالیسی قدرے زیادہ متوازن تھی۔ پرانی اقدار کا اب کوئی خیال نہیں رکھا جا رہا اور ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کو واپس قدامت پسندی کی طرف لے جا رہے ہیں۔
بھارت ممکن ہے کہ ٹرمپ کی پالیسی کے ساتھ اتفاق نہ کرے کیونکہ اس کی پالیسی کا رجحان بائیں بازو کی طرف ہے جو کہ ٹرمپ کی پالیسی کے یکسر متضاد ہے۔ بہرحال دیکھنے کی اصل چیز یہ ہے کہ کیا پاکستان امریکی امداد کے بغیر اپنی معیشت اور اقتصادیات جاری رکھ سکتا ہے یا نہیں۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ تمام رقم کے اعدادوشمار جمع کیے جا رہے ہیں جو ملی اور جو صرف ہوئی ایک اشارہ اس طرف بھی ہے کہ شاید وہ رقم واپس کی جا سکے مگر یہ سب جانتے ہیں کہ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں!
(ترجمہ: مظہر منہاس)